سلمان خورشید کا آدھا سچ، پورا جھوٹ!

ڈاکٹر عابد الرحمن

سلمان خورشید صاحب کانگریس کے بڑے لیڈر ہیں ۔ ۱۹۸۰ سے کانگریس کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی کے آفس میں خصوصی افسرکے عہدے سے اپنی سیاسی پاری شروع کی پھر کامرس کے نائب وزیر ہوئے اس کے بعد وزارت خارجہ، قانون وانصاف کی وزارت اور وزارت اقلیتی امورمیں بھی رہے۔ وہ اتنے پکے کانگریسی ہیں کہ خود انہی کے مطابق وہ کانگریس کا حصہ یا نمائندے ہی نہیں بلکہ خود کانگریس ہیں ۔ حال ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروگرام میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہمارے( کانگریس کے) دامن میں مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں ‘ان سے پوچھا گیا تھا کہ ملک میں ہوئے فسادات، بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے اسکا تالا کھولنے اور شہادت کے ضمن میں مسلمانوں کے خون کے جو دھبے کانگریس کے دامن میں ہیں آپ انہیں کن الفاظ سے دھوئیں گے؟

جہاں بی جے پی نے ان کے اس بیان پر کانگریس کو گھیرا وہیں کانگریس نے نہ صرف اپنے آپ کواس سے الگ کیا بلکہ اس پر اعتراض جتاتے ہوئے خورشید صاحب کو سر عام تنبیہ بھی کی کہ لیڈرس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس طرح کے ’بے بنیاد‘ بیان ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو اقتدار میں قائم رہنے کے لئے سوسائٹی کو فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کرتے ہیں ۔ سلمان خورشید صاحب نے غلط نہیں کہا، کانگریس کا پنجہ مسلمانوں کے خون سے رنگا ہوا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کی حالت زار میں فسادات تصویر کاصرف ایک رخ ہے، آدھی سچائی ہے، کہا جارہا ہے کہ سلمان خورشید نے بطور کانگریس اسے قبول کیا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ خورشید صاحب کا بیان پوری طرح سمجھا نہیں گیا، ان کا پورا بیان یہ ہے کہ ہمارے دامن پر خون کے دھبے ہیں اسی وجہ سے آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی وار آپ پر کرے تو اسکو بڑھ کے روکنا نہیں چاہئے۔ ‘ خورشید صاحب کے بیان کا بین السطور یہ ہے کہ ان کے دامن پر مسلمانوں کے خون کے جو دھبے ہیں وہ دراصل مسلمانوں کو بچانے کی کوششوں کے نتیجے میں لگے ہیں۔

اگر یہی ان کا مطلب ہے توجسے سچ سمجھا جارہا ہے وہ پورا جھوٹ ہے کیونکہ کانگریس نے مسلمانوں کو بچانے کی کبھی کوئی کوشش کی ہو ایسا تو پوری تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتابلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ کانگریس نے اپنے سیاسی فوائد کے حصول کے لئے اور خاص طورسے بغیر کوئی کام کئے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر نے کے لئے ہی فسادات کو ایک سیاسی اسٹریٹیجی کے طور پر استعمال کیا، اس نے مسلمانوں کو ہندو اکثریت، ہندو شدت پسند تنظیموں ، سنگھ، بی جے پی اور فسادات سے خائف رکھنے کی چال چلی اور اس کے لئے ان مسلم مخالف قوتوں کی اشتعال انگیزی، مسلم مخالف منافرت، مسلمانوں کو ملک دشمن، سماج دشمن، ہندو دشمن اور پاکستان کے حامی قرار دینے کی آزادی سے لے کر فسادات تک میں فری ہینڈ دیتی رہی، تاریخ رہی ہے کہ فسادات میں حکومت اس وقت حرکت میں آتی ہے جب فسادی اپنے مقاصد حاصل کر چکے ہوتے ہیں اور فساد کے مارے لوگ فساد کروانے والوں اور مخالف گروہ کے خلاف سیاسی طور پر صف آراء ہو جاتے ہیں ۔ اور حکومت کا حرکت میں آنابھی کبھی تحقیقاتی کمیشن سے آگے نہیں بڑھا اور تحقیقاتی کمیشنوں کی بھی یہ تاریخ رہی ہے اول تو یہ اپنی تحقیقات کے لئے اتنا وقت لگاتے ہیں کہ فسادات لوگوں کے اذہان سے محو ہو نے لگتے ہیں دوم یہ کہ اگر ان کی رپورٹس آ بھی گئی اور اگر وہ حکومت میں موجود پارٹی کی طرف انگشت نمائی کرتی ہو تو وہ رپورٹ کبھی دن کی روشنی نہیں دیکھتی لیکن اگر اس رپورٹ کا اشارہ حزب اختلاف کی طرف ہو تو حکومت بڑی چالاکی سے رپورٹ لیک کر کے یا عام کر کے یا ایوان نمائندگان میں پیش کر کے فسادات کے کار پردازوں کو عوام کے سامنے عیاں کر دیتی ہے کہ فسادات کے ماسٹر مائنڈس اور ان کی سیاسی پارٹیوں اور جماعتوں کو خاص طور سے مسلمانوں سے متعارف کروایا جائے تاکہ مسلمان ان سے خوف زدہ ہو جائیں اور ان کے خلاف سیاسی طور پر متحرک کئے جاسکیں۔

ملک میں فسادات کی تاریخ بہت لمبی ہے اور ان میں سے زیادہ تر فسادات کانگریس ہی کے دور اقتدار میں ہوئے، اگر یہ سب فسادات کانگریس نے نہیں کروائے تھے تو بھی کانگریس کو بری الذمہ نہیں قرار دیاجا سکتا کہ صاحب اقتدار ہونے کے باوجود اس نے ان فسادات کو روکنے کے لئے کوئی تاریخی اقدام نہیں کیا، اگر کانگریس ابتداء ہی میں فسادیوں کو قانون کی چکی میں پیستی تو فسادات کروانے اور ان کا حصہ بننے سے پہلے لوگوں کو سو بار سوچناپڑتا، لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ دراصل کانگریس نے مسلمانوں کو فٹبال بنا کر فسادات کے خونین میدان میں خوب کھیل کھیلا لیکن اپنی ساری چالبازیوں کے ساتھ بری طرح ہار گئی، جیت سنگھ اوربی جے پی کی ہوئی اور آج یہ عالم ہے کہ کانگریس مکت بھارت کی باتیں ہورہی ہیں اورایک ایک ریاست جیت کر بی جے پی اپنی اس منزل کی طرف مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ، اور سچائی کا آدھا حصہ یہ ہے کہ کانگریس نے آزادی سے پہلے جس مشترکہ قومیت کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلمانوں کیلئے علٰحیدہ حلقہ ہائے انتخاب کا قانون نہیں بننے دیا آزادی کے بعد مسلمانوں کو سیاسی سماجی معاشی اور ہر ہر میدان میں اس مشتر کہ قومیت سے اس طرح الگ کر دینے کا سامان کیا کہ مسلمان اپنے ہی دیش میں اجنبی ہوگئے۔ خود کانگریس ہی کے ذریعہ قائم کردہ سچر کمیٹی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے مسلمانوں کو کہاں پہنچا دیا۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ اس نے سچر کمیٹی کی تشکیل بھی اسی لئے کی تھی کہ سنگھ سے قریب ہوتی ہندو اکثریت کو یہ دکھایا جا سکے کہ کسی زمانے میں ہندوستان کے قابل حکمرانوں کو ہم نے دلتوں سے بھی بد تر حالت میں پہنچا دیا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کو حکومت نے اپنے آپ کو مسلمانوں کا مسیحا بنا کر پیش کر نے کے لئے استعمال کیا، لیکن اس ضمن میں بھی مسلمانوں کے ساتھ اس نے بھونڈا مذاق کرتے ہوئے وزارت اقلیتی امور کا جھنجھنا بنایا اور اپنے کسی وفادار مسلما ن کے ہاتھ پکڑادیا۔ اس رپورٹ کے بعد کچھ ترقیاتی منصوبوں اور اسکیموں کا اعلان ضرور کیا گیا لیکن ان کی کامیابی کو یقینی بنانے کی طرف دھیان نہیں دیا گیا۔ ان منصوبوں اور اسکیموں کے سروے سے معلوم ہوا کہ ان کے دس سال بعد بھی ا مسلمانوں کی حالت وہی رہی جو پہلے تھی، اگر کہیں مسلمانوں نے ترقی کی بھی تو وہ اس عرصہ میں دوسری قوموں اور گروہوں کے مقابلہ کم ہی رہی۔

کا نگر یس کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ ایک اور گھناؤنا کھیل کھیلا گیا، دہشت گردی کا کھیل ! اور وہ بھی اس طرح کہ دہشت گردی کا ذمہ دار کوئی بھی رہے الزام مسلمانوں کے ہی سر آ یا اوراس میں بھی تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ مسلمانوں کے تعلیم یا فتہ نوجوانوں کو ہی پیسا گیا۔ کانگریس نے مسلمانوں کی پیٹھ میں ایک یہ خنجر بھی گھونپا کہ اس نے اپنے مسلم لیڈران کو مسلم قیادت نہیں بننے دیا۔ اس نے مسلم نمائندگی کے نام پر صرف اپنے وفادار مسلمانوں کو ہی آگے بڑھا یا اوراس کے عوض انہیں پارٹی لائن کی پابندی کے لئے اس قدر مجبور کیا کہ وہ بے چارے مسلمانوں کے لئے کچھ کہہ بھی نہیں سکے کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اورجو پارٹی لائن سے ہٹتے ہیں وہ یاتو اپنی کسی ضرورت کے تحت ایسا کرتے ہیں یا پھر پارٹی ہی کی کسی سیاسی چال کے تحت۔ لیکن اگر کوئی مسلمانوں کے لئے ایسا کرتا ہے تو پارٹی خود ہی اسکا سیاسی کریئر ختم کر وادیتی ہے، اب سلمان خورشید صاحب کے معاملہ میں بھی وقت ہی بتائے گا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اپنی کسی ضرورت کے لئے کہہ رہے ہیں ، پارٹی کی سیاسی ضرورت کے تحت کہہ رہے ہیں یا پھر کانگریس میں ان کے دن پورے ہونے کو آئے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔