سزا کا اعلان مگر چبا چبا کر

حفیظ نعمانی
کون ہے جس کے پاس قلم ہو اخبار ہواور پڑھنے والے اسے محبت سے پڑھتے بھی ہوں وہ اتنے اہم حادثہ کے بعد خاموش بیٹھا رہے ؟کئی دن پر انی بات ہے جب گلبرگ سوسائٹی احمدآباد کے کلیجہ پھاڑ دینے والے واقعہ کے مقدمہ میں 26مجرموں کو سزا دینے کا اعلان کیا گیا تھا اور باقی کو بے گنا ہ مان کر چھوڑ دیا گیا تھا ۔ہمارے دوستوں نے لکھا تھا کہ ادھورا انصاف ہے ۔انکا خیال تھا کہ کم از کم جن کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا انکو تو سب کو کم یا زیادہ سزا دیدی جانی چاہئے تھی ۔اور ہم نے پروردگار کا شکر ادا کیا تھا کہ مسلمانوں کو وہ چاہے زیادہ ہوں یا کم مارنے کے جرم میں آزاد ہندوستان میں ہندو کوسزا دینے کی کسی جج نے ہمت تو کی ؟اور درجنوں ان واقعات کی طرف اشارہ کیا تھا جن میں سزا دینا تو بڑی بات ۔سزا دینے کے بارے میں کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اور یہ واقعہ ہے کہ اگر کم از کم ان 26کو جنکو سزا دینے کے اعلان اور سزا کے دن کے اعلان میں ایک ہفتہ لگ گیا ۔اسکے بعد کہا گیا کہ 11کو عمر قید ایک کو 10سال اور باقی کو سات سات سال کی سزا دی گئی۔
قانون کی دفعات سے کم واقفیت کے باوجود اتنا تو معلوم ہے کہ سات سال کی سزا عام طور پر اقدام قتل کے مجرم کو دی جاتی ہے ۔اب یہ تو جج صاحب کو ہی معلوم ہوگا کہ گلبرگ سوسائٹی کا جو مقدمہ انکے سامنے آیا ان میں مرنے والے کم اور زخمی زیادہ تھے جسکی تحقیق کرلی گئی ۔ملک کی ایک بہادر خاتون اپنی پیرانہ سالی کے باوجود بیگم حضرت محل کی طرح اگر تلوارہاتھ سے نہ پھینکتیں ۔اور 14سال تک مسلسل انصاف کے لئے نبرد آزما نہ رہی ہوتیں تو شاید گلبرگ سوسائٹی کے بارے میں بھی وہی ہوتا جو 1993میں ممبئی میں ہوا کہ دو ہزار مسلمانوں کے قتل ان سے بہت زیادہ زخمی ہونے اور شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق نو سو سے زیادہ مسلمانوں کے قتل دو سو کروڑ سے زیادہ کی انکی جائداد لوٹنے کے الزام میں کسی کو ایک دن کی سزا بھی نہیں ہوئی اور شاید مقدمے بھی اگر چلے تو وہ دو قدم بھی شاید اسلئے نہ چل سکے کہ مرنے اور زخمی ہونے والے سب کے سب یا 95فیصدی وہ تھے جنہیں شیو سینا اتر باسی کہتی ہے ۔اور ان میں کوئی ذکیہ جعفری نہیں تھی۔
اس فیصلہ میں ایک بات پہلی بار سامنے آئی ہے کہ گلبرگ سو سائٹی کی عمارتوں میں جو کچھ ہوا ان میں احسان جعفری صاحب کے اس دن اکسا دینے والی فائرنگ کے نتیجہ میں ایک ہندو کی موت ہوگئی تھی اور 15زخمی ہوئے تھے ۔یعنی ابتدا احسان جعفری صاحب نے ہندو کو مار کر کی ۔اسکے بعد مسئلہ حملہ کا نہیں بلکہ رد عمل کا ہوگیا ۔اور ظاہر ہے کہ سب کچھ گودھرا میں ٹرین کی بوگی کا ہی رد عمل تھا ۔احسان جعفری نے فائرنگ کرکے مجمع کو اکسا دیا ۔اگر وہ فائرنگ نہ کرتے تو وہ ہزاروں غنڈے جنہیں جج صاحب نے بار بار یہ کہہ کر معصوم بتایا کہ یہ عادی مجرم یا پیشہ ور مجرم نہیں تھے ۔یعنی انہیں بھی صرف اس بات پر غصہ آیا کہ احسان جعفری صاحب نے فائرنگ کیوں کی ؟اور اگر جعفری صاحب حیات ہوتے تو ہم انکا ہاتھ پکڑ کر شکایت کرتے کہ گجرات کے سیاسی لیڈر ہوتے ہوئے آپ نے کیوں نہیں سمجھا کہ ہزاروں کی یہ بھیڑ ہار پھول پہنانے نہیں آئی ہے بلکہ جان لینے آئی ہے ۔اور کیوں انھوں نے سارے کارتوس سینوں پر نہیں مارے بلکہ صرف یہ چاہا کہ زخمی کر دیں ۔؟
عدالتوں کے فیصلوں پر تبصرہ تو ہین عدالت نہیں ہے ۔اسلئے ہم عدالت کے اس فیصلہ کو نہیں سمجھ سکے کہ گلبرگ سوسائٹی کے اتنے سنگین حادثہ کو جج صاحب نے منصوبہ بند نہیں مانا ۔یہ اس لئے منصوبہ بند تھا کہ ہر مقامی ہندو جانتا تھاکہ احسان صاحب نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں ۔اور کانگریسی ہیں ۔ہر کوئی سمجھتا تھا ۔اور اسے سمجھنا چاہئے تھا کہ جب کوئی احتجاجی آفت آتی ہے تو غریب اور کمزور لوگ محلہ کے بڑے کی پناہ میں یہ سوچ کر آجاتے ہیں کہ مار دھاڑ میں بڑے آدمیوں کو کوئی نہیں مارتا ۔محترم جج صاحب ملک کے سیکڑوں فساد کی تاریخ پڑھ لیں انہیں معلوم ہوجائیگا کہ ہر جگہ یہ کہا گیا ہے کہ ہر جگہ غریب غربا اور بے سہارا مارے جاتے ہیں ۔پورے گجرات میں اور کہیں منصوبہ بند ہوا ہو یانہ ہواہو گلبرگ سوسائیٹی کا تو اس لئے منصوبہ بند تھا کہ مقصد صرف احسان جعفری صاحب کو ہی راستے سے ہٹا نا تھا ۔جیسے اور بھی بی جے پی مخالف چند بڑے راستے سے ہٹا دئے گئے ۔محترم جج صاحب کو یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ نہ جانے کتنے کمزور لوگ یہ سوچ کربڑے پیڑ کے نیچے آکر بیٹھ گئے تھے کہ جو آفت آئے گی یہ پیڑ اپنے اوپر لے لے گا ۔لیکن جن لوگوں نے پیڑ کو ہی جڑ سے کا ٹ دیا تو کیا وہ کم درجہ کے مجر م تھے ؟ہو سکتا ہے ان میں سے شاید چند ایسے نہ مرتے جو اپنے گھر میں بند بیٹھے رہتے ۔؟
سوشل میڈیا نے بڑے درد کے ساتھ معلوم کیاہے کہ کیا موت کی سزا صرف مسلمانو ں کے لئے ہے ۔؟یہ اتنا چبھتا ہوا سوال ہے جسکا جواب یا حکومت دے سکتی ہے یا عدالت کوئی اخبار میں لکھنے والا اور وہ بھی مسلمان اسکا کیا جواب دے ؟جو خود یہ دیکھ رہا ہے کہ بات ہندو اور مسلمان کی نہ ہوتب بھی سپریم کورٹ کی سزا کو بحال رکھے ۔اور صدر جمہوریہ رحم کی درخواست خارج کردیں تب بھی کوئی نہ کوئی بہانہ ایسا بنا لیا جاتا ہے کہ سزا عمر قید میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟یہ تو حکومت جانے لیکن ایسا اسوقت بھی ہو رہا تھا جب سونیا گاندھی کی حکومت تھی اور آج بھی ہورہا ہے جب امت شاہ کی حکومت ہے۔
محترم زکیہ جعفری نے دکھ کا اظہار کیاہے ۔اور کہا ہے کہ سب کو عمر قید کی سزا ہو نا چاہئے تھی انکے بیٹے نے کہا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ معاملہ کا حل ہوگیا ۔لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ کچھ ملزموں کو مجرم کیوں نہیں ٹھہرایا گیا ۔؟انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس معاملہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے ۔احسان صاحب کے فرزند تنوی جعفری نے یہ بھی کہا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ متاثرین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں سب سے زیادہ بے رحم قتل عام تھا ۔اور ملک بھر میں یہ پیغام جانا چاہئے کہ قانون ایسی چیز وں کو برداشت نہیں کریگا ۔اور ہمیں یہ کہنا ہے کہ قانون تو کتاب میں چھپے ہوئے اور اق ہیں اور وہ اوراق جن کے ہاتھ میں ہیں وہ قدم قدم پر ثابت کررہے ہیں کہ اگر معاملہ مسلمانوں کا ہوتو قانون بھی خاموش رہے گا اور قانون والے بھی چپ رہیں گے ۔اس میں بہت بڑا دخل اس کو ہے کہ انصاف کی عمارت میں بنیادی پتھر سے لیکر سب سے اوپر گنبد تک جو کوئی بھی ہو مسلمان نہیں ہیں ۔اگر صورت حال ایسی ہی رہتی جیسی 15اگست 1947سے پہلے تھی تو وہی ہوتا جو جعفری صاحب کے فرزند نے کہا ہے ۔اور گلبرگ سوسائیٹی میں جو بھی ہوا وہ ہندوستان میں سیکڑوں قتل عام میں پہلی بار ہوا ہے ۔خدا کرے کہ اب کچھ نہ ہو ۔اور اگر ہو تو عدالتیں اور زیادہ ہمت دکھائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔