کعبے میں بھی غارت گر ایمان بہت ہیں!

اسلام کی آمد سے قبل دنیائے انسانیت ،بے راہ روی ،کس مپرسی اورمفلوک الحالی کے؛جس خوف ناک اوربدترین دور سے گزرہی تھی ،اسلام کی دل گیر صداؤں نے اسے ایک روح پرور، حیات بخش اور امن آفریں منزل عطاءکی۔
بعثت رسول ﷺ سے قبل عالم انسانیت،مذہب بیزاری، جنسی انارکی، سیاسی پستی، علمی و فکری تنزلی، طبقاتی کشمکش اور معاشرتی لاقانونیت کے جس آخری نقطے پر پہنچ چکی تھی،اسلام کے جاں فزازمزموں نےپورےعالم کو اس مہیب صورتِ حال سے نکال کر سرخ روئی اور سرفرازی سے ہم کنار کیا۔
دیگر اقوام کی تہذیب و تمدن ،ثقافت و حضارت اوردھرم و مذہب کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ فطرت ، آفاقیت اور جامعیت ایسے کمالات اور امتیازات ہیں ؛جو تمام ادیان کےمقابلے میں صرف اور صرف مذہب اسلام کا حصہ ہیں ۔
ان ہی انسانی اور فطری حقوق میں ‘‘تین طلاق کا مسئلہ ’’بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے ،بالخصوص عصر حاضر کے نئے اذہان میں پنپنے والے شکوک وشبہات اور قوانین اسلام کو لےکر ہونے والے اعتراضات کی وجہ سے اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔
مگر افسوس کہ حریت فکراورآزادئ خیال کے دل کش عنوان پر ملک کے مختلف حصوں سے ایسی خواتیں کو کھڑا کرنےکا سلسلہ جاری ہے؛ جو شریعت اسلامی اورمسلم پرسنل لاء پر ببانگ دہل اعتراض کرنے اور دین متین کے فطری احکامات کو فرسودہ ظاہر کرنے ؛بل کہ قوانین اسلام پررکیک تبصرے کرنےکو اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہیں۔
طرفہ یہ کہ ایسی خواتین کو دین و ینیات ،اسلام و اسلامیات سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا؛مگر اسلامی قوانین پر تیشہ زنی ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے،اس قسم کی سیکولر خواتین کو حکومتیں بھی اپنے سیاسی مفادات کے لئے خوب استعمال کرتی ہیں؛جنہیں تلبیس ابلیس کے اندھیروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا انجام کاریہ کہنا پڑتا ہے ؎
خدا ابلیس کو اب موت دیدے
زمیں پر اس کے کارندے بہت ہیں
ٓآئیے اسی نوعیت کا ایک بیان ملاحظہ کرتے ہیں:
لکھنئو، 9 جنوری (یو این آئی) فلم ‘نکاح’ میں کردار ادا کرنے والی مشہور ادا کارہ سلمی آغا نے کہا ” تین طلاق شریعت کے خلاف ہے
اور قرآن مجید میں اس کا کوئی ذکر نہیں اسی طرح طلاق دینا عورتوں کو ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ یہ رواج عورتوں کے خلاف ہے انہوں نے مسلم مردوں کے کئی شادیاں کرنے کے قانونی جواز پر بھی سوال اٹھایا۔انہوں نے کہا
” ہم تین طلاق کا معاملہ اٹھانے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت کرتے ہیں نیز کہا کہ مودی ہندوستان کے بہترین وزیر اعظم میں سے ایک ہیں’’ ۔سلمیٰ آغا نے مسٹر مودی کے نوٹ بندی کے جرآّت مندانہ قدم کو بھی سراہا۔
انہوں نے اپنا مشن بتا یا ہے کہ‘‘ وہ بھارت میں چار شادیوں کو غیرقانونی قرا ر دلا ئیں گی اور تین طلا قو ں کا جھنجھٹ بھی ختم کر ائیں گی’’ گویا وہ اسلامی شعا ر کے خلا ف سیاسی مہم چلائیں گی ۔(بصیرت آن لائن)
سلمی آغا کا یہ بیان جہاں زبردست فن کاری اور اداکاری پر مبنی نظر آتا ہےوہیں اس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اس طرح کا اقدام کررہی ہے۔
شریعت نے جس طرح نکاح کے آداب واحکام بیان کئے ہیں، ایسے ہی طلاق کا طریقہ بھی بتلایا ہے نیز یہ بھی وضاحت فرمادی کہ یہ ابغض الحلال ہے ؛ تاکہ کوئی شوہر بلا وجہ صرف ظلم و زیادتی کے ارادہ سے یا عورت پر اپنا دھونس جمانےکے لئے اپنے اس حق کا ناجائز استعمال نہ کرے ۔
تاہم ایک مجلس کی تین طلاق کا تین واقع ہونا اور اس کے بعد عورت کو مغلظہ قرار دےکر بلا حلالہ دوبارہ رجعت کا حق حاصل نہ ہونا جہا ں پوری وضاحت کے ساتھ قرآن سے ثابت ہے وہیں عقل کے بھی خلاف نہیں اس میں عورت کے اکرام و احترام اور اس کے ناموس کابھی پاس و لحاظ ہےآیت مبارکہ:الطلاق مرتان کے شان نزول میں مفسرین نے لکھا ہے کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اپنی عورتوں کو بلا حدو حساب طلاقیں دیتے رہتے تھے جب دل میں آیا طلاق دیدی اور جب جی چاہا رجوع کرلیا جس کی وجہ سے اکثر عورتیں پریشان رہاکرتی تھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورتوں کی اس پریشان حالی کو دور کر نے، ان کی ناموس کی حفاظت اور ان کی ذہنی یکسوئی کے لئے حد مقرر فرمادی کہ تین سے زیادہ طلاق کی اجازت نہیں ہے ۔اگر اسکی کوئی حد مقرر نہ ہوتی اور بے حساب طلاق دینے کا اختیار باقی رکھاجاتا (جیسا کہ بعض دانشور کہلائے جانے والے لوگوں کا خیال ہے)تو ایک بڑا طبقہ جو نان نفقہ کے معاملہ میں انتہائی دست کشی کو فخر محسوس کرتا ہے ،عورتوں کو صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کی حد تک محدود رکھتاپھر طلاق دیکر نان نفقہ سے جان چھڑالیتاکہ جب دل چاہا رجوع کرلیا اورجب چاہا طلاق دیدی، اسطرح یہ عورت کے حق میں انتہائی توہین و ذلت کی بات ہوتی اس لئےشریعت نےتین کی حد طئے فرمادی ۔نیز بعض مرتبہ شوہروں کا بیویوں کے ساتھ اس قدر نارواسلوک ہوتاہے کہ بیوی خود تقاضہ کرتی ہے کہ تین طلاق دے دی جائے۔اور بعض مرتبہ یہ مجبوری مردوں کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ مرد اپنی بیوی کو دوسروں کے ساتھ ملوث دیکھتا ہے تو اسکی طبیعت اس کے ساتھ زند گی گذارنے سے مایوس ہو چکی ہوتی ہے اور غیرت بھی اس بات کی مقتضی ہوتی ہے کہ اس سے بالکل علیحدگی اختیار کرلی جائے پھر ساتھ زندگی گذارنے کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح تعداد ازدواج کے سلسلے میں اسلام کا قانون، عدل و مساوات کی شرط کے ساتھ مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی صرف اجازت دیتاہے ۔اور برابری کے فقدان پر سخت سزا کا فیصلہ بھی سنا تا ہے ۔
الغرض : انسانی مساوات اور حقوق نسواں کے نام پر مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے یا اسمیں مداخلت کرنے کی مذموم کوشش کرنے بالخصوص نام نہاد مسلم خواتین کو آلہ کار بنانےاور ان (خواتین)کے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر بے ساختہ یہ شعر نوک قلم پر آگیا ؎
بت خانے میں گر کفر کے سامان بہت ہیں
کعبے میں بھی غارت گر ایمان بہت ہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔