علم: ماہیت اور ذرائع

ڈاکٹر محمد رفعت

علم ایسا لفظ ہے جو ہم اپنی گفتگو میں اکثر استعمال کرتے ہیں۔ فعل کے طور پر استعمال کریں تو حصولِ علم کے معنی جاننے کے ہوتے ہیں اور اسم یا Nounکے طور پر استعمال کریں تو علم کے معنی مرتب معلومات ہوتے ہیں۔

علم کی اہمیت کے سلسلے میں انسانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کسی بھی شخص سے دریافت کریں تو وہ یہ کہے گا کہ انسان کے لیے علم ضروری ہے اور ہماری زندگی علم کی روشنی میں گزرنی چاہیے۔ علم کی قدروقیمت پر موجودہ دور کے لوگ بھی متفق ہیں اور ماضی کے افراد بھی علم کی اہمیت کا اقرار کرتے رہے ہیں۔ علم کے بارے میں چند بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں، مثلاً: علم کیا ہے؟ کن موضوعات کے بارے میں علم درکار ہے؟ کون سا علم قابلِ اعتبار ہے؟ علم کے ذرائع کیا ہیں؟ علم کی کیا قسمیں ہیں؟ علم سے ہم فائدہ کیسے اٹھا سکتے ہیں؟

خلافت

دنیا کے مختلف ملکوں میں اور مختلف تہذیبوں میں لوگوں نے ان سارے سوالات کے سلسلے میں سوچا ہے۔ اسلام کی روشنی میں بھی ہم علم کے موضوع پر غور کرسکتے ہیں۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، یعنی کچھ اختیارات دے کر اس کو زمین میں بسایا ہے۔ ان اختیارات کے استعمال کے لیے انسان کو کچھ صلاحیتیں بھی دی ہیں۔ ان صلاحیتوں میں بنیادی صلاحیت علم کی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے اس منصوبہ کا اعلان کیا کہ زمین میں ایک مخلوق کو خلیفہ بنایا جائے گا، اس اعلان کے فوراً بعد اس حقیقت کا مظاہرہ بھی کیا گیا کہ انسان کو علم دیا گیا ہے اور وہ علم ایسا ہے جو فرشتوں کو نہیں دیا گیا ہے۔ اس علم کی بنیاد پر توقع کی جاسکتی ہے کہ انسان ایسی زندگی گزارے گا، جس کے نتیجے میں اسے فلاح نصیب ہوگی، ناکامی سے وہ بچے گا، زمین میں خیر اور برکت پھیلے گی، شر اور انتشار نہیں پھیلے گا۔ اس طرح علم کے بارے میں بنیادی بات ہمارے سامنے آتی ہے یعنی انسان کے اللہ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے علم کا گہرا تعلق ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے جو کام انسان کو کرنا ہے، اُس کے لیے علم اُس کی بنیادی ضرورت ہے۔ انسان کو اُس علم کو حاصل کرنا چاہیے۔

علم کا موضوع

جو سوالات علم کے سلسلے میں پیدا ہوتے ہیں اُن میں سے ایک سوال یہ ہے کہ علم کس چیز کے بارے میں؟ انسان جب سوچنا شروع کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اپنے بارے میں وہ علم چاہتا ہے، یعنی میں کیا ہوں؟ میں کہاں سے آیا؟ کہاں جاؤں گا؟ پیدائش سے پہلے کہاں تھا؟ موت کے بعد کہاں ہوں گا؟ پھر فرد سے آگے بڑھ کر وہ سارے انسانوں کے بارے میں سوچتا ہے، یعنی انسانیت کیا ہے؟ اُس کی حیثیت کیا ہے؟ دوسری مخلوقات سے اُس کا تعلق کیا ہے؟ چناںچہ علم کا ایک موضوع تو خود انسان ہے۔ فرد بھی موضوع ہے اور پورے انسان بھی، پھر انسان آس پاس دیکھنا شروع کرتا ہے تو اسے دوسری مخلوقات نظر آتی ہیں، دنیا میں پیڑ پودے ہیں، دریا اور سمندر ہیں، سورج اور چاند ہیں۔ انسان ان مخلوقات کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ اُن میں جاندار مخلوقات بھی ہیں، بے جان بھی ہیں، یہ سب کیا ہیں، ان سے میرا تعلق کیا ہے؟ ان کی حیثیت اس کائنات کے نظام میں کیا ہے۔ پھر وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ یہ کائنات کیسی ہے؟ اس کا آغاز کیا ہے، اس کا انجام کیا ہے؟ اس سے میرا تعلق کیا ہے؟ پھر جب اُس کا تجسس اور آگے بڑھتا ہے تو پھر وہ اُن حقیقتوں کے بارے میں علم چاہتا ہے جو اس کو نظر نہیں آتیں۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اللہ کون ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ اس سے میرا تعلق کیا ہے؟ اور پھر جن موضوعات کا ذکر وہ سنتا رہا ہے، اُس کلام میں جو اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، تو وہ ان کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہے، مثلاً جنت کیا ہے، دوزخ کیا ہے، فرشتے کون ہیں، ان کی کیا صفات ہیں؟ یعنی عالم غیب کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، یہ علم کے بارے میںایک سوال تھا، یعنی کن موضوعات کے بارے میں علم درکارہے؟ اس کا جواب ہے خود اپنے بارے میں، کائنات کے بارے میں، اشیائے کائنات کے بارے میں اور عالم غیب کے بارے میں۔

اسلام نے ان سب امور کو علم کا درست موضوع تسلیم کیا ہے۔ جو سوالات ہمارے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسلام ان سوالات کو بجا قرار دیتا ہے، ان کو غلط نہیں سمجھتا۔ یہ سارے سوالات فطری ہیں، ان سوالات کا جواب انسان کو ملنا چاہیے۔ علم کے دو بڑے دائرے سامنے آتے ہیں۔ ایک دائرہ وہ ہے جسے غیب کہہ سکتے ہیں۔ جو ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ، اس کی صفات، فرشتے، جنت اور دوزخ اور آخرت کا پورا عالم، یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہیں، اس عالم کو ہم غیب کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ دوسرا دائرہ وہ دنیا ہے، جو نظر آتی ہے، یہ عالمِ شہادت ہے۔

علم کے ذرائع

اس کے بعد دوسرا اہم سوال ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ علم کے ذرائع کیا ہیں۔ سوال کو اور زیادہ متعین طور پر پیش کرنے کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا علم کون سا ہے، جس پر ہم بھروسہ کرسکیں؟ جو قابلِ اعتماد علم(Authentic Knowledge)ہو۔ اس کے ذرائع کے کیا ہیں؟ اللہ نے اپنی نازل کردہ کتاب کا تعارف یوں کرایا ہے کہ یہ ہدیً للمتقین ہے، اور اُن لوگوں کے لیے ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ کتابِ الٰہی سے فائدہ اٹھانے والوں کی صفت متقی ہونے کے علاوہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں، بظاہر یہ چھوٹا سا جملہ ہے، لیکن یہ اس سوال کے ایک حصہ کا جواب ہے کہ علم (Authentic Knowledge) کے ذرائع کیا ہیں؟

جہاں تک غیب کا تعلق ہے، مثلاً: اللہ اور اس کی ذات اور صفات اور عالمِ آخرت وغیرہ تو ان سب کے بارے میں جاننے کا جو ذریعہ ہے وہ اللہ کے نبی، رسول اور پیغمبر ہیں۔ اس لیے کہا گیا کہ کتاب سے فائدہ اٹھانے والوں کی صفت ہے: یومنون بالغیب یعنی وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک تو وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ غیب بھی ایک دنیا ہے اور دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ غیب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے وہ اللہ کے پیغمبروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ دونوں امور اس میں شامل ہیں، وہ لوگ جو غیب کو مانتے ہی نہیں اُن کا رویہ غلط ہے۔ رہے وہ جو غیب کو مانتے ہیں لیکن نبیوں اور رسولوں کے علاوہ کسی اور ذریعے سے غیب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، تو اُن کا خیال بھی غلط ہے۔ صحیح نقطۂ نظر یہ ہے کہ صرف اللہ کے نبی اور رسول غیب کے بارے میں بتاسکتے ہیں، اور کوئی ذریعہ انسانوں کے پاس نہیں ہے۔ غیب کے بارے میں نہ تو انسان اندازہ لگاسکتے ہیں، نہ کوئی Speculation کرسکتے ہیں (یعنی یہ کہ کچھ خیال آرائی کے ذریعے غیب کے بارے میں معلوم کریں)۔ کوئی انسان نبیوں اور رسولوں کے علاوہ ایسا نہیں ہے جسے غیب کے بارے میں  خود جاننے کےذرائع حاصل ہوں۔

یہ غلط فہمی دنیا کی بہت ساری تہذیبوں میںپائی جاتی  رہی ہے کہ بعض انسان کچھ ایسے ذرائع رکھتے ہیں، جن سے وہ غیب کی دنیا میں جھانک سکتے ہیں، یعنی کچھ ریاضتیں ایسی ہوتی ہیں، جن سے انسان غیب کی دنیا میں جھانک سکتا ہے۔ ان ریاضتوں سے انسان کے دل میں روشنی پیدا ہوجاتی ہے، جس سے وہ غیب کو دیکھ لیتا ہے۔ مگر یہ سب فریب اور دھوکہ ہے چاہے ہزاروں سال سے دیا جارہا ہو، کوئی تپسیّا، کوئی طریقہ، کوئی Meditation(مراقبہ) ایسا نہیں ہے جو انسان کو غیب کی دنیادکھا سکے۔ واحد ذریعہ جو غیب کو جاننے کا ہے وہ اللہ کے نبیوں اور رسولوں پر اعتماد ہے۔ اعتماد کیوں کیا جائے، یہ الگ سوال ہے، اس پر الگ سے غور کرنا چاہیے۔ اللہ کے نبی جب آتے ہیں تو اپنے نبی ہونے کے لیے ثبوت اور دلیل پیش کرتے ہیں۔ بنیادی دلیل ان کا کردار ہوتا ہے اور اس کے بعد ان کے پیغام کی حقانیت ، اُن کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے۔

کوئی شخص جب اعلان کرے کہ وہ اللہ کا نبی ہے تو اس کی بات مانی جائے کہ نہ مانی جائے، اس کے لیے کیا معیار ہے؟ اس سوال پر قرآن نے تفصیل سے بحث کی ہے، لیکن جب انسان کو یقین ہوجائے کہ نبوت کا مدعی واقعی اللہ  کا نبی اور رسول ہے تو پھر غیب کے بارے میں جاننے کا واحد قابلِ اعتبار ذریعہ وہ ہے۔

غیب اور شہادت

اس کے بعد وہ دنیا ہمارے سامنے آتی ہے جو غیب کی دنیا نہیں ہے، بلکہ عالم شہادت ہے، یہ Visibleدنیا ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔ جس کو آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور کانوں سے اس کی آوازیں سن سکتے ہیں اور دیگر حواس سے کام لے کر اُس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ دنیا کے بارے میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے وہ واقعہ نہیں ہے بلکہ وہ محض نظر کا دھوکا ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ دنیا جو کچھ ہے وہ مایا جال ہے۔ جب شعور کی آنکھ کھلے گی تو معلوم ہوگا کہ ہم خواب دیکھ رہے تھے اور واقعتا یہ کچھ نہ تھا۔ قرآن مجید اس خیال کی تردید کرتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ یہ جو زمین اور آسمان ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ نظر کا دھوکہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جو تمہیں نظر آرہی ہے۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ کائنات کو وجود خدا نے بخشا ہے۔ کائنات  خدا نے تخلیق کی ہے، جب وہ چاہے گا ختم ہوجائے گی۔ کائنات فانی ہے، عارضی ہے، یہ سب صحیح ہے، لیکن فانی اور عارضی ہی سہی، جتنی مدت کے لیے دنیا موجود ہے اس کا وجود حقیقی ہے، کوئی فریبِ نظر نہیں ہے۔

عقل کا رول

اس واقعے کو اسلام صاف انداز میں بیان کرتا ہے کہ یہ دنیا حقیقت بھی ہے اور دوسری حقیقتوں کو جاننے کے لیے نشانی بھی ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا کے بارے میں جاننے کا ذریعہ کیا ہے؟ بہت سے فلسفیوں کا یہ خیال رہا ہے کہ دنیا کے بارے میں جاننے کا جو ذریعہ ہے وہ ہماری سوچ ہے۔ ہم سوچ کر دنیا کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ قرآن مجید اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ہم عقل کے  کے ذریعے سے دنیا کو جان سکتے ہیں، لیکن وہ عقل سے پہلے حقائق یا واقعات کا تذکرہ کرتا ہے، عقل کے رول کو مشاہدے سے الگ نہیں کرتا۔ مشاہدے اور عقل سے متعلق یہ قدیم بحث ہے جو موجودہ سائنس (یا مغربی سائنس) اور قدیم فلسفہ کے مابین ہے۔ یوں تو انسان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ انسان دنیا میں کب سے ہے، لیکن جس تاریخ کو ہم جانتے ہیں وہ کچھ زیادہ طویل نہیں ہے۔ وہ چند ہزار سال کی تاریخ ہے۔ اس میں جو بڑا رول ہے وہ دو تہذیبوں کا ہے۔ ایک موجودہ مغربی تہذیب ہے جو تین سو سال سے غالب ہے۔ اس سے پہلے اسلامی تہذیب ایک ہزار سال تک غالب رہی اور اب بھی بہرحال مغلوب نہیں ہے۔ ان تہذیبوں سے پہلے جن چند ہزار سال کی تاریخ سے ہم کچھ واقف ہیں  اُس کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ علمی دنیا میں فلسفہ کا دور دورہ تھا۔ لوگ حواس کے ذریعے کیے گئے مشاہدے کے بجائے اُن باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے جن کی تائید ان کی سوچ کرتی تھی۔

قدیم فلسفہ اور مغربی سائنس کے نقطۂ نظر کا فرق

ایک مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ قدیم فلسفہ کے نقطۂ نظر اور مغربی سائنس کے نقطۂ نظر میں فرق کیا ہے؟ ارسطو کا کہنا یہ تھا کہ اگر آپ دو چیزیں اوپر سے گرائیں، ایک وزنی ہو اور ایک ہلکی تو وزنی چیز جلدی زمین پر پہنچ جائے گی، ہلکی چیز بعد میں پہنچے گی، مثلاً: اگر وزن دس گنا زیادہ ہے تو وقت میں فرق بھی دس گنا ہوگا۔ اب آپ یہ تجربہ کرکے دیکھ سکتے ہیں، تجربہ ارسطو کی تائید نہیں کرتا۔ آپ دیکھیں گے کہ اگر ہوا بالکل نہ چل رہی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، وزنی اور ہلکی چیز دونوں ساتھ ساتھ سطحِ زمین پر پہنچ جائیں گی، اگر ہوا چل رہی ہو تو وزنی چیز پہلے پہنچ جائے گی، ہلکی بعد میں پہنچے گی، لیکن بہر حال دس گنا کا فرق نہیں ہوگا، بہت تھوڑا سا فرق ہوگا۔ ارسطو نے جو خیال پیش کیا تھا، اس کے لیے اس نے فلسفیانہ دلیل دی ۔  جو چیز بھاری ہے وہ جلدی پہنچنی چاہیے۔ اس لیے کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف واپس جاتی ہے، وہ اصل میں زمین سے گئی تھی اس لیے زمین کی طرف واپس آئے گی اور واپس آنے کا جو رجحان ہے وہ اس کے وزن کے مطابق ہے، جتنا وزن زیادہ ہوگا اتنی ہی تیزی سے وہ واپس آئے گی۔ گویا اگر کچھ  فلسفیانہ باتیں مان لیں اور ان سے کچھ نتیجہ نکالیں تو اس کو فلسفیانہ سوچ کہتے ہیں۔ اس کے برعکس گلیلیو نامی سائنس داں (۱۷؍ویں صدی) کا کہنا یہ تھا کہ غور کی ابتداکے لیے آپ کیا باتیں مان لیں یہ مشاہدہ کی بنیاد پر طے ہونا چاہیے۔ یہ یونانی فلسفہ اور سائنس کا بنیادی فرق ہے۔ گلیلیو کا اور بعد کے سائنس دانوں کا کہنا یہ ہے کہ بنیادی بات (جو ابتدا میں مان لی جائے گی وہ) مشاہدے سے طے ہوگی نہ کہ محض سوچ سے۔ اسلام نے جس طرح مشاہدہ کا اور عقل کا ذکر کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نقطۂ نظر موجودہ سائنس کے نقطۂ نظر سے قریب ہے اور یونانی فلسفہ کے نقطۂ نظر سے دور رہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے:

ولا تقف مالیس لک بہ علمٌ، انَّ السمع والبصر و الفؤاد کل اولٰئک کان عنہ مسؤلا۔  (بنی اسرائیل:۳۶)

’’جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو، اس کی پیروی نہ کرو۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل سب کی باز پرس ہونی ہے۔‘‘

فواد اور قلب کے الفاظ معنی کے لحاظ سے قریب ہیں۔ یہاں پر فواد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں کہا یہ گیا ہے کہ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگو۔ اس کی پیروی نہ کرو، اس لیے کہ آنکھ اورکان اور دل سب کی باز پرس ہونی ہے۔

مشاہدہ

قرآنِ مجید میں اکثر ایک بات کہی جاتی ہے اور پڑھنے والے یا سننے والے کو ذرا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اس پر سوچے۔ سوچ کر اگلی بات وہ خود سمجھ لیتا ہے۔ پھر اس کے بعد ترتیب کے لحاظ سے اگلی بات قرآن بیان کرتا ہے۔اس طرح قرآنِ مجید نے پڑھنے والوں کی تربیت کی ہے۔ دو باتوں کے درمیان میں تھوڑا سا وقفہ بھی ہوتا ہے۔ اس وقفہ کو قرآن پڑھنے والے کو خود بھرنا چاہیے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی ان آیتوں میں مسلمانوں کو ہدایات دی جارہی ہیں۔ ہدایات شروع یہاں سے ہوتی ہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، اس کے بعد اجتماعی زندگی کے بارے میں ہدایات ہیں۔ (معاشی زندگی کے بارے میں اور زندگی کے مختلف گوشوں کے بارے میں) ظاہر ہے کہ یہاں عالم غیب کا ذکر نہیں ہورہا ہے، ابتدا میں کہہ دیا گیا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ اس کے بعد پورا ذکرانسانی سماج کا ہورہا ہے، چناںچہ یہاں جس علم کا ذکر ہے۔ وہ  عالمِ غیب سے متعلق نہیں ہے۔ یہاں تو اسی علم کا ذکر ہے، جس کی ضرورت ہمیں انسانی معاملات کے لیے ہے۔ یہاں کہا جارہا ہے کسی ایسی چیز کی پیروی نہ کرو، جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ یہ بات ایک شخص نے سن لی اور اب اُس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ علم ہمیں کیسے حاصل ہوگا۔ اس کا جواب اگلا جملہ دیتا ہے کہ علم کان اور آنکھ اور دل کے استعمال کرنے سے حاصل ہوگا، یعنی آنکھ، کان اور فواد یہ علم حاصل کرنے کے قابلِ اعتبار ذرائع ہیں۔

جن لوگوں نے مشاہدہ (Observation) کو مشتبہ قرار دیا ہے اُن کی رائے صحیح نہیں ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے کہ تم نے جو کچھ دیکھا اُس پر غور کرو، اپنی عقل کو استعمال کرو، عقل مشاہدات سے نتیجہ نکالے گی، ان کو منظم کرے گی۔ اسلام نے فلسفہ اور سائنس کی بحث میں معتدل موقف اختیار کیا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ رول تو دونوں کا ہے۔ مشاہدہ کا بھی اور عقل کا بھی۔ لیکن ابتدا مشاہدہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سمع اور بصر کا ذکر پہلے ہے۔ اس کے بعد فواد کا ذکر ہے۔ یہ نقطۂ نظر موجودہ سائنس سے زیادہ قریب ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق مشاہدہ کو ہم قابلِ اعتبار  ذریعہ علم قرار دے سکتے ہیں۔ اصل سوال یہ تھا کہ علم کا ذریعہ کیا ہے؟ اُس سوال کا جواب یہ ہے کہ علم غیب کا ذریعہ تو نبی اور رسول ہیں اور یہ دنیا جو نظر آتی ہے اس کے بارے میں علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہمارا مشاہدہ ہے۔ اس مشاہدہ سے عقل نتائج اخذ کرتی ہے۔ چناںچہ علم کا ایک ذریعہ نبی اور رسول ہیں اور دوسرا ذریعہ ہمارا مشاہدہ اور عقل ہے۔

مشاہدے کا اعادہ

علم کے بارے میں کچھ سوالات  اور پیدا ہوتے ہیں، ان کا جواب قرآن کی روشنی میں ہمیں ملتا ہے اور ہمارے تجربات بھی مدد کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے مشاہدے کو مشتبہ قرار دیا ہے، ان کے خیال کی وجہ کیا ہے؟ جو بات وہ کہتے ہیں اس کو ہم کس طرح رد کرسکتے ہیں؟ ایک مثال لیجیے: کوئی شخص ہمیں بتاتا ہے کہ ابھی میں جنگل میں جارہا تھا، رات کا وقت تھا۔ میں نے ایک بھوت دیکھا۔ ہم یہ بات سن کر کہتے ہیں کہ بھائی بھوت کوئی شئے نہیں ہے۔ گویا ہم اس کے بیان کردہ مشاہدہ کو نہیں مانتے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشاہدہ اگر قابلِ اعتماد ہے تو پھر اس طرح کے مشاہدات کو کیوں نہ مانا جائے؟ قرآنِ مجید کے اشارات سے اس بات کا جواب ملتا ہے۔ قرآن آسمان کے بارے میں کہتا ہے، اس میں تم کوئی خلل نہیں پاؤگے، تم دیکھو اور پھر دوبارہ دیکھو۔ اس بات کو موجودہ سائنس یوں کہتی ہے کہ ہمارا مشاہدہ جانچ کا متحمل ہو، یعنی اسے Verifiable ہونا چاہیے۔ کوئی دوسرا شخص وہ مشاہدہ کرنا چاہے تو کرسکے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں جنگل میں جارہا تھا اور میں نے بھوت دیکھا، ہم بھی جنگل میں جائیں تو ہمیں بھوت نظر آنا چاہیے تب بات ٹھیک سمجھی جائے گی۔ مشاہدہ وہ درست ہے جس کا اعادہ کیا جاسکتا ہو۔ پہلے آدمی کی بات سے متاثر ہوئے بغیر دوسرا فرد انہی حالات میں مشاہدہ کرنے کی کوشش کرے، تب مشاہدہ قابلِ اعتماد قرار پائے گا۔ عمومی اصول یہ ہے کہ خبر واحد (Single Report) مشاہدے کے بارے میں قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ حدیث میں تو ہوسکتا ہے کہ ایک ہی راوی نے نبی ﷺ سے بات سنی، اگر راوی قابلِ اعتماد ہے تو ہم مان لیں گے لیکن جو چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں، ان کے بارے میں خبر واحد سے کام نہیں چل سکتا۔وہاں مشاہدہ قابلِ اعتماد ہونا چاہیے۔ یہ اصول موجودہ سائنس تسلیم کرتی ہے اور یہ اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔

ٹکراؤ کی صورت میں

پھر کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو مشاہدات میں ٹکراؤ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ریل کی دو پٹریاں ہیں، ہم قریب جاکے دیکھتے ہیں تو وہ متوازی نظر آتی ہیں۔ دور سے دیکھتے ہیں تو ملتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریب کا مشاہدہ صحیح ہے یا دور کا مشاہدہ صحیح ہے۔ یہاں اصول یہ ہے کہ اگر دو مشاہدات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوں تو اس مشاہدے کو صحیح سمجھا جائے گا، جس کی عقل تصدیق کرتی ہو۔ ہماری عقل یہ کہتی ہے خدا کی اس دنیا میں تضاد نہیںہے، ایسا نہیں ہے کہ ایک قانون ایک جگہ پر درست ہو اور دوسرا قانون دوسری جگہ پر درست ہو۔ ایک جگہ پانی کو ٹھنڈا کریں تو برف بن جائے اور دوسری جگہ پانی کو ٹھنڈا کریں تو بھاپ بن جائے، ایسا نہیں ہوگا۔ ایک ہی قانون دنیا میں ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ چناںچہ اگر دو مشاہدات ٹکراتے ہوں تو اس مشاہدے کو صحیح سمجھا جائے گا جس کی عقل تصدیق کرتی ہو۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے مشاہدات کو منظم کریں اس ترتیب سے جو چیز ٹکرائے وہ نہیں مانی جائے گی۔ اس مشاہدے پر پھر غور کیا جائے گا۔ اکثر حالات میں آپ دیکھیں گے کہ پہلے مشاہدہ میں غلطی ہوگئی تھی۔

علم اور تزکیہ

علم کے بارے میں اگلے سوال کا تعلق اسلام کے خاص مزاج سے ہے، اسلام علم اور تزکیہ کا ذکر اکثر ساتھ ساتھ کرتا ہے۔ قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کے چار بنیادی کاموں کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ کے چار بنیادی کام ہیں: اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو سنانا،اہلِ ایمان کا تزکیہ کرنا، کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کا لفظ دوبارہ آیا ہے۔ کتاب کی تعلیم، حکمت کی تعلیم اور ان کے ساتھ تزکیہ کا لفظ آیا ہے۔ تزکیہ کا ترجمہ ہم عام طور پر تربیت کرتے ہیں۔ تزکیہ کے معنی یہی ہیں کہ انسانوں کی اصلاح کی جائے، ان کی خامیاں دور کی جائیں، ان کو اخلاقی، روحانی اور دینی حیثیت سے بلند کیا جائے۔ اللہ سے ان کا تعلق قائم ہو اور وہ ترقی اور تربیت کے مدارج طے کریں۔

اسلام علم اور تزکیہ کا ذکر یہاں پر ساتھ ساتھ کرتا ہے۔ اس کو مسلمانوں کی عام زبان میں تعلیم و تربیت کہتے ہیں۔ ہم جب تعلیم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو تربیت کا لفظ بھی بولتے ہیں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ تعلیم اور تربیت کا انتظام ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم کا زمین پر انسان کی خلافت سے گہرا تعلق ہے، علم انسان کو طاقت عطا کرتا ہے۔ خلیفہ ہونے کی بنا پر انسان کو کچھ اختیارات یہاں پر حاصل ہیں۔ ان اختیارات کے سلسلے میں وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ جس شخص کے پاس جتنا زیادہ علم ہوگا، اتنا ہی اس کی طاقت میں اضافہ ہوتاچلا جائے گا۔ اسی طرح جس گروہ کے پاس جتنا علم ہوگا، اسی لحاظ سے اس کی طاقت بھی زیادہ ہوتی چلی جائے گی۔ طاقت ہمیشہ اپنے ساتھ یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ انسان طاقت کا استعمال کس کام کے لیے کرے گا۔یعنی  اس کام سے وہ بھلائی کرے گا، نیکیاں پھیلائے گا، دنیا میں انصاف قائم کرے گا، اور اپنی طاقت سے اچھے کام لے گا یا اس طاقت سے برائی پھیلائے گا، انتشار پیدا کرے گا، ظلم کرے گا، استحصال کرے گا۔

یہ سوال سب سے پہلے فرشتوں نے کیا تھا کہ آپ زمین میں خلیفہ بنانے والے ہیں تو خلیفہ تو خون بہائے گا، فساد پھیلائے گا، زمین کے نظام کو خراب کرے گا، انھوں نے اس پہلو کو نمایاں طور پر پیش کیا۔ بہرحال پہلو تو دونوں موجود ہیں، طاقت کا اچھا استعمال بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی۔اسلام نے علم اور تزکیہ کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسان کو علم دینا چاہتا ہے مگر اس طرح دینا چاہتا ہے کہ اس کا تزکیہ بھی ہوتا رہے۔ اس بات کو دوسرے طریقے سے اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے مگر اس طریقے سے کہ اُسے علم بھی حاصل ہوتا چلائے۔ علم بلا تزکیہ یا تزکیہ بلا علم ،اسلام کے نقطۂ نظر کے خلاف ہے۔ وہ لوگ جو رہبانیت کی طرف مائل ہوئے، ان کا نقطۂ نظر ایسا تھا کہ تزکیہ ہو مگر بغیر علم اور طاقت کے۔اس کے برعکس موجودہ دنیا ہے۔ وہ اس طرف مائل ہے کہ علم اور طاقت ہو مگر تزکیہ نہ ہو، بلکہ تزکیہ کا کوئی تصور تک نہ ہو۔ اسلام جو بات کہتا ہے وہ یہ ہے کہ علم اور تزکیہ انسان کی شخصیت کے ایسے پہلو ہیں جن کا ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ ساتھ ساتھ نہ ہوں تو فساد پیدا ہوگا۔ فرد کی زندگی میں بھی خرابی پیدا ہوگی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔

یہ علم کے بارے میں بہت بنیادی بات ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ اس کی ضرورت ہے کہ پہلے اسے مسلمان خود سمجھیں پھر اسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ موجودہ دنیا نے علم کو Skills and Information تک محدود کردیا ہے، یعنی علم کچھ مہارت حاصل کرنے کا نام ہے، کچھ معلومات اکٹھا کرنے کا نام ہے لیکن علم تو اصلاً انسان کی شخصیت کی تکمیل کا نام ہے۔ اس طرح کہ وہ دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہونے کا کام انجام دے سکے، اس کو دونوں چیزوں کی ضرورت ہے۔ علم بھی ہو اس کا تزکیہ بھی ہو۔ چناںچہ دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمرؓ کا قول ہے: ’’جو شخص دنیا کا طالب ہے اسے تعلیم دینا ایسا ہے جیسا ڈاکو کے ہاتھ تلوار بیچنا۔‘‘ وہ دنیا طلب کررہا ہے، آپ اسے علم دیں گے تو وہ اس کا غلط استعمال کرے گا۔ جیسے ڈاکو کو تلوار دی جائے گی تو اس سے وہ لوگوں کے مال و دولت کو لوٹے گا، انصاف قائم نہیں کرے گا۔ یہ علم کا وہ پہلو ہے جو موجودہ دنیا کے سامنے سرے سے نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں اسے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ وہ تعلیمی نظام جو مسلمانوں کے کنٹرول میں ہو، اس میں علم اور تزکیے کا ساتھ ساتھ اہتمام کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔

جہاں تک علم کا تعلق ہے۔ اس کے کچھ طریقے ہیں۔ ہم اسکول بناتے ہیں، مدرسہ بناتے ہیں، کلاس روم ہوتا ہے، استاد ہوتے ہیں، امتحانات اور کتابیں ہوتی ہیں، اس تعلیمی نظام کے تجربات ہیں جو انسان نے حاصل کیے ہیں، یہی معاملہ تزکیہ کا ہے، تزکیہ کے بھی اپنے طریقے ہیں۔ اس میں لوگوں سے بات چیت کرنی ہوتی ہے۔ ان کی قلبی کیفیت کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ ان کے مسائل حل کرنے ہوتے ہیں۔ ان کی الجھنوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔ یہ سارا کام قرآن و سنت کی روشنی میں ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاں تک علم اور تزکیہ کا تعلق ہے ان دونوں کے کچھ طریقے ہیں، ان طریقوں کو آپس میں ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اصلاً ایک ہی نظام ہے جو تعلیم و تربیت کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔