سفرِ معراج النبی ﷺ

محمد احمد رضا

رجب المرجب کا مہینہ اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ کریم نے اس ماہ مقدس میں اپنے پیارے حبیب ﷺ کو معراج جسمانی عطافرمائی۔ یہ وہ خارق العادات واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفل دروازوں کو کھولا اور انسان کو خلاء کے راستوں کی جستجو ڈالی۔ اس واقعہ کی منزل لامکاں و لاقیود تھی، لہذا قید و مکاں کی اس دنیا میں اس کی مثل اور ادراکِ کامل ممکن نہیں۔ فقط اتنا ہی اندازہ کر لیں کہ حقیقت میں قرآن کریم میں اللہ کریم نے معراج کا تو ذکر ہی فقط سفر معراج کی صورت میں کیا ہے۔ مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک، پھر آسمانوں پر جانا، سدرۃ المنتہی تک جانا، یہ سب تو معراج کا سفر ہے۔ معراج تو اس سے کہیں اعلی مقام ہے۔ ہم تو سفر معراج کی مکمل معرفت حاصل نہیں کر سکتے، معراج کو کیا سمجھیں۔ ۔ سفر کے بعد جہاں رب تعالی نے معراج کا ذکر کیا وہاں بھی خاص الفاظ سے ذکر کر کے الفاظ کم مختص نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ؛ فکان قاب قوسین او ادنی۔ پھر وہ دو قوس یا اس سے بھی زیادہ قریب ہوا۔ آیت کریمہ میں موجود یا کا لفظ جو عربی میں او کا لفظ ہے۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ آیت کریمہ جو سفر معراج کے بعد معراج کی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے، یہ فقط ہمیں کچھ معرفت و سمجھ دینے کے لئے ہے۔ اسی لئے تو یا کا لفظ فرمایا کہ انسان اور مسلمان سمجھ سکیں کہ معراج اتنی بلند ہے کہ جس کی تمثیل لفظی قاب قوسین یا ادنی ہے۔ جبکہ حقیقت معراج فقط نہ تو قوسین ہے اور نہ ہی ادنی۔ ہمارے لئے تو فقط معراج کے سفر کو بیان کیا گیا۔ معراج کی حقیقتیں تو اللہ کریم اور رسول کریم ﷺ ہی جانتے ہیں جو انسانیت کی عقل سے سو فیصد ماوری ہیں۔

واقعہ معراج کے تین مراحل ہیں :

سب سے پہلا مرحلہ مسجد الحرام سے مسجد الاقصی (قبلہ اول بیت المقدس شریف) تک ہے۔ اس مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں زندہ اور حالت صلاۃ میں دیکھا۔ صحیح مسلم شریف کے باب فضائل موسی علیہ السلام کے تحت حدیث نمبر 2375 میں ہے کہ آقا کریم ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات جب میں موسی علیہ السلام کی قبر سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں کھڑے صلاۃ پڑھ رہے تھے، اسی مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس شریف میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی۔

دوسرا مرحلہ بیت المقدس شریف سے سدرۃ المنتہی تک سفر اور جنت و دوزح کو دیکھنے کا ہے، اس مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے تمام آسمانوں پر مختلف انبیاء کرام سے ملاقاتیں کیں اور ہر آسمان پر آپ کا شایانِ شان استقبال ہوا۔

رسول اللہ ﷺ کی معراج کا سب سے اہم مرحلہ تیسرا مرحلہ ہے، اور درحقیقت معراج مصطفی ﷺ وہ تیسرا مرحلہ ہی ہے۔ یہ سدرۃ المنتہی سے لے کر وصال ربوبیت کا مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ کو اپنی حیثیت اور علم کے مطابق بیان کرنے سے قبل ا ایک اہم نکتہ پیش ہے کہ اللہ کریم نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا: ’’وما ارسلناک الا رحمۃ اللعالمین‘‘ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کریں کہ فرمایا تمام جہانوں کے لیے رحمت۔ لہذا رسول اللہﷺ اس جہاں دنیا کے لیے، آسمانوں کے لیے، اور جہاں جہاں جہان آباد ہے، چاہے وہ یہ زمین ہو یا کوئی اور سیارہ، ہماری کہکشاں میں یہ ہمارا سولر سسٹم ہو یا کائنات میں کہیں دور لاکھوں نوری سال کی دوری پر موجود کسی اور کہکشاں میں کوئی اور سولر سسٹم، سدرۃ المنتہی ہو یا جنت الفردوس کے محلات، جہاں کہیں بھی کوئی جہان ہے، وہاں رسول اللہ ﷺ کی رسالت ورحمت موجود گویا تمام مخلوق اور تمام جہان رسول اللہ ﷺ کی رحمت کے تحت ہیں۔ لہذا جو جگہ، شے، مکاں اور جہان خود رحمتِ نبی ﷺ کے تحت ہوں وہاں اس نبی ﷺ کی معراج کا کمال کیسے ممکن ہے؟ معراج کا کمال ہی تب ہوگا جب نبی ﷺ اپنی حدودِ رسالت و رحمت سے نکل کر خاص وصال ربوبیت کے انوار و تجلیات میں جائے گا۔

اللہ کریم نے سورۃ النجم میں ارشاد فرمایا کہ:

ما ضل صاحبکم وما غوی

اور تمہارے صاحب (حضور نبی مکرم ﷺ اپنے سفر معراج میں ) میں بھٹکے نہ بہکے۔

اس آیت کریمہ کا اطلاق بھی معراج کے تیسرے مرحلہ میں ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے تو لاکھوں فرشتے ساتھ تھے، براق کی سواری تھی، لے جانے والے جبرئیل تھے تو اس پوری سیر میں بھٹکنے اور بہکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس آیت کا اطلاق ہی تب ہوا جب جبرئیل نے کہا؛ یا رسول اللہ ﷺ لو دنوت انملۃ لاحترقت یا رسول اللہ ﷺ اگر میں انگلی کے ایک پورے کے مانند بھی اس سے آگے بڑھا تو ضرور جل جاؤں گا۔ بحوالہ تفسیر روح البیان، جلد اول، تفسیر نیسابوری، جلد اول، تفسیر القشیری، تفسیر رازی۔

قرآن و حدیث میں پہلے دو مراحل کے کئی واقعات موجود ہیں لیکن تیسرے مرحلے کا بغیر وضاحت و تفصیل فقط اشارۃً بیان ہے کیونکہ انسانی عقل جہاں تک بھی ترقی کر لے تیسرے مرحلہ کے ادراک کی ابتداء کو بھی نہیں پہنچ سکتی، اس لئے اللہ کریم نے اس مرحلہ کے بارے میں فقط اتنا فرمایا کہ

ثم دنی فتدلیo فکان قاب قوسین او ادنیo فاوحی الی عبدہ ما اوحیo

ترجمہ: پھر وہ (رب کریم اپنے محبوب سے) اور قریب ہوا اور پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پس پھر (رب کریم اور نبی کریم ﷺ) کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا (وصال خداوندی میں وہ فاصلہ) اس سے بھی کم ہو گیا۔ پھر اس (اللہ کریم) نے جو چاہا اپنے بندہِ خاص (رسول مکرم ﷺ) پر وحی فرمائی۔

غور فرمائیں کہ اللہ کریم نے قرب و وصال کی کوئی حد ہی بیان نہیں کی بلکہ فقط اتنا کہہ دیا کہ دو کمانوں سے بھی زیادہ قریب ہو گئے اور پھر جو چاہا وہ اللہ نے وحی فرمایا۔ گویا اللہ کریم نے یہ بھی راز میں رکھا کہ کیا وحی فرمایا؟ کسی کو کیا غرض کہ وہ کیا وحی ہوئی۔ ایک وحی تو قرآن ہے جو ہمارے سامنے ہے اور ایک وحی واقعہ معراج کی بھی ہے جو اللہ و رسول کاآپس کا راز ہے۔

تبصرے بند ہیں۔