سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر 

محمد ابراہیم سجاد تیمی

عالمی میڈیا کمپنی فوربس ہر سال زندگی کے مختلف میدانوں میں اعلیٰ ترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کی فہرست تیار کرتی ہے۔ اس کی ریسرچ کا ایک میدان یہ بھی ہے کہ وہ ہر سال دنیا بھر کے مصنفین و مولفین کی کتابوں سے آمدنی کا جائزہ اور لیکھا جوکھا لیتی اور یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ رواں سال میں کس مصنف کی کتاب بیسٹ سیلر رہی اور کتابوں سے ہونے والی آمدنی کے حساب سے کون سب سے زیادہ امیر مصنف ہے۔ کئی سال سے مسلسل امیر ترین مصنفین کی فہرست میں ہیری پاٹر سیریز کی مصنفہ جے کے رولنگ کو آمدنی کے اعتبار سے سب سے اوپر جگہ ملتی رہی تھی۔ دس سال پہلے جے کے رولنگ کو ایسی فہرست میں پہلا مقام حاصل ہوا تھا۔ سال 2018 کی 23 مئی تک رولنگ نے اپنی کتابوں سے 95 کروڑ ڈالر یعنی 180 ڈالر فی منٹ کمائی کی۔ اس سب کا سہرا ان کی کتاب "ہیری پاٹر اینڈ دی کرسڈ چائلڈ” کی مختلف قسم کی اشاعتوں کو اور اس پر بننے والی فلموں کے سر جاتا ہے۔ جب یہ کتاب پہلی بار زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئی تھی تو صرف تین دنوں کے اندر اس کے ایک لاکھ اسی ہزار نسخے فروخت ہو گئے تھے اور وہ ہیری پاٹر ناول سیریز کی آخری کتاب کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بن گئی تھی۔ وہ گزشتہ تین سال سے مسلسل اس فہرست میں اولین مقام حاصل کر رہے امریکی ناول نگار جیمس پیٹرسن کو پٹخنی دے کر اور ان سے 80 لاکھ ڈالر زیادہ کما کر اس اولین مقام پر براجمان ہوئی تھی۔ اب اس فہرست میں بہت جلد ایک خاتون ادیب اینابیل اسٹیڈ مین کا نام بھی جڑنے والا ہے جس کے ناول کے جملہ حقوق ایک ملین پونڈ میں خرید لیے گئے ہیں اور سونی پکچرس نے ان کے ناول پر فلم بنانے کا معاہدہ ان سے کر لیا ہے۔ اس سے ان کو جو رائلٹی ملنے والی ہے، وہ ظاہر ہے کہ ایک ملین پونڈ کے علاوہ ہوگی۔ کتابوں کی دنیا کے ماہرین اور ان کی فروخت پر نگاہ رکھنے والے ادارے اندازہ لگا رہے اور پیش گوئی کر رہے ہیں کہ یونیکورن کی خیالی دنیا پر مبنی ان کا ناول جے کے رولنگ کے ہیری پاٹر سیریز کو بھی مات دے سکتا ہے۔ 2019 کی فہرست میں بھی رولنگ کا پہلا نمبر برقرار رہا، جیمس پیٹرسن نے اپنا دوسرا مقام نہیں کھویا لیکن تیسرے نمبر پر سابق امریکی خاتون اول میشیل اوباما آ گئی اور جیف کنے پھسل کر چوتھے نمبر پر آ گئے اور اسٹیفن کنگ اپنی پانچویں پوزیشن پر بدستور برقرار رہے۔ لیکن2020 میں وہ اپنی پہلی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکی اور دوسرے نمبر پر آ گئی۔ اس تفصیل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کتابوں سے لگاو اور شوقِ مطالعہ میں عیسائی دنیا آج کے دور میں بھی سب سے آگے ہے۔

ایک زمانہ تھا جب حصولِ علم و فن کا شوقِ بے پایاں اور مطالعہِ کتب کا ذوق فراواں مسلمانوں کی میراث ہوا کرتا تھا مگر اب صورت حال یہ ہے کہ اس باب میں مسلم قوم دنیا کی تمام قوموں سے پیچھے چل رہی ہے۔ دنیا کے وہ 28 ممالک جہاں کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں، ان کی فہرست میں ایک بھی مسلم ملک شامل نہیں ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان کا اس میدان میں یہ حال ہے کہ 72 فی صد لوگ کتابوں سے دوری و بے اعتنائی کا اور صرف 27 فی صد افراد مطالعہِ کتب کے شوقین ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ کتابوں سے دوری کا یہ اس امت کا منظرنامہ ہے جسے امتِ اقرا ہونے کا شرف حاصل ہے اور جس کے حکمرانوں کے ذوقِ علم و ادب کی فراوانی اور علم نوازی کی دنیا بھر میں مثال دی جاتی تھی۔ امیرِ اندلس کو جب معلوم ہوا کہ ابو الفرج اصبہانی عربی کی مشہورِ زمانہ ادبی کتاب "الاغانی” لکھ رہے ہیں تو اس نے اندلس سے ایک نسخے کی قیمت کے طور پر ایک ہزار دینار بھیج دیے اور لکھ بھیجا کہ جوں ہی کتاب مکمل ہو، مجھے بھیج دی جائے۔ بادشاہ ہارون الرشید کی علم و ادب کی نشر و اشاعت کے شوقِ بے کراں کا یہ حال تھا کہ وہ ابن اسحاق الکاتب کو ہر اس کتاب کا سونے سے تول کر معاوضہ دیا کرتے تھے جسے ابن اسحاق دوسری زبانوں سے عربی زبان میں منتقل کیا کرتے تھے۔ مامون الرشید اور روم کے بادشاہ کے درمیان اس بات پر بھی صلح ہوئی تھی کہ وہ اپنے ہاں کی تمام کتابوں کے ترجمے کی اجازت دے گا اور ترجمہ وہ علما و ماہرینِ فن کریں گے جن کو مامون کی طرف سے بھیجا جائے گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ امام اسحاق بن راہویہ نے سلیمان بن عبد اللہ کی بیٹی سے اس لیے شادی کر لی تھی کہ اس سے انہیں امام شافعی کی جملہ تصانیف پر مشتمل لائبریری مل گئی تھی۔ یہ صرف چند نمونے ہیں، ورنہ ہماری تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے اسلاف کا کتابوں کے بارے میں یہ خیال تھا :

سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر 

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر 

اور ہمارے ذہن و دماغ میں اس خیال نے گھر کر لیا ہے کہ :

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے 

سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

بہت افسوس کی بات ہے کہ آج ہم نے اپنے بہترین رفیق سے بہت زیادہ دوری اختیار کر لی ہے۔ مانا کہ موجودہ وقت میں الکٹرانک لائبریری کا چلن عام ہو رہا ہے اور اس نے کتابوں تک رسائی کو بہت آسان اور تیز تر کر دیا ہے، مگر اس کا ایک نہایت نقصان دہ پہلو یہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ نوجوان نسل کتابوں کا مطالعہ نہیں کر رہی ہے بلکہ گوگل پر اپنے موضوع سے متعلق چند الفاظ ٹائپ کرکے متعلقہ مواد حاصل کر لیتی ہے جس سے بظاہر وقت کی بچت تو ہوتی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ یہ رجحان نئی نسل کو مطالعہ و کتب بینی سے دور کر رہا ہے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ الکٹرانک لائبریری قدیم لائبریری کی متبادل قطعاً نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی قارئین کی بڑی تعداد آج بھی چھپی ہوئی کتابوں کو الکٹرانک کتابوں پر ترجیح دیتی ہے۔ پیو (PEW) ریسرچ کمپنی امریکہ میں کتاب پڑھنے کی عادت کے بارے میں 2011 سے ہی جائزے لیتی رہی ہے۔ 2018 میں اس نے امریکی باشندوں سے پوچھا کہ گزشتہ ایک سال میں کیا پڑھا اور کیسے پڑھا؟ معلوم ہوا کہ 74 فی صد امریکیوں نے کوئی نہ کوئی کتاب پڑھی تھی۔

اسی جائزہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شائع شدہ کتابیں اب بھی زیادہ مقبول اور ہر دلعزیز ہیں اور 67 فی صد امریکیوں نے کم از کم ایک چھپی ہوئی کتاب پڑھی تھی۔ اس کے مقابلے میں ای کتابیں اور آڈیو کتابیں پڑھنے سننے والے بالترتیب 26 اور 28 فی صد تھے۔ دوسری طرف، مشرقی قارئین سوشل میڈیا کے کھلونوں سے دل بہلانے کو کتب بینی پر ترجیح دے رہے ہیں اور اپنے ذوقِ مطالعہ کو تیزی سے زنگ آلود کرتے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ و طلبہ بھی اپنے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کا سامان زیادہ تر گوگل اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمس جیسے فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر، انسٹاگرام وغیرہ پر تلاش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان پلیٹ فارمس پر بے جا بحث و مباحثہ میں اپنا قیمتی وقت ضائع و برباد کرتے ہیں۔ جتنا وقت وہ ان بیکار مشاغل میں صرف کرتے ہیں، اگر اسی کو کتب بینی میں صرف کریں تو یقیناً اس کا اچھا نتیجہ دیر سویر ظاہر ہو کر رہے گا۔

بہر کیف! اگر ہندستان کے مجموعی ذوق مطالعہ اور کتب بینی کی عادت کا جائزہ لیا جائے تو جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، وہ حوصلہ افزا بالکل نہیں ہے۔ ہندستان میں 13 سے 35 سال کے جوانوں کی آبادی تقریباً 47 کروڑ ہے جس میں سے 34 کروڑ تعلیم یافتہ ہے۔ ان نوجوانوں کے روز مرے کو غور سے دیکھیں تو پائیں گے کہ بے روزگاری کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان وقت گزاری کرتے ہوئے ملیں گے۔ ایک بڑا طبقہ موبائل پر گفتگو کرتا ہوا ملے گا۔ مطلب یہ کہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں کے مقابلے میں ہمارے ملک کے نوجوان پڑھنے کی عادت میں بہت پسماندہ ہیں۔ کتابوں سے ان کو دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ آخر مطالعے کی عادت کیوں کمزور پڑتی جا رہی ہے؟ اس کا پتہ لگانے کے لیے نیشنل بک ٹرسٹ نے نیشنل یوتھ ریڈر شپ نامی جائزہ لینے کا کام سال 2009 میں NCAER کو سونپا تھا۔ یہ جائزہ ملک کے 207 ضلعوں کے 423 گاووں اور 199 شہروں کے 753 نگر نگموں میں لیا گیا تھا۔ جائزہ میں پایا گیا کہ ہندستان کے صرف 25 فی صد نوجوان کتاب پڑھنے کے شوقین ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ عوامی لائبریریوں کی حد درجہ قلت و کاہش ہے۔ جو لائبریریاں بنی تھیں، وہ خستہ حال ہیں، ان میں موجود کتابیں پڑھنے کے لائق نہیں رہ گئی ہیں۔ 2006 میں قومی تعلیمی کمیٹی (سَیم پترودا کمیشن) کی سفارشات پر قومی لائبریری مشن کا قیام 2012 میں ہوا لیکن اس کے پاس کافی سرمایہ نہیں ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر تقریباً 5352 لائبریریاں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 919 مہاراشٹر میں، 833 مغربی بنگال میں، 527 گجرات میں، 523 کیرل میں اور اترپردیش میں صرف 46 عوامی لائبریریاں ہیں۔ راجہ رام موہن رائے لائبریری فاونڈیشن، عوامی لائبریریوں کو میچنگ گرانٹ دیتی ہے۔ اس نے 2016 میں 22772 لائبریریوں کو 53 کروڑ روپے کا تعاون دیا تھا جو ظاہر ہے، بے حد ناکافی رقم ہے۔

ایسے میں جب کوئی ریاستی حکومت خدا بخش لائبریری اور گورنمنٹ اردو لائبریری پر بلڈوزر چلانے کی تیاری کرے تو اسے علم دشمنی اور جہالت پسندی کے سوا بھلا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟

بہر حال، ہمیں اپنی نوجوان تعلیم یافتہ نسل کو کتابوں سے جوڑنے اور ان کے گہرا ذوقِ مطالعہ پیدا کرنے کے بارے میں سوچنا اور عملی اقدامات کرنا ہی ہوں گے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم سعود عثمانی کے درج ذیل شعر میں کی گئی پیش گوئی کو پورا ہوتے دیکھیں گے اور افسوس سے ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے:

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

تبصرے بند ہیں۔