سرکاری اسکولوں کی نجکاری کی سفارش: نیتی آیوگ کی بد نیتی!

نہال صغیر

اگست کے آخری دن تیس یا اکتیس تاریخ کو صرف ایک ہندی اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ حکومت سرکاری اسکولوں کو نجی زمروں کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ تعجب ہے کہ اتنی اہم خبر صرف بھوپال سماچار میں شائع ہوئی اور اسی کے حوالہ سے ایک دو نیوز پورٹل اور اخباروں نے شائع کی ہے۔ موجودہ حکومت جس نے منصوبہ بندی کمیشن جس کو نہرو نے بنایا تھا کو نیتی آیوگ میں تبدیل کردیا تھا۔ مودی حکومت کو نام تبدیل کرنے اور پرانے منصوبوں کو نیا نام دینے کی سنک سوار ہے۔ اس کی شروعات منصوبہ بندی کمیشن کو نیتی آیوگ میں تبدیل کرنے سے ہوئی تھی۔ موجودہ مودی حکومت کو تاریخ میں کسی اچھے نام سے یاد رکھا جائے یا نہیں لیکن ناموں کی تبدیلی، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے غیر دانشمندانہ اور عوام مخالف کاموں اور منصوں کیلئے ضرور یاد رکھا جائے گا۔

 اسی نیتی آیوگ کی بد نیتی اس وقت اجاگر ہوئی جب اس نے حکومت سے سرکاری اسکولوں کی نجکاری کی سفارش کی۔ اس کیلئے اس نے جو دلیل پیش کی ہے اس میں سب سے اہم ہے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا گرتا معیار اور بچوں کی گھٹتی تعداد۔نیتی آیوگ کے مطابق دوہزار دس سے دوہزار چودہ کے دوران سرکاری اسکولوں کی تعداد میں ساڑھے تیرہ ہزار کا اضافہ ہوا جبکہ ایک اعشاریہ تیرہ کروڑ طلبہ کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ نیتی آیوگ نے جو کچھ بتایا ہے وہ مجھے نہیں لگتا کسی جانکار شخص کی معلومات میں کسی اضافہ کا سبب بنے گا۔ یہ سب کچھ ہمیں معلوم ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیم کا معیار دن بدن کیوں گرتا جارہا ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ کسی کے پاس تھوڑی سی بھی گنجائش ہے تو وہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل کراتا ہے اور بچوں کو نئے زمانہ سے ہم آہنگ کرنے کیلئے والدین اپنا سب کچھ ان کی تعلیم پر لٹا دیتے ہیں اور اس سلسلے میں پرائیوٹ اسکول ان کی دولت کو لٹانے کی خواہش کا بڑا احترام کرتے ہیں ۔

مختلف بہانوں سے ان کی جیبوں کو کاٹنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ ان کا بچہ اسکول سے نکل نہ جائے۔ سرکاری اسکولوں میں تو اب وہی بچے پڑھتے ہیں جن کے والدین کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہیں اور خیر سے ہمارے عظیم ملک میں ان خستہ حال افراد کی آبادی پچاس فیصدی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ طبقہ اپنے بچوں کو پڑھائے یا اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھائے جس بوجھ کو مودی حکومت نے اور وزنی بنادیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس حکومت کی آمد کے بعد غریب کسانوں کی خود کشی میں شرمناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اب اگر ان سرکاری اسکولوں کو نجی ہاتھوں کے حوالے کردے گی تو یہ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ کہاں جائیں گے اور ان کے بچوں کی تعلیمی ضرورت کیا فائیو اسٹار پبلک اسکول پوری کریں گے ؟
سوال یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے گرتے تعلیمی معیار اور گھٹتے طلبہ کی تعداد کیلئے کون ذمہ دار ہے ؟ملک کا ایک عام آدمی جسے سیاست اور اس کے طور طریقوں کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں کیوں کہ اسے اپنے خاندان کیلئے دو وقت کی روزی کمانے سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ان بحثوں میں پڑے اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ وہ بھی کہے گا کہ اس کی راست ذمہ داری صرف حکومت کے سر ہے۔ حکومت خواہ کانگریس کی ہو یا اب یہ مودی سرکار اس کو عام آدمی کی ضرورت سے زیادہ سروکار نہیں ہے۔ اس عام آدمی سے جو اسے ووٹ دے کر حکومت میں لاتا ہے۔ لیکن بدلے میں اسے صرف غربت و افلاس ہی ملا کرتا ہے۔ حکومت نے کبھی اس جانب توجہ ی نہیں کی کہ سرکاری اسکولوں کے معیار تعلیم کو بلند کرنے کیلئے کیا کیا جائے۔

حالانکہ یہ کوئی لاینحل مسئلہ نہیں ہے بس شرط یہ ہے کہ حکومت کو عام آدمی کی پریشانیوں کا اندازہ اور وہ اسے حل کرنے میں مخلص ہو محض ووٹ بینک ہی اس کے پیش نظر نہ ہو۔ماہر تعلیم مبارک کاپڑی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام پچاس سال تک ماسکو کا طواف کرتا رہا جس نے ہمارے یہاں ڈاکٹر اور انجینئروں کی بھرمار تو کردی حالانکہ آبادی کے لحاظ سے اس کی تعداد ابھی بھی کافی کم ہے لیکن اخلاقیات کاجنازہ اٹھ گیا۔ کیوں کہ ماسکو کے نظریہ میں اخلاقیات کیلئے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اخلاقیات صرف مذہب کے ذریعہ سے آتا ہے اور وہاں مذہب نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب پچھلے بیس برسوں سے ہمارے تعلیمی نظام کا قبلہ واشنگٹن اور نیو یارک ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کسی سفارش یا نکات بیان کرنے کے بعد یہ مثال دی جاتی ہے کہ جیسا کہ امریکہ میں ہے !اگر امریکہ پرستی کا یہی جذبہ برقرار رہا تو ہمارے بچوں کے اسکولی بستوں سے بھی ہتھیار اور کنڈوم کے پیکٹ ملنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ مثال اس لئے پیش کی گئی ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کی بدحالی کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اب جو حکومت آئی ہے وہ تخٰیلاتی اور ویدک دور کو تعلیمی نظام میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ یعنی کسی کو بھی تعلیم کی بنیاد سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ بچے موجودہ دور کے تقاضوں پر پورے اتریں اور ان کے اخلاقیات بھی درست ہوں ۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ سرکاری اسکولوں کو نجی ہاتھوں میں دے کر ملک کے پچاس فیصد سے زیادہ عوام کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے بجائے وہ اسکولوں کی حالت سدھارے اور امریکہ پرستی میں تعلیم کی سوداگری نہ کرے۔ بات تو یہ حکومت سوا ارب آبادی کی بہبودگی کی کرتی ہے لیکن فائدہ چند فیصد افراد کو پہنچانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جب پرائیوٹ اسکولوں میں بچوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اس کا رکھ رکھاؤ بہتر ہو سکتا ہے تو سرکاری اسکولوں میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ابتدائی اور ثانوی تعلیمی اداروں کی بہتری کیلئے کتنی کمیشنیں بنی ہیں اور اس نے کتنی سفارشیں کی ہیں لیکن جو کچھ ہم سمجھ سکتے ہیں اور جس کا کرنا آسان بھی ہے اسے تو کیا ہی جاسکتا ہے جس سے سرکاری اسکولوں کے معیار کو بلند کی جاسکے۔ اس میں اساتذہ کو صرف تعلیمی مصروفیات میں ہی لگایا جائے ان سے حکومت دوسرے کوئی بھی کام نہ لئے جائیں ۔ جیسا کہ اکثر ریاستوں میں ہوتا ہے کہ اسکول کا ٹیچر پیون اور کلرک تک کی ذمہ داری ادا کررہا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بہت سی سرکاری مہم اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اسے کولہو کے بیل کی طرح جوت دیا جاتا ہے۔ دوسرے طلبہ کی بہتر کارکردگی کو اساتذہ کے پروموشن سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ جب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب اساتذہ کو تعلیمی مصروفیات کے علاوہ کہیں اور کوئی ذمہ داری نہ دی جائے۔
ایک سوال اور یہ ہے کہ آخر نیتی آیوگ کی اس بد نیتی کے پیچھے مقصد کیا ہے ؟یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت آر ایس ایس کی ہے اور حکومت ہر حال میں آر ایس ایس کو خود کفیل اور زیادہ متحرک کرنا چاہتی ہے۔ یعنی ایماندار مودی حکومت میں لاکھوں کروڑ کی بدعنوانی کا ایک اورمعاملہ قانونی طور پر سامنے آنے والا ہے۔ لاکھوں کروڑ روپیوں کی مالیت والے سرکاری اسکولوں میں سے پچاس فیصد اسکول اور اس کی زمین سنگھ کو دے دی جاتی ہے تو سوچئے سنگھ کے تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ اسے جہاں مالی فائدہ ہو گا وہیں اس کو ذہن سازی کیلئے بنے بنائے اسکول مل جائیں گے جس سے وہ ان طبقات کو بھی جو خود کو ہندو قومیت سے علیحدہ مانتے ہیں انہیں ہندو بنانے اور مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتی و پسماندہ طبقات کو اپنی غلامی میں لینے میں آسانی ہو جائے گی۔

جیسا کہ انہوں نے اپنے ہی ہم مذہبوں کو تین ہزار سال تک اپنا غلام بنائے رکھا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے اور اس سلسلے میں بھی کوئی تحریک چلائی جائے اور عوام کو بیدار کیا جائے کہ حکومت تمہارے بچوں کے تعلیمی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے جارہی ہے۔ انہیں بتایا جایا کہ نیتی آیوگ کی سب کیلئے تعلیم جیسے دستوری ضمانت پر نیت خراب ہو چکی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔