سماج کو جوڑنے کی ضرورت ہے!

ڈاکٹرظفردارک قاسمی

یہ دنیا مختلف ومتنوع افکار؛ نظریات؛ ادیان اور رنگا رنگ تہذیب وثقافت کی حسین آماجگاہ ہے- جو سماج تنوع تکثیریت کا علمبردار ہو وہیں اس سماج میں تحمل برداشت انسانی وسماجی اقدار کی حفاظت باہم  ادیان کا احترام کا جذبہ بھی پایا جانا ضروری ہے- جب سماج کے افراد اعلی انسانی قدروں کے امین و محافظ ہونگے تو پھر معاشرہ میں خوشحالی آئیگی سماج باہم مضبوط ہوگا غربت افلاس کا قلع قمع ہو گا نیز مواسات و مواخات عدل وانصاف  کی پر سعید فضا ہموار ہوگی اور پھر یہ دنیا امن و امان تحفظ و بقاء کی سنگم ہو گی جس میں انسانیت کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنا اس کو ذلیل و رسوا کرنا اس کی عزت و ناموس کو پامال کر نامحال ہو جائے گا-

سماج میں آج ان ہی جذبات کے حاملین کی سخت ضرورت ہے-اگر  دنیاکے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اس بات کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ جتنی تیز رفتاری کے ساتھ نوع انسانیت جدید آلات و ٹیکنالوجی سے آشنا ہوئ ہے وہیں باہمی نفرت، انتشار، خلفشار، اور تفریق و شکشت کے گہرے گار میں جا گری ہے- آج ایکدوسرے سے الفت ومحبت کے بجائے منافرت ؛ ظلم و زیادتی نا انصافی؛ تشدد؛ سفاکی اور عدم رواداری کو فروغ دیکر انسانی سماج  کو بہت تیزی سے توڑنے کا عمل کیا جارہا   ہے-اگریہ کہوں تو بیجا نہ ہوگا  کہ آج کا دور سازشی کامرانیوں؛ خود غرضی؛  مفاد پرستی اور موقع پرستی کا ہے، جسکی بنیاد  پرانسانی سماج کو الگ الگ گروہوں؛ طبقوں اور خانوں میں تقسیم کردیا گیا  یہی وجہ ہیکہ آج مشرق وسطی بالخصوص شام یمن اور دیگر مسلم ممالک میں آتش و آہن کا کھیل کھیلا جارہا ہے؛معصوموں؛ بچوں ؛ جوانوں؛  بوڑھوں اور خواتین کا انتہائ بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے حد تو یہ ہیکہ یہ وحشیانا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لےرہا ہے-

 ظا لم  حکمران اپنے اس غیر انسانی حرکت پر قطعی پشیمان نہیں ہیں بلکہ انسانیت کے قتل کو وہ اپنی کامیابی و کامرانی محسوس کررہے ہیں- در اصل آج سماج میں جن افراد کا تسلط ہے وہ محدود مفادات کے قیدی اور خود ساختہ مصلحتوں کے اسیر ہیں- ادھر ہمارے نام نہاد سیاسی قائدین کی غیر شعوری حرکتوں نے اپنی جھو ٹی انا اور اپنی کرسی بچانے کی وجہ سے  معاشرہ میں بد امنی؛  بے چینی؛  خوف وہراس؛ بھید بھائوکو جنم دینے میں کا فی حد تک مثبت کردار ادا کررہے ہیں ظاہر ہے اسی وجہ سے ہندوستان جیسے سیکولر اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں آج اقلیتوں کو ظلم وستم کا شکار بنا یا جا رہا ہے؛ ان کی عزت نفس اور مذہب کو بھی ناعاقبت اندیش نشانہ بنا رہے ہیں-

یقینا ان وجوہات کی بنیاد پر ہندوستا نی معاشرہ  ترقی کی شاہراہ پر نہیں آ سکتا ہے؛ کیونکہ انسانی سماج کی فتح اور اسکی سعادت کے لئے ضروری کہ آپسی بھائ چارگی یکجہتی؛ قومی وملی ہمدردی کے جذبہ  کو انسانوں کے درمیان فروغ دیا جائے نیز نوع انسانیت کےساتھ دوستانہ سلوک ورویہ ؛صالح فکر ؛ بقائے باہم جیسے روشن وتابناک اصولوں کو مرتب کرنا اور انہیں انسانی سماج میں یکساں نافذ کر نا عہد حاضر کی نا گزیر ضرورت ہے-

جب ان خطوط پر معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئیگی تو پھر ہمارے سماج میں بحیثیت انسان انسان کی فضیلت وبرتری؛  عدل بین الناس کی پاکیزہ روایات کا فروغ بڑی   تیزی سے پھیلے گا یعنی یہ دنیا باہم دوستی؛ سماجی برابری میں تبدیل ہو جائے گی اور سب انسان آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے بہتر و خوشگوار تعلقات کے علمبردار ہو جائنگے جو ہمارے تحفظ اور بقاء کے لئے لازمی عنصر ہے – اگر ہم مذاہب و ادیان کی تاریخ  اور انکی تعلیمات کا مطالعہ تعصب کی عینک ہٹاکر کریں تو معلوم ہوگا کہ تمام مذاہب نے سماج کو جھگڑا؛ فساد بغض؛حسد؛کینہ پروری سے روکنے کی پر زور سعی کی ہے اور سماج کو متحد رہنے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو نے ؛ ضروریات کی تکمیل میں باہم ہاتھ بٹانے کی کافی حوصلہ افزائ مذاہب کی تعلیم میں موجود ہے – اسی پر  بس نہیں بلکہ مذاہب نے نوع انسانیت کو ہر اس عمل سے روکنے کی تاکید کی ہے جس سے سماج میں رہنے والے افراد کو کسی بھی طرح کا ضرر پہنچے -کیونکہ مذاہب انسانی سماج کو جوڑنے کی تعلیم دیتے ہیں نفرت؛  اختلاف مذاہب کی روح کے خلاف ہے-

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج مذاہب کی تعلیمات کو غلط طریقہ سے پیش کیا جارہا ہے جو مذاہب کی  اصل روح اور مقصد  ہے اس کو نام نہاد مذہبی پیشواؤں نے یرغمال بنادیا ہے؛ چاہے وہ کسی بھی دھرم کا ٹھکیدار ہو ؛حد تو یہ ہیکہ اب گزشتہ کچھ بر سوں سے سیاسی جماعتوں نے بھی انسانی سماج کو مختلف گروہوں اور طبقات میں تقسیم کر نے کے لئے اور اپنی جھوٹی ناموس کی حفاظت کی خاطر مذہب کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے؛ وطن عزیز میں اس کے اثرات  بڑی تیزی کے ساتھ مرتب ہو رہے ہیں؛ جبکہ سماج کی سلامتی اور اپنے مذہب کی سچی وفاداری کا تقاضا یہ ہیکہ دھرم کو آڑے نا لا کر وکاس اور ترقی کی سیاست کو فروغ دیا جائے-جب مذہب کے نام ر سیاست کا گندہ کاروبار کیا جائے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سماج  بلندی اور ارتقاء کی منازل طے کرنے سے ہمیشہ کوسوں دور رہے گا؛  کیونکہ مذہب اور سیاست کا جب.مرکب تیار کیا  جاتا ہے تو اس کے نتائج انتہائ خطرناک ہوتے ہیں –

 اگر ہم ہندوستان کی موجودہ  سیاسی صورت حال پر نظر ڈالیں تو اس کا اندازہ بحسن خوبی ہو جائیگا-ان اعمال سے ان نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کو حکومت؛ اقتدار تو حاصل ہوجاتا ہے؛  مگر اس گندی سیاست کی وجہ سے انسانی سماج میں مذہبی منافرت؛ ایک دوسرے کے مذہب اور عبادت گاہوں کا تقدس و احترام   ختم ہوجاتا ہے ؛نتیجتا اس  سماج کے انسانوں میں نفرت  تشویشناک حد تک بڑ جاتی ہے  اور اس کے جس قدر بھیانک نتائج وقوع پذیر ہورہے ہیں وہ سب ہماری نظروں کے سامنے ہیں – اس لئے آج کے سماج کو ضرورت اس بات کی ہے کہ صالح افکار اور انسانیت کے ہمدرد افراد کو چاہئے کہ وہ ان سماج دشمن عناصر کی اوچھی حرکتوں سے عوام الناس کو باخبر کریں تاکہ معاشرہ کسی بھی طرح کی نفرت کا شکار نا ہو سکے اور نام نہاد سیاسی مصلحین کے دام تزویر میں نا پھنس سکے ؛کیونکہ سیاسی افرا د کو انسیت صرف ووٹ سے ہوتی اور ووٹ حاصل کرنے کے لئے وہ ہر عمل کرنےکے لئے آمادہ رہتے ہیں؛ چاہے ان کی کوتاہ نظری اور تنگ رویہ سے ملک کا نقصان ہو یا پھر سماج اور معاشرہ کا امن غارت ہو -سیاسی جماعتوں کے افراد کا گاہ بگاہ نفرت آمیز بیان انسانی سماج میں ناراضگی اور شدت پسندی کی دیوار کھڑی کرنے میں کامیاب نظر آرہا ہے -جبکہ معاشرہ کی تعمیر وترقی اور اس کے تحفظ میں صوفیوں؛  سنیاسیوں؛ زاہدوں کے اخلاص اور انکی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ؛آج جہاں بھی قومی ہمدردی کا جذبہ نظر آتا ہے وہ انہی کی عنایات اور مصالحانہ کوششوں کا نتیجہ ہے- سیاسی تنظیموں کی مفاد پرستی کا کوئ رول نہیں ہے بلکہ انہوں نے انسانی سماج میں نفرت کی تخم ریزی میں بڑھ چڑھ کر حص لیا ہے-

آج جو سماج تیار کر نے کی ناپاک سعی کیجارہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوریت جیسا مقدس نظام بھی چرمرا رہا ہے مسلسل انسانیت میں تقریق پیدا کر نے والی چیزوں کو فروغ دیا جا رہا ہے؛   ہندوستانی سماج کی صدیوں پرانی روایت اتحاد و یکجہتی کی مستحکم جڑیں  کھوکھلی ہوتی نظر آرہی ہیں -اگر ہم آج کے اس پر آشوب دور سے نجات حا صل کر نا چاہتے ہیں تو ہمیں ملک میں تمام انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک  کر نے پر زور دینا چاہئے؛  کیوںکہ ملک کا آئین بھی اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتا ہے کہ ملک کے کسی بھی باشندہ کے ساتھ دوہرہ رویہ اپنایا جائے یا اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا غیر انسانی معاملہ کیا جائے حتی کہ آہین ہند کی دفعات تو اس بات کا ببانگ دہل اعلان کررہی ہیں کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی؛ تہذیبی ؛ لسانی آزادی حاصل ہے نیز ملک کی اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کر نے کی بھی کھلی چھوٹ ہے -اس کے باوجود کو ئ اقلیتوں کو ہراساں کرتا ہے یا ان کے ساتھ زیادتی کا رویہ اپناتا ہے تو وہ آئین کی سراسر مخالفت  کررہا ہے۔

اگر ہم مذہب اسلام کی روشن تعلیمات کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ اسلامی تعلیمات نے انسانو ں کو ایک لڑی میں پرونے؛  سماج کو طاقتور بنانے کے لئے کس قدر انسانیت کو ابھارہ ہے پیغبر اسلام نے انسانی سماج کو جوڑنے کے لئے جو جتن کئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں – دنیا کی تاریخ اتنی شاندار نظیر پیش کرنے  سے ابھی تک قاصر ہے؛ چنانچہ پیغمبر اسلام نے سب سے پہلے انسانی حقوق کے تحفظ اور سماج کو یکجٹ رہنے کے لئے اور سماج میں امن وامان برقرار رکھنے کے لئے حلف الفضول جیسا معاہدہ مرتب کیا؛  تصور کیجئے یہ دستاویز اس وقت وجود میں آئ جب مکہ کے ظالم و جابر افراد انسانوں کو اپنی بے جا ہوس کا شکار بنانے کے لئے ہر ممکن سعی کررہے تھے انسانی حقوق کو بڑی تیزی سے غصب کرنے کا سلسلہ جاری وساری تھا؛ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اس معاہدہ کے وقوع پذیر ہونے کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ مکہ میں ایک شخص تجارت کی غرض سے آیا چنانچہ مکہ کے بدمعاشوں نے اس کا مال و اسباب غصب کرلیا لیکن اس کی قیمت ادا نہیں کی اس نا انصافی کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئ تو محمد صلی علیہ وسلم نے مظلوم شخص کی حمایت کی اس طرح یہ حلف الفضول کا معاہدہ مرتب ہوا – اسی طرح تاریخ کے صفحات میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ حجر اسود کی تنصیب کے موقع پر قبائل قریش میں جو نزاع ہونے کا قوی امکان تھا آپ صلی علیہ وسلم نے اسے اپنی بصیرت اور فہم و شعور سے رفع کردیا اور ایک بار پھر  سماج کو ٹوٹنے سے بچا لیا ؛ساتھ ہی یہ بھی عرض کردوں کہ یہ دونوں واقعات نبوت سے قبل کے ہیں – اگر ہم ہجرت مدینہ کے بعددوالی زندگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ آپ صلی علیہ وسلم نے انسانیت کا رشتہ باہم جوڑنے ؛سماجی انصاف کو بحال کرنے ؛ قومی و ملی ہمدردی کے جذبہ کو فروغ دینے کے لئے میثاق مدینہ جیساعظیم ترین معاہدہ مرتب کیا؛ سیرت کے طالب علم جانتے ہیں کہ اس دستاویز کے نوع انسانیت پر کس قدر مفید اور نفع بخش فوائد بر آمد ہوئے اور انسانی سماج کو جوڑنے کے لئے کس حد تک معاون ثابت ہوا- یہاں یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہیکہ میگنا کارٹا کا معاہدہ 1215  میں  وجود میں آیا جبکہ انسانیت کو پہلی ہجری میں اسلام نے سماجی نظام کو مرتب کرنے کا دستور دنیا میں سب سے پہلے تحریری شکل میں عنایت کیا تھا- اسلامی تعلیمات میں ایک اور دستور ہمیں ملتا ہے مواخات کے نام سے جانا جا تا ہے- اس کی اس وقت کیا افادیت تھی اور اس نے معاشرہ کی دوری؛  بعد  کا ازالہ کرنے میں کتنا مثبت کردار ادا کیا ہے اس سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے- کہنا کہ مقصد یہ کہ آج سماج کو جوڑنے کی ضرورت ہے سماجی تفریق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے – معذرت کے ساتھ یہ بھی عرض کردو ں کہ آج سماج کو تقسیم کرنے میں سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے وہیں ہمارے نام نہاد مذہبی رہنمائوں نے بھی مسلک کے نام پر انسانی سماج کو بری طرح سے بانٹ رکھا ہے؛  اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ مذہبی رہنمائوں  کی ذاتی مصلحت کا شکا رمسلم طبقہ بھی ہوا ہے۔

  آخر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آج سماج جس تیزی کے ساتھ شکشت وریخت کا شکار ہے اس سے بچانے کے لئے ملت کے مخلصین کو آگے آنے کی ضرورت ہے؛  ورنہ اس وقت ملک میں جس طرح نفرت کی کھیتی کو پروان چڑھایا جارہا ہے وہ ملک کی سالمیت اور اسکی بقاء لئے نقصاندہ ثابت-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔