سماجوادی گٹھ بندھن اور مسلمان

سماجوادی پارٹی میں  جاری ڈرامے کا آخری فیصلہ آچکا ہے۔  نتیجہ پہلے سے لکھی گئی کہانی کے عین مطابق ہے۔ اکھلیش یادو پارٹی کے سروے سروا بن چکے ہیں۔  سائیکل کا نشان انہیں  دے کر الیکشن کمیشن نے اس پر مہر لگا دی ہے۔ ایک طرف نشان ملنے کی خوشی میں  جشن منایا جارہا تھا، تو دوسری طرف اکھلیش یادو ملائم سنگھ سے آشیرواد حاصل کرنے ان کے گھر گئے ہوئے تھے یا یوں  کہئے کہ اپنے والد کو مبارکباد دینے کہ سب کچھ ان کے منصوبہ کے مطابق ہوا ہے۔ ملائم سنگھ اتنے دنوں  تک اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں  ہوئے۔ وہ کئی مرتبہ الیکشن کمیشن گئے لیکن اپنی سوچی سمجھی پالیسی کے تحت انہوں نے وہاں  کوئی حلف نامہ داخل نہیں  کیا۔ پھر اکھلیش کے گھر آنے پر وہ الیکشن میں  اپنے امیدوار نہ اتارنے پر تیار ہو گئے۔  اس بات سے سماجوادی میچ فکس ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

ملائم سنگھ نے اکھلیش یادو کو آشیرواد کے ساتھ 38 ناموں  کی لسٹ دی اور انہیں  ٹکٹ دینے کو کہا۔ اکھلیش کی جانب سے اس پر رضامندی کا اشارہ مل چکا ہے۔ کیونکہ اس لسٹ میں  ملائم سنگھ کے قریبی اور خاندان کے لوگوں  کے نام شامل ہیں۔  اس میں  شیوپال کا نام بھی موجود ہے انہیں  جسونت نگر سیٹ سے امیدوار بنایا گیا ہے ویسے ملائم اور اکھلیش یادو نے امیدواروں  کی جو لسٹیں  جاری کی تھیں۔  ان میں  171 نام کامن تھے۔ اکھلیش کی لسٹ میں  48 نام ملائم سنگھ کی لسٹ سے الگ تھے۔ صرف 31 ناموں  پر دونوں  کے درمیان اختلاف تھا۔ اکھلیش نے جھگڑے کے ذریعہ یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ غنڈوں، بدعنوانوں  اور مافیائوں  کو پسند نہیں  کرتے۔ ان سے دوری بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔  باپ اور چچا سے اسی بات کو لے کر ان کا اصلی جھگڑا ہے۔ لیکن اکھلیش یادو نے امیدواروں  کی لسٹ جاری کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں  رکھا۔ ان کی لسٹ میں  کئی ایسے نام شامل ہیں  جن کا اچھا خاصا کرمنل ریکارڈ ہے۔

دراصل اس خاندانی تنازعہ کے ذریعہ ایک ساتھ کئی نشانے سادھے گئے ہیں۔  سپاکے غنڈوں ، دبنگوں، مافیائوں  کو بڑھاوا دینے، خراب قانون و انتظامیہ، لینڈ مافیائوں  کو فائدہ پہنچانے وغیر قانونی قبضوں ، کرپشن و کرپٹ لوگوں  کی سرپرستی فسادات اور فرقہ واریت پر لگام نہ لگانے سے عام لوگوں  میں  بے چینی تھی۔ مسلم ووٹر جو سماجوادی کا مضبوط ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے وہ مظفر نگر اور فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے بری طرح ناراض تھا۔ اس کا فائدہ بہوجن سماج پارٹی کو ملنے کی توقع تھی۔ مایاوتی اپنی سبھائوں  میں  فسادات اور کمزور قانون انتظامیہ پر سپا سرکار کو گھیر رہی تھیں۔  ان کا کہنا تھا کہ بسپا سرکار کے رہتے یوپی میں  کوئی فساد نہیں  ہوا۔ وہ ریاست کو جنگل راج سے نجات دلائیں  گی۔ مایاوتی کی نظر مسلم ووٹوں  پر ہے۔ لیکن مسلمانوں  کے تعلق سے ان کا رویہ بھی اچھا نہیں  رہا ہے۔  سب سے زیادہ مسلم لڑکے دہشت گردی کے الزام میں  ان کے دور حکومت میں  گرفتار ہوئے۔ دوسری طرف بی جے پی اپنی  پریورتن ریلیوں  میں  سپا اور بسپا دونوں  کو نشانہ بنا رہی تھی۔ خود نریندر مودی ریلیوں  میں  کہہ چکے ہیں  کہ بوا اور بھتیجے نے مل کر یوپی کو برباد کیا ہے۔  چودہ سال سے بی جے پی بنواس پر نہیں  بلکہ یوپی کا وکاس بنواس پر ہے۔

ایسی صورت میں  یہ ضروری تھا کہ سماجوادی پارٹی کچھ ایسا کرے جس سے حالات اس کے حق میں  ساز گار ہوں  یا چنائو میں  اینٹی ان کمبنیی کاکم سے کم نقصان ہو۔ چچا بھتیجے کے بیچ جھگڑے کو اس کیلئے ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ملائم سنگھ نے اس نوٹنکی میں  اہم رول ادا کیا۔ جھگڑے کو طول دے کر اسے  پارٹی  سے لے کر خاندان تک کا مسئلہ بنا دیا۔ اس کے نتیجہ میں  عوام کا دھیان حکومت کی کمیوں  کی طرف سے ہٹ کر خاندانی تنازعہ پر مرکوز ہوگیا۔ جو کارکن پارٹی سے دور ہوئے تھے وہ اکھلیش کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ انہیں  اکھلیش یادو کے ساتھ رہنے میں  اپنا مستقبل نظر آنے لگا۔  عام لوگوں  میں  اکھلیش کے تعلق سے ہمدردی پیدا ہوگئی۔ ملائم سنگھ نے اس کا فائدہ اٹھا کر اکھلیش کے راستے میں  روڑا بننے والوں  کو کنارے کردیا اور پوری پارٹی اکھلیش یادو کے حوالے کردی۔ اس کے ساتھ ملائم سنگھ نے آمدنی سے زیادہ جائیداد کے معاملے میں  پھنسنے کی فکر سے نجات حاصل کرلی۔  اسی کے ڈر سے وہ مرکزی سرکاروں  کا  چاہے نہ چاہے  ساتھ دیتے رہے ہیں۔  جانکار اس پورے عمل کو اقتدار کی پرامن منتقلی مانتے ہیں۔

 البتہ  اس  کشمکش میں  اکھلیش یادو نوجوان، تعلیم یافتہ، جدید دنیا سے واقف، مضبوط ارادوں  والے وکاس پورش کے طور پر ابھرے ہیں۔  شاید اس کہانی کاکلائمیکس اکھلیش یادو کو ینگ لیڈر کی حیثیت میں  پروجیکٹ کرنا  ہی تھا۔  تاکہ وہ یوپی کے نوجوانوں  کے آئیکن بن سکیں  اور آنے والا ودھان سبھا الیکشن ذات، برادری، مذہب اور فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر موبائیل، لیپ ٹاپ، ٹیکنالوجی، روزگار، نوجوانوں  کی ضرورتوں  اور ان کے مسائل کے ارد گرد لڑا جائے۔

شروع سے ہی اکھلیش یادو کانگریس کے ساتھ مل کر چنائو لڑنا چاہتے ہیں ۔  ان کے پالیسی سازوں  کا ماننا ہے کہ گٹھ بندھن میں  چنائو لڑنے سے سماجوادی پارٹی کی کار کردگی اچھی رہے گی۔ اس گٹھ بندھن میں  کانگریس کے علاوہ آر ایل ڈی، جے ڈی یو اور آر جے ڈی کو شامل کرنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ یہ مانا جارہا تھا کہ اس قدم سے مسلم ووٹوں  کو تقسیم ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ دوسرے نتیش کمار کے ساتھ آنے سے کرمی ووٹ گٹھ بندھن کو مل جائیں  گے۔ اکھلیش یادو، راہل گاندھی، تیجسوی یادو اور جینت چودھری کی ایسی ٹیم ہوگی جس کی طرف ریاست کے نوجوان کھینچے چلے آئیں  گے۔ گٹھ بندھن سے پہلے ہی ڈمپل یادو اور پرینکا گاندھی کی تصویروں  کے ساتھ پوسٹر اور ہورڈنگ بھی دکھائی دیے۔ خبروں  کے مطابق سپا کانگریس کو 85-80 سیٹیں  دینا چاہتی ہے جبکہ کانگریس  125 سے 150 سیٹوں  کی مانگ کر رہی تھی۔ مانا جارہا ہے کہ کانگریس 85-80 سیٹوں  پر چنائو لڑنے کا من بنا چکی ہے۔ آر ایل ڈی کو 20سے 25 سیٹیں  دی جانی تھیں۔  جے ڈی یو کے بہار سے لگی 37 سیٹوں  پر دعویداری کا امکان تھا۔ جبکہ ملائم سنگھ کسی بھی طرح کے گٹھ بندھن کے حق میں  نہیں۔  انہوں  نے 325 امیدواروں  کی لسٹ جاری کرنے کے وقت گٹھ بندھن سے انکار کیا تھا۔ سماجوادی پارٹی کی جانب سے یہ کہا جانا کہ کانگریس 54 سیٹوں  سے زیادہ کی حقدار نہیں، سپا کے ذریعہ ان سیٹوں  پر سپا امیدوار بنایا جانا جو سیٹیں  اس وقت کانگریس کے پاس ہیں   اور   اکھلیش یادو کا کانگریس کے ریاستی صدر راج ببر سے نہ ملنے سے گٹھ بندھن کے امکانات کمزور ہوئے ہیں۔  سوال یہ ہے کہ کیا کٹھ بندھن نہ ہونے میں  ملائم سنگھ کی مرضی شامل ہے؟۔

یوپی کے الیکشن کو 2019 کے چنائو کی تیاری کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ اس الیکشن سے مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے پر بھی مہر لگے گی۔کرنسی کی منسوخی سے سب سے زیادہ تکلیف غریبوں، مزدوروں ، دہاڑی پر کام کرنے، رکشہ چلانے، ہاتھ سے کام کرنے والوں  اور کسانوں  کو ہوئی ہے۔ کھیتی کسانی سے جڑے کام میں  ٹھاکر، جاٹ اور یادوں  کی تعداد زیادہ ہے۔ جاٹ ریزرویشن کے مسئلہ پر پہلے سے ہی بی جے پی سے ناراض ہیں۔  2014 میں  بھاجپا کو 43 فیصد ووٹ ملے تھے۔  اس وقت مودی نے اپنے آپ کو یوپی کا نیتا بتایا تھا۔ مظفر نگر کے واقعہ سے دوسری قوموں  کے ساتھ ٹھاکر، جاٹ یادو اور دلت ووٹ بھی بی جے پی کو ملا تھا۔ اس وقت نہ تو کوئی فرقہ وارانہ ماحول ہے اور نہ ہی بی جے پی کے پاس کوئی چہرہ۔ جبکہ رام مندر سمیت کئی معاملے اٹھا کر بھاجپا نے ماحول گرمانے کی پوری کوشش کی لیکن کامیابی نہیں  ملی۔ رہی سہی کسر نوٹ بندی اور اب آر ایس ایس کے ریزرویشن مخالف بیان نے پوری کردی ہے۔ اس کا فائدہ سیدھے طور پر مایاوتی کو ملے گا۔

عام طور پر مانا جاتا ہے کہ دلت ووٹ مایاوتی کے ساتھ ہے۔ پچھلے کئی چنائوں  کے نتیجوں  کو دیکھیں  تو مایاوتی کا دلت ووٹ بینک چنائو در چنائو سکڑتا جارہا ہے۔ 2004 کے لوک سبھا الیکشن میں  ایس سی کیلئے ریزرو17 سیٹوں  میں  سے بسپا کو صرف پانچ سیٹیں  ملی تھیں۔  2009 میں  بسپا کو کل 20 سیٹیں  حاصل ہوئی تھیں  لیکن ایس سی سیٹوں  کا گراف کافی خراب رہا تھا۔ 2014 میں  20 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود اسے ایک بھی سیٹ نہیں  ملی۔ 2012 کے اسمبلی چنائو میں  اسے 25.9 فیصد اور سپا کو 29.13 فیصد ووٹ ملے تھے لیکن بسپا 85 ریزرو سیٹوں  میں  سے صرف 15 سیٹیں  ہی جیت سکی تھی جبکہ سپا نے ان میں  سے 58 سیٹیں  جیت لی تھیں۔  وہیں  2009 کے الیکشن میں  بسپا کو ان میں  سے 47 سیٹیں  حاصل ہوئی تھیں ۔  کئی سیٹوں  پر بسپا امیدواروں  کے ہار کا فرق پانچ ہزار ووٹوں  سے بھی کم رہاتھا۔ ظاہر ہے کہ بسپا کی اس کامیابی میں  صرف دلت ووٹوں  کا ہاتھ نہیں  تھا۔ موجودہ الیکشن میں  اسے دوسری ذاتوں  کے ووٹوں  کی ضرورت ہے۔ بسپا کو جیتنے کیلئے 60۔ 70فیصد مسلم دلت ووٹوں  کی ضرورت ہے۔

 بھاجپا کے علاوہ باقی سبھی پارٹیاں  مسلمانوں  کو خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں  سے امیدوار  بنا رہی ہیں  یہی وجہ ہے کہ موجودہ چنائو  کا بہت کچھ انحصار مسلم ووٹوں  پر ہے۔ اگر وہ ٹیکٹس ووٹنگ کرتے ہیں  یعنی جہاں  جس پارٹی کا امیدوار جیتنے کی حالت میں  ہے اسے جتایا جائے تو یوپی میں  کسی ایک پارٹی کو اکثریت ملنے کی امید کم ہے۔ ووٹ کٹوا پارٹیوں  کے جھانسے میں  آکر مسلمانوں  نے اپنا ووٹ برباد کیا تو پھر بھاجپا کو بہتر کرنے سے کوئی نہیں  روک پائے گا۔ ملائم سنگھ تو ہمیشہ بی جے پی اور سنگھ کیلئے ملائم رہے ہیں۔  گٹھ بندھن  میں  رکاوٹ  کے پیچھے  بھی یہی مقصد کار فرما ہے کہ بھاجپا آخر وقت تک مقابلہ میں  بنی رہے۔  سابق وزیراعظم وی پی سنگھ کہا کرتے تھے کہ بہار ملک کا دماغ ہے اور یوپی دل۔  دماغ نے تو بھاجپا کو ٹھکرا کر اپنی سمجھداری دکھا دی۔  اب دل کی باری ہے کہ وہ کس کو چنتا ہے اور کسے اپنے سے دور کرتا ہے۔ مسلمانوں  کو اپنی لڑائی خود لڑنے کیلئے تیاری کرکے اس چنائو میں  آنا چاہئے تھا لیکن وہ وقت گنوا دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس الیکشن میں  وہ کوئی راستہ نکالیں  گے یا پھر جذبات میں  بہہ کر اپنے ووٹ یوں  ہی برباد کردیں  گے۔ (یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔