سلمان خورشید کے بیان کا مقصد کیا ہے؟

 مشرّف عالم ذوقی

پچھلے چار برسوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی سازش زور پکڑتی رہی ہے۔ بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی ابھی حال میں یہ بیان دے چکے ہیں کہ علیگڑھ یونیورسٹی دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔ جب ملکیت اور زمینی قبضے کو لے کر بھی فسطائی طاقتیں اپنا ہر زور آزمانے کی کوشش کر رہی ہیں، ایسے موقع پر سلمان خورشید کے بیان کو ایک عام مسلمان کا درد بھرا بیان ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔

ابھی حال میں جب کانگریس، چیف جسٹس کے خلاف مواخذہ کی تحریک لے کر آی تو سلمان خورشید نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک مشہور وکیل کی حیثیت سے انکے پاس کمزور دلیلیں موجود تھیں ۔ مگر کانگریس اور دیگر اپازیشن نے چیف جسٹس کے خلاف جو مضبوط الزامات لگاہے، سلمان خورشید کو اس کی فکر نہیں تھی۔ کیا بی جے پی نے چار برس کی مدت میں جس طرح عدلیہ کو کمزور اور نکما بنایا، سلمان خورشید نے اس بارے میں سوچنا بھی ضروری نہیں سمجھا ؟ اور اب علیگڑھ یونیورسٹی میں دیا گیا بیان دیکھئے۔ ۔کانگریس کے دامن پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں ۔۔۔یہ دھبے انھیں آج کیوں نظر آیے جب ملک کی خوفناک طاقتیں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کر کے مسلمانوں کی ا علیٰ تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کرنا چاہتی ہیں اور راہل گاندھی کی نگرانی میں موجودہ کرپٹ سسٹم اور فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف مورچہ لیا جا رہا ہے؟ سلمان خورشید کا یہ بدلا ہوا انداز کیی ایسے سوال اٹھاتا ہے، جس کا جواب سلمان خورشید کے پاس بھی نہیں ہوگا۔

ستر برس قبل کی کانگریس کا ہر چہرہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ آزاد ہندستان کے ستر برسوں کی تاریخ گواہ ہے کہ کانگریس نے سیکولرزم کے خوفناک مکھوٹے کے ذریعہ مسلمانوں کو بیوقوف بنانے اور حاشیے پر رکھنے کا کام کیا ہے۔ دوراقتدار میں کانگریس کے مسلم لیڈران بھی وہی زبانیں بولتے رہے جو کانگریس ان سے بولنے کے لیے کہتی رہی۔ یہ لیڈران کبھی بھی مسلم حمایت میں سامنے نہیں آئے۔ آزادی کے بعد کی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم وستم کے پیچھے اگر کسی خوفناک داستان سے واسطہ پڑتا ہے تو پس داستان بھی کانگریس ہوتی ہے۔ آزادی کے ٹھیک ۳ سال بعد پنڈت جواہر لعل نہرو نے جو کام مسلمانوں کے خلاف سیاہ قانون لاکر کیا، وہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ انیس سو پینتیس یعنی انگریزوں کے وقت سے انیس سو پچاس تک ریزرویشن میں مسلمانوں کو بھی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ ۰۱ اگست انیس سو پچاس کو پنڈت نہرو کی سفارش پر اس وقت کے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کے دستخط سے مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کردیا گیا۔ آرٹیکل ۱۴۳ میں لفظ ہندو کا اضافہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ جو دلت ہندو مذہب کے دائرے میں آتے ہیں ، صرف انہیں ہی ریزرویشن کا حق دیا جائے گا۔

یہ بھی غور طلب ہے کہ اس سیاہ قانون کے خلاف جب سکھوں نے ہنگامہ کیا تو انہیں ریزرویشن کا حق دے دیاگیا۔ انیس سو نووے میں بودھ دھرم کے ماننے والوں کو بھی ریزرویشن میں شامل کر لیا گیا مگر مسلمان دلتوں کو ریزرویشن نہ دیاجانا کانگریس کی ایک ایسی سازش تھی جس سے انیس سو پچاس کے بعد مسلمان طبقہ سیاسی، معاشی، اقتصادی ہر سطح پر کمزور اور پچھڑتا چلا گیا۔ رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کی رپورٹ کے باوجود مسلمانوں کو عام حقوق سے محروم ہی رکھاگیا۔ اگر آپ اس وقت کے سیاسی نظام اور حالات کا جائزہ لیں تو پنڈت نہرو کی دور اندیشی اور مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی سازش کا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ پنڈت نہرو ذہین اور قابل انسان تھے، وہ اس سچ سے واقف تھے کہ دلت مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھنے کا مطلب ہوگا، آنے والے برسوں میں انہیں اقتصادی اور ہر سطح پر کمزور کرنا۔ اور اس کا اثر عام مسلمانوں پر بھی ہوگا۔ پنڈت نہرو کی سازش کام کر گئی اور عام مسلمان آج کی تاریخ میں وہاں پہنچ چکا ہے جہاں سیاسی پارٹیوں نے اسے صرف اور صرف ووٹ بینک سمجھ رکھا ہے۔ اور اس بڑے ووٹ بینک کے باوجود جب یہ پارٹیاں اقتدار میں ہوتی ہیں تو مسلمانوں کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہوتا۔ مسلمان کنارے حاشیے پر پھینک دیئے جاتے ہیں ۔

 مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ آزادی کے بعد سب سے زیادہ فسادات کانگریس کے دوراقتدار میں ہوئے۔ مسلمانوں کا سب سے زیادہ استحصال اسی کانگریس نے کیا۔ بٹلہ ہاﺅس فرضی انکاﺅنٹر سے بابری مسجد فیصلے تک کانگریس نہ صرف مسلمانوں کو گمراہ کرتی رہی بلکہ آزادی کے بعد کا ہر فیصلہ مسلمانوں کے خلاف گیا۔ بابری مسجد کا تالا کھولنے والے بھی کانگریسی تھے۔ ۶ دسمبر ۲۹۹۱ شہادت کے وقت بھی یہی کانگریس تھی۔ اور یہ غور کرنے کی بات ہے کہ مرکزی حکومت کی شہہ کے بغیر نہ بابری مسجد کا المیہ سامنے آسکتا تھا اور نہ مٹھی بھر شیو سینک بابری مسجد کو مسمار کرنے کا گناہ کرسکتے تھے۔ اس دور میں سابق وزیر اعظم نرسمہا راﺅ کے بارے میں یہ کہاوت عام تھی کہ وہ اوپر سے کانگریسی اوراندر سے بھگوا ہیں ۔ بھاجپا جب دو سیٹوں سے آگے بڑھ کر رتھ یاتراﺅں کے مہارتھی ال کے اڈوانی کی قیادت میں دوسری بڑی قومی پارٹی بننے کا اشارہ دے رہی تھی، اس وقت بھی اگر مرکزی سرکار چاہتی تو اس تحریک کو روکا جاسکتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ رتھ روکا گیا تو بہار میں ۔ اور تاریخ یہ بھی گواہ ہے کہ کرپشن کے معاملات کو کنارے رکھیں تو ہندستان سیاست کی تاریخ میں صرف اور صرف لالو پرساد یادو کا ہی چہرہ ابھرتا ہے جس نے اڈوانی کی یاترا کو ناکام بنانے اور سیکولرزم کو ہتھیار کے طور پر اپنانے میں جی جان کی بازی لگادی۔ ورنہ کانگریس تو یہاں بھی ووٹ کی تقسیم اور اپنے انتخابی فائدے کے حساب میں الجھی ہوئی تھی۔

مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کانگریس ایک ہی طریقہ کار آزماتی رہی ہے۔ مسلمانوں کو بھاجپا سے ڈراﺅ اور مسلمانوں کا ووٹ اپنے حصہ میں کرو— بھاجپا اور مودی کی مسلم کش اور خطرناک سیاست دو ہزار انیس کے انتخاب کے پیش نظر سارے ہندستان میں فساد کرارہی ہے آزادی کے بعد کی تاریخ کا جائزہ لیں تو کانگریس کبھی بھی دنگوں کو روکنے تھامنے کے لیے اپنا کردارادا نہیں کر پائی۔ دراصل کانگریس کی نظر شروعات سے ہی فرقہ وارانہ دنگوں کی آڑ میں سیاسی روٹیاں سینکنے کی رہی ہے۔ گجرات حادثہ ہوا تو مسز سونیا گاندھی گجرات جاکر خوفزدہ مسلمانوں کو دلاسہ اور تسلی تو دے ہی سکتی تھیں لیکن کانگریس ایسے ہر معاملے میں صرف اپنا سیاسی فائدہ دیکھنے کاکام کرتی رہی ہے۔

راہل گاندھی مظفر نگر فسادات کے لیے اکھیلیش حکومت کو قصور وار ٹھہراتےرہے لیکن کیا راہل گاندھی کی ذمہ داری نہ تھی کہ فسادات کے ساتھ ہی وہ سامنے آکر مسلمانوں کے لیے حق اور انصاف کا بیڑہ اٹھاتے۔ خود مظفر نگر جاکر دنگے کی حقیقت کو بے نقاب کرتے۔مظفر نگر کے بعد بھی کتنے ہی کاس گنج سامنے اہے۔ ۔کیسی کیسی ہلاکتوں سے پردہ اٹھا مگر کانگریس بھی چپ رہی۔ غلام نبی آزاد اور سلمان خورشید بھی خاموش رہے۔ ہندستان کے ستر برسوں کی تاریخ میں مسلمانوں کا سچ یہ ہے کہ ہر سطح پر وہ آزادی اور تحفظ چاہتے ہیں ۔ ۔ مسلمان یہ بھی جانتا ہے کہ سب سے زیادہ دنگے کانگریس کی حکومت میں ہوئے۔ بابری مسجد میں مورتیاں راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں رکھی گئیں ۔ بابری مسجد کے فیصلے کو لے کر بھی مسلمانوں کو بیوقوف بنایا گیا۔ فرضی انکاﺅنٹر سے لیکر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری تک مسلمان کانگریس کے اصلی چہرے کی شناخت کرچکے ہیں ۔ مگر سوال یہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس راستہ کیا ہے ؟ ٢٠١٩ میں اگر کانگریس فتح بھی حاصل کرتی ہے تو یہ اس کے اکیلے کی فتح نہیں ہوگی۔ اس فتح میں حمایتی پارٹیوں کا کردار بھی اہم ہوگا۔ مودی کے فسطائی نظام حکومت کے خاتمہ کے لئے ملک کی سیکولر طاقتوں اور مسلمانوں نے ایک بار پھر کانگریس میں امید جتایی ہے۔ کیونکہ ابھی کانگریس کے علاوہ جمہوری نظام کے بچانے کے لئے کویی اور آپشن موجود نہیں ہے۔ ہم یہ سوچ کر بھی خود کو تسلی دے رہے ہیں کہ راہل گاندھی کی کانگریس، سونیا، راجیو گاندھی اور اندرا گاندھی کی کانگریس سے مختلف ہوگی۔ ۔فرقہ وارانہ فسادات کے باوجود کانگریس کے دور حکومت میں مسلمانوں نے کبھی خود کو دوئم درجے کا شہری محسوس نہیں کیا تھا۔ ہندو راشٹر کے تصور کے ان چار برسوں میں مسلمانوں سے انکی غیرت تک خرید لی گیی ہے۔

موجودہ بی جے پی کی حکومت کے خلاف جب بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں ، سلمان خورشید کا متنازعہ بیان آپسی ملت اور جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس بیان سے فائدہ آر ایس ایس اور بی جے پی کو ہوگا۔ وہ پہلے بیدار کیوں نہیں ہوئے، اسکا جواب انہیں دینا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔