این ایچ پی سی: ایسٹ انڈیا کمپنی کا جدید روپ

واحد بشیر

دنیائے سیاست کے ارباب و اختیار ہر روز نت نئے طرز اختیار کرتے ہیں۔  اس شعبے سے وابستہ لوگ کسی بھی اصول کو حتمی ماننے سے انکاری ہیں۔  اخلاق، دیانت، ایفائے عہد اور اس قبیل کی ساری اشیاء سیاست دانوں کے نزدیک بے معنٰی ہیں۔ یہاں کامیاب وہ ہے جو لوگوں کو قائل کرنے میں ماہر ہو، بھلے ہی جھوٹ اور دغا کی ساری حدیں پھلانگنی پڑیں۔  اس سیاست نے روایتی جنگیں لڑ کر قومیں تباہ کیں اور چند افراد کے اقتدار کے لئے انسانیت تک کا سودا کیا۔ جدیدیت اور عا  لمیت سے بھی اس صنف پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا ہے، سوائے میدان کی تبدیلی کے۔ اس دور کی سیاست کا کھیل روایتی میدانوں کے بجائے الگ طرز کے اکھاڑوں میں کھیلا جارہا ہے۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ جدید دنیا کی اکثر سیاست اور تناؤکا محور قدرتی وسائل ہیں۔ تیل، پٹرول، معدنیات اور پانی کے ذخائراہمیت اور قیمت کے لحاظ سے انسانوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے کرب میں وہاں کے وسائل کا براہ راست ہاتھ ہے۔ بڑی طاقتیں اپنی لالچ کی وجہ سے ہی وہاں دخیل ہے۔

اسی طرح ریاست جموں و کشمیر میں جاری قتل وغارت گری کا سلسلہ بھی کافی عرصے سے جاری ہے۔ قریب پون صدی پر محیط اس خطے میں موجود بدامنی کا ذمہ دار ملک، ہندوستان اپنی ہٹ دھرمی پہ اڑا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگوں کے قتل سے بھی اس دیو جمہوریت کی بھوک مٹنے کا نام نہیں لیتی۔ ریاست کے انسانوں کی قیمت بہت ارزاں ہے۔ البتہ جس چیز نے اس ریاست کو دنیا کی ایسی چند جگہوں میں شامل کردیا ہے، جہاں فوج کا جماؤ زیادہ ہے، وہ یہاں کے وسائل ہیں۔  آبی وسائل کی فراوانی نے اس جنت بے نظیر کو جہنم کا حصہ بنا دیا ہے۔ بھارت انرجی کرائیسس (Energy Crisis)کے اس دور میں ریاست کے وسائل نچوڑ نچوڑ کے استعمال کررہا ہے۔ استعماری استحصال کے سارے حربے بروئے کار لاکر ان وسائل کے جائز مالکان کوہر چیز کے لئے ترسایا جارہا ہے۔ ترقی کے کھوکھلے دعوؤں سے ریاست کے  سیاستدان اپنی کرسیوں کے ارد گرد محض حفاظتی حصار تعمیر کررہے ہیں۔  ریاستی مفادات کا سودا یہاں کے  حکمرانوں نے ہر دور میں کیا اور بغیر کسی عار کے کیا ہے۔ اس گناہ کے ارتکاب میں شیخوں، میروں، پیروں اور دیگر خاندانوں کے درمیان کوئی لکیر نہیں کھینچی جاسکتی ہے۔ یہاں کے سبھی حکمرانوں نے کسی تفریق کے بغیرریاست کے عوام کو وسائل سمیت بیچ دیا ہے اور بدلے میں عارضی حکومتوں کے وقفے وقفے والے مزے لوٹے ہیں۔

پن بجلی کے کئی پروجیکٹ ریاست نے استعماری این ایچ پی سی (NHPC) کے حدود اختیار میں دئے ہیں۔  ان میں سے ایک اہم پروجیکٹ ضلع بانڈی پورہ میں زیر تعمیر ہے، اور تکمیلی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ پن بجلی کا یہ پروجیکٹ ریاست کی ایک خوبصورت وادی گریز میں تعمیر کیا جارہا ہے۔ گریز سرینگر سے 123کلومیٹر کی دوری پر حد متارکہ پر واقع ہے۔ ہمالیائی سلسلے میں موجود یہ وادی جغرافیائی لحاظ سے الگ تھلگ اور باقی ریاست سے کٹی ہوئی ہے۔ اس وادی کی آبادی تقریباََ 40ہزار ہے، اور اتنی ہی تعداد میں یہاں بھارت کی فوج بھی موجود ہے۔ مقامی آبادی داردوں پر مشتمل ہے، جو شنا زبان بولتے ہیں۔ اس وادی کے لوگ کشن گنگا دریا کے دونوں کناروں پر، کہسار کے دامن میں ایک طویل پہاڑی سلسلے میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے یہ علاقہ حفاظتی نقطہ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ اس وادی میں کشن گنگا دریا، جو کہ دریائے جہلم کا ایک نالہ ہے، پرڈیم کی تعمیر پر پاکستان کو کئی اعتراضات ہیں۔

 پاکستان اس ڈیم کی تعمیر کو 1960ء کے سندھ طاس آبی معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی تصور کرتا ہے۔ دریائے جہلم کا شمار ان تین مغربی دریاؤں (سندھ، چناب، اور جہلم) میں ہوتا ہے جن پر سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت پاکستان کو مکمل رسائی حاصل ہے۔ کشن گنگا پاور پروجیکٹ سے بھارت 330میگاواٹ بجلی حاصل کرے گا۔ پروجیکٹ میں 37میٹر لمبا ڈیم شامل ہے، اس کے ساتھ ساتھ29کلومیٹر کی ایک طویل ٹنل کے ذریعے ڈیم سے پانی کا رُخ تبدیل کرکے ولر جھیل میں ڈال دیا جائے گا۔ ٹنل سے گذار کر ولر جھیل میں داخل ہونے سے پہلے ہی اس پانی کی طاقت کو بانڈی پورہ میں ایک زیر زمین پاور ہاؤس میں بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران ریاست کے مفادات اور ریاستی ماحولیات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ ڈیم کی تعمیر سے سطح آب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس سے نہ صرف ماحولیات پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں، بلکہ مقامی آبادی بھی متاثر ہوگئی ہے۔ اس وقت تک پانی کی سطح میں اضافے سے سینکڑوں گھرانے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

گریز کو سرینگر سے ملانے والی سڑک کا کئی میل پر مشتمل حصہ بھی زیر آب آگیا ہے، اور نئی سڑک کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ پروجیکٹ کی تعمیر کے لئے جنگلات اور درختوں کی ایک بڑی تعداد کو کاٹ دیا گیا ہے، جس سے ماحولیات پر کافی منفی اثرات پڑے ہیں۔ اسی طرح دریا میں پانی کا بہاؤ ڈیم کی وجہ سے ختم ہوگیا ہے اور دریا میں موجود مچھلیاں ختم ہوتی جارہی ہیں۔  اسی طرح بلاسٹنگ سے سارا علاقہ دھول سے اٹ گیا ہے اور پورے علاقے کے ماحولیات میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ اخروٹ کی پیداوار بھی اسی آلودگی سے متاثر ہورہی ہے۔ بڑون گریز نامی ایک پورا گاؤں ڈیم کی وجہ سے زیر آب آگیا ہے اور 128گھرانے متاثر ہوگئے ہیں۔ رہائشی مکانات کے علاوہ اس گاؤں کی قابل کاشت زمیں بھی پانی کے نیچے آگئی ہے۔

 این ایچ پی سی کے ذمہ داران سے ان کے بانڈی پورہ میں واقع دفتر میں ملی معلومات کے مطابق ہر گھرانے کو رہائشی مکان کے لئے زمین یا نقدلگ بھگ 11لاکھ روپے معاوضے کے طور پر ادا کی گئی ہے۔ جب کہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 128گھرانوں میں سے صرف 18گھرانوں کو مکان کے لئے متبادل زمین فراہم کی گئی ہے اور فی کنال زمیں کا معاوضہ 11 لاکھ نہیں بلکہ 5.75لاکھ ادا کیا گیا ہے۔ بڑون گاؤں کے عمر رسیدہ رہائشی غلام حسین نے اپنی دکھ بھری داستان کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے گھر کے ساتھ ساتھ اپنی 6کنال قابل کاشت زمین بھی گنوادی ہے۔ رہائشی مکان کے لئے محض 5.75لاکھ معاوضہ فی کنال ملا جب کہ قابل کاشت زمین کا نہ تو کوئی متبادل ملا ہے اور نہ ہی کوئی معاوضہ فراہم کیا گیا ہے۔ اسی طرح جاوید احمد نامی ایک دوسرے شخص نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا اور این ایچ پی سی اور ریاستی حکومت کے تئیں اپنے غصے کا اظہار کیا۔ اس علاقے کے عام لوگوں کی زندگی اس حد تک متاثر ہوئی ہے کہ بڑون گاؤں کے مڈل اسکول کو جس عمارت میں شفٹ کیا گیا ہے اس کے ایک حصے میں فوج بھی مقیم ہے۔ ہر روز صبح اساتذہ اور بچوں کو تلاشی کے بعد عمارت میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ دوسری طرف بچے اور اساتذہ اس عمارت میں رہتے ہیں جس پر ہر وقت کنٹرول لائن کی دوسری طرف سے گولہ باری کے بھر پور امکانات موجود ہیں۔

علاقے میں حد سے زیادہ فوجی جماؤ ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی کو نظریہ انحصار (Dependency Theory) کے تحت فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ مقامی آبادی کا بیشتر حصہ ایک معمولی رقم کے عوض فوج کے لئے مزدوری کرنے اور ان کا سامان ڈھونے پر مجبور ہے۔ معاشی اعتبار سے پسماندہ اس علاقے کے لوگوں کے برعکس پاور پروجیکٹ میں غیر ریاستی باشندوں کو کام پر لگایا گیا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کشن گنگا پاور پروجیکٹ سے 330 میگاواٹ کی بجلی پیدا ہوگی۔ اس پیداوار سے ریاست کو صرف 12 فیصد کا حصہ ملے گا اور باقی 88 فیصد استعماری طرز کی مرکزی کمپنی NHPCدہلی، پنجاب اور ہریانہ کو بیچ کر منافع کمائے گی۔ گریز کی مقامی آبادی جو کہ ابھی تک بجلی کی سہولیت سے یکسر محروم ہے، آگے بھی محروم ہی رہے گی اور اس پیداوار سے ان کو کوئی سہولت نہیں ملے گی۔ اسی طرح گریز کی مقامی آبادی دیگر کئی سہولیات سے بھی محروم ہے۔

رسل و رسائل،نقل و حمل، مناسب تعلیم کے لئے درکار سہولیات، طبی سہولیات اور بجلی جیسی اہم ضروریات زندگی سے بھی اس علاقے کی ساری آبادی محروم ہے۔ بھارت کی مرکزی حکومت ریاست جموں وکشمیر کے وسائل کا ناجائز استعمال کرکے یہاں کی آبادی کو محروم رکھتی ہے۔ اگرچہ علاقائی ہند نواز تنظیمیں الیکشن کے دوران بار بار اس بات کا اعادہ کرتی ہیں کہ ریاستی وسائل کو ریاست سے باہر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا، لیکن عملی طور پر ایسا ابھی تک ناممکن ہی لگ رہا ہے۔ این ایچ پی سی نے ریاست میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت اختیار کی ہے۔ ریاست کے ہند نواز سیاست دان اقتدار میں آکر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ریاستی مفادات کا استحصال کرکے ہی وہ حکومت میں آئے ہیں۔  برعکس وہ کشکول لے کر پیکیجز کی بھیک مانگنے دہلی کے طواف کرتی رہتی ہے۔ وسائل کی فراوانی کے باوجود ریاستی نوجوان بے روزگاری اور یہاں کے باشندے غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔  تاریخ انسانیت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قوموں کے وسائل کو غالب اور غاصب تب تک استعمال کرتے ہیں جب تک کہ نہ محکوم اپنی غفلت سے بیدار نہ ہوجائے۔

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔