سیاست

محمد حسن

صبح کے سات بج رہے تھے مستان گھر کے دالان میں زمین پر بیٹھا دونوں ہاتھ گالوں پر ٹکائے من ہی من مسکرائے جارہا تھا اس لئے کہ تھوڑی دیر پہلے جب وہ کھیتوں کی طرف سے گاؤں کے بیچ سے ہوکر گھر کی طرف آرہا تھا تو نیتا جی کے دروازے پر لگی کرسیوں میں بیٹھے کچھ لوگوں کی باتیں سن لیا جو یہ چرچا کر رہے تھے کہ اِس بار سرکار نے چھوٹی ذاتی کے عورتوں کے حق میں مکھیا کا چناؤ لڑنے کا فیصلہ دے دیا ہے جیسے ہی اس کی نظر اس کی بیوی پر پڑی جو گھر کےدروازے سے باہر نکل رہی تھی اس کی مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہوگئی اور اس کو اپنے پاس بیٹھا کر اِس بارے میں اس کی رائے جاننا چاہا پھر کیا تھا اس کی بیوی مکھیا بننے کی بات سن کر پھولے نہیں سمائی اور اس کے چہرے کی بشاشت یہ صاف اعلان کررہی تھی کہ اس سے بڑی خوش قسمتی اس کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ پانچ گاؤں کے لوگ اسے مکھیا پکاریں، اس کی طرز زندگی میں کمال کی رونق پیدا ہو اور خاصی تبدیلی آئے، جیپ گاڑی میں گھومے پھرے، شاندار ہوٹلوں میں کھانا پینا کرے، بڑے بازاروں میں اس کا آنا جانا لگا رہےاور اس کے دروازےپر لوگوں کا تانتا بندھا رہے۔ مستان کے لئے یہ بڑی خوشی کی بات تھی لیکن ایک سبب الجھن کا بھی تھا جس سے وہ چاہ کر بھی منہ نہیں پھیرسکتا تھا اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بھی وہ چھوٹی ذاتی کا مکھیا چناؤ لڑچکا تھا جو صرف مردوں کےلئے خاص تھا۔

مستان کی زندگی کا دارومدارکھیتوں میں اُپجے فصلوں پر تھا، اس کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہ تھا، ادھر ادھر ہیرا پھیری میں اس کا دن گزرتا اوراس کے معاش کا مسئلہ حل ہوتا، اس سے پہلے بھی وہ تین بار مکھیا چناؤ لڑ چکا تھا جس میں صرف ایک بار کامیابی ملی اور دوبار ناکامیوں کا سہرا اس کے سر بندھا، پہلی جیت میں تو اسےسمجھ تک بھی نہ آیا کہ سیاست کیا چیز ہے اور اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے اس لئے کہ وہ سماج میں ایسے لوگوں کے بیچ گھرا تھا جن کا مشغلہ غریب لوگوں کا خون اپنےمفاد میں استعمال کرنا اور ان کو ضروریات کی بلی چڑھا دینا تھا جس کی وجہ سے پہلی کامیابی کے ایام کیسے گزر گئے اسے پتہ بھی نہ چلا، عیش میں ڈوبا رہا، ہرطرف اس کی واہ واہی ہوئی، اس کا بول بالا اور اس کے نام پر لٹ مچاہوا تھا، اس کے پیٹھ پیچھے لوگوں کا کیا رول رہتا اور سامنے کیا اداکاری ہوتی اسے بالکل خبر نہ تھی، اس کے دروازے پر فریادیوں کا ہجوم اور صبح وشام مختلف قسم کی تنظیموں سے جڑے افراد کا آنا جانا لگا رہتا، گئی رات تک پروگراموں میں شرکت، تقریبات اور محفلوں میں نمائندگی سے ’دن عیش کی گھڑیوں میں گزر جاتے ہیں کیسے‘ ہو بہو اس پر فٹ آتا لیکن جہاں اس نے عوام کی خوب دل کھول کر خدمت کی وہیں امیروں نے اس پر خوب ہاتھ صاف کیا اورجس کو جہاں سے موقع ملا وہیں سے نوچا جیسے ’مفت کا دھن ہے باپ بیٹا مل کر لوٹو‘۔

مستان کا پانچ سال گزر چکا تھا، اس کا اقتدار چھین گیا تھا، اس کی بولتی بند ہوگئی تھی اور اس کا رہا سہا وقار بھی مجروح ہوچکا تھا کیوں کہ سیاست نے اسے کھوکھلا کردیا تھا۔ منصب سے نیچے اترتے ہی اس کا سب کچھ غائب ہو گیا تھا اور وہ طرح طرح کے مقدمات اور مسائل میں الجھا دیا گیا تھا، اس کے بے شمار مخالفین اور حاسدین جنم لے چکے تھے، جنہیں اس کے اقتدار میں ہاتھ صاف کرنے اور مال بٹورنے کا موقع ملا وہ بھی اور جنہیں نہیں ملا وہ بھی اب حسد اور شکایت کی نظریں اس پر جمائے الزامات کا یلغار کرنے لگے تھے اور اس کی زندگی چین سے کوسوں دور کسی ریل کی پٹری پر کھڑی ٹرین کی آمد کا انتظار کررہی تھی جس سےاس کو ابدی سکون حاصل ہوجائے لیکن شاید اسے معلوم تھا کہ  شاعر کہتا ہے’ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے، مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے، اور پھر دوسری بار اس نے چناؤ لڑنے کی ٹھان لی، اس بار اسے بہت شرمندگی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہ بچے تھے کہ لوگوں میں تقسیم کر ووٹ اپنے نام کرتا اور تاج اس کے سر پر پھر سے لوٹ آتا اس لئے کہ عوام تو لالچی ہوتی ہے باتوں کی، وعدوں کی اور روپیوں کی، جدھر ہرے پتے اور سہانے خواب نظر آئیں گے ان کا رخ ادھر ہی ہوتا چلا جائے گا، اہلیت، صلاحیت، نیک دلی اور نیک نامی سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، درخت کی ثمر بار ٹہنیاں انہیں بس دکھنی چاہئیں رات دن ان کا بسیرا وہاںبن جائےگا۔  ادھر ادھر سےقرض لے کر، ادھار کا انتظام کرکے اس نے ٹکٹ خریدی اور آخر کار ووٹوں کی گنتی کا دن آیا اور وہ منہ کے بل گرا،علاج معالجہ ہوا اورچہرا لٹکا رہا لیکن پھر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری اور تیسری بارکا چناؤ بھی لڑنا چاہا لیکن اس بار سرکارنے اپنی سیاست عملی بدل کرٹکٹ صرف بڑی ذاتی کے نام کر دیا تھا گویا کہ اس بار بھی اسے ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا کیوں کہ وہ اچھی طرح دیکھ چکا تھا کہ اس کے عہد میں اور پچھلے سالوں میں کیا روپ ان بڑی ذاتی والوں کا ابھر کر اس کے سامنے آیا تھا۔ وہ بھی اب زندگی کے تلخ تجربات کے دور سے گزر رہا تھا، لوگوں کے مختلف چہرے کھل کر اس کے سامنے آرہے تھے اور ان کی اصلییت کا اس کے سامنے انکشاف ہوگیا تھا۔

یہ ایک سنہرا موقع تھا اس کے سامنے کہ سرکار نے پھرسے پالیسی بدل کر چھوٹی ذاتی کی خواتین کے حق میں ٹکٹ کر دی تھی، اس بار اس کی گرم جوشی صاف نظر آرہی تھی، اس کا تیور بدلا ہوا دکھ رہا تھا اور اس کے ارادے مضبوط ہوگئے تھے۔ اس نے اپنے حامیوں اور مداحوں سے بھی رائے طلب کی اور سب نے اس کی پیٹ تھپتھپائی اور حوصلہ بلند کیا۔ اس بار مستان نے ڈھیر سارے پیسوں کا بندوبست کیا، اپنی ساری زمینیں گروی رکھی اور سودکا بھی سہارا لیا۔

اس کی بیوی کا نومینیشن ہوا، ٹکٹ خریدی گئی اور پرچار کے جیپ گاڑیوں کا انتظام کیا گیا۔ آٹھ دس بچے، پندرہ بیس جوان اور بیس پچیس بزرگوں کے ساتھ چار پانچ گاڑیاں پوسٹر لٹکائے پرچے بانٹتے اپنی پنچایت کے سارے گاؤں میں چکر لگانے لگے اورووٹوں کے لئے منت سماجت کرنے لگے، مستان چناؤ کے دھوم دھام میں اس طرح کھوگیا کہ اس کو کسی اور چیز کا خیالنہ رہا، نہانا دھونا، کھانا پینا تک بھی اس کو یاد نہ رہتا، اس کےدروازے پر لوگ جم کرجام پیتےاور قیمے کوفتے نگلتے لیکن اسے چائے تک کا بھی دھیان نہ رہتا۔ اس کے لئے یہ چناؤ جیتنا اتنا اہم تھا کہ زندگی بھی ہار سکتا تھا، اس کے سارے پزمردہ سپنوں کے پھول اس کی بدولت پھر سےکھلنے والے تھے اور اس کی موچھوں میں تاؤ آنے والا تھا۔

چناؤ ختم ہوگیا تھا بلاک میں ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی اور اس کی بیوی کے نام کا گھوڑا سب سے تیز دوڑ رہا تھا لیکن مستان وہاں موجود ہونے کے بجائے گھر پر ہی تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی سیاست ہے جس میں مذہب محفوظ ہے، ایمان سلامت ہے اور نہ ہی عزت وآبروکا تقدس برقرار ہے، اس کی بیوی جیت گئی تھی اورسب لوگ مستان کو بلاک میں تلاش کررہے تھے، اسے جیت کا مالا پہنانے کے لئے اور اس کے سر کامیابی کا سہرا باندھنے کے لئے لیکن وہ غمگین، اداس اور شرمندہ منہ چھپائے، سرجھکائے سیاست کی نیک نامی سےڈراورگھبرا رہا تھا کیوں کہ اس کی بیوی چناؤ میں اس کے گھر آتے جاتے ایک لڑکے پر فریفتہ ہوگئی تھی اور سیاست کی ہلچل سے کہیں دور اس کے ساتھ فرار ہوگئی تھی اور مستان کے دل سے یہ آواز آرہی تھی، واہ رے سیاست ! تو نے نہ دھن چھوڑا، عزت چھوڑی، آبرو رہنے دیا اور نہ ہی کہیں چین سے بسنے دیا۔ سیاست تیرے بوجھ تلے میری دنیا دب گئی اور میرا آشیانہ منہدم ہوگیا۔

تبصرے بند ہیں۔