سر سید احمد خاں کا 200واں یوم پیدائش: ہم اور ہمارا عمل

محمد خالد ظفیر کرخی

آج ہمارا ملک دہشت گردی، فرقہ پرستی، ذات، مذہب کے اونچ نیچ سے پریشان ہے، آزادی کے 70 ؍سال بعد بھی ملک کی عوام غریبی، جہالت، خوف، بھوک، ناانصافی اورظلم و زیادتی جھیل رہی ہے، اس سے زیادہ سنگین صورت حال مغل حکومت کے زوال اور انگریزی حکومت کے آغاز پر تھی، سابقہ دو صدیوں کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں توموجودہ صورت حال سے مقابلہ آرائی کے لئے صرف ایک نام ابھر کر سامنے آتا ہے جس کو ہم سب سر سید احمد خاں کے نام سے یاد کرتے ہیں جو عظیم مصلح قوم، ادیب اور تعلیمی رہنما اور مفکر کے طور پر پوری دنیا میں مشہور ہیں، انھوں نے ایک ساتھ کئی شعبوں میں کام کئے، تعلیم، ادب، باہمی امداد اور قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا، بہت سی پریشانیوں کو برداشت کیا، سر سید احمد خاں صرف مسلمانوں کے ہی طرف دار نہیں تھے بلکہ پورے ہندوستانی سماج کے لئے ہمیشہ متفکر رہے، ان کے کام اور فکرکا رشتہ آج بھی سبھی ذات، مذہب اور فرقے کے پیروکار وں سے جڑا ہوا ہے۔

انیسویں صدی میں سر سید احمد خاں نے افکارو نظریات، دور اندیشی، تصنیف و تالیف اور تعلیم کے شعبہ میں کئے گئے اپنے قیمتی تر کاموں سے اپنے نام کو تاریخ کے صفحات میں درج کرالیا ہے، ان کی ابتدائی تعلیم والدہ کی سرپرستی میں شروع ہوئی، قرآن مجید کی تعلیم پوری کرنے کے بعد مکتب میں پڑھنے لگے، ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد عربی، فارسی اور ریاضی وغیرہ کی تعلیم حاصل کی، فن طب میں دلچسپی پیدا ہوئی تو حکیم غلام حیدر کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، مطالعہ میں خاص دلچسپی ہونے کی وجہ سے کتابوں میں ڈوبے رہتے، مشہور شاعر مرزا غالب، آزردہ اور صہبائی وغیرہ کی محفلوں میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھا۔

 1838میں ان کے والد ماجد اللہ کو پیارے ہوگئے تو اس وقت سر سید احمد خاں کی عمر صرف 21سال کی تھی، والد صاحب کے انتقال کے بعد حاکم وقت کی طرف سے ملنے والا وظیفہ بھی کم کردیا گیا، کچھ رقم والدہ کو ملتی تھی اس لئے سر سید احمد خاں نے سرکاری نوکری حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا، اس وقت ان کے خالو خلیل اللہ خان دہلی میں صدر امین تھے، ان سے درخواست کرکے کچہری میں کام سیکھنا شروع کردیا، اس کے بعد رابرٹ ہیملٹن کے ساتھ 1839میں کمشنری کے دفتر میں منشی کے عہدہ پر ان کی تقرری ہوئی۔

دسمبر 1841میں مین پوری کے منصف مقرر ہوئے، 1842میں ٹرانسفر ہوکر فتح پور سکری آگئے جہاں انھیں اکبر بادشاہ کے آرام کمرہ میں رہنے کا موقع ملا۔18فروری 1846کو سر سید دوبارہ دہلی آگئے، اس دوران انھوں نے آثار الصنادید نام کی کتاب تصنیف کی، 1855میں صدر امین مقرر ہوکر دہلی سے بجنور چلے گئے، یہاں قریب سوا دو سال اقامت پذیر رہے، اسی درمیان غدر یعنی پہلی جنگ آزادی چھڑ گئی۔

سر سید احمد خاں نے مرادآباد میں قیام کے دوران ’’اسباب بغاوت ہند ‘‘ تحریر کی جس میں 1857کے غدر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلط پالیسی، انگریزحکومت کے ذریعہ ہندوستانیوں کو نظر انداز کرنے، عوامی مسائل میں دلچسپی نہ لینے، مذہبی معاملات میں پادریوں کو جری بنانے جیسے اہم اسباب کا نتیجہ قرار دیا،اپریل 1869میں سر سید احمد خاں نے اپنے لڑکے کے ساتھ انگلینڈ کا سفر کیا۔

ایک اور سر سید تحریک کی ضرورت ہے   

 اگر محمڈن اینگلو اورینٹل(MAO) کالج علی گڑھ کو انیسویں صدی کا تحفہ کہا جائے تو مبالغہ بالکل نہ ہوگا جس کو سر سید احمد خاں نے اپنے خون پیسنے سے سینچا، اپنی زندگی کے آخری پیش قیمتی 30سال MAO کالج کی ترقی اورسر بلندی میں گزار دئے، اس طرح اس کو 1920میں یونی ورسٹی کا درجہ ملا اور سر سید احمد خاں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔

آج تعلیم نے تجارت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، تعلیم گاہیں اور دانش گاہیں تجارتی منڈی بن کر رہ گئی ہیں، تعلیم عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے، آج ملک کو دوبارہ ایک اور سرسید احمد خان کی تحریک کی ضرورت ہے۔

17اکتوبر 2017کو ملک و بیرون ملک میں پھیلے سر سید احمد خاں کے عقیدت مندان کا دو سوسالہ یوم ولادت منانے کی تیاری میں مصروف ہیں اس موقع پر سبھی لوگ یہ عہد و پیمان کریں کہ سر سید احمد خاں کی تحریک کو ملک کے ہر گوشے میں جاری کرکے ہی دم لیں گے، آج ملک کے ہر صوبے کو سر سید احمد خاں کی ضرورت ہے، ان کے مشن کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے، ان کے افکار و نظریات، عظیم کام اور کارنامے آج بھی ہم سے پوری طرح مربوط و وابستہ ہیں۔

 محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کا قیام 

 سر سید احمد خاں نے تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لئے محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کی بنیاد ڈالی جو بعد میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے مشہور ہوئی، آج اسی کانفرنس کو پھر ملک، صوبہ، ڈویزن اور ضلع سطح پر قائم کرکے پسماندہ علاقوں کی پہچان کرنے کی ضرورت ہے، MAO ماڈل اسکول اور کالج کے قیام، ہاسٹل، ہاسپٹل، دارالمطالعہ اور کوچنگ سنٹر کے قیام، اسی طرح تعلیم نسواں کو فروغ دینے کی حد درجہ ضرورت ہے، اگر ہم سابقہ سو سالوں کا مطالعہ کریں تو AMU کا کوئی متبادل دکھائی نہیں دیتا، آج بھی تعلیم کے شعبہ میں پیچھے رہ جانے والے صوبے، ڈویزن اور اضلاع MAO ماڈل کالج کے لئے ترس رہے ہیں۔

یونی ورسٹی کے نام سے کئی صوبوں میں زمین وقف کی گئی ہے، وہاں اس کام کو آسانی کے ساتھ پورا کیا جاسکتا ہے، ملک اور دنیا بھر میں پھیلے AMUکے فارغ التحصیل طلبہکا حق بنتا ہے کہ سر سید احمد خاں کے مشن کو حقیقت میں تبدیل کریں اور اسے رفتار فراہم کریں۔ سر سید احمد خاں دہلی میں 17اکتوبر 1817کو پیدا ہوئے، سر سید احمد خان کے والد کا نام میر متقی اوروالدہ کا نام عزیز النساء تھا، ان کے نانا کا نام خواجہ فرید تھا، سر سید احمد خاں کو والدہ اور نانا دونوں نے مل کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔

سر سید احمد خاں ایک مشہور قلم کار و مضمون نویس 

 سر سید احمد خاں ایک مشہور قلم کار تھے، ان کی کوشش سے ملک و بیرون ملک کی مختلف زبانوں کے ترجموں کے لئے 1864میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا، اس کے ذریعہ ملک میں جدید تعلیم کی نشرو اشاعت کا بیڑہ اٹھایا، سر سید احمد خاں مسلمانوں کی تباہی، بربادی اور انحطاط دیکھ کر فکر مند ہوگئے، بہت غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس مسئلہ کا حل صرف اور صرف جدید تعلیم میں ہے، جہالت ہی ہماری تنزلی اور محرومی کا سب سے بڑا سبب ہے، تعلیم سے دوری ہی تمام برائیوں کی جڑ اور بنیاد ہے، اس لئے سر سید احمد خاں نے یہ تاریخی فیصلہ کیا اور اپنا کتب خانہ فروخت کردیا، گھر اور کوٹھی کو رہن کے طور پر رکھ دیا اور یکم اپریل 1869کو انگلینڈ چلے گئے، وہیں پر انھوں نے منصوبہ تیار کیا، ہندوستان میں جاری طریقہ تعلیم کے خلاف ایک کتابچہ شائع کیا، ان کا مقصد ایک مسلم یونی ورسٹی قائم کرنا تھا، انگلینڈ سے واپسی کے بعد انھوں نے دو اہم کارنامے انجام دئے، تہذیب الاخلاق اردو رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس کا مقصد مذہبی افکار ونظریات اورسماجی و ثقافتی شعبوں میں اصلاح کرنا تھااور اردو ادب کو اس قابل بنانا تھا کہ ملک کی دیگر زبانوں کے سامنے وہ نمایاں مقام حاصل کرسکے۔

 سر سید احمد خاں کا دوسرا سب سے بڑا مقصد

 دوسرا سب سے بڑا مقصد محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا قیام تھا جو اپنے وقت کا پہلا اقامتی کالج تھا، اس کالج نے قوم میں نئی تعلیمی بیداری پیدا کی، سر سید کے جیتے جی یونی ورسٹی کا خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا کیوں کہ حکومت وقت نے ساتھ نہیں دیا لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کا خواب پورا ہوگیااور MAO کالج 1920میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے نام سے پوری دنیا میں متعارف ہوا، جس نے ملک میں اپنا اولین مقام بھی حاصل کیا، سر سید احمد خاں کے انتقال کو ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ بیت گیا لیکن ان کا بدل ہندوستان کو میسر نہیں ہوسکا۔

سر سید احمد خاں نے ایک اجلاس میں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا جس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے کہ ’’ اگر تم اپنے دین پر قائم نہ رہے اور سب کچھ ہوگئے اور اگر آسمان کے تارے ہوکر چمکے تو کیا ؟ تم ہم میں سے نہ رہے، میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے میں علوم جدیدہ ہوں اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ہو۔

راج موہن گاندھی نے سر سید احمد خاں کی پرورش میں ان کی والدہ عزیز النساء کے کردار کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک بار سید احمد خاں کو ایک شخص نے دکھ پہونچایا، وہ بدلہ لینے کے لئے بضد تھے، ان کی والدہ نے ہدایت کی کہ وہ اسے معاف کردیں اور آخر میں سر سید احمد خاں کو معاف کرنا ہی پڑا، ایک مرتبہ بچپن میں سید احمد خاں نے ایک عمر رسیدہ خادم کو ایک تھپڑ رسید کردیا، جب ان کی والدہ کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے کہا کہ یہ لڑکا اس گھر میں رہنے کے لائق نہیں، فورا گھر سے باہر نکال دیا جائے، جب تک یہ نوکر سے باقاعدہ معافی نہ مانگ لے اور نوکر اسے معاف نہ کردے تب تک اس کا داخلہ گھر میں ممنوع ہے، ایسی سخت نگہداشت اور نگرانی میں ہوئی سر سید احمد خاں کی پرورش و پرداخت۔

سر سید احمد خاں کا پیغام قوم کے نام 

اے میری قوم کے لوگو!

اپنے عزیز اور پیارے بچوں کو غارت نہ کرو، ان کی پرورش کرو، ان کی آئندہ زندگی اچھی طرح بسر ہونے کا سامان کرو، مجھ کو تم کچھ بھی کہو، میری بات سنو یا نہ سنو، مگر یاد رکھو کہ اگر تم ایک قومی تعلیم کے طور پر ان کو تعلیم نہ دو گے تو وہ آوارہ اور خراب ہوں گے، تم ان کے ابتر حالات کو دیکھوگے اور بے چین ہوگے، رؤگے اور کچھ نہ کرسکوگے، تم اگر مر جاؤگے تو اپنی اولاد کی خراب زندگی دیکھ کر تمہاری روحیں قبروں میں تڑپیں گی اور تم سے کچھ نہ ہوسکے گا، ابھی وقت ہے اور تم سب کچھ کرسکتے ہو مگر یاد رکھو کہ میں یہ پیش گوئی کرتا ہوں کہ اگر چند روز تم اسی طرح غافل رہے تو ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ تم چاہوگے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو، ان کی تربیت کرو مگر تم سے کچھ نہ ہوسکے گا، مجھ کو کچھ کہو، کافر، ملحد، نیچری، مگر تم سے خدا کے سامنے کچھ سفارش نہیں چاہتا، میں تم سے اپنی شفاعت کے واسطے خواست گار نہ ہوں گا، میں جو کچھ کہتا ہوں تمہارے بچوں کی بہتری کے لئے کہتا ہوں، تم ان پر رحم کرو اور ایسا کچھ کرو کہ آئندہ کو پچھتانا نہ پڑے، (سر سید احمد خاں لیکچر مقام لدھیانہ ۲۳؍ جنوری 1883ء )

 مضمون نگار  کے درد و تکلیف پر ایک نظر

میں علی گڑھ سے 600کلو میٹر دور گورکھپور بستی منڈل کے درمیان واقع ضلع سنت کبیر نگر سے تعلق رکھتا ہوں جو آزادی کے 70سال بعد بھی تعلیمی لحاظ سے بہت پسماندہ اور زوال پذیر علاقہ ہے، میں بہت خوش نصیب ہوں، مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستان کی نمبر ون یونی ورسٹی میں زیر تعلیم ہوں، میں جس علاقہ سے متعلق ہوں وہاں معیاری تعلیم ندارد ہے، یہاں اسکول کالج اب تجارت کے مقصد سے کھولے جاتے ہیں، نقل کرانے کی پوری ضمانت لی جاتی ہے، سال بھر پورا گروہ سرگرم رہتا ہے، یہی حال مشرقی اترپردیش کا ہے، اور بھی علاقے ہوں گے، بھلا اس سے سر سید احمد خاں کا مشن کیسے پورا ہوسکتا ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ AMUاپنے دائرے کو وسیع کرے، ملک اور صوبہ کے مسلم اکثریتی علاقوں اور پسماندہ ترین خطوں میں جواہر نویدے، مرکزی اسکولوں کی طرح کالج قائم کرے، جس سے سر سید احمد خاں کے خوابوں کو درست تعبیر مل سکے، سر سید احمد خاں کے اس پیغام کی آج بھی بے حد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

نوٹ:  مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیو ورسٹی میں  بی ایس سی کے طالب علم ہیں

تبصرے بند ہیں۔