سماج وادی پارٹی میں دنگل

سماج وادی پارٹی ایک خاندانی سیاسی پارٹی ہے جس میں خاندان کے چند افراد مل جل کر پارٹی اور حکومت کو چلاتے تھے۔ پارٹی کے مکھیا ملائم سنگھ یادو ہیں اور حکومت کی زمام کار ان کے بیٹے اکھلیش یادو کے ہاتھ میں ہے۔ ملائم سنگھ اور ان کے بھائی شیو پال یادو کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ لوگ امر سنگھ، عتیق صدیقی جیسے لوگوں کے ساتھ ہیں جو اکھلیش کو بیحد ناپسند کرتے ہیں ۔ عتیق کا مجرمانہ ریکارڈ ہے جس کی وجہ سے اکھلیش ان سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ امر سنگھ کے بارے میں اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ یادو پریوار میں وہ پھوٹ ڈالتے ہیں۔ اکھلیش میڈیا اور عوام کے سامنے اپنی تصویر کو صاف ستھری پیش کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہیں۔ اگر چہ ڈھائی سو سے زائد فسادات اکھلیش حکومت کے دوران ہوئے ہیں۔ مظفر نگر کا فساد جہاں مسلمانوں کے بتیس گاؤں نیست و نابود کر دیئے گئے ۔ 75 ہزار افراد جس کے نتیجہ میں آج بھی مارے مارے پھررہے ہیں جن کیلئے کہیں کوئی جائے پناہ نہیں۔ نظم و نسق (Law and Order) کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔ ایک طرح سے لوٹ کھسوٹ، غنڈہ راج اور کرپشن کا دور دورہ تھا۔ ہوسکتا ہے کہ الیکشن خراب ترین حکمرانی کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیں اور یہ کہیں کہ باپ چچا کی مداخلت سے وہ اچھی حکومت نہیں کرسکے، پھر بھی حکومت سے چپکے رہے۔ جو لوگ صاف ستھری حکومت کے قائل ہوتے ہیں وہ اگر اچھی حکمرانی نہیں کرپاتے یا انھیں کرنے نہیں دیا جاتا تو حکومت کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
حکومت کے دوران ملائم سنگھ اکثر و بیشتر بیٹے کی حکمرانی پر نکتہ چینی ضرور کرتے تھے مگر انھوں نے اسے تخت شاہی سے اتارنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کیلئے وہ بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ وزیر اعلیٰ بیٹا کہتا تھا کہ نیتا جی جب کہیں گے وہ اقتدار چھوڑ دیں گے۔ دو ڈھائی مہینے سے باپ اور بیٹے کے کیمپوں میں جو کھلے عام لڑائی جھکڑا پورے ملک میں ٹی وی اسکرین پر دیکھا تو سبھی نے کہاکہ ؂ بیمار کا حال اچھا نہیں ہے۔ کیونکہ ملائم سنگھ اور شیو پال یادو دونوں وزیر اعلیٰ کے منہ پر ان کو جھوٹا اور بے ایمان کہنے میں کوئی تامل نہیں کر رہے تھے۔ ایسے وقت میں اکھلیش یادو صبرو ضبط سے کام لے رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ نیتا جی (ملائم سنگھ) ان کے باپ بھی ہیں اور وہ جب کہیں گے ہم حکومت سے استعفیٰ دے دیں گے مگر کوئی ان کو ڈکٹیٹ (Dictate) کرائے گا تو وہ اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
تین چار دن پہلے ملائم سنگھ نے 375 امیدواروں کی فہرست کا اعلان کیا۔ ملائم سنگھ جب سماج وادی ہیڈ کوارٹر میں امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر رہے تھے ت اس وقت شیو پال یادو ان کے ساتھ اکھلیش نہیں تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اکھلیش کی حمایت یا مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ تقریباً 54 ایسے ایم ایل اے اور وزیر جو اکھلیش کے قریبی سمجھے جاتے تھے انھیں امیدواروں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ اکھلیش نے باپ سے ملاقات کی اور ان سے اپیل کی کہ انھیں جو سزا دینا ہے وہ دیں۔ ان کی وجہ سے ان کے ساتھیوں اور حمایتیوں کو کیوں سزا دے رہے ہیں۔ ملائم سنگھ نے اکھلیش کی ایک نہ سنی جس کی وجہ سے دوسرے ہی دن اکھلیش نے باپ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور اپنے حمایتیوں پر مشتمل 175 امیدواروں کے نام کا اعلان کیا جس سے پارٹی دو کیمپوں میں بٹ گئی ۔ گزشتہ روز (30دسمبر) کو ملائم سنگھ یادو بیٹے کی بغاوت کو برداشت نہ کرسکے ۔ بیٹے اکھلیش یادو اور چچا زاد بھائی رام گوپال یادو کو پارٹی سے 6 سال کیلئے نکال باہر کیا۔ اگر چہ کچھ لوگ مصالحت اور مفاہمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اعظم خان کابھی نام مصالحت کرانے والوں میں لیا جارہا ہے۔ لیکن آج دس بجے سے دونوں کیمپوں کے درمیان جنگ جیسی کیفیت پائی جاتی ہے۔
وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے اپنی آفیشیل رہائش گاہ پر ایم ایل اے، ایم ایل سی اور اپنے حمایتیوں کا اجتماع بلایا ہے اور ان کی رہائش گاہ پر باہر کے لوگوں کا اژدہام اور گھر کے اندر بھی کہا جارہا ہے کہ اکثرایم ایل اے پہنچ چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سماج وادی پارٹی کے دفتر کے سامنے چند لوگوں کی بھیڑ ہے اور ابھی بتایا نہیں گیا ہے کہ کتنے ایم ایل اے ، ایم ایل سی سماج پارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں پہنچ چکے ہیں۔ ملائم سنگھ اور شیو پال دفتر پہنچ چکے ہیں اور اپنے حمایتیوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
تادم تحریر خبر یہ ہے کہ اکھلیش یادو کی حمایت میں 195 ایم ایل اے ہیں جبکہ ملائم سنگھ کی حمایت میں صرف 18 ہیں۔ جو ایم ایل اے کسی کیمپ میں نہیں پہنچ سکے وہ غیر جانبدار ہیں۔ اب شاید یہ بھی اکھلیش کے ساتھ ہوجائیں۔ اس طرح باپ نے بیٹے سے جنگ جیت لی کیونکہ ملائم سنگھ اکھلیش کی جگہ اب کسی دوسرے کو وزیر اعلیٰ بنانے سے قاصر ہیں۔
معلوم ہوا کہ اعظم خان باپ بیٹے میں مصالحت کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اکھلیش کو لے کر اعظم ملائم سنگھ کے گھر پہنچے ہیں۔ بات چیت جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اکھلیش کا مطالبہ ہے کہ وہ اسی وقت پارٹی میں واپس آئیں گے جب امر سنگھ کو باہر کا دروازہ دکھا دیا جائے۔ اب دیکھنا ہے کہ ملائم سنگھ یادو بیٹے کی شرط کو منظور کرتے ہیں یا نہیں۔ ملائم سنگھ اگر منظور کرلیتے ہیں تو لڑکے کی دوسری جیت ہوگی۔ اس طرح اکھلیش پارٹی اور حکومت دونوں پر حاوی ہوجائیں گے۔ ملائم سنگھ یا شیو پال یادو کی جگہ صرف سرپرستی کی رہ جائے گی۔ ان دونوں کی شاید اب نہ پارٹی کے اندر کچھ چلے گی اور نہ حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرسکیں گے۔ جہاں تک ملائم اور اکھلیش کے امیدواری کی الگ الگ فہرستوں کے اعلان کا تعلق ہے تو اس میں مصالحت ہوگی۔ اکھلیش اپنے حمایتیوں کی تعداد بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ملائم سنگھ کی جو اس وقت کمزور حالت ہے اس کے پیش نظر ملائم کیلئے بیٹے کے سامنے جھکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
میڈیا نے اکھلیش یادو کی جو تصویر پیش کی ہے جس کی وجہ سے عوام اور پارٹی کے زیادہ تر افراد اکھلیش کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ ملائم سنگھ کانگریس سے اتحاد کے خلاف تھے جبکہ اکھلیش اتحاد کے حامی تھے۔ اگر اکھلیش اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو شر سے خیر کا پہلو نکل سکتا ہے، حالانکہ اکھلیش نے ترقی اور فلاح کی شبیہ بنائی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت کے دوران جس قدر دنگے اور فساد ہوئے ہیں کسی اور ریاست میں اس قدر دنگے اور فساد نہیں ہوئے۔ اکھلیش اپنے باپ سے فی الحال جنگ جیتنے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام میں خاص طور سے مسلمانوں میں جو اکھلیش یادو کے خلاف غم و غصہ ہے وہ کم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا نہیں؟
اعظم خان کو مسلم چہرہ کہا جارہا ہے اور وہ اکھلیش کی حکومت میں تھے اور ہیں مگر وہ فسادات اور مسلمانوں پر مظالم کو نہ روک سکے۔ شاید اکھلیش اور ملائم کیلئے سرخ رو بننے کیلئے وہ مسلمانوں پر جو ظلم و جبر کے پہاڑ اتر پردیش میں توڑے گئے وہ خاموش رہے، کچھ نہ کرسکے۔ محض تماشائی بنے رہے۔ باپ بیٹے میں مصالحت کراکے ان کا قد اور بھی اونچا ہوگا مگر وہ مسلمانوں کے کسی کام کے ہوں گے یہ کہنا مشکل ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔