سعودعثمانی: کہتاہے ہراک بات مگرحسنِ ادب سے

نایاب حسن

 احساس کا جمال،فکرکی روشنی،خیال کی ندرت،طرزِبیان کی جودت و جدت اور روایت کوروح کی گہرائیوں میں جذب کرکے عقل و عشق کی گاہے سنگلاخ اور گاہے پرکیف وادیوں میں سفر کرنابڑے جگر کاکام ہے، ہمارے عہدکے ادیبوں ،شاعروں ،خوش خیال فن کاروں اورباکمال تخلیق کاروں میں ایسے سعید اشخاص کی گنتی انگلیوں پرکی جاسکتی ہے،جو’’جام وسنداں باختن‘‘کے جاں کاہ ہنرسے واقف ہوتے ہیں، عموماً شاعریاتوروایت پسندی کی تنگنائیوں سے نکل نہیں پاتے یاجدت طرازی اور ندرت آرائی کی دھن میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے رہتے ہیں ،ادھرنئی نسل کے ذہن کی ساخت ایسی ہوچلی ہے کہ ہر نئے اور عام دھرے سے ہٹے ہوئے فن پارے، شعری یانثری تخلیق پرٹوٹ پڑتی ہے، سمجھنے سوچنے کا مرحلہ بعد میں آتاہے یا آتاہی نہیں ہے،محض وجدان کے زور پرسرورولطف کی بزمیں سجائی جاتی ہیں۔

ایسے میں اگر کوئی سعود عثمانی ہماری نگاہ سے گزرے، توقلب و ذہن پر ایک خوشگوارسی حیرت طاری ہوجاتی ہے، ان کی شاعری میں روایت سے لگاؤکے ساتھ ندرتِ فکروخیال کاایسابہاؤہے کہ قاری و سامع عش عش کیے بغیر نہیں رہ سکتا،ان کی شاعری قوسِ قزح کے سات رنگوں کومحیط،بارش کی جمال انگیزپھواروں میں دھلی ہوئی اورگھنیرے اشجارجیسی سایہ داروہوابار ہے،سیاہیوں سے زرتاردھاریاں بنانے کا ہنرانھیں خوب آتاہے۔پہلی باران سے آگاہی ان کے شعری مجموعہ’’بارش‘‘ کی وساطت سے سات آٹھ سال قبل ہوئی، تب اس مجموعے کی تخلیقی کشش و جمال سے زیادہ ظاہرِ کتاب کی آرایش و زیبایش میرے لیے دامن کشِ دل ونگاہ تھی، کتاب کے ٹائٹل سے لے کر اندرون کے صفحات تک میں ایسی جاذبیت تھی کہ اسے پڑھنے سے پہلے باربارالٹاپلٹا اور طالب علمانہ جیب خرچ کے محفوظے سے کتاب پردرج قیمت سے دوگنی قیمت میں خریدنے کے باوجودایسا محسوس ہوا گویا گنجینۂ گہر ہاتھ  لگ گیاہو، پھرکتاب پڑھی اور اول تاآخر باربار پڑھی،سب کچھ توسمجھ میں نہ آیا، مگرجوآیا، وہ ایسا کہ ذہن میں پیوست ساہوگیا:

یہ جومیں اتنی سہولت سے تجھے چاہتاہوں

دوست!اک عمرمیں ملتی ہے یہ آسانی بھی

ایک اورشعر:

میں صرف محبت کا طلب گار تھالیکن

اس میں توبہت کام اضافی نکل آئے

ابھی عیدکی چھٹیوں کے دوران جب گھرمیں موجود کتاب دانوں کوکھنگالاتوان میں پھرسے’’بارش‘‘پرنگاہ پڑی اور جم سی گئی،کتاب نکالی،یادوں سے مصافحہ اور خوابوں سے معانقہ کرتے ہوئے کتاب کا پہلاورق پلٹا،جس پر’’بارش‘‘کی وجہ تسمیہ کی طرف بلیغ اشارہ کرتی ہوئی نہایت ستھرے خط میں لکھی سورۂ شوریٰ(آیت:28)کی یہ آیت درج تھی’’اوروہی توہے جو(لوگوں کے)ناامیدہوجانے کے بعدبارش برساتاہے اوراپنی رحمت(یعنی بارش کی برکت) کوپھیلا دیتا ہے اوروہی کارسازاور تعریف کے لائق ہے‘‘۔ پھراقبال گویاتھے:

پیشِ تونہادہ اَم دلِ خویش

شایدکہ توایں گرہ کشائی

پھرقدرے دھندلے،مگردلکش رسم الخط میں لکھے ہوئے اشعارِ انتساب:

یہ لفظ جس کی عطاہیں اس ایک نام کے نام

ہراک ستارۂ روشن،ہرایک خواب کے نام

ابھی جولکھی نہیں ہے،اسی کتاب کے نام

سفرکے نام،مسافت کے نام،خواب کے نام

جھلستے دشت میں بارش کے انتظارکے نام

بارش !تیرے سفرکے نام

کھاراپانی میٹھاکرتے ہیں خاموش ہنرکے نام

کسی شعری مجموعے کی آغازکاری کایہ لطیف وانوکھااندازخال ہی نظرآئے،پھرجب آغازمیں ایسی دلکشی ہو،تواندرون میں کیسے کیسے تابدارگہرچھپے ہوں گے،اس کا اندازہ کیاجاسکتاہے۔حمدیہ اشعار،جہاں سے اس کتاب کا باضابطہ آغازہواہے،نہایت دلفریب،معنی خیزاورباری تعالیٰ کے بے پناہ الطاف و عنایات کے حسنِ اعتراف کی خوب صورت مثال ہیں :

طواف کرتاہوا، استلام کرتاہوا

میں شہرِ وجدمیں ہوں صبح و شام کرتاہوا

کھڑاہوں اپنے ہی سایے کی جانمازپہ میں

نمازِشکرمیں دل کوامام کرتاہوا

ترے حضورمجھے لے کے آن پہنچاہے

یہ سجدہ مجھ میں مسلسل قیام کرتاہوا

آج کل کے جومشہورِروزگاراور عالمی قسم کے شعراہیں ،ان کے یہاں بھی یہ شکایت عام ہے کہ ان کے شعری ذخیرے میں بھرتی کے اشعارزیادہ اور کام کے اشعار کم ہوتے ہیں ،مگراسے فنی کمال،شعوروادراک کی پختہ کاری اور تخلیقی تحرک کاکرشمہ سمجھناچاہیے کہ سعود عثمانی کی غزلوں اورنظموں میں سے اچھے اشعارکی کھوج تلاش نہیں کرناپڑتی؛حالاں کہ ان کے یہاں الفاظ کی بہت زیادہ جگل بندیاں بھی نہیں ہیں ،ترکیبوں اور تعبیروں کی تراش خراش پربھی زورایک حد تک ہی ہے،مگرقدرت نے انھیں ایسی قوتِ تخلیق سے نوازاہے کہ سادہ الفاظ بھی ان کے ناخنِ تخلیق میں آکرمعنویتوں کی کائنات بن جاتے ہیں :

ایک معیارمستقل رکھنا

دردشایانِ شانِ دل رکھنا

کتنی آساں ہے صبر کی تلقین

کتنامشکل ہے دل پہ سِل رکھنا

شاعری اور کاروبارسعود

کانچ اور آنچ متصل رکھنا

 سعودعثمانی کی شاعری میں ایسی لطافت اورتارِدل کو چھیڑنے کی قوت وصلاحیت ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ان کے شاعرانہ کمال کاقائل ہوئے بغیر نہیں رہاجاسکتا۔بعض دفعہ جب شاعرکوئی شعر کہتاہے اور اسے کوئی شخص سنتایا پڑھتاہے،تواسے فوری طورپرلگتاہے کہ یہ تو میری سرگزشت یا میرے دل کی واردات ہے،جو اس فن کار نے بیان کردی ہے،ایسے شاعر کے اشعارچوں کہ بہت سے انسانوں کے دلوں کی آوازاور ان کے محسوسات کے ترجمان ہوتے ہیں ،سووہ بتدریج کتابوں کے ذریعے یا براہِ راست شاعر کی زبانی سن کر یا دیگر واسطوں سے لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتے ،حتی کہ ضرب المثل بن جاتے ہیں ،یہ خوبی ماضی کے استادشاعروں سے قطع نظر کرتے ہوئے عصر حاضر میں گلزاریا کلیم احمدعاجزوغیرہ کی شاعری میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے،ان کے اشعار کی سادگی،بے تکلفی،بے ساختہ پن اور فکر و نظر کی صداقت و دلکشی نے ان کے کلام کو نقشِ دوام کی حیثیت دے دی ہے،سعودعثمانی کی شاعری میں بھی یہ صلاحیت پوری قوت اور خوبصورتی کے ساتھ پائی جاتی ہے،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاکے اس دورمیں فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ وغیرہ پران کے بہت سے اشعارتواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں ،وہ خودبھی اس نئی عنکبوتی دنیاکے باسی ہیں اورسرگرمی کے ساتھ اپنی نئی شعری تخلیقات سے قارئین کو حظ اٹھانے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں ۔

      ’’بارش‘‘ان کا دوسراشعری مجموعہ ہے،جوپہلی بار2007ء میں شائع ہواہے،اس سے پہلے1997ء میں ’’قوس‘‘کے نام سے پہلا شعری مجموعہ شائع ہواتھا،جسے اُس سال کاپہلاوزیر اعظم ادبی ایوارڈبھی حاصل ہواتھا،ان کا تیسراشعری مجموعہ ’’جل پری‘‘کے نام سے اکتوبر2016ء میں منظرِعام پرآیاہے۔سعودعثمانی کی شخصیت یاان کی سیرت و زندگی کے بارے میں ہمیں زیادہ علم نہیں، اتنا معلوم ہے کہ وہ پاکستان کے معتبرترین علمی و مذہبی خانوادے سے تعلق رکھتے اور عالمِ اسلام میں مشہورومقبول اسلامی سکالر مولانا محمدتقی عثمانی کے برادرزادے ،لاہورمیں مقیم اورپاکستان کے روزنامہ اخبار92 نیوزمیں ’’دل سے دل تک‘‘ کے عنوان سے مختلف علمی،ادبی وسماجی موضوعات پربڑے وقیع کالم لکھتے ہیں ،جنھیں اربابِ ذوق کے حلقوں میں دلچسپی سے پڑھا اور سراہا جاتاہے۔ سعود عثمانی کے والدزکی کیفی باکمال شاعر تھے اور یقیناً سعود عثمانی کی ذات و فکرمیں شاعری کے عناصرجینیٹک طورپربھی پائے جاتے ہوں گے۔ان  کی شاعری جب نوے کی دہائی میں ادبی و شعری منظرنامے پر ہویداہوئی، توانھوں نے بہت جلد اصحابِ ذوق و استادانِ فن کی توجہ کواپنی جانب مبذول کرلیا،ان کی شاعری میں، ان کے شعری خیال میں ،طرزِبیان و پیرایۂ اظہارمیں وہ سحرناکی،لطافت و شیرینی اور ساتھ میں جدت و ندرت تھی کہ یکلخت لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے،امجداسلام امجدنے ان کی کتاب ’’قوس‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے ان کی علمیت،شعور کی مہک،روایت و جدت کوبخوبی طورپربرتنے کے ہنراوراسالیبِ سخن کے اچھے،معیاری اور مستقبل گیرعناصرکے انتخاب کرنے پران کی تحسین کی،ڈاکٹرخورشیدرضوی نے لکھا ’’اردوغزل کے جدید تر نمایندوں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جوسعود عثمانی کی نفاستِ کلام کو پہنچ سکتے ہیں ،سعود عثمانی نے ثابت کیاہے کہ شعر ظاہر کے تجربوں سے نہیں ،باطن کے ولولوں سے زندہ رہتاہے۔۔۔۔۔۔اس کے زندہ لمس سے خوابیدہ الفاظ اور غنودہ ترکیبیں جاگ اٹھی ہیں اور ان میں زندہ مفاہیم لودینے لگے ہیں‘‘۔ معروف شاعرشہزاداحمدنے سعود عثمانی کوایک ایسا چشمۂ رواں قراردیاجو صاف شفاف بھی ہے اور اپنے اردگرد روئیدگی کا باعث بھی۔ ’’بارش‘‘ پراپنے تاثرات تحریرکرتے ہوئے اردودنیاکے معروف ناقدومحقق مشفق خواجہ کاحسنِ اعتراف یہ تھاکہ’’میراحاصلِ مطالعہ مسرت بھی ہے اور حیرت بھی۔ مسرت اس بات کی کہ اس کا کوئی صفحہ ایسا نہیں ہے ،جودامن کشِ دل نہ ہو اور حیرت اس پر کہ ایسا شاعر کہاں سے آگیا،جس نے غزل کے مستقبل سے میری مایوسی کوحرفِ غلط کی طرح مٹادیا،اب میں غزل کے مستقبل سے پر امید ہوں ۔کلاسیکی روایت کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی منفرد انداز اختیار کرنا ناممکنات میں سے ہے،آپ نے کیسی آسانی سے اس ناممکن کو ممکن بنادیا!‘‘

 یقیناً ہم جب سعودعثمانی کی شاعری سے روبروہوتے ہیں، توایسا محسوس ہوتاہے کہ اس کے اندر ایک مقناطیسی صلاحیت  ہے، جوہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ ان کے شعری موضوعات اور جہتوں میں بھی بے پناہ تنوع ہے ، بطورِ خاص اپنی ذات کے اندرون و بیرون کی دریافت اور عرفانِ خودی کے حوالے سے سعودعثمانی کے اشعارکچھ الگ پہلووں سے آشناکرواتے ہیں، ان کے اس قسم کے اشعارمیں ایک طلسماتی ٹائپ کی کشش اور دل نشینی توہے ہی،مگران کے ذریعے سے انسانی شخصیت کے درون وبیرون سے متعلق جن احوال کی نشان دہی کی گئی ہے،ان سے ہر انسان کو گزرنا ہوتاہے اور یہ کیفیتیں زندگی کے مختلف مراحل میں ہم میں سے ہرایک پرنازل ہوتی ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ کسی کو ان کیفیات کا احساس وادراک ہوتاہے اور کسی کونہیں ،ملاحظہ کیجیے:

تلاش کرتی ہوئی آنکھ کی تلاش میں ہوں

کوئی توشکل ہودنیامیں ہوبہومیری

مرے لیے تویہ دنیامرے وجودسے تھی

نہیں رہاتوزمین آسمان بھی نہ رہے

میں اپنے ساتھ بہت دور جانکلتاہوں

اگرکبھی مجھے فرصت ذرابھی ملتی ہے

خواہش ہے کہ خودکوبھی کبھی دورسے دیکھوں

منظرکانظاراکروں منظرسے نکل کر

زمانہ بیچ سے جب ہم ہٹارہے تھے سعود

خبرملی کہ وہیں درمیان میں ہم تھے

دیوارپہ رکھاہوامٹی کا دیامیں

سب کچھ کہااوررات سے کچھ بھی نہ کہامیں

اس دکھ کوتومیں ٹھیک بتابھی نہیں پاتا

میں خود کومیسرتھامگر مل نہ سکامیں

اک جسم میں رہتے ہوئے ہم دور بہت تھے

آنکھیں نہ کھلیں مجھ پہ ،نہ آنکھوں پہ کھلامیں

’’شجر‘‘سعودعثمانی کی شاعری کے ترکیبی اجزامیں غیر معمولی اہمیت رکھتاہے اور وہ اس کی مختلف حالتوں کوالگ الگ انسانی کیفیات اور ذہنی ،خیالی اورحقیقی سرگزشتوں کے اظہار کے لیے بطوراستعارہ استعمال کرتے ہیں ، درخت کی ہریالی ہویااس کا گھناپن،اس کا سایہ ہویااس کابھیگاتن،اس کی خوش لباسی ہویاعریانی ؛سب میں انھیں ایسی تمثیلات مل جاتی ہیں ،جو انسانی زندگی کے خم و پیچ،نشیب و فرازاور احوال وواقعات کی ترجمانی کرتی ہیں ،چنداشعار:

کچھ اس طرح مری چھاؤں، مراہنرکردے

چلوں توابر،رکوں تومجھے شجر کردے

شجرکی بے ثمری کب سے انتظار میں ہے

لگاوہ زخم کہ شاخوں کوبارورکردے

ان درختوں سے میں نے سیکھاہے

اپنے ہاتھوں پہ اپنا دل رکھنا

میں سبزشاخ ہوں اورخاک تک نہیں محدود

سمندروں کی تہوں میں بھی ہے نمومیری

میں اک شجرسے لپٹتاہوں آتے جاتے ہوئے

سکوں بھی ملتاہے مجھ کو،دعابھی ملتی ہے

اس پیڑکا عجیب ہی ناتاتھا دھوپ سے

خوددھوپ میں تھا،سب کوبچاتاتھادھوپ سے

ہماراعشق ہے درویش پیڑکی صورت

کہ زہرپیتاہے اور زندگی بکھیرتاہے

پیڑوں کے علاوہ کوئی سایانہیں کرتا

اور چھاؤں بھی ہرایک شجرمیں نہیں ہوتی

جب چاندکسی پیڑکی محراب میں ہوگا

میری ہی طرح توبھی کسی خواب میں ہوگا

ہرے درخت سے لپٹی ہوئی یہ کاسنی بیل

اداس ہوتی ہے لیکن اداس کرتی نہیں

یہ پیڑجوبے برگ و بارایسا ہوا

ہماراپیاربھی انجام کار ایسا ہوا

محبت ایک شیشے کا شجرتھی

گھاناتھاپیڑ،پرسایانہیں تھا

طلائی خاک،دمکتافلک،سنہرے شجر

عجیب رنگ ترے زرنگار خواب کاہے

اس کے علاوہ ابر،دھوپ،برف،آنسو،زمین،آسمان،چراغ،سفر،پرندہ،جسم،صحرا، تتلی،خواب،آنکھ،شب جیسے الفاظ بھی مختلف معنیاتی لطافتوں کے ساتھ سعود عثمانی کی شاعری کے ترکیبی عناصر کا حصہ ہیں ۔ حسن وعشق کے معاملات واحوال پربھی انھوں نے شاعری کی ہے؛لیکن اوروں سے کچھ ہٹ کر:

کبھی پت جھڑ،کبھی بارش سے کنایاکرنا

ہم کوآیانہیں اظہارِ محبت کرنا

میاں !زمین کی مانند یہ محبت بھی

بہت قدیم ہے لیکن بہت پرانی نہیں

نشے کی طرح محبت بھی ترک ہوتی نہیں ہے

جوایک بار کرے گا،وہ باربار کرے گا

یہ توبس اک کوشش سی تھی پہلے پیارمیں رہنے کی

سچ پوچھوتوہم لوگوں میں کس نے عشق دوباراکیا

میاں یہ عشق ہے اور آگ کی قبیل سے ہے

کسی کوخاک بنادے،کسی کو زر کردے

تواس عذاب سے واقف نہیں کہ عشق کی آگ

تمام عمر جلاکر بھی راکھ کرتی نہیں

عشق سامان بھی ہے،بے سروسامانی بھی

اسی درویش کے قدموں میں ہے سلطانی بھی

عشق آبادکے قصے، زندگی کے تجربات و مسائل،کرب انگیزمرحلے،دردناک حادثے،انفرادی معاملے،اجتماعی الجھنیں ، معاشرے کودرپیش چیلنجزکی مختلف شکلیں، صارفی عہدمیں انسانی رشتوں کے بکھراؤجیسے موضوعات پر بہت سے شاعروں نے لکھاہے، سعود عثمانی نے بھی لکھاہے، مگر اس طرح کہ اس لکھاوٹ میں انفرادیت کی بوباس رچی ہوئی ہے، بلاتبصرہ چند منتخب اشعار پڑھیے اور سردھنیے!

بہت دنوں میں مرے گھرکی خامشی ٹوٹی

خوداپنے آپ سے اک دن کلام ہم نے کیا

سمجھ لیاتھاتجھے دوست ہم نے دھوکے میں

سوآج سے تجھے بارِ دگرسمجھتے ہیں

تمام عمریہاں کس کا انتظارہواہے

تمام عمرمراکون انتظارکرے گا

یہ میری کاغذی کشتی ہے اور یہ میں ہوں

خبر نہیں کہ سمندرکا فیصلہ کیاہے

خداگواہ کہ خوشیاں بہت ملیں لیکن

میں کیاکروں جواداسی ہی دل کے اندرہو

دل سے تری یاد اتررہی ہے

سیلاب کے بعد کا سماں ہے

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

سینے میں دھنک سی بن رہی ہے

بارش کونظر سے پی رہاہوں

سفرقیام مرا،خواب جستجومیری

بہت عجیب ہے دنیائے رنگ وبومیری

ہوائے شب تجھے آیندگاں سے ملناہے

سوتیرے پاس امانت ہے گفتگومیری

برونِ خاک فقط چند ٹھیکرے ہیں مگر

یہاں سے شہرملیں گے اگر کھدائی ہوئی

خبر نہیں ہے کہ توبھی وہاں ملے نہ ملے

اگر کبھی مرے دل تک مری رسائی ہوئی

ایک کتاب سرہانے رکھ دی،ایک چراغ ستاراکیا

مالک اس تنہائی میں تونے کتنا خیال ہمارا کیا

توجانتانہیں مٹی کی برکتیں کہ یہاں

خدابھی ملتاہے،خلقِ خدابھی ملتی ہے

ہم ایسے لوگ تواپنے بھی بن نہیں پاتے

سوخوب سوچ سمجھ کرکوئی ہمارابنے

بس ایک سلسلۂ بیش و کم لگاہواہے

وگرنہ سب کو یہاں غم لگاہواہے

پرانی چوٹ بہت دن وفانباہتی ہے

بہت دکھاہوں ادھرچند سال سے میں

یہ بے امان محبت ہے،اس کو ٹھیک سے رکھ!

بکھر نہ جاؤں کہیں اتنی دیکھ بھال سے میں

سوکے اٹھاتومیری آنکھوں میں

اس کی آنکھوں کا خواب تھا جیسے

نہ کام ختم ہوااور نہ دکھ تمام ہوئے

مگرپلٹناتوہوتاہے گھرکو،شام ہوئے

سب میں رہنا،سب سے دورنکل جانا

بالکل میرے جیسی حالت اس کی بھی

خواب کے بدلے اشک چکانے پڑتے ہیں

قسطوں میں جاتی ہے قیمت اس کی بھی

پھرایک بار میں رویاتوبے خبر سویا

وگرنہ غم سے نکلنا محال تھا میرا

پھرایک دن یہی سوچاکہ خوش رہاجائے

یہ زندگی مجھے ویسے توراس آنی نہیں

عجیب راہ گزرتھی کہ جس پہ چلتے ہوئے

قدم رکے بھی نہیں، راستہ کٹابھی نہیں

قبائے تر سے گزرتی ہوئی ہواکی قسم

کہ تجھ سے پیاربھی بارش کے پیار ایسا تھا

جو کٹ گئی ہے اسے اتنا سرسری نہ سمجھ

میاں !یہ عمر گزرتی نہیں گزارے سے

میں رفتگاں کے بنائے مکاں میں رہتاہوں

کسی کے خواب سے کرتاہے استفادہ کوئی

تم میں سے میں بھی ہوں سومرافیصلہ بھی ہے

گلزار خرچ کرنے کا،صحراکمانے کا

زبانِ اشک میں کچھ ایسی لکنتیں ہیں سعود

کہ عمربھرکئی آنسوادانہیں ہوتے

بنے توکیسے بنے اس کا ہمسفر کوئی

جوتتلیوں کی طرح رخ بدلنے والاہے

یہ جویکطرفہ محبت ہے اسے

سوچتاہوں توقلق ہوتاہے

اپنی تصویرسے محروم نہ کر

یہ تودیوارکا حق ہوتاہے

کس محبت میں پڑگیامیں بھی

توبھی مجھ کونہ مل سکا،میں بھی

داستاں اس طرح سنائی گئی

روپڑاوہ بھی ،روپڑامیں بھی

کشادہ دل کے لیے دل بہت کشادہ ہے

یہ میں توکیا،مرے دیوارودرسمجھتے ہیں

میں سامنے اپنے یوں پڑاتھا

جیسے کوئی دوسراپڑاتھا

تبصرے بند ہیں۔