سر سید کا اسلوب تحریر اور انداز بیان

چودھری امتیاز احمد

اردو ادب کی فضا جن روشن ستاروں سے مزین ہے ان میں فرزانہ علی گڑھ سر سید احمد خان کا نام بڑی شہرت کا حامل ہے۔ حالی نے انھیں اردو نثر کا مورث اعلیٰ کہا ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے تقریباً بیس برس کے اندر اردو لٹریچر کا رخ پھیر دیا اور وہ زبان جو عشق و عاشقی کے جھگڑوں میں پھنسی ہوئی تھی اس میں اب یہ صلاحیت پیدا ہو گئی کہ وہ فنی سیاسی، تاریخی، اخلاقی، مذہبی غرض کہ ہر قسم کے مضامین کو بخوبی ادا کر سکے۔

 مولانا شبلی نے صحیح کہا ہے؎

’’سر سید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ ریفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں ان میں ایک اردو لٹریچر ہے۔‘‘

 سر سید کو اردو نثر کا بانی کہا جاتا ہے انھوں نے اردو نثر کوعبارت آرائی، لفاظی، تکلف و تصنع سے نجات دلائی، سیدھے سادھے اندازمیں بات کہنا سکھایا اور اردو زبان میں اتنی قوت اور صلاحیت پیدا کر دی کہ ہر طرح کے مضامین ادا کئے جا سکیں اور علمی موضوعات پر بہ آسانی اظہار خیال کیا جا سکے۔ ان کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی موضوع اور ہیئت کی ہم آہنگی ہے وہ ہر موضوع اور خیال کے لیے مناسب اسلوب اپناتے ہیں ان کا اسلوب ہر رنگ میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سر سید کی تحریروں میں عام طور پر سادہ اور عام فہم لب و لہجہ ملتا ہے لیکن ان کی سادگی سپاٹ اور کھردری نہیں معلوم ہوتی سیدھے سادے الفاظ میں پیچیدہ خیالات کو بھی بڑی خوبی سے ادا کرنے کا ہنر انھیں معلوم ہے ان کے سادہ اور عام فہم الفاظ میں وہ حسن اور لطف ملتا ہے جو قدما کی صنعت گری اور نازک خیالی میں نظر نہیں آتا۔ سرسید کا خیال تھا کہ نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ پراثر انداز میں اپنا مدعا بیان کر سکے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں   ؎

’’جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کے ادا میں ہو جو اپنے دل میں ہو وہی دوسروں کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔‘‘

  سر سید چونکہ تہذیب و معاشرت کے مسائل اور قوم و ملت کے معاملات کے ساتھ زبان و ادب کا بھی ایک واضح تصور رکھتے تھے اس لیے ان کے انداز تحریر اور زبان و بیان کی طرف ان کے رویے پر کوئی گفتگو ان کے تصور ادب کو نظر انداز کر کے نہیں کی جا سکتی انہوں نے اپنی تحریروں میں بارہا اردو زبان اور اس کے اسالیب بیان پر اظہار خیال بھی کیا ہے اور اس ضمن میں اپنی ترجیحات کا ذکر بھی کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو   ؎

’’اردو نے در حقیقت ہماری ملکی زبان میں جان ڈال دی ہے میر، درد و ظفر نے اردو اشعار میں جو کچھ سحر بیانی کی ہے میر امن نے کوئی کہانی شستہ بول چال میں کہہ دی ہو وہ اس سے زیادہ فصیح دلچسپ و بامحاورہ نہ ہوگی جو ایک پوپلی بڑھیا بچوں کو سلاتے وقت ان کو کہانی سناتی ہے مضمون نگاری دوسری چیز ہے جو آج تک اردو زبان میں نہ تھی یہ اس زبان میں پیدا ہوئی اور ابھی نہایت بچپن کی حالت میں ہے اگر ہماری قوم اس پہ متوجہ رہے گی اور ایشائی خیالات کو نہ ملا دے گی جواب حد سے زیادہ اجیرن ہو گئے ہیں تو چند روز میں ہماری ملکی تحریریں بھی میکالے اور اڈیشن کی سی ہو جاویں گی۔ ‘‘

’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ناچیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی مضمون کی ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ جہاں تک ہماری کج مج زبان میں یاری دی۔ الفاظ کی درستی، بول چال کی صفائی پر کوشش کی، رنگین عبارت سے، جو تشبیہات اور استعارات خیال سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں میں ہی رہتی ہے اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا پرہیز کیا تک بندی سے جو اس زمانہ میں مقفیٰ عبارت کہلاتی تھی۔ ہاتھ اٹھایا جہاں تک ہو سکا سادگی عبادت پر توجہ کی۔ اس میں کوشش کی جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کی ادا میں ہو جو اپنے دل میں ہو وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔‘‘

 متذکرہ بالا اقتباسات میں سر سید کے خیالات کا ماحصل سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ سر سید اپنے مضامین کے ذریعے ایک ایسے علمی اسلوب کو رواج دینا چاہتے تھے جو رنگینی عبارت شوکت الفاظ اور مقفیٰ نثر سے الگ ہو اور جس میں الفاظ کی درستی، بول چال کی صفائی و شستگی اور اپنے مدعا اور مافی الضمیر کے اظہار کی وضاحت اور بیان کی فصاحت پر خصوصی توجہ صرف کی جائے۔

 سرسید سے پہلے اردو نثر غیر ترقی یافتہ شکل میں تھی۔ جب انھوں نے لکھنا شروع کیا اس وقت اردو نثر میں عام طور سے پرانا اسلوب رائج تھا۔ اگرچہ کسی حد تک میر امن، مرزا غالب ماسٹر رام چندر وغیرہ نے ایک نئے اسلوب کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ سرسید کا ذہن ایک عمل پسند انسان کا ذہن تھا۔ جیسے ادبی حسن سے زیادہ ٹھوس حقائق، زور بیان اور غیر مبہم طرز اظہار زیادہ عزیز تھا اس لیے ان کی نثر ایک الگ اسلوب رکھتی تھی۔ یہ اسلوب بڑھتے ہوئے سائنسی میدان اور عقل رجحان سے ہم آہنگ تھا جو کسی نہ کسی شکل میں آج کا بنیادی اسلوب ہے سرسید کی کوششوں سے ادب کے اندر ایک خاص انقلاب آیا۔ لوگ سماجی حقیقت نگاری کی طرف متوجہ ہوئے ادب اور سماج کا رشتہ استوار ہوا۔

 سر سید نے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو نثر میں ایک ایسے اسلوب کی بنیاد رکھی جو بے حد معقول اور منطقی تھا۔ سادگی بے تکلفی اور حقیقت پسندی اس کی نمایاں خصوصیات تھیں لوگ اس بات کو محسوس کرنے لگے تھے کہ اس دور میں جذباتی اور رومانی انداز تحریر اختیار کرنے کے بجائے عقل اور استدلالی انداز اختیار کرنا ضروری ہے اسی انداز سے یوروپ کے نظریات افکار اور خیالات کو سمجھا جا سکتا ہے سر سید اور ان کے رفقاء کا نثری کارنامہ زمانے کی فطری مانگ کا نتیجہ تھا۔

مذہب، سیاست، ادب، معاشرت زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو سرسید کی توجہ سے محروم رہا ہو لیکن وہ چیز جسے سر سید کی نظر التفات نے مٹی سے سونا بنا دیا وہ اردو نثر ہے سرسید احمد خاں نے اردو ادب میں مضمون نگاری اور انشاپردازی کی بنیاد رکھی۔ بقول شبلی اردو انشا پردازی کے مجدد و امام سرسید ہیں سرسید نے ادب کو تفریح طبع کا سامان بنانے کے بجائے ایک اعلیٰ مقصد کے آلہ کار کی حیثیت دی اور اسے ایک وزن اور وقار بخشا۔ انہوں نے اردو ادب کو ایسا ذہن دیا جو ذہنی وسعت، عقل کی گیرائی فکر کی پختگی اور جذبے کے خلوص سے مالامال تھا۔ سرسید نے جو زبان اختیار کی وہ سادہ شگفتہ اور بہت دل نشین تھی خود ان کے الفاظ میں  ؎

’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم وادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پر چوں کے ذریعہ سے کوشش کی۔ مضمون کی ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔‘‘

 سرسید عام طور سے صنائع بدائع سے احتراز کرتے ہیں محاکات کی مدد سے وہ اکثر اپنی تحریروں میں افسانوی رنگ اور درد کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں اور قاری کی نگاہوں کے سامنے ایسی تصویر کھینچ دیتے ہیں جس میں وہ محو ہو جاتا ہے سر سید نے اردو مضمون نگاری کا سنگ بنیاد رکھا اور انگریزی اہل قلم اسٹیل اور ایڈیشن کی طرز پر مضامین لکھے۔ عام طور پر سرسید کی تحریروں میں علمیت سنجیدگی وزن اور وقار ملتا ہے ان کے سنجیدہ موضوعات میں کہیں کہیں شوخی اور طنز و ظرافت حسن اور دلاویزی پیدا کر دیتی ہے۔ یہ طنز اس وقت بھرپور نظر آتا ہے جب وہ اپنے مخالف کو مخاطب کرتے ہیں یا معاشرے پر طنز کرتے ہیں شوخی و طنز کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر تضحیک لہجہ ادبی شان کے خلاف ہے۔

 روز مرہ محاورے بھی سرسید کی تحریروں میں جابجا ملتے ہیں کہیں کہیں تشبیہات و استعارات بھی اپنا جلوہ دکھاتے ہیں تمثیلی انداز نے کہیں کہیں رومانوی اور افسانوی انداز پیدا کر دیا ہے۔ آدم کی سرگزشت، دانا دنیا پرست نادان دیندار، امید کی خوشی وغیرہ سرسید کے تمثیلی شاہکار ہیں ۔

  بنائو سنگار سے سرسید کی تحریریں خالی ہیں اس میں شک نہیں کہ بنائو سنگار سے نثر میں دلکشی اور دلکشی کے سبب تاثیر پیدا ہوتی ہے مگر اس کے لیے فرصت درکار ہے اور سر سید کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ انہیں ہمیشہ اس بات کا احساس تھا کہ وقت کم ہے اور کہنے کے لیے بہت کچھ ہے اس لیے وہ قلم برداشتہ نثر لکھتے رہے۔

 سرسید کو ہرموضوع پر قوت و قدرت کے ساتھ بیان کرنے کا خاص ملکہ حاصل تھا وہ حالات و واقعات کی ایسی تصویر کشی کرتے تھے کہ جو برائیاں دلوں میں کھب گئی ہوں ان کی برائی اور جو خوبیاں سوسائٹی کے اثر سے نظر چھپ گئی ہوں ان کی خوبی فوراً دلوں پر نقش ہو جائے۔

سرسید نے اردو شعر و ادب کو ایک نئی راہ دکھائی انھوں نے واضح کیا کہ شعر وادب نہ تو بیکاروں کا مشغلہ ہے نہ تفریح و دل لگی کا ذریعہ بلکہ یہ زندگی کے سنوارنے اور بہتر بنانے کا آلہ ہے اردو نثر کے عیب مثلاً مبالغہ آرائی، لفاظی، تصنع وغیرہ سے سرسید کو سخت نفرت تھی ان کی یہی خواہش تھی کہ اردو نثر میں وہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ کام کی بات سیدھے سادھے الفاظ میں ادا کی جا سکے تاکہ بات قاری کے دل میں پیوست ہو جائے وہ خود نثر نگار تھے۔ انھوں نے ایسا کر کے دکھایا۔ ان کی کوششوں سے ایسے ادیب ابھر کر سامنے آئے جو سرسید کی طرح وضاحت صراحت اور قطعیت کے ساتھ اظہار خیال پر قدرت رکھتے تھے۔

تبصرے بند ہیں۔