خدمتِ دینِ احمد ﷺکرکے ہم چلے

ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے عظیم محدث ،شب زندہ دار عابد ،مستجاب الدعوات بزرگ ،استاذ الاساتذہ، شیخِ ثانی حضرت مولانا عبد الحق اعظمی ؒ بھی 30 ڈسمبر 2016ء بروز جمعہ جوارِ رحمت میں منتقل ہوچکے ہیں۔آپ تقریبا ۸۸ برس کے تھے ،رجب کے مہینہ میں دوشنبہ کے دن 1928ء میں جگ دیش پور ،ضلع اعظم گڑھ میں آپ کی پیدائش ہوئی ،ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں کے ایک مکتب میں حاصل کی ۔اس کے بعد بیت العلوم سرائے میر میں فارسی اور عربی کی متعدد کتابیں پڑھیں ،پھر دارالعلوم مؤ میں داخل ہوکر عربی ہفتم تک تعلیم مکمل کی ۔1948ء میں دارالعلوم دیوبند کے دورۂ حدیث میں داخل ہوکر شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ ،علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب ؒ وغیرہ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔مختلف علوم وفنون کی تکمیل کے بعد متعدد مقامات پر آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں بالآخر1982 ء میں دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر عمل میں آیا ۔تقرری کے بعد سے عمر کے آخرتک سیدالکونین ،امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی حدیث کی عظیم خدمت انجام دیتے رہے۔اور ایک طویل عرصہ سے ’’بخاری شریف جلد ثانی ‘‘ کا درس دیتے رہے ،اسی بناء پر علمی دنیا میں آپ ’’شیخِ ثانی ‘‘کے لقب سے جانے تھے ۔پیرانہ سالی ،ضعیفی وکمزوری اور بہت سے اعذارکے باوجود علمِ حدیث سے بالخصوص اس درجہ شغف تھا کہ بخاری کی تدریسی خدمات برابر ادا کرتے رہے،جب تک چل کر آنا ممکن تھا چل کر آتے رہے اور علم کی کرنوں کو پھیلاتے رہے ،اس کے بعد وہیل چیر پر تشریف لانے لگے اور حدیث کی خدمت انجام دیتے رہے،اور اپنے دینی درد وکڑھن کو ،محبتِ رسول کو ،اتباعِ سنت کے ذوق کو ،علم کی قدردانی کے جذبوں کو ،حصولِ علم کے آداب وتقاضوں کو اپنے طلباء میں منتقل کرتے رہے۔ہر کام میں رضائے الہی کو مقصود بنانے کے شوق کو پیداکرنے کی تعلیم دیتے رہے۔آج پوری دنیا میں لاکھوں شاگرد آپ کے پھیلے ہوئے ہیں ،جنہوں نے آپ سے خوشہ چینی کی اور اپنے دامن کو علم سے بھرا اور زندگیوں کو عمل سے آبادکیا۔بلاشبہ حضرت شیخِ ثانی ان لوگوں میں سے تھے جن کا وجودخوداس دور میں برکتوں کا سبب ہوتا ہے ،اور زمانہ کے لئے نعمتِ عظمی کہلاتا ہے۔آپ یقیناًاسلاف واکابر کے علوم اور نسبتوں کے امین اور فکر وتڑپ کے پاسدار تھے ۔اللہ تعالی نے آپ کو جہاں تبحر علمی سے نوازاتھا وہیں سوزِجگر اور خلوص وللہیت کی دولت بیش بہابھی عطا کیاتھا ،مزاج میں غیر معمولی سادگی اور بے تکفی تھی ۔دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم ادارہ میں عرصۂ دراز سے بخاری شریف پڑھانا اور دل وجان سے اس کے تدریسی فرائض کو انجام دینا یقیناًآپ کے لئے ایک امتیاز رہا۔دارالعلوم دیوبند میں مسلسلات کا درس بھی آپ ہی دیا کرتے تھے۔بالعموم بخاری شریف کا درس عشاء بعد ہوتا ،اور سردی کی ٹھنڈی راتوں اور گرمی کی بے چین کردینے والی شب میں بھی آپ پوری پابندی اور بشاشت کے ساتھ اور پوری فکر ولگن سے درس دیتے۔دوران درس بہت سی باتیں علم وحکمت اور آداب واصول کی بیان فرماتے اور دلوں میں الفاظِ حدیث کے ساتھ عظمتِ حدیث اور محبتِ رسول ﷺ کو بٹھاتے۔آپ کے درسِ بخاری کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ آپ حدیث کے پڑھنے کے لئے خوش الحانی کوبہت پسند فرماتے ،حدیث کے پڑھنے میں سلاست ،روانی اور خوش الحانی کا بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔
جب یہ راقم جامعہ اسلامیہ دارالعلو م حیدرآباد میں زیر تعلیم تھا ،اس وقت اکثر ختمِ بخاری شریف کے در س کے لئے حضرتِ شیخِ ثانی ؒ ہی تشریف لایا کرتے تھے ،الحمدللہ اس زمانہ سے آپ کو دیکھنے کا شرف حاصل رہا اور 2008 ء میں جب دورۂ حدیث شریف میں تھاتب آپ سے باضابطہ شرفِ تلمذ حاصل کرنے اور بخاری شریف پڑھنے کاموقع نصیب ہوا۔ یقیناًان گنت فیض یافتگان پوری دنیا میں آپ کی رحلت پر غمگین ہیں،اور ہر طالب علم کو اپنے عظیم استاذ کی رحلت اور انتقال پر ضرور حزن وملال اوررنج وغم ہوتا ہے۔استاد شاگرد کا رشتہ روحانی باپ اور بیٹے کا ہوتا ہے ،اور استاد ہی پتھروں کو تراش کر ہیرے بناتا ہے ،اپنے خونِ جگر سے نسل انسانی کی آبیاری کرتا ہے ،قوم وملت کو جگمگاتے ہوئے چاند سورج دیتا ہے۔حضرت شیخِ ثانی نے تو ایک پوری کی پوری کھیپ اور مختلف میدانوں کے لئے دین کے بے لوث اور سچے خادموں کی نسلوں کو تیار کیا اور آخر سانس تک اپنے آپ کو اسی لئے قربان کیا،جو لمبی لمبی تقریروں کے بجائے خاموش کردار عمل سے دلوں کی دنیا مین انقلاب برپا کرنے والے اور پیغام وسبق دینے والے عظیم مربی تھے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں ہر انسان جانے کے لئے آیاہے چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو؟عام لوگوں کی موت ممکن ہے کوئی پیغام اور سبق نہ دیں لیکن جب دین کے عظیم سپاہی ،کتاب وسنت کے محافظ وعلم بردار،علومِ نبوی کے شارح و ترجمان ،اتباعِ سنت کے پیکر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ایک روشن نمونہ چھوڑکر ،تعلیمات وہدایات کا حسین اور مشکبار گلدستہ دے کر جاتے ہیں ۔بخاری کے اختتام پر حضرت شیخِ ثانی کی دعا بہت مشہور اور مقبول تھی ،ایک خاص کیفیت کے ساتھ آپ دعا فرمایا کرتے تھے۔بخاری کے آخری سبق میں آپ نے جہاں بہت ساری نصیحتیں کی تھیں جن میں کچھ اب بھی کانوں میں گونج رہی ہیں وہ یہ تھیں کہ:’’اب تم یہاں سے پڑھ کر اپنے اپنے علاقوں میں چلے جاؤگے،کوئی کہیں اور کوئی کہیں اپنی خدمات میں لگ جائیں گے ،ممکن ہے آج کے بعد ہماری ملاقات پھر ہوسکے یا نہیں لیکن ان شاء اللہ بچوں ! ہم سب جنت میں اکٹھا رہیں گے۔رضائے الہی کو مقصود بناکر دین کا کام کرو ،اللہ تمہیں دین ودنیا میں سرخرو کرے۔‘‘اس کے بعد حضرتِ شیخ ثانی ؒ نے نہایت رقت انگیز دعا فرمائی اورخوب رُلایا ،دلوں کو بے قرار کردیا۔آج ہم سب ان کی جدائی میں رورہے ہیں ،لیکن ان شاء اللہ آپ کی ہدایات طالبان علوم نبو ت کے لئے مشعلِ راہ ہوں گی۔حضرتِ شیخِ ثانی ؒ کا پیغام جو انہوں 2008ء کے فارغین کو بطور نصیحت نامہ کے دیا تھا وہ پیش ہے:’’میرے عزیزو،پیارواور جگر کے ٹکڑو!جس علم کو آپ حضرات نے اب تک حاصل کیا ہے، یا آئندہ حاصل کریں گے وہ علمِ الہی اورعلمِ دین ہے ،جس کا مقصد حصولِ رضائے الہی ہے نہ کہ حطامِ دنیا،دنیا تو حسبِ مقدر مل کررہے گی ،اس کی زیادہ فکر مناسب نہیں ،اس علم سے مقصود اللہ جل شانہ کی خوشنودی اور اس کی رضا ء ومحبت ہے ۔اور یہ اس وقت حاصل ہوگی جب اخلاص کے ساتھ علم کے مطابق عمل کرتے رہیں گے ،نیز عمل سے علم کی بقاء بھی ہے ۔چناں چہ حضرت علیؓ کا مقولہ ہے کہ :’’یھتف العلم بالعمل فان اجاب والا فارتحل‘‘۔حضرت وکیع ؒ کا قول ہے :’’اذااردت ان تحفظ الحدیث فاعمل بہ‘‘اس لئے علم کے مقتضا ء کے مطابق اپنے اعمال واخلاق اور کردارکو استوارفرماکر عالم کے لئے نمونہ بن جائیں ،اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب اللہ جل شانہ اور رسول پاک ﷺ کے ساتھ غایت درجہ محبت ہو۔‘‘
خدا حضر تِ شیخ ثانی ؒ مغفرت فرمائے ،بلند درجات عطا فرمائے اور پوری زندگی جو انہوں نے دین ،علمِ دین اور حدیث کی خدمت انجام
دی اس کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔آمین

تبصرے بند ہیں۔