نمائش کے ہیں گل خشبو نہیں ہے

جمالؔ کاکوی

نمائش کے ہیں گل خشبو نہیں ہے
نظر کا دھوکا گل کی خو نہیں ہے

ملمع رنگ نہ تو روپ دھوکا
چمن میں دھوکے کا پہلو نہیں ہے

رقم کرتا ہوں اپنے خون دل سے
سخن گوئی کوئی جادو نہیں ہے

تعلق منقطع ہے رات دن سے
شب دیجور اک جگنو نہیں ہے

کبھی کر لیتے وہ وعدہ وفا بھی
سنورتا منتشرگیسو نہیں ہے

یہ آئینہ بھی اندھا آئینہ ہے
مقابل میں نہیں ہوں تو نہیں ہے

مرے دل پہ ہے جب ان کی حکومت
تو میرے منھ میں بھی للو نہیں ہے

زمانہ بے خبر ہے شامِ غم سے
کہ داغ دل کوئی شبّو نہیں ہے

فقیری نے مجھے عزت ہے بخشی
جمالؔ کرسی کا بابو نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔