زندہ لاش

ضیاءالرحمان فلاحیؔ

‘‘ وہ لوگ میرے بھائی کو جلا رہے ہیں’’ فون کال پر کسی نے تقریباً چیختے ہوئے اطلاع دی۔
‘‘ کون لوگ؟’’
‘‘ کچھ سادھو لوگ’’
‘‘ پتہ نوٹ کرائیے ، میں فوراً پہونچتا ہوں’’ نیم خوابی کے عالم میں میں نے سہمے ہوئے انداز میں یقین دہانی کی۔
‘‘ پتہ لکھوانے کا وقت نہیں ہے، پشوپتی ناتھ مندر پہونچ کر اسی نمبر پر فون کیجئے گا گیٹ پرآپ کو ملوں گا’’ ادھر سے جواب ملا۔
میں نے اپنا شناختی کارڈ اور کوٹ اٹھایا ،خیمے سے باہر نکلا اور بے تحاشا سڑک کی جانب ننگے پاؤں ہی دوڑ لگادی۔ منھ مانگی اور کم از کم چار گنی قیمت پر ایک ٹیکسی کرائے پر لی، تھوڑی ہی دیر میں کار فراٹے بھرنے لگی۔
فون پر تینتالیس سالہ انتخاب بھائی تھے، دو سال پہلے بھارت کے صوبےبہارسے روزی روٹی کی غرض سے کاٹھمانڈو آئے تھے ، جب کاروبار ٹھیک ٹھاک چلنے لگا تو اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں شاداب اور نایاب کو بھی کاٹھمانڈو بلا لیا۔ صرف مردوں پر مشتمل یہ چھوٹی سی فیملی کاٹھمانڈو کے بھارتی اکثریتی علاقےتھامیل میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتی تھی، تینوں بھائی دن بھر سائیکلوں پر پھل بیچتے اور رات میں کھا نا بنا کر اور کھا کر سو رہے ہوتے۔
۲۵ اپریل کو دونوں بھائی ناشتہ کرکے اپنی سائیکلوں پر پھل بیچنے نکلے، چھوٹا بھائی نایاب باورچی خانے میں تھا اور دونوں بڑے بھائی ایئر پورٹ کے علاقے میں ، بارہ بجے سے ذرا پہلےزلزلہ آیا ، چھوٹا بھائی نایاب کچھ سمجھ پاتا اس سے پہلے ہی ایک ہوٹل کی چار منزلہ عمارت اسی کمرےپہ جا گری۔ زلزے کی وجہ سے ذرائع آمدورفت فوراً ہی ٹھپ پڑ گئے، دونوں بھائیوں کو دس کلومیٹر کا فاصلہ پیدل ہی طے کر کے نایاب کی خبر گیری کرنی تھی، ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہی نایاب کو بیر ہاسپٹل پہنچایا جاچکا تھاجہاں ابتدائی جانچ کے بعدڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا تھا۔
ادھر دونوں اپنے چھوٹے بھائی اور ماں کے لاڈلے نایاب کو پاگلوں کی طرح یہاں وہاں تلاش کر رہے تھے،اجنبی ہونے اور مقامی زبانوں سے نا بلد ہونے کی وجہ سے مارے مارے پھرتے رہے، کہاں تلاش کریں ؟ کس سے پوچھیں ؟ کچھ سمجھ نہیں آیا، آخر تھک ہار کر بیٹھ رہے۔
۲۶ اپریل کی شام تک کوئی وارث نہ آیا تو ہاسپٹل نے سینکڑوں لاشوں کے ساتھ نایاب کی لاش بھی مردہ خانے کو بھیجوادی تاکہ سڑنے کی وجہ سے چہرہ مسخ نہ ہوجائے اور جب بھی وارثین دیکھیں پہچان جائیں، ادھر دونوں بھائیوں کی ملاقات ہلال احمر کے ایک رضاکارسے ہوئی جس نے انھیں بتایا کہ لاوارث لاشوں کی تصاویر کچھ بھارتی رضاکاروں کے پاس ہےلہذا انھیں تلاش کرو، ہزاروں رضاکاروں میں سے انھوں نے ہمیں ڈھونڈنکالا اورلسٹ دیکھی ،بالآخر نایاب کی تصویر مل گئی، اس میں درج تفصیلات کے مطابق لاش بیر ہاسپٹل میں تھی، ہم وہاں پہنچے،لاش کا مطالبہ کیا،لاش غائب تھی اور جس شخص نے لاش مردہ گھر کے حوالے کیا تھا وہ ایک ٹیم کے ساتھ گورکھا جاچکا تھا اور اس سے رابطہ نہیں ہوپارہا تھا۔ ہم وہ پوری رات ٹنڈی کھیل گراؤنڈ میں بیٹھے رہے اوربرابر اس شخص سے رابطے کی کوشش کرتے رہے، فجر سے ذرا پہلے اس سے رابطہ ہوگیا، تفصیلات لیکر ہم مردہ خانہ پہنچے، وہاں پر بہت وقت لگتا دیکھ میں خیمے واپس آگیا، تھکن،سردرد اور نیند کے غلبے سے برا حال تھا، لیٹتے ہی میں نیند کی آغوش میں جا پہنچا، تبھی انتخاب بھائی کا فون آیا تھا۔

میں کچھ ہی منٹوں میں پشوپتی ناتھ مندر پہنچ چکا تھا، گیٹ پر انتخاب بھائی ملے
‘‘ کچھ بھی کرو مگر میرے بھائی کو اس طرح ہندؤں کی طرح اس دنیا سے رخصت نہ ہونے دو’’ انھوں نے التجا کی
میں تیزی سے ڈھلان کی طرف بھاگا، باگمتی ندی کے کنارے اسٹینڈ پر اجتماعی طور پر لاشوں کو جلانے کا عمل جاری تھا، قمیضوں سے آزادکچھ سادھو لاشوں کے اوپر صندل کی لکڑیاں بچھا کران پر گھی کا چھڑکاؤ کر رہے تھے۔
میں کچھ ہی دوری پر تھا کہ ہاتھوں میں مشعل پکڑے ایک پنڈت اسٹینڈ کی طرف بڑھا،
‘‘ پکھا پکھا یس میں ایوٹا مسلم پنی چھا’’ (ٹھہرو اس میں ایک مسلمان بھی ہے) میں چلایا مگر میری آواز ‘‘ رام نام ستیہ’’ کی فلک تاز نعروں میں دب کر رہ گئی،مندر سے نقارے کی آواز بتدریج بلند ہوتی گئی، مشعل لئے ہاتھوں نے آگ لگانے کا عمل شروع کردیا،میرے پہنچنے سے پہلے پورا اسٹینڈ آگ کی زد میں تھا۔
میں بالکل قریب پہنچ گیا ، بھڑکتے ہوئے شعلے تین میٹر تک بلند ہورہے تھے، انتخاب بھائی نے ہاتھ لپکا کر چاہا کہ لاش باہر کھینچ لیں ، ایک پولیس والے نے ان کو پیچھے سے کھینچااور دونوں لڑھکتے ہوئے ندی میں جا پہونچے، انتخاب بھائی دیر تک پانی میں ہی بیٹھے رہے، بےتحاشہ روتے رہے۔
آدھے گھنٹے میں لاش جل کر راکھ ہوچکی تھی ، میں کفن جیسا ایک سفید کپڑا لے آیا ، اس سے پہلے کہ راکھ کو‘باگمتی ماتا کے حوالے’ کردیا جاتا ہم نے راکھ کو کپڑے میں سمیٹ لیا ، ہاتھ سے پھسلتی ہوئی راکھ ایک المناک داستان کی گواہ بنی،پھر سپردخاک ہوئی۔
یہ سب جیسے ابھی کل کا معاملہ ہو،
ڈیڑھ سال بعد بھی پورا واقعہ ذہن میں بالکل تازہ ہے،
مندر کی گھنٹیاں آج بھی سنائی دیتی ہیں،
جلادوں کے سے سرخ آنکھوں والے پنڈت ہاتھوں میں مشعل لئے میری جانب بڑھتے ہیں،
بھڑکتے پوئے شعلے میرے وجود کو جھلساتے ہیں،
نایاب کے گھر والوں کے سوال مجھے گھیرتے ہیں، بہت دنوں تک ان سب سے ہوئی گفتگو کے بعد کی خاموشی کا شور مجھ میں غل مچاتا ہے۔

‘‘ بھائی ! ہم سب بھائیوں نے عہد کیا ہے کہ داڑھیاں رکھیں گے تاکہ ہر جگہ پہچانے جائیں’’
‘‘ اب ہم نے پنج وقتہ نمازیں شروع کی ہیں اور اپنے بھائی کی بخشش کے لئے دعاگو رہتے ہیں’’

‘‘ کیا غیروں کےجیسے انجام کے بعد بھی میرا بیٹا جنت میں جائے گا؟’’ زندہ لاش بن چکی ماں کا ایک سوال اب بھی دل کو چھلنی کرتا ہے ، کاش میں انھیں مطمئن کرپاتا۔

تبصرے بند ہیں۔