ملک اور تعلیم کو بھگواکرن کرنے کا بھگوا منصوبہ

عبدالعزیز
مرکز میں کوئی سیکولر اور جمہوری حکومت نہیں ہے بلکہ بھگوا حکومت ہے اور اس کا بھگوا منصوبہ اب کوئی پوشیدہ نہیں ہے۔ فروغ انسانی وسائل اور ترقی کے وزیر مملکت رام شنکر کھتری نے لکھنؤ یونیورسٹی کے ایک اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے گزشتہ اتوار کو کہاکہ تعلیم کابھی بھگوا کرن کیا جائے گا اور ملک کا بھی بھگوا کرن ہوگا، خواہ وہ بھگوا کرن ہو یا سنگھواد ، جو بھی دیش کیلئے اچھا ہوگا وہ کیا جائے گا۔
آر ایس ایس یا بی جے پی کا کھلا ہوا ایجنڈا ہے کہ وہ ملک کو ہندو دیومالائی تہذیب اور تعلیم سے مرصع کریں گے۔ ان کے نزدیک ان کے پرکھوں کی جو تہذیب اور تعلیم ہے وہی اعلیٰ و ارفع ہے، اس کی واپسی کی ضرورت ہے۔ سبرامنیم سوامی، ساکچی مہاراج، آدتیہ ناتھ جیسے لوگ بھگوا حکومت اور بھگوا تہذیب کے سب سے بڑے ترجمان و علمبردار ہیں۔ یہ لوگ گالی گلوچ کو بھی بھگوا کرن کا حصہ سمجھتے ہیں۔ راجستھان کے وزیر تعلیم گلاب چند کیتھری نے اپنے ایک بیان میں گزشتہ روز کہاکہ جب سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ امریکہ جاتے تھے تو کوئی پوچھتا نہ تھا اور کسی ایرے غیرے کو امریکن انتظامیہ ہوائی اڈہ بھیج دیتی تھی۔ اب جب سے نریندر مودی امریکہ جانے لگے ہیں تو براک اوبامہ خود انھیں ایئر پورٹ سے لینے آتے ہیں۔ موصوف راجستھان کے وزیر داخلہ ہیں اور کانسٹبل پولس کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ بعد میں انھوں نے اپنی بدتہذیبی کیلئے معذرت بھی کی ہے اور کہاہے کہ ایسی بدتمیزی وہ اسمبلی میں کرجاتے ہیں۔ مودی جی نے وزیر اعظم بننے سے پہلے مسلمانوں کو ’کتے کا پلہ‘ کہا تھا جب کسی نے ان سے پوچھا کہ میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا اس سے انھیں دکھ اور افسوس نہیں ہے۔ جواب میں موصوف نے کہاکہ گاڑی کے نیچے ’کتے کا پلہ‘ بھی آجاتا ہے تو افسوس اور دکھ ہوتا ہے۔
جنرل وی کے سنگھ مودی جی کے وزیروں میں سے ہیں۔ انھوں نے ہریانہ کے دو دَلت بچے کو گھر کے اندر جلا دیئے جانے پر رد عمل میں کہا تھا کہ کتا بھی جلتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے تو حکومت کیا کرسکتی ہے۔ دہلی میں سنگھ پریوار کی ایک خاتون سادھوی پراچی نے مسلمانوں کو رام زادہ اور حرام زادہ کہہ کر خطاب کیا تھا۔ ظاہر ہے بھگوا تعلیم کا اثر سنگھیوں پر ہے۔ جو پیالہ میں ہے وہی ٹپک رہا ہے۔ اسی طرح کا بھگوا کرن بھگوا حکومت ملک و قوم، تعلیم اور ہر شعبہ حیات میں کردینا پسند کرتی ہے۔ تاریخ میں بھی بیجا تبدیلی کی خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں اور گلیوں کے نام بدلنے میں بھی بڑی سرگرمی دکھائی جارہی ہے۔ شیوا جی اور مہارانا پرتاپ سنگھ کے نام نامی پر ہر سڑک اور گلی کا نام رکھا جا رہا ہے۔ گروگولوالکر، ساورکر کے نام بھی ہر چیز میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کے نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں جو تکثیریت (Plurity) یا سیکولر ذہن رکھتے تھے۔ خاص طور سے گاندھی اور نہرو کے نام سے بھی انھیں چڑ ہے۔ ان کے ناموں کو بھی اسکولی نصاب اور سڑکوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ سبرامنیم سوامی نے 2011ء میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’برہید ہندو سماج (بڑا ہندو سماج) مسلمانوں کو اسی وقت ہندستان میں برداشت کرے گا جب ہندو سنسکرتی اور وراثت کو تسلیم کریں گے کیونکہ ان کے پرکھے بھی ہندو تھے جو لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے ایسے باہری لوگوں کو ہندستان کے شہری کے طور پر نہ اندراج کیا جائے گا اورنہ ہی ان کو ووٹ دینے یا ملک کی نمائندگی کرنے کا حق دیا جائے گا؟‘‘
نریندر مودی کے نو رتنوں میں سے اس وقت امیت شاہ کے بعد سب سے بڑے سبرامنیم سوامی ہیں۔ ان کو ان کے بکنے اور بھونکنے کا انعام راجیہ سبھا کی ایک سیٹ پیش کرکے دیدیا گیا ہے، تاکہ وہ راجیہ سبھا میں بھی اپنے بھگوا کرن کا مظاہرہ کریں۔ اب مودی جی کے ایسے چیلوں کی کمی نہیں ہے جو زعفرانیت کی بات نہ کرتے ہوں ۔ مودی جی اب آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’ہم پانچ ہمارے پچیس‘‘۔
ایسے لوگ جو ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں بحث کرتے ہیں کہ بی جے پی ایک نارمل سیاسی جماعت ہے اور گولوالکر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ان کو سبرامنیم سوامی اور ساکچی مہاراج کے بیانات کو پڑھنا چاہئے۔ سمجھنا چاہئے کہ کیا بی جے پی ایک نارمل پارٹی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو ماحول الیکشن کے موقع پر ہوتا ہے یہ ’اب نارمل‘ پارٹی پیدا کرتی ہے۔ فساد کراکے، فتنہ انگیزی پھیلا کر کے وہ انتہائی انسانیت سوز ماحول پیداکرتی ہے۔ اب اتر پردیش کے اسمبلی الیکشن سے پہلے کیرانہ جہاں کبھی بھی فساد نہیں ہوا وہاں ہندوؤں کے دو تین خاندانوں کے باہر جانے سے بی جے پی اس مسئلہ کو رائی کا پہاڑ بناکر پورے اتر پردیش میں فساد برپا کرنے پر آمادہ ہے۔ سماج وادی پارٹی بھی انھیں جس طرح لوک سبھا کے حالیہ الیکشن سے پہلے مظفر نگر میں فساد کرنے کی چھوٹ دے رکھی تھی اسی طرح چھوٹ دے رکھی ہے۔ سماج وادی پارٹی کوبھی یہی چیز سوٹ کرتی ہے کیونکہ مسلمان بی جے پی کے خوف سے ’’مولانا ملائم ‘‘ کو ووٹ آسانی سے دے دیں گے۔ بی جے پی کو بھی ہندوؤں کا یکطرفہ ووٹ مل جائے گا۔ عموماً ہر ریاست میں بی جے پی اسی قسم کا ماحول الیکشن سے پہلے پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی کا نام بھگوا کرن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔