سماجی زندگی میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سورئہ احزاب کی ایک آیت ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ۔ (آیت:۲۱)

’’یقینا اللہ کے رسول ﷺ میں تمہارے لیے ایک اچھا نمونہ ہے،اس شخص کے لیے جو اللہ تعالی سے ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتاہے‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کی زندگی کو مسلمانوں کے لیے اسوہ قرار دیاہے۔ ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ ﷺکی زندگی صرف مسلمانوں کے لیے ہی اسوہ نہیں ہے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے اس میں ایک اچھا نمونہ موجود ہے۔

اسوہ ہونے کی شرائط:

کوئی شخصیت کن بنیادوں پر اسوہ بن سکتی ہے؟اس موضوع پر علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ایک بڑی قیمتی تحریر ہے۔ سیرت نبوی پران کی ایک کتاب ’خطبات مدراس ‘کے نام سے ہے۔ یہ ان کے آٹھ موضوعات پر لیکچر کا مجموعہ ہے۔ اس میں انہوں نے لکھاہے کہ دنیا کی کوئی بھی شخصیت اگر اسوہ بن سکتی ہے تو اس میں چار شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی جائے گی تو وہ شخصیت اسوہ نہیں بن سکتی۔ پہلی شرط انہوں نے بیان کی ہے تاریخیت، یعنی اس شخص کا تاریخی ہونا ضروری ہے۔ دوسری شرط ہے کاملیت، یعنی اس شخص کی پوری زندگی، پیدائش سے لے کر وفات تک، لوگوں کی نظروں میں ہونی چاہیے اور اس کی تمام تفصیلات سے لوگوں کو باخبرہونا چاہیے۔ تیسری شرط ہے جامعیت،یعنی اس شخص نے تمام انسانی طبقات کے لیے رہ نمائی پیش کی ہو۔ سماج کا کوئی بھی طبقہ ہو، اس کی زندگی میں ایسی مثالیں موجود ہوں جن پر وہ عمل کرسکتاہو اوران کو اختیار کرسکتاہو۔ چوتھی چیز ہے عملیت، یعنی وہ شخصیت ایسی ہو جس نے صرف اچھی اچھی باتیں ہی نہ پیش کی ہوں، فلسفہ ہی نہ پیش کیاہو،بلکہ جو باتیں کہی ہوں، ان پر خود عمل کرکے دکھایاہو۔

علامہ سید سلیمان ندویؒ نے بہت تفصیل سے لکھاہے کہ پوری دنیا میں اور پوری انسانی تاریخ کا اگر ہم جائزہ لیں تو واحد شخصیت اللہ کے رسول ﷺ کی نظر آتی ہے، جس میں یہ چاروں شرائط پائی جاتی ہیں۔ مختلف مذاہب، مثلاً ہندومت، مجوسیت، بدھ مت،چینی مذہب کنفیوشس،جین مت، وغیرہ کے جو بانی ہیں، ان کی تاریخی حیثیت مسلّم نہیں ہے، اس لیے کہ جن مصادر میں ان کا تذکرہ آیا ہے، وہ معتبر نہیں ہیں۔ یہودیت کی مذہبی کتاب’ توریت ‘ ہے۔ وہ کئی مرتبہ غائب ہوئی اور حافظہ کی مدد سے لکھی گئی۔ عیسائیت کی مذہبی کتاب انجیل ہے۔ چار انجیلیں جو مستند ہیں، ان کے لکھنے والوں میں سے کسی کی ملاقات حضرت عیسیٰؑ سے نہیں ہوئی تھی۔ ہندو مت کی جو مشہور شخصیتیں ہیں ان کا تاریخ کے کس دور سے تعلق ہے ؟یہ بھی ثابت نہیں ہے، حتی کہ بعض محققین نے انہیں موہوم شخصیات قرار دیاہے کہ ایسی شخصیات پائی ہی نہیں گئی ہیں، وہ خیالی ہیں۔ غرض دنیا کے مشہور مذاہب کے جو بانیان یا مشہور شخصیات ہیں وہ تاریخ کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ان کے بارے میں جو مصادرہمارے سامنے ہیں، وہ تاریخی لحاظ سے مستند نہیں ہیں۔ اسی طرح جتنے مذاہب کے بانی یا مشہور شخصیات ہیں، پیدائش سے لے کر وفات تک ان کی زندگی کی تمام باتیں اور تمام تفصیلات محفوظ ہوں، ایسا بھی نہیں ہے۔ ان کی کچھ باتیں معلوم ہیں، وہ بھی غیر مستند ذرائع سے، جب کہ اللہ کے رسول ﷺ کی واحد ذات ایسی ہے جس کی زندگی کاایک ایک لمحہ لوگوں نے محفوظ کیا ہے۔ آپ کیسے چلتے تھے؟ آپ کیسے کھاتے تھے؟ آپ کیسے پیتے تھے؟ آپ کیسا لباس پہنتے تھے؟آپ کا چہرہ مہرہ کیاتھا؟لوگوں سے آپ کے معاملات کیسے تھے؟ آپ کی تمام حرکات و سکنات اورآپ کی تمام سرگرمیوں کو لوگوں نے محفوظ رکھاہے اور آپ کی پوری شخصیت ہمارے سامنے موجود ہے۔

تیسری بات یہ کہ اللہ کے رسولﷺ کی زندگی میں انسانوں کے تمام طبقات کے لیے واضح رہ نمائی موجود ہے۔ سماج کا کوئی بھی طبقہ ہو،اس کو یہ معلوم کرنا ہو کہ میں کیسے زندگی گزاروں تواللہ کے رسولﷺ کی ذات گرامی میں اس کے لیے واضح رہنمائی ہے۔

چوتھی بات یہ کہ آپؐ نے صرف تعلیمات ہی نہیں پیش کی ہیں، بلکہ جو باتیں آپ نے کہی ہیں، ان پر خود عمل کرکے دکھایاہے۔ چنانچہ سماجی زندگی کے ایک ایک پہلو پر اگر آپؐ کے ارشادات اور اقوال ہیں تو خود آپ نے ان پر عمل کرکے دکھایاہے۔

سماج کی رہنماقدریں:

سماجی زندگی کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

اول یہ کہ سماج کے مختلف افراد کے بارے میں آپؐ نے کیاتعلیمات دی ہیں ؟اور ان کے معاملے میں آپؐ کا کیا اسوہ ہے؟دوم یہ کہ سماجی زندگی کی جو بنیادی قدریں ہیں، ان کا آپ کی تعلیمات میں کیا تذکرہ ملتاہے؟

سماج کی تشکیل خاندان سے ہوتی ہے اور خاندان نکاح کے ذریعہ مرد عورت کی یکجائی سے وجود میں آتاہے۔ گویا خاندان کے بنیادی اجزاء ہیں میاں بیوی،والدین اور اولاد۔ پھر یہ دائرہ اور زیادہ وسیع ہوتاہے تو اس میں رشتہ دار،پڑوسی، مہمان، عام مسلمان، پھر عام انسان شامل ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے سماج کے ان تمام اجزاء کے بارے میں واضح تعلیمات دی ہیں اورآپؐ کا عملی نمونہ بھی ہماری رہ نمائی کرتاہے۔

والدین کے حقوق اداکرنے کے معاملے میں ہمارے ہاں بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے۔ مغربی معاشروں کو جانے دیجئے جہاں یہ رشتہ کم زورہوگیاہے، تمام ممالک میں اولڈ ایج ہوم قایم ہوگئے ہیں۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میں کئی ہزار اولڈ ایج ہوم ہیں۔ بہت سے لوگوں کی اولاد موجود ہوتی ہے،لیکن وہ ان کے حقوق سے اتنی غافل ہوتی ہے کہ انہیں اپنے بڑھاپے میں اولڈ ایج ہوم میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ اولڈ ایج ہوم میں جانے والے صرف غیر مسلم ہی نہیں ہیں، بلکہ مسلمانوں کی تعداد بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ والدین کے حقوق کے سلسلے میں بہت سی آیتیں آئی ہیں، لیکن یہاں میں صرف اللہ کے رسول ﷺ کے چند ارشادات ہی پیش کروں گا۔

ایک صاحب نے اللہ کے رسول ﷺ سے آکر سوال کیا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟آپ نے فرمایا :تمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا :اس کے بعد کون؟آپ نے پھرفرمایا :تمہاری ماں۔ انہوں نے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا، تب بھی آپ نے فرمایا :تمہاری ماں۔ چوتھی مرتبہ ان کے دریافت کرنے پر آپؐ نے فرمایا :تمہارا باپ۔ (ابودائود:۵۱۳۹، مسند احمد:۲۰۰۲۸)

آپﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالی کی رضا والدین کو خوش رکھنے میں ہے اور اللہ تعالی کی ناراضی والدین کے ناراض ہونے میں ہے۔ ‘‘(ترمذی:۱۸۹۹)ایک مرتبہ ایک نوجوان نے آکر شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ!میرا باپ میرا مال خوب اڑا رہاہے۔ آپؐ نے اس کے باپ کو بلایا۔ اس نے بیٹے کے سامنے اپنی بپتا سنائی: یہ چھوٹا تھا تو میں نے اس کو پال پوس کر بڑاکیا،بستر پر پیشاب کرتاتھا تو میں بستر صاف کرتاتھا،رات میں یہ روتاتھا تو میں اس کو چپ کراتاتھا،اور آج میں نے اس کی کچھ رقم خرچ کرلی تو یہ کہتاہے کہ میرا باپ میرا مال اڑا رہاہے۔ حدیث میں آتاہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اس کی بات سن کر رونے لگے۔ آپؐ نے اس نوجوان کا گریبان پکڑا، اسے باپ کے حوالے کیا اور فرمایا:

أنت ومالک وابیک

’’تو اپنے باپ کا ہے اور تیرامال بھی تیرے باپ کا ہے۔ ‘‘

(ابن ماجہ:۲۲۹۲۔ تفصیلی روایت تفسیر قرطبی میں مروی ہے۔ )

ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ یتیم پیداہوئے تھے، لیکن آپؐ کی رضاعی ماں، جو قبیلۂ بنو سعد سے تھیں، ان کے بارے میں کتب ِ سیرت میں ہے کہ غزوئہ ہوازن کے بعد جب وہ آپؐ سے ملنے آئیں تو آپؐ نے ان کا غیر معمولی احترام کیا، ان کے لیے اپنی چادر بچھادی،اُمّی، اُمّی،( میری ماں، میری ماں )کرکے ان کو بٹھایا۔ لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ بڑھیا کون عورت ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ آپؐ کی رضاعی ماں ہیں، اس لیے آپ ان کے ساتھ اتنا احترام اور اکرام کا معاملہ کررہے ہیں۔

اہل وعیال سے حُسن سلوک:

ازدواجی تعلقات میں بھی ہمارے درمیان بہت زیادہ بے اعتدالی پائی جاتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی اس سلسلے میں بھی غیر معمولی تعلیمات ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:

خیرکم خیرکم لأھلہ، وأنا خیرکم لأھلی۔ (ترمذی:۳۸۹۵)

’’تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اپنی بیویوں سے تعلقات بہتر ہیں اور میں تم میں سب سے بہتر ہوں اہل خانہ سے تعلقات کے معاملے میں۔ ‘‘

خطبۂ حجۃ الوداع کو حقوق ِ انسانی کا چارٹر کہاجاتاہے، اس لیے کہ اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے انسانی سماج کے بارے میں بہت تفصیل سے ہدایات دی ہیں۔ خاص طور سے اس میں آپ ؐ نے عورتوں کا تذکرہ کیاہے۔ آپ نے فرمایا :’’ عورتوں کو اللہ تعالی نے تمہارا زبرد ست بنایاہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ان کو ستائو، انہیں تکلیف پہنچائو،بلکہ اللہ تعالیٰ کی تاکید یہ ہے کہ تم ان کے تمام حقوق اداکرو۔ ‘‘(ترمذی:۱۱۶۳، ابن ماجہ:۱۸۵۱) اللہ کے رسولﷺ کی بہ یک وقت نو ازواج تھیں۔ دو کا آپ کی زندگی میں انتقال ہو گیا تھا۔ پوری سیرت میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی کہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں آپؐ سے کچھ کوتاہی ہوئی ہو۔

سماجی زندگی کا ایک مظہراولاد سے محبت ہے۔ بچوں سے محبت کی بڑی دل کش مثالیں اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں ملتی ہیں۔ حضرت حسنؓ اور حسینؓ آپؐ کے نواسے تھے۔ نواسو ں سے تو آدمی محبت کرتاہی ہے۔ حضرت زیدؓ آپؐ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کے بیٹے اسامہ تھے۔ آپ ان سے بھی اتنی ہی محبت کرتے تھے،جتنی حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ سے کرتے تھے۔ متعدد صحابہ نے بیان کیاہے کہ آپؐ ایک زانو پر حسنؓ یا حسینؓ کو تو دوسرے زانو پر اسامہؓکو بٹھاتے تھے۔ حضرت اسامہ کا لقب ہی یہ ہوگیاتھا: الحِبُّ ابنُ الحِبِّ، یعنی محبوب کا بیٹا محبوب۔ یہ وہ شخص ہے جو اللہ کے رسول کو محبوب ہے اور اس کا باپ بھی آپؐ کو محبوب تھا۔

ایک صحابی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ آپؐ ایک بچے کو گود میں لیے ہوئے ہیں اور اس کا بوسہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی ان کا بوسہ نہیں لیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :

أوَأملِکُ لَکَ أن نَزَعَ اللّٰہُ مِن قَلبِکَ الرَّحمَۃَ۔ (بخاری:۵۹۹۸)

’’ اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم نکال دی ہے تو میں کیا کرسکتاہوں۔ ‘‘

ایک عورت مانگنے آئی۔ اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں۔ حضرت عائشہ ؓنے اس کو ایک کھجور دی۔ روایت میں ہے کہ اس عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں بچیوں کو دے دیا اور خود کچھ نہیں کھایا۔ اللہ کے رسولﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے اس کا تذکرہ کیا۔ آپؐ بڑے متاثر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا :

مَن ابتُلِیَ  مِن ھٰذِہِ البَنَاتِ بِشَیئٍ کُنَّ لَہ سِتراً مِنَ النَّارِ(بخاری:۱۴۱۸، مسلم: ۲۶۲۹)

’’کسی شخص کو ان لڑکیوں کی وجہ سے آزمایا جائے( اور وہ ان کی صحیح پرورش و پرداخت کرے )تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔ ‘‘

صلۂ رحمی:

خاندان سے آگے کا دائرہ رشتہ داروں کا ہوتاہے۔ عام طور سے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے میں بڑی کوتاہی ہوتی ہے۔ اجنبی لوگوں کے ساتھ تو ہم بہت اچھا معاملہ کرتے ہیں، ان کو کچھ ڈھیل دیتے ہیں، ان کے ساتھ نرمی کرتے ہیں، ہنسی خوشی ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، لیکن رشتہ داروں کے ساتھ مختلف اسباب سے اتنی خوش گواری نہیں پائی جاتی۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس تعلق سے بھی بہت اہم ہدایات دی ہیں۔ کوئی رشتہ دار ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کریں، یہ تو برابری کا معاملہ ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا :

لَیسَ الوَاصِلُ بِالمُکَافِیٔ۔ وَلٰکِنَّ الوَاصِلَ الَّذِی اِذَا قُطِعَت رَحِمُہُ وَصَلَھَا (بخاری:۵۹۹۱)

’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلے میں کرے، بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ رشتہ دار اگر کسی کے ساتھ براسلوک کریں تو بھی وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ ‘‘

ایک صحابی نے اللہ کے رسول ﷺ سے آکر شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتائو کرتاہوں، وقتِ ضرورت ان کے کام آتاہوں، جب ان کو مال کی ضرورت ہوتی ہے تو مال دیتاہوں، لیکن ان لوگوں کا رویہ میرے ساتھ اس کے برعکس ہے۔ وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، وقتِ ضرورت میرے کام نہیں آتے، جب مجھے مال کی ضرورت ہوتی ہے تو مجھے مال نہیں دیتے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :

لَئِن کَنتَ کَمَا قُلتَ فَکَاَنَّمَا تُسِفُّہُم المَلَّ، وَ لَا یَزَالُ مَعَکَ مِن اللّٰہِ ظَہِیر عَلَیہِم مَا دَمتَ عَلَی ذٰلِکَ (مسلم:۲۵۵۸)

’’ اگر تمہاری بات صحیح ہے توتم گویاان کے چہروں پر سیاہی مل رہے ہواور جب تک تم اس حال میں رہوگے، اللہ تعالیٰ ان کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائے گا۔ ‘‘

ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

مَن سَرَّہُ اَن یُبسَطَ لَہُ فِی رِزقِہِ وَیُنسَألَہُ فِی عُمرِہِ فَلیَصِل رَحِمَہُ (بخاری:۲۰۶۷)

’’جو شخص اس بات سے خوش ہونا چاہتاہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہواور اس کی عمر میں بھی اضافہ ہو تو اس کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ ‘‘

اللہ کے رسولﷺ کی سیرت میں اس کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ آپؐ کے جو رشتہ دار تھے،آپ کی پھوپھیاں تھیں، ان کے یہاں آپؐ تشریف لے جاتے تھے،ان سے ملاقات کرتے تھے، ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے،حتی کہ حقیقی رشتہ داروں کو تو جانے دیجیے، روایات میں آتاہے کہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی ایک سہیلی کبھی کبھی آپؐ کے پاس آتیں تو آپؐ ان کے ساتھ بھی اعزاز واکرام کا معاملہ کیاکرتے تھے۔

پڑوسی کے حقوق:

سماج میں انسان کا سب سے قریبی پڑوسی ہوتاہے۔ وہ شخص بڑا خوش قسمت ہے جس کے تعلقات اس کے پڑوسیوں سے خوش گوار ہوں۔ عام طور سے سماجی زندگی میں کبھی نہ کبھی ان سے کھٹ پٹ ہوہی جاتی ہے۔ پڑوس کے تعلق سے اللہ کے رسولﷺ کی جو احادیث ہیں، جو اقوال ہیں، جوعمل ہے وہ بھی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں :

مَازَال یُوصِینِی جِبرِیلُ بِالجَارِ حَتّٰی ظَنَنتُ اَنَّہُ سَیُوَرِّثُہ (بخاری:۶۰۱۴،مسلم:۲۳۱۹)

’’ جبریلؑ نے میرے سامنے پڑوسی کے اتنے حقوق بیان کیے کہ میں سمجھنے لگا کہ وہ وراثت میں بھی اس کو حصہ دار قرار دے دیں گے۔ ‘‘

مشہور حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

لَیسَ المُؤمِنُ بِالَّذِی یَشبَعُ وَجَارُہُ جَائِع اِلیٰ جَنبِہِ (صحیح الجامع الصغیر للسیوطی:۵۳۸۲)

’’ وہ شخص مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔ ‘‘

وَاللّٰہِ لَایُؤمِنُ، وَاللّٰہِ لَایُؤمِنُ، وَاللّٰہِ لَایُؤمِنُ،قِیلَ:وَمَن یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: الَّذِی لَایَأمَنُ جَارُہُ بوَاَئِقَہ (بخاری:۶۰۱۶،مسلم: ۲۶۲۵)

’’اللہ کی قسم، وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم، وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم، وہ شخص مومن نہیں، جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ ‘‘

ایک شخص نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! پڑوسی کے کیاحقوق ہیں ؟آپؐ نے بہت سے حقوق بیان کیے: وہ قرض مانگے تو دو،کوئی خوشی حاصل ہوتو اس کو مبارک باد دو،بیمار ہوتو اس کی مزاج پرسی کرو،اس پر کوئی مصیبت آئے تو اس کی تعزیت کرو،اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازے میں جائو،اپنا مکان اتنا اونچا نہ بنائو کہ اس کی ہوا رک جائے، ہانڈ ی کی خوشبوسے اس کو تکلیف نہ پہنچائو،یعنی کوئی اچھی چیزبنائو تو اس کے گھر پہنچائو، پھل خرید کر لائو تو اس میں سے اس کو بھی دو،اگر زیادہ پھل نہیں لائے ہو تو چھپاکراپنے گھرلے جائو اور خیال رکھو کہ وہ پھل لے کر تمہارے بچے باہر نہ نکلیں، اس لیے کہ پڑوسی کے بچوں کو تکلیف ہوگی کہ ہمارے لیے یہ کھانے کو نہیں ہے۔ ‘‘(بیہقی فی شعب الایمان:۹۵۶۰)

بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی طبیعت کتنی حساس تھی؟ اور  آپؐ کیساسماج بناناچاہتے تھے ؟!آپؐ کا پڑوسی عقبہ بن ابی معیط تھا،آپ کا پڑوسی ابولہب آپؐ کا چچاتھا، ان لوگوں نے آپؐ کو طرح طرح سے اذیتیں پہنچانے کی کوششیں کیں، لیکن  آپؐ نے کبھی ایک لفظ بھی ان کے خلاف نہیں کہا،بلکہ جب کبھی آپؐ ان سے بہت پریشان ہوجایاکرتے تھے تو فرماتے تھے :’’لوگو!تم کیسے پڑوسی ہو جو پڑوس کا بھی حق ٹھیک سے ادانہیں کررہے ہو اور مجھے اذیتیں پہنچارہے ہو۔ ‘‘

عام مسلمانوں سے تعلق:

عام مسلمانوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمومی ہدایات دی ہیں وہ بھی غیر معمولی ہیں۔ ایک طرف آپؐ نے مثبت تعلیم دی ہے کہ عام مسلمانوں کے ساتھ کیسے تعلقات رکھے جائیں ؟اور ان سے کیسے معاملات کیے جائیں ؟ اوروہ باتیں بھی فرمائی ہیں کہ ان سے کیسے تعلقات نہ رکھے جائیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا:

تَبَسُّمُکَ فِی وَجہِ اَخِیکَ لَکَ صَدَقَۃ۔ (ترمذی:۱۹۵۶)

’’تمہارا اپنے بھائی سے مسکراکر بات کرنا بھی صدقہ ہے۔ ‘‘

’صدقہ‘ کہتے ہیں مال خرچ کرنے کو۔ صدقہ کا مطلب ہوتاہے کہ اگر ہم وہ کام کریں گے تو ہمیں اس کا ثواب ملے گا۔ آدمی اپنے بھائی سے کوئی بات کرے، چاہے وہ دنیاوی ہی کیوں نہ ہو، لیکن مسکراکرکرے، اس پر اسے ثواب ملے گا۔ ہم اندازہ کریں کہ سماجی زندگی کی یہ تعلیم بہ ظاہر کتنی معمولی،لیکن کتنی اہم ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

اَلمُؤمِنُ یَألَفُ وَیُؤلَفُ وَلَا خَیرَ فَیمَن لَایَألَفُ وَلَایُؤلَفُ

 (المعجم الاوسط للطبرانی:۶/۵۸، مسند احمد :۹۱۹۸)

’’مومن وہ ہے جو دوسروں سے محبت کرتاہے اور دوسرے بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو دوسروں سے محبت نہ کرے اور دوسرے اس سے محبت نہ کریں۔ ‘‘

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ وہ دوسروں سے محبت کرے، لیکن دوسرے بھی اس سے محبت کریں، اس پر اس کا کیا اختیارہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آدمی کا رویہ دوسروں کو اس سے محبت کرنے پر مجبور کرتاہے۔ ہم کسی سے اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہوئے بات کریں گے تو ہمارا رویہ بالکل الگ ہوگا۔ ہم اپنے آپ کو دوسرے کے برابر سمجھتے ہوئے بات کریں گے تو ہمارا رویہ بالکل دوسرا ہوگا۔ جس رویہ کا اظہار ہم مخاطب کے سامنے کریں گے ٹھیک وہی رویہ ہمیں بھی ملے گا۔ مشہور حدیث ہے:

تَرَی المُؤمِنِینَ فِی تَرَاحُمِھِم وَتَوَادِّھِم وَ تَعَاطُفِھِم کَمَثَلِ الجَسَدِِ، اِذَا اشتَکَی عُضُواً تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ جَسَدِہ بِالسَّھرِ وَالحُمّٰی۔ (بخاری:۶۰۱۱، مسلم:۲۲۴۴)

’’اہل ایمان کے آپسی تعلقات محبت، رحم وکرم اور ہمدردی پر مبنی ہوں تو وہ ایک بدن کی طرح ہوجائیں گے۔ جس طرح بدن میں کہیں کسی طرح کی تکلیف ہو، ایک کانٹا چبھے تو اسے پورا بدن محسوس کرتاہے اور اس تکلیف کی وجہ سے اسے بخار ہوجاتاہے۔ ‘‘

اہل ایمان کے تعلقات اسی طرح کے ہونے چاہئیں۔ اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ان کے اندر یہ تینوں بنیادی باتیں پائی جائیں جن کا اس حدیث میں تذکرہ ہے۔ مشہور حدیث ہے :

تَھَادَوا تَحَابُّوا۔ (الادب المفرد للبخاری:۵۹۴)

’’ہدیہ دو، محبت بڑھے گی۔ ‘‘

زبانی تعلق کا اظہار بھی کبھی کام کرتاہے، لیکن سیرت نبوی کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی مال خرچ کرے۔ کسی سے ہمارامفاد وابستہ ہوتبھی ہم اس کے پاس مٹھائی کا پیکٹ لے کر نہ جائیں، بلکہ عام تعلقات بھی ہدیہ پر مبنی ہونے چاہییں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے عام لوگوں کو تحفے دیے ہیں، سرداروں کو بھی تحفے دیے ہیں، سرداروں کی طرف سے بھی آپ کو تحفے ملے ہیں۔ ہم اپنی حیثیت کے مطابق اپنے سے بڑے آدمی کو تحفہ دیں گے تو ممکن ہے ہماری کوئی غرض ہوگی۔ البتہ ہم اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور پڑوسیوں کو تحفہ دیں گے تو زیادہ امکان ہے کہ اس میں ہماری کوئی غرض نہ ہو۔ آپؐ کی زندگی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ایک صحابی (حضر ت جابر بن عبد اللہ ؓ)سے آپؐ نے ایک اونٹ خریدا۔ آپؐ نے فرمایا:’’ جب ہم مدینہ پہنچیں گے تو آکر اپنے پیسے لے جانا۔ ‘‘وہ صحابی آئے۔ آپؐ نے ان کے پیسے بھی دیے اور وہ اونٹ بھی تحفۃً دے دیا کہ جائو اسے بھی لے جائو۔ ‘‘(بخاری:۲۰۹۷)آپؐ جب کوئی معاملہ کرتے تھے تو کوشش کرتے کہ اس کا جو بدل طے ہواہو اس سے بہتر کی ادائیگی کریں۔ (احمد:۱۰۶۰۹)

مسلمانوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں رسول اللہ ﷺکے بہت سے ارشادات ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

لِلمُسلِمِ عَلَی المُسْلِمِ سِتٌّ بِالمَعْرُوْفِ:یُسَلِّمُ عَلَیہِ اِذَا لَقِیَہُ، وَیُجِیبُہُ اِذَا دَعَاہُ، وَیُشَمِّتُہُ اِذَا عَطَسَ، وَیَعُودُہُ اِذَامَرِضَ، وَیَتْبَعُ جَنَازَتَہُ اِذَا مَاتَ، وَیُحِبُّ لَہُ مَایَحِبُّ لِنَفسِہِ(ترمذی:۲۷۳۶)

’’ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ(۶)حقوق ہیں : سلام کرے تو جواب دے، دعو ت کرے تو قبول کرے، بیمار ہو تو عیادت کرے، چھینک آئے تو یَرحَمُکَ اللّٰہ کہے، مرنے پر جنازے میں شرکت کرے، جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے بھی پسند کرے۔ ‘‘

اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جو پیغمبر یہ تعلیم دیتاہے کہ اگر کسی کو چھینک آئے تو اس کا بھی اچھاجواب دو، کیا وہ زندگی کے دوسرے معاملات میں اچھا برتائو کرنے کی تعلیم نہیں دے گا؟! ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:

لَایُومِنُ اَحَدُکُم حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیہِ مَایُحِبَّ لِنَفسِہِ (مسلم:۱۳)

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتاہے۔ ‘‘

یہ وہ زرّیں اصول ہے جس کو آپ اپنی پوری زندگی پر فٹ کرکے دیکھئے۔ انسان کی کمزوری ہے کہ کسی بھی معاملے میں دو پیمانے اختیار کرتا ہے : دوسرا اس کے ساتھ معاملہ کرے تو ایسا ایسا ہونا چاہیے،لیکن جب وہ معاملہ کرے توپیمانے بدل جاتے ہیں اور اس کا رویہ مختلف ہو جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی یہ کتنی عظیم تعلیم ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ وہی کریں جو اپنے لیے چاہتے ہیں۔ اس ایک اصول کو ہم اپنی زندگی میں نافذ کرلیں تو انسانی برادری کے حالات سدھرجائیں گے۔

بنیادی تعلیمات:

 اخیر میں سماجی زندگی کی چند بنیادی تعلیمات کا تذکرہ پیش ہے جو اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں دی ہیں۔

سب سے بنیادی تعلیم اللہ کے رسولﷺ نے سچ بولنے کی دی ہے۔ عام طور سے آدمی اس پر قائم نہیں رہ پاتا۔ وہ اس وقت تک سچ بولتاہے جب تک اس کامفاد مجروح نہ ہورہاہو، اسے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو، لیکن جب اس کا کوئی نقصان ہورہاہوتو کوئی گول مول بات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی زندگی کا نمایاں وصف ’سچ بولنا‘ تھا۔ آپؐ کا لقب ’الصادق الامین‘ تھا۔ نبوت سے پہلے بھی آپ کا تعارف ’الصادق الامین ‘ کی حیثیت سے تھا، یعنی سچ بولنے والے اور امانت دار۔ بیان کیاگیا ہے کہ جب آپؐ حضرت خدیجہؓ کا ما ل لے کر تجارت کے لیے گئے تو اسے فروخت کرتے وقت بتاتے تھے کہ یہ سامان ایسا ہے، اس میں یہ خوبی ہے، اس میں یہ خرابی ہے، یہ سامان ٹھیک ہے۔ اس کی قیمت یہ ہے،یہ سب باتیں بتاتے تھے۔ ساتویں ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے وفود بھیجے۔ ایک وفد قیصر روم کے پاس گیا۔ قیصر نے حکم دیا کہ آپؐ کے قبیلے کا کوئی آدمی اگر میری مملکت میں ہو تو اس کو میرے پاس حاضر کیاجائے۔ ابوسفیان تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ وہ حاضر کیے گئے ابوسفیان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ سوال وجواب ہوا۔ ہرقل نے پوچھا : ’’کیا اس شخص سے کبھی تم کو جھوٹ کا تجربہ ہواہے؟‘‘ابوسفیان نے گواہی دی کہ آپ کے بارے میں آج تک کبھی جھوٹ کاتجربہ نہیں ہوا ہے۔ (بخاری:۷)

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں گی وہ پکا منافق ہوگا:(۱)جھوٹ بولے۔ (۲)وعدہ خلافی کرے۔ (۳)امانت میں خیانت کرے۔ (۴)جھگڑا کرے تو گالم گلوچ پر اتر آئے۔ (بخاری: ۳۱۷۸، مسلم۵۸)

اللہ کے رسولﷺ ایک مجلس میں تشریف فرماتھے۔ ایک خاتون نے اپنے چھوٹے بچے سے کہا :’’آئو ادھر آئو، میں تمہیں ایک چیز دوں گی۔ ‘‘حضورؐ نے دریافت کیا :  ’’ تم اسے کیا دینے والی تھیں ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’ میں نے سوچاتھا کہ میں اس کو کھجور دوں گی۔ ‘‘ حضور ﷺنے فرمایا:

اَمَا اِنَّکِ لَو لَم تُعطِیہِ شَیئاً کُتِبَت عَلَیکِ کَذبَۃٌ۔ (ابو داؤد:۴۹۹۱)

’’ اگرتم اس کو کھجور نہ دیتیں تو اللہ تعالی تمہارے اعمال میں ایک جھوٹ لکھ لیتا۔ ‘‘

ایفائے عہد:

دوسرا مطلوب سماجی رویہ ہے عہد کی پابندی۔ اس میں عام طور سے بہت زیادہ کوتاہی پائی جاتی ہے۔ مسلمان بھی اس میں مبتلا ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کی زندگی میں اس کی بھی  زیادہ روشن مثالیں ملتی ہیں۔ عام حالات ہی میں نہیں، بلکہ جب واضح طور سے معلوم ہوجائے کہ ہمیں خسارہ ہونے والاہے، ہزیمت ہونے والی ہے، تب بھی عہد کی پابندی کرنی چاہیے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ مکہ کے ایک سفیر،جن کا نام ابورافع تھا،اہل مکہ کا پیغام لے کر حضور ﷺ سے ملنے کے لیے آئے۔ آپؐ سے ملاقات کے بعد وہ اسلام لے آئے۔ انہوں نے کہا : ’’ اب میں مکہ واپس نہیں جائوں گا۔ ‘‘اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :’’نہیں، تم کو جانا ہو گا۔ سفیر کو روکنا ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ یہ ایک عہد ہوتاہے کہ جب کوئی سفیر آئے تو پورے امن کے ساتھ واپس بھیجا جائے۔ تم مکہ جائو اور پھر بھی تمہارے دل کی یہی کیفیت رہے توآجانا۔ ‘‘

غزوئہ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ (۳۱۳)تھی اور کفار کا لشکر ایک ہزار افراد پرمشتمل تھا۔ جنگ سے پہلے مکے کی طرف سے دو مسلمان، جن کا نام حذیفہ اور حسیل تھا، مدینہ آرہے تھے۔ مشرکین نے ان کو روک لیااور کہا کہ تم اس لیے جارہے ہو کہ مسلمانوں کی فوج میں شامل ہوکر ہم سے جنگ کرو۔ ہم تم کو اس شرط پر جانے دیں گے کہ تم مسلمانوں کی فو ج میں شامل نہیں ہوگے۔ وہ لوگ آئے، اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات کی۔ اندازہ کیجیے، وہ کتنا نازک موقع تھا؟!لیکن اس موقع پر بھی آپؐ نے فرمایا کہ تم نے ان لوگوں سے وعدہ کرلیا ہے تو ہم تم کو اپنی فوج میں شامل نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ ہم عہد کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔

اسی طرح کی ایک مثال صلح حدیبیہ کی ہے۔ معاہدہ لکھاجارہا تھا۔ مشرکوں کی نمائندگی ان کا سردار سہیل بن عمرو کر رہا تھا۔ اس کا بیٹا ابوجندل اسلام لے آیاتھا۔ سہیل نے ان کو اپنے گھر میں قید کررکھاتھا۔ وہ اپنی بیڑیوں کے ساتھ جھنجھناتے ہوئے اس مجلس میں آگئے، جب کہ وہ تحریر لکھی جاچکی تھی کہ مکہ سے جو آدمی آئے گا اس کو واپس کرنا ہوگا۔ اگر چہ ابھی معاہدہ مکمل نہیں ہواتھا۔ اللہ کے رسول ﷺ کہہ سکتے تھے کہ معاہدہ تو اس وقت مکمل ہوتاہے جب سب لوگوں کے دستخط ہوجائیں، معاہدہ کے کاغذات ایک دوسرے کے حوالے کردیے جائیں اور کہہ دیاجائے کہ اب آئندہ سے اس پر عمل ہوگا۔ تاویل کرنے کی گنجائش تھی، لیکن اللہ کے رسو ل ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، اے ابوجندل! معاہدہ ہوگیاہے۔ ہم اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ تم واپس جائو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکالے گا۔ ‘‘ سیرت کی کتابوں میں مذکورہے کہ اس موقع پر صحابہ بڑے جذباتی ہورہے تھے۔ ان کے لیے ناقابل برداشت ہورہا تھا کہ ان کا ایک بھائی، جسے ایمان لانے کی وجہ سے تکلیفیں دی جارہی ہیں، ستایاجارہاہے، اب اسے بچانے کا موقع ہے،کسی نہ کسی بہانے سے اسے بچایاجاسکتاہے، روکاجاسکتاہے، لیکن اللہ کے رسولﷺ کی ذات گرامی نے یہ گوارانہ کیا کہ اس معاہدہ کی پامالی ہو۔

صفائی ودیانت:

ایک سماجی تعلیم معاملات کی شفافیت ہے۔ ہم کوئی معاملہ کرتے ہیں، لیکن اس میں شفافیت کا مظاہرہ نہیں کرتے، دیانت داری نہیں برتتے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ تجارت میں اپنا ناقص مال اونے پونے کسی طرح بیچ دیں، اس کی خامی کسی کو نہ معلوم ہوسکے، اس تعلق سے بھی اللہ کے رسولﷺ نے واضح ہدایات دی ہیں۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَیُّھَا النَّاسُ! اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَجمِلُوا فِی الطَّلَبِ، فَاِنَّ نَفساً لَن تَمُوتَ حَتّٰی تَستَوفِیَ رِزقَھَا وَاِن اَبطَأ عَنہُ (ابن ماجہ:۲۱۴۴)

’’لوگو! اللہ کی نافرمانی سے بچو اور رزق تلاش کرنے میں غلط طریقے اختیار نہ کرو۔ اس لیے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرسکتاجب تک کہ اس کے حصے میں اللہ تعالی نے جو کچھ لکھ دیاہے اسے نہ مل جائے۔ ‘‘

 جب ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ ہماری تقدیر میں جو کچھ لکھاہے وہ ہمیں مل کر رہے گا تو ہم اسے ایمان داری سے بھی حاصل کرسکتے ہیں اوربے ایمانی کر کے بھی۔ اللہ کے رسولﷺ یہ تاکید کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو تو وہ رزق تلا ش کرنے میں غلط طریقے اختیار نہ کرے۔ حضرت رافع بن خدیج  ؓسے روایت ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! سب سے اچھی کمائی کیاہے؟‘‘آپ نے فرمایا:

عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہِ  وَکُلُّ بَیعٍ مَبرُورٍ۔ (احمد:۱۷۲۶۵)

’’ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور وہ تجارت جس میں آدمی جھوٹ اور بے ایمانی سے کام نہ لے۔ ‘‘

 اللہ کے رسولﷺ کا عمل نبوت سے پہلے بھی اسی طرح کا تھا۔ آپ کے دو تجارتی ساتھی تھے، جن کے ساتھ آپ کے تجارتی تعلقات تھے: حضرت سائبؓ اور حضرت قیسؓ۔ ایک مر تبہ حضرت سائبؓ آئے۔ دوسرے لوگوں نے ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کرانا چاہا کہ آپؐ ایسے ہیں، ویسے ہیں۔ حضرت سائبؓ نے کہا: ’’میں تو تم لوگوں سے پہلے سے اللہ کے رسولﷺ کو جانتاہوں۔ ‘‘پھر انہوں نے حضورﷺ کی تعریف کی اور کہا کہ ہم نے کبھی آپ کو معاملات میں کچا نہیں پایا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی سخت ناراض ہوگا، ناراضی کی وجہ سے ان سے بات نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کو جہنم میں جھو نک دے گا۔ ان میں سے ایک آدمی وہ ہوگا جو جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنی تجارت کو فروغ دے‘‘۔ (مسلم: ۱۰۶)

ایک مرتبہ آپؐ بازار سے گزرے۔ ایک جگہ گیہوں کا ڈھیر لگا تھا اور ایک آدمی اسے بیچ رہاتھا۔ آپ نے گیہوں میں ہاتھ ڈالا۔ اندرکچھ نمی محسوس ہوئی۔ اندر کا گیہوں بھیگاہوا اور اوپر کا گیہوں سوکھاہواتھا۔ آپ نے فرمایا: اے شخص !تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا :رات میں کچھ بارش ہوگئی تھی، گیہوں بھیگ گیاتھا۔ آپؐ نے اس کو سخت تنبیہ کی اور فرمایا:

مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔ (ابن حبان:۴۹۰۵)

 ’’جو آدمی ہم کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘

انسانوں کی خدمت:

ایک سماجی تعلیم ہے دوسروں کے کام آنا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہماری ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ کام آنا کسی طرح کا بھی ہوسکتاہے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام کرکے بھی ہمیں خوشی محسوس ہونی چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا:

خَیْرُ النَّاسِ اَنْفَعَھَمْ لِلنَّاسِ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی:۵۷۸۷)

’’انسانوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچانے والاہو۔ ‘‘

 السَّاعِی عَلَی الأرْمِلَۃِ وَالمِسْکِیْنِ کَالمُجَاہِدِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (بخاری:۵۳۵۳،مسلم: ۱۰۰۲)

’’مسکین اور بیوہ کے لیے دوڑ بھاگ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیاہو۔ ‘‘

بیوہ اور مسکین سماج کے دبے کچلے افراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح سماج کے وہ لوگ جو ضرورت مند ہیں، اپنا کام خود نہیں کرسکتے ہیں، کسی پریشانی میں مبتلاہیں، ان کی مدد کرنا اور ان کا کام کرنا، ایک اہم سماجی خدمت ہے۔ اسی حدیث میں آگے آیاہے:

اَوِ القَائِمِ اللَّیلِ الصَّائِمِ النَّہَارِ

’’ایسا آدمی جو کسی مسکین اور بیوہ کی مدد کرتاہے، اس شخص کی طرح ہے جو دن میں مسلسل روزے رکھتاہواور رات بھر نمازیں پڑھتاہو۔ ‘‘

آپ اس آدمی کا تصور کیجئے جو مسلسل روزے رکھتاہو اور رات رات بھر نمازیں پڑھتا ہو۔ جو فضیلت اور جو اجر اس کو حاصل ہوگا اسی طرح کا اجر اس شخص کو بھی حاصل ہوگا جو کسی ضرورت مند کے کام آئے۔ خود اللہ کے رسولﷺ کی زندگی بھی اس کا نمونہ ہے۔ نبوت کے بعد ہی نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی آپؐنے ایسا کیاہے۔ آپؐ جب منصب ِ نبوت پر سرفراز کیے گئے اور آپ پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو اس کی ہیبت سے کانپتے ہوئے آپ گھر آئے اور چادر اوڑھ لی۔ اس موقع پر آپ کوتسلی دیتے ہوئے آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہؓ نے کیا کلمات کہے تھے؟ انہوں نے کہاتھا :’’ اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ آپ دوسروں کے کام آتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، جو بوجھ نہیں اٹھاسکتاہے اس کا بوجھ اٹھاتے ہیں، جو بول نہیں سکتا اس کی طرف سے بولتے ہیں، جس کے پاس کچھ نہیں ہوتااسے کماکر دیتے ہیں۔ ‘‘ام المومنین نے آپؐ کی جن صفات کا تذکرہ کیا تھا وہ ایک دو روز کا مشاہدہ نہیں تھا، بلکہ پندرہ برس تک جس طرح انہوں نے آپؐ کو دیکھا تھا، چند جملوں میں اس کی ترجمانی کردی تھی۔ انہوں نے آپؐ کی جتنی صفات کا تذکرہ کیا تھا وہ سب سماجی زندگی ہی سے متعلق تھیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

تبصرے بند ہیں۔