افسانوی نشست

مئوناتھ بھنجن:شہر مئو میں ادباء و شعراء کی کمی نہیں ، ایک محتاط اندازے کے مطابق مئو جیسی چھوٹی جگہ میں کم و بیش سو (100) شعراء موجود ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں شہر مئو کے یہ تمام شعراء گوشہ گمنامی میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ نہ کسی ادبی رسالے میں ان کا کوئی تذکرہ ملتا ہے اور نہ ہی قومی پیمانے کے سیمیناروں میں مئو کی ادبی حیثیت کا کوئی تذکرہ آتا ہے۔ کچھ ایسے ہی دنیا کی نظر سے دور شعراء و ادباء کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے ’’ادبستان‘‘ کے نام سے ایک بزم کی تشکیل عمل میں آئی ،جس کے ذریعہ لوگوں کو ایک ادبی ماحول مہیا کرایا جارہا ہے۔
اس بزم ’’ادبستان‘‘ کے اغراض و مقاصد میں سب سے اہم مقصد شہر مئو کے تمام ادباء کو نثر لکھنے پر آمادہ کرنا ہے. تاکہ ہماری پہچان صرف ایک شاعر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک نثر نگار کی حیثیت سے بھی قائم ہوسکے۔ سب سے اہم مسئلہ آج کے وقت میں یہ آن کھڑا ہوا ہے کہ شعراء کی تخلیقات پر تبصرہ اور ان کی سوانح کون لکھے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر سبھی شعراء صرف شاعری کریں گے تو ان کے فن پارے کو عوام سے متعارف کون کرائے گا۔ انہیں مقاصد کے تحت ’’ادبستان‘‘ کاقیام عمل میں آیا۔
آج ادبستان کا دوسرا پروگرام ایم اے اے فاؤنڈیشن کی آفس میں منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام کے لیے پہلے ہی ایک عنوان ’’چاند کی چاہ میں بلندیوں کو چھولیا ‘‘طے کیا گیا تھا اور تاکید کی گئی تھی کہ تمام لوگ اس عنوان پر افسانہ یا انشائیہ لکھنے کی کوشش کریں۔ پروگرام کی صدارت بزم تعمیر اردو کے سکریٹری سعیداللہ شاد نے کی اور نظامت کے فرائض حماد احمد حماد نے انجام دئیے۔
پروگرام کا آغاز تابش ریحان کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس کے بعد نوجوان و خوش فکر شاعر نہال جالب نے اپنی غزل سے سامعین کو محظوظ کیااور نثری پروگرام کا آغاز ہوا۔
اس موقع پرادبستان کے بانی دانش اثری نے داستان،کہانی،افسانہ،فکاہیہ،ناول اور ناولٹ کے بارے میں بالتفصیل بتایا اور ان سب کے بیچ کے فرق کو واضح کیا۔ پروگرام کے آخر میں موصوف نے ’’چاند کی چاہ میں بلندیوں کو چھولیا‘‘ کے عنوان سے نثری ادب کی ایک تکنیک ’’لاشعوری رو‘‘ Steam of unconciousness پر مبنی اپنا افسانہ بھی پیش کیا۔
اس کے بعد نہال جالب نے عنوان پر ایک افسانہ پیش کیاجس میں انہوں نے لوگوں کی بے حسی اور غریبوں کے تئیں نفرت و بے اعتنائی کو پیش کیا اور انہیں دبے کچلے ہوئے غریب لوگوں کو ایک گھر دینے کا عہد کیا اور اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے انہیں ایک ایسا گھر مہیا کرایا جس میں وہ سماج کی بری نظرسے دور عزت کی زندگی بسر کرسکیں۔ نہال جالب کے افسانے کے بعد اسماعیل شاداں نے اپنا افسانہ حاضرین کی سماعت کے حوالے کیا۔ انہوں نے اپنے افسانے کے ذریعہ اس بچے کی کہانی پیش کی جو کہ غربت کا مارا ہے لیکن پھر بھی اعلی تعلیم کے حصول کی خواہش رکھتا ہے ، چند معززلوگوں کی ناراضگی کے باوجود اپنے دوستوں کے تعاون سے تعلیم حاصل کرکے اعلی پوسٹ حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح نئے لکھاری شاہد کلیم نے عنوان کی مناسبت سے فکاہیہ پیش کیا اور سماج کے سلگتے ہوئے مسائل پر اپنی تحریر کے ذریعہ بھرپور طنز کیا۔
شہر مئو کی ابھرتی ہوئی نثرنگار پروین حیات کا افسانہ بھی پیش کیا گیا جس میں انہوں بچوں کی تعلیم اور بہتر پرورش پرزور دیا تاکہ ایک بہتر سماج کی تشکیل ہوسکے۔
سعیداللہ شادؔ نے ’’ادبستان‘‘ کے مؤسسین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے شہر کے لیے نیک فال قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اگر اسی طرح تمام لوگوں نے ذوق و شوق کا مظاہرہ کیا تو عنقریب ہمارے شہر سے شعراء کی طرح نثر گاروں کی بھی ایک جماعت نکلے گی جو شہر کی ادبی حیثیت کو تسلیم کرانے میں معاون ہوگی۔ بعد ازاں انھوں نے اپنا شعری کلام پیش کیا۔
پروگرام کو جمود اور تعطل سے بچانے کے لیے بیچ بیچ میں شمیم صادق ، منظرجمیل عاشق، اسلم صادق بیضاپوری، یعقوب فلک امتیاز ثاقب وغیرہ نے شعری کلام بھی پیش کیا۔
ادبستان کے اس نثری پروگرام میں پر سرفراز سلکو، زبیر اعظمی،معین الدین عامر ،قاسم ، امتیازنعمانی وغیرہ خاص طور پر موجود رہے۔ دانش اثری نے اس پروگرام کے انعقاد کے لیے امتیاز نعمانی اور فاؤنڈیشن کے دیگر ممبران کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے اختتام کا اعلان کیا۔

تبصرے بند ہیں۔