سر سید کی باز یافت

پہلی قسط

سر سید احمد خان زندہ ہوتے تو زندگی کی 203 بہاریں دیکھ چکے ہوتے. ان کے انتقال کے بعد 122 خزائیں ان پر نوحہ کر چکی ہیں. انہوں نے جیتے جی جو شجرِ علم ومعرفت لگایا تھا وہ 125 سال پرانا، تناور، سایہ دار اور رنگ برنگے پھلوں پھولوں سے لدا ہوا اپنے لگانے والے کی عظمت پر کائنات کو مسلسل گواہ بناتا چلا جا رہا ہے. 

مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا قیام 1875 میں اور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج 1878 میں قائم کیا گیا تھا جو بتدریج ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا. اسے سر سید کی جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب کی تعبیر کہا جا سکتا ہے. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سو سال مکمل ہونے پر میری یہ سلسلہ وار تحریر سر سید کی بارگاہ میں نذرانہئہ عقیدت ومحبت کی حیثیت رکھتی ہے.

سر سید کے ساتھ زندگی میں اور انتقال کے بعد بھی نادان دوستوں اور دانا دشمنوں کی زیادتیوں کا سلسلہ دراز رہا ہے. بد ترین زیادتیوں میں ایک یہ ہے کہ انہیں "دو قومی نظریہ” کا خالق قرار دیا جاتا ہے. بد قسمتی سے میں بھی عرصہ دراز تک اس غلط فہمی کا شکار رہا. وجہ یہ تھی کہ متعدد بڑے نامی گرامی قلم کار ایسا لکھتے چلے آ رہے ہیں جن کی نسبت غلط بیانی کا خیال مشکل سے ہی آ سکتا ہے. ناگوار حیرت تب ہوئی جب دیکھا کہ "ویکی پیڈیا” نے بھی سر سید کے "Notable Ideas” کے تحت ” Two Nation Theory” کو شامل کیا ہے. کوئی بھی شخص اپنے ذاتی خیالات کی ترجمانی دوسروں کی بہ نسبت اپنی زبانی بہتر طریقے سے کرتا ہے. سر سید کی زبان سے بہتر ان کے عہد میں اور کس کی زبان تھی جو یہ دعوی کر سکے کہ فلاں تحریر یا تقریر میں سر سید نے یہ نہیں؛ یہ کہنا چاہا ہے. سر سید اور ان کے رسالہ "تہذیب الاخلاق” نے تو اہل علم کو بولنا لکھنا اور پڑھنا لکھنا سکھایا ہے. یہ کیوں کر قبول کیا جا سکتا ہے کہ کوئی سر سید کے منہ میں اپنی زبان رکھ دے اور کہے کہ یہ سر سید کی بات اور ان کا نظریہ ہے. قومی وحدت کے سلسلے میں سر سید کے نظریات خود ان کے اپنے الفاظ میں حسب ذیل ہیں:
"قوم کا لفظ ملک کے باشندوں پر بولا جاتا ہے. گو ان میں بعض خصوصیتیں بھی ہوتی ہیں. اے ہندو مسلمانوں! کیا تم ہندوستان کے سوا کسی اور ملک کے رہنے والے ہو؟ کیا اسی سر زمین پر تم دونوں نہیں بستے؟ کیا اسی سر زمین پر تم دفن نہیں ہوتے؟ اسی زمین کے گھاٹ پر جلائے نہیں جاتے؟ اسی پر مرتے ہو اور اسی پر جیتے ہو. تو یاد رکھو کہ ہندو اور مسلمان ایک مذہبی لفظ ہے. ورنہ ہندو، مسلمان اور عیسائی بھی جو اس ملک میں رہتے ہیں اس اعتبار سے سب ایک ہی قوم ہیں”.

دوسرے مقام پر قومی وحدت کو بیان کرتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں:

"میرے نزدیک یہ امر چنداں لحاظ کے قابل نہیں ہے کہ ان کا (ہندووں اور مسلمانوں کا) مذہبی عقیدہ کیا ہے. کیوں کہ ہم ان کی کوئی بات نہیں دیکھ سکتے. لیکن جو بات ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم سب خواہ ہندو ہوں یا مسلمان ایک ہی سر زمین پر رہتے ہیں. ایک ہی حاکم کے زیرِ حکومت ہیں. ہم سب کے فائدے کے مخرج ایک ہی ہیں. ہم سب قحط کی مصیبتوں کو برداشت کرتے ہیں. یہی مختلف وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں ان دونوں قوموں کو جو ہندوستان میں آباد ہیں ایک لفظ سے تعبیر کرتا ہوں کہ ہندو یعنی ہندوستان میں رہنے والی قوم”.

ایک اور تقریر کے الفاظ یہ ہیں:

"اب ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے. ہندوستان ہی کی ہوا میں ہم دونوں جیتے ہیں. مقدس گنگا جمنا کا پانی ہم دونوں پیتے ہیں. ہندوستان ہی کی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں. مرنے میں جینے میں دونوں کا ساتھ ہے. ہندوستان میں رہتے رہتے دونوں کا خون بدل گیا ہے. دونوں کی رنگتیں ایک سی ہو گئی ہیں. دونوں کی صورتیں بدل کر ایک دوسرے سے مشابہ ہو گئی ہیں. مسلمانوں نے ہندووں کی سینکڑوں رسمیں اختیار کر لیں. ہندووں نے مسلمانوں کی سینکڑوں عادتیں لے لیں. یہاں تک کہ ہم دونوں نے آپس میں مل کر ایک نئی زبان اردو پیدا کر لی جو نہ ہماری زبان بھی نہ ان کی.

اے میرے دوستو! میں نے بارہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے. جس کی دو خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں. اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیں گے تو ہماری دلہن بھینگی ہو جائے گی. اگر ایک دوسرے کو برباد کریں گے تو کانڑی ہو جائے گی. پس اے ہندوستان کے رہنے والے ہندو مسلمانو! اب تم کو اختیار ہے کہ اس دلہن کو بھینگا بناؤ چاہو (یا) کانڑا”.

مسلم دانشوروں نے سر سید کے قومی نظریہ کو سمجھنے میں شاید اس لیے ٹھوکر کھائی ہے کہ بعض وجوہات کی بنا پر انہوں نے کانگریس کی مخالفت کی تھی اور دوسری وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ سر سید نے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی. کالج کے قیام سے لے کر اپنے انتقال 1898 تک دو سو سے زیادہ ہندو طلبہ کو کالج سے تعلیمی اسناد دے کر انہوں نے ایک شبہ کا ازالہ اپنی زندگی میں ہی کر دیا تھا، رہی بات کانگریس مخالف ہونے کی تو اس کے پیچھے کوئی مذہبی جذبہ نہیں تھا بلکہ محض سماجی اور معاشی اندیشے تھے جن کا انہوں نے اظہار بھی کر دیا تھا. مخالفت بھی کانگریس کے وجود سے نہیں تھی بلکہ اس کی بعض پالیسیوں سے تھی. غالب گمان ہے کہ جن بنیادوں پر انہوں نے کانگریس سے اختلاف کیا تھا اگر کچھ اور زندہ رہتے تو مسلم لیگ کی پالیسیوں سے بھی ان کو اختلاف ہو جاتا. ایک ٹکڑے پر قناعت نہ کرتے، آدھی جنت اور آدھی جہنم جیسا کہ مسلم لیگیوں کا خیال تھا وہ کبھی قبول نہیں کر پاتے.

تبصرے بند ہیں۔