بتائے گی ہمیں فرزانگی کیا
ڈاکٹر عابدالرحمٰن
بتائے گی ہمیں فرزانگی کیا
جنوں کیاہے مآل عاشقی کیا
…
سمندر! وہ تو خود پیاسا ہے لوگو
بجھا پائیگا میری تشنگی کیا
…
وہ جس میں بے حسی ہی بے حسی ہو
ہے ایسی زندگی بھی زندگی کیا
…
سخن کو داد چہرہ دیکھ کر ہے
ادب میں بھی سیاست آگئی کیا
…
ادب پر بے ادب چھانے لگے ہیں
تجارت اس میں بھی ہونے لگی کیا
…
یہ مجھ پر چھاگئی ہے کیوں اداسی
کسی کو یاد میری آگئی کیا
…
غزل تو جون کے مصرع پہ کہہ دی
مگر ہو پائیگی یہ جون سی کیا
…
ہو صالح فکر کی ترسیل عابدؔ
وگرنہ شعر کیا ہے شاعری کیا
تبصرے بند ہیں۔