جے این یو میں ’محفل افسانہ خوانی‘ کا انعقاد

آج یہاں جواہر لال نہرو یونی ورسٹی میں رفتار ادبی فورم کے تحت ’’محفل افسانہ خوانی ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں تازہ کار نسل کے چھ نوجوانوں نے اپنے افسانے پیش کیے اور معاصر تخلیق وتنقیدکے ممتاز ادیبوں نے معاصر افسانوں پرتبادلہ خیال کیا۔ اس پروگرام کی صدارت پروفیسر انور پاشا نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر شفیع ایوب نے انجام دیے۔ اس’’محفل افسانہ خوانی ‘‘ میں سورج کمار ’داد ری‘، عمران عاکف خان’نیادور‘، سلمان عبدالصمد ’نیا بجوکا‘، ڈاکٹر ذاکر فیضی ’ٹی اوڈی‘(جے این یو)۔ محمد عرفان ’ گِدھوں کے دیس میں ‘ (دلی یونی ورسٹی)اورصالحہ صدیقی ’رخصتی‘(جامعہ ملیہ اسلامیہ)وغیرہ نے اپنے افسانے پیش کیے۔

ادب کو اپنے وقت کی آواز ہونا چاہیے: رتن سنگھ

پروگرام میں خصوصی طور پر ڈاکٹر محمد کاظم، ڈاکٹر شیوپرکاش، ڈاکٹر ملکھان سنگھ، ڈاکٹرعبدالرزاق زیادی، پرینکا سنگھ، محمد غفران، حفیظ الرحمن، فیضان الحق، عبدلعلیم، محمد اجمل، ابوبکر ایوب اورمحمد فرقان عالم کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونی ورسٹی اورجے این یو کے متعدد اساتذہ اور ریسرچ اسکالروں نے شرکت کی۔استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے سفیرِ اردو پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ نئی نسل میں تخلیق وتنقید پر سنجیدگی سے غور کرنے والے نوجوان موجودہیں، لیکن اس نسل کی تربیت ضروری ہے تاکہ وہ قدیم اور معاصر فکشن کے ماہرین کی روایت کو بحسن وخوبی آگے بڑھا سکیں۔

نئی نسل کے افسانوں میں نئے امکانات: غضنفر

صدارتی خطبے میں پروفیسر انور پاشا نے کہاکہ نئی نسل کی آبیاری کے لیے مستند تخلیق کاروں اورناقدوں کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔اگر ہم نئی نسل تیار نہیں کرتے تو صحیح معنوں میں ہم ہی قصور وار ہیں ۔انھوں نے رتن سنگھ کے تخلیقی انہماک کا ذکر کیا اور انھیں کرناٹک حکومت کی طرف سے حالیہ دنوں ملنے والے ’’کوئمپو ایوارڈ ‘‘ پر مبارکباد بھی پیش کی۔انھوں نے مزید کہا کہ سیمیناروں میں ہمارے اسکالروں کو تنقید لکھنے کی کسی حد تک رہنمائی مل جاتی ہے، مگر ان کی تخلیقی تربیت نہیں ہوپاتی، اس لیے’’ رفتار ادبی فورم‘‘ نے ایک ایسا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے ان کی تخلیقی تربیت بھی بہ آسانی ہوتی رہے گی ۔

مہمان اعزازی ممتاز ادیب پروفیسر غضنفرنے کہاکہ ہمارے نوجوان اپنے افسانوں میں زندگی کے تئیں سنجیدہ ہیں ۔ یہ نئی نسل گہرائی سے انسانی در دکو محسوس کررہی ہے اور اس دردکو دورکرنے کی کوشش میں مصروف بھی ہے۔البتہ بنت کے اسرار ورموز سے انھیں واقف ہونا ضروری ہے۔انھوں نے پروگرام میں پیش کیے گئے ا فسانوں پر تنقیدی نگاہ دالتے ہوئے فنی باریکیوں کو بھی اجاگر کیا۔

مہمان خصوصی ممتاز فکشن نگار رتن سنگھ نے اپنے زمانے کے لکھنو کی ادبی سرگرمیوں کا تفصیلی تذکرہ کیا۔ ایک سے ایک بہترین قصے سنائے جن سے تقریباً گزشتہ پون صدی کا افسانوی منظر نامہ ہمارے سامنے آگیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو افسانہ مشکل دور سے گزر رہا ہے۔کہانی لکھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے نئی نسل کو افسانہ لکھنے کی رفتاربڑھانی چاہیے، تاکہ مشق کے دوران اچھے افسانے بھی سامنے آئیں ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پروفیسر محمد حسن مجھ سے ہمیشہ پوچھتے تھے کہ کیا لکھا۔ اگر میں جواب دیتاکہ کچھ نہیں تو وہ کہتے تھے کہ پڑھنا شروع کردیں ۔ کیوں کہ پڑھنا خوراک ہے۔پڑھنے کے بعد لکھنے کے لیے خود راہ ہموار ہوتی جاتی ہے۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ادب کو وقت کی آواز بنا نے کے لیے فن کاری ضروری ہے۔ ڈاکٹر حافظ محمد عمران کے کلمات تشکرکے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔

تبصرے بند ہیں۔