ڈونالڈ ٹرمپ: امریکہ کا مردِ بیمار

امریکہ کی جمہوریت کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح امریکہ کے سابق صدر ابراہم لنکن کی تعریفِ جمہوریت کی بھی بڑی قدر کی جاتی ہے۔ علم السیاسیات میں  جب بھی جمہوریت کی تعریف کی جاتی ہے۔ اسے نمایاں  جگہ دی جاتی ہے۔ ’’جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو عوام کی ہے، عوام کیلئے ہے اور عوام کے ذریعہ ہے‘‘۔ (Democracy is for the people of the peple for the people)

 امریکہ کے صدارتی انتخاب میں  ڈونالڈ ٹرمپ جیسے شخص کی کامیابی نے امریکہ کی جمہوریت کے روشن چہرہ پر جو پردہ تھا اسے اٹھا دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت کے ذریعہ بھی ایک آمر اور مطلق العنان شخص جو امتیاز رنگ و خوں  کا حامی ہو وہ اقتدار کی کرسی پر فائز ہوسکتا ہے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو جمہوریت کی جو خامیاں  بڑے بڑے مفکرین نے پیش کی تھیں۔  وہ اجاگر ہورہی ہیں  کہ جمہوریت میں  قابلیت کے بجائے مقبولیت معیار بنتی جارہی ہے۔ جو لوگ نسل پرستی، وطن پرستی اور مادہ پرستی کے تنگ دائرے میں  دنیا کو لے جانا چاہتے ہیں  وہ اپنے اپنے ملکوں  میں  کامیاب ہو رہے ہیں،  ہندستان، برما، فرانس اور دیگر ملکوں  میں  بھی نسل پرستوں  کا بول  بالا ہورہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے دنیا کو بہت پہلے اس خطرہ سے آگاہ کیا تھا :

ہے وہی ساز کہن مغرب کا نظام

جس کے پردے میں  نہیں  غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد اور جمہوری قبا میں  پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق

طب مغرب میں  مزے میٹھے اثر خواب آوری

گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں

یہ بھی اک سرمایہ داروں  کی ہے جنگ زرگری

اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو

آہ! اے ناداں  قفس کو آشیاں  سمجھا ہے تو

  علامہ محمد اقبالؒ کا درج ذیل شعر بہت مشہور ہے  ؎

جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جس میں  … بندوں  کو گنا کرتے ہیں  تولا نہیں  کرتے

امریکہ کے بارے میں  کہا جاتا ہے کہ تعلیم کی شرح وہاں  صد فی صد ہے پھر بھی ٹرمپ جیسا غیر تعلیم یافتہ، غیر مہذب اور غیر متمدن شخص انتخاب کی جنگ میں  کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ امریکہ میں  ٹرمپ کی ذہنیت کے افراد زیادہ ہوگئے ہیں  جو امریکہ کی جمہوریت کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ ٹیگور کا کہنا ہے:

  ’’چھوٹے اور تنگ ذہن میں  حب الوطنی اعلیٰ انسانی معیار سے اپنا رشتہ منقطع کرلیتی ہے۔ یہ اظہار کا ذریعہ ہے بن جاتی ہے جس میں  لالچ، جابرانہ نظام اور مذہب بیزاری کا نمایاں  عنصر ہے‘‘۔

  علامہ اقبال خاں  محمد نیاز الدین کے نام اپنے خط میں  27 جون 1917ء میں  لکھتے ہیں :

  ’’یورپ جس قومیت پر نازاں  ہے وہ بودے اور سست تاروں  کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے‘‘۔

  علامہ کے زمانے میں  جس طرح آج امریکہ کی جمہوریت کو اہمیت دی جاتی تھی اس وقت یورپین جمہوریت خاص طور سے برطانیہ کی جمہوریت کو شہرت حاصل تھی‘‘۔

  مسٹر سروجنی نائیڈو (1879-1949) نے تنگ نظر قومیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے:

 ’’علامہ اقبال کی شاعری نے میری روح کو تنگ نظر قومیت کے جذبہ سے آزاد کرتے ہوئے پوری کائنات سے محبت کے جذبہ سے سرشار کر دیا ہے‘‘۔

   قومیت یا وطنیت کا تنگ دائرہ انسان کو حیوانیت کی طرف لے جاتا ہے اور پھر اسے نازی ازم اور فاشزم کا نظریہ پسند آنے لگتا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی نے تنگ نظر قومیت کو اپنایا تھا۔ ہٹلر کہتا تھا: "Every THing for Nation Nothing Against Nation.” (ہر ایک چیز قوم کیلئے ہے اور قوم کے خلاف کوئی چیز نہیں )۔ اسی چیز کو آج نئے الفاظ میں  ڈونالڈ ٹرمپ اپنی تقریروں  میں  دہرا رہے ہیں۔   "America First” امریکہ سب سے پہلے۔ نریندر مودی نے اسی بات کو بہت پہلے کہا تھا : "India First” انڈیا سب سے پہلے۔ مودی سے پہلے جنرل پرویز مشرف نے بھی یہی کہا تھا: سب سے پہلے پاکستان (Pakistan First)۔

   ایسے تمام ناعاقبت اندیش انسانوں سے بلکہ انسان نما حیوانوں  سے علامہ اقبال نے مخاطب ہوکر کہا تھا  ؎

ان تازہ خداؤں  میں  بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اقوام جہاں  میں  ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں  مخلوق خدا بٹتی ہے اسی سے

قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اسی سے

 اسلام کی جگہ اگر انسانیت کا لفظ استعمال کرلیا جائے تو معنی میں  کوئی فرق نہیں  پیدا ہوگا کیونکہ اسلام کی آفاقیت جو ساری انسانیت اور ساری کائنات کیلئے مفید اور کار آمد ہے قوم، وطن یا حسب و نسب یا کسی اور چیز سے جو تنگ نظری پیدا ہوتی ہے وہ در اصل بیمار ذہن کی علامت ہے۔ ایسا شخص اپنے پاگل پن یا بیماری کا مظاہرہ کرتا ہے اور بیمار ذہن اسے جلد قبول کرلیتا ہے۔ یہی ہوا امریکہ میں۔  امریکی عوام کی اکثریت تو نہیں  بلکہ بڑی اکثریت دماغی و ذہنی لحاظ سے بیمار ہوگئی ہے۔ اس نے اپنے میں  سے ایک بیمار شخص کا انتخاب کیا ہے جس کا نام ڈونالڈ ٹرمپ ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی افتتاحی تقریب میں  کہا ہے:

’’میرے اندر سے ہزاروں امریکن صدر اُبھرتے اور ڈوبتے ہیں ‘‘ (A Thousand POTUSes rise and fall) یعنی میں  امریکی صدر کے عہدہ کو لات مارتا ہوں،  میرے لئے اس کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں  ہے۔ میں  اپنے آپ کو اس عہدہ سے بہت بڑا سمجھتا ہوں ؛ یعنی صدارت کی کرسی جس کیلئے وہ دل و جان سے لڑے اپنے مد مقابل کو ایک غلیظ اور کمینی عورت تک کہہ ڈالا اس کرسی کو وہ اب کچھ بھی نہیں  سمجھتے۔ کیا ایسی بات کہنے والا مرد بیمار نہیں  تو اور کیا ہوسکتا ہے؟ جو شخص ایسے آفس یا دفتر میں  جانے کیلئے مرا ہوا ہو اور پھر اسے پانے کے بعد اس آفس کی توہین کرتا ہو اسے بے وقعت سمجھتا ہو کیا ایسا شخص ایسے آفس میں  جسے صدارتی آفس کہا جاتا ہے رہنے کا حقدار ہے۔ امریکہ کے مہذب اور متمدن عوام اس مرد بیمار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔  اگر ان کی تحریک اور مہم جاری رہتی ہے تو اسے اپنی وقعت اور حیثیت ہمیشہ معلوم ہوتی رہے گی۔ امریکہ کے عوام کے ایک حصہ کی تعریف کرنی ہوگی کہ وہ انتخاب میں  اور انتخاب کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کے صدارتی عہدہ کیلئے ناموزوں  اور نامناسب سمجھتے ہیں  اور وہ اس کیلئے سڑکوں  پر مظاہرے کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

 امریکی میڈیا جسے ڈونالڈ ٹرمپ لعنت و ملامت کر رہے ہیں  وہ بھی ٹرمپ کے سخت خلاف ہے۔ ہندستان جیسے ملک میں  ’’چھوٹے ٹرمپ‘‘ کی حکومت ہے مگر ہندستان میں  امریکہ میں  جس پیمانے پر بڑے ٹرمپ کی مخالفت میں  مظاہرے اور جلسے و جلوس ہو رہے ہیں  ہمارا ملک ایسے بامعنی مظاہرے اور جلسے و جلوس سے محروم ہے۔ اتر پردیش میں  امید کی ایک کرن دو سیاسی جماعتوں  کے اتحاد سے دکھائی دے رہی ہے۔ خدا اسے نظر بد سے بچائے تاکہ یہ اتحاد فرقہ پرستی نسل پرستی کو شکست فاش دے سکے، جیسے بہار میں  عظیم اتحاد نے شکست فاش دی تھی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔