سناتن  پر قدغن  لگانے کا دم خم؟

ڈاکٹر سلیم خان

یوم آزادی سے ۵ روز قبل  سناتن سنستھا کےویبھوراؤت،شردکالسکراورسدھنواگوندھلکربم اور دیگر آتشیں اسلحہ   سمیت دھر دبوچے گئے۔ پہلے تو خبر آئی کہ جشن آزادی میں دھماکے کرنے کا منصوبہ  تھا بعد میں پتہ چلا کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر بم پھوڑنا چاہتے تھے ممکن ہے دونوں کا ارادہ ہو۔ یعنی اول تو یوم آزادی پر دھماکے کا الزام مسلمانوں پر لگا کر ان کو بدنام کیا جائے اور جوابی دھماکوں کے بعد دعویٰ کردیا جائے کہ انتقام  لے لیا گیا لیکن وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔ عیداور آزادی امن و امان کے ساتھ گذری اب سناتن  پر پابندی کی تیاری ہے۔ مہاراشٹر کے وزیرمملکت برائےامور داخلہ  دیپک کیسرکے مطابق سناتن سنستھا پر پابندی کی تجویزمرکزمیں زیر غور ہے۔ صوبائی حکومت کی سابقہ تجویز میں جو نقص تھا اسے دور  کردیا  گیا ہے۔ اس لیے پھر ایک بار امید کا چراغ تو روشن ہوا ہے کہ تاریکی چھٹے گی لیکن یہ اندیشہ بھی ہے کہ   کہیں  اپنی روشنی پھیلانے سے قبل ہی دیا بجھا نہ  دیا جائےاورایک دہشت گرد تنظیم کے خرمن کو خاک ہونے سے بچ جائے۔ مودی سرکار اگر سناتن پر پابندی لگا دیتی  ہے تو یہ اس کا بڑا کارنامہ شمار ہو گا۔

اندھ شردھا نرمولن سمیتی کے سربراہ ڈاکٹر نریندر دابھولکر کے قتل میں سی بی آئی کے ذریعہ گرفتار شدگان ڈاکٹر وریندر سنگھ تاوڑے،  سچن اندورے اور شرد کلسکر کاتعلق براہ راست سناتن سے ہے اس لیے مذکورہ سنستھا پر پابندی کا مطالبہ  پھر سے زور پکڑتا جارہا ہے۔ اس پر پابندی کی تجویز کانگریس کی صوبائی حکومت نے ۲۰۰۸ ؁ اور ۲۰۱۱ ؁ میں اپنی ہی  مرکزی سرکار کو روانہ کی تھی لیکن کانگریسی ٹھوس اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں جٹا پائے۔ وقت گزاری کے لیے مرکز  کی جانب سے  استفسار کیا جاتا رہا اور صوبائی حکومت وضاحت روانہ کرتی رہی۔ سنستھا کی  پابندی پر  گزشتہ اور حالیہ،  صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتوں کا اتفاق ہے لیکن قوت فیصلہ کی کمی اور انتخابی خسارے کا خوف ان کے قدموں کی بیڑی بنا ہوا ہے۔ اس لیے  نہ تو صوبائی  سرکار اصرار کرتی ہے اور نہ مرکزکی طرف سے کارروائی ہوتی   ہے معاملہ معلق رہتا ہے۔وزیر موصوف کیسرکرنے کانگریس کےاس الزام کی تردید کی ہے کہ موجودہ  صوبائی حکومت سناتن کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے یا کرناٹک میں کالبرگی اور گوری لنکیش کے قاتلوں پر شکنجہ کسنے کے سبب مہاراشٹر کی پولس خواب غفلت سے بیدار ہورہی ہے۔ ان کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا اتنی ساری گرفتاریاں نہیں ہوتیں۔ حالیہ انکشافات کا سہرا مہاراشٹر اےٹی ایس  کے سر ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ  اس بارحکومت نے سناتن کی بلی چڑھانے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے لیکن کون جانے اس مشق  کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟

ہوا ہے یہ دل دیوانہ قابل زنجیر    

 کھلے ہیں گیسوئے دلدار دیکھیے کیا ہو

مہاراشٹر سرکار کی یقین دہانی پرشکوک شبہاتکی وجہ یہ  ہے کہ اپریل ۲۰۱۷ ؁ میں این سی پی کی  رکن کاونسل ودیا چوہان  کے سوال کا جواب دیتے ہوئے دیپک کیسکرکر نے ہی ایوان میں کہا تھا کہ نریندردابھولکر اور گووند پانسرے کے قتل میں ملوث سناتن سنستھا پر پابندی لگانے کی  تجویز مہاراشٹر سرکار نے مرکزی حکومت کو روانہ کردی ہے۔ انہوں نے ایوان میں  یقین دہانی بھی کی تھی کہ  صوبے میں غیر قانونی اسلحہ کے استعمال کو روکا جائے گا۔ اس کے باوجودنہ پابندی لگی اور نہ اسلحہ کی ریل پیل رکی  نتیجہ یہ ہے کہ اس سال پھر بڑا ذخیرہ پکڑا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی گیدڑ بھپکیوں کو  سناتن کے ویر بہادر خاطر میں نہیں لاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  ان پر پابندی کا راگ اکتوبر ۲۰۰۹؁ سے الاپا جارہا ہے جب گوا میں ہونے والے دھماکوں کا الزام’سناتن سنستھا‘ پر لگا تھا۔ وہ بجا طور پر سوچتے ہوں گے کہ جب کانگریس کا پنجہ  ان کی گردن نہیں ناپ سکا تو بی جے پی کانرم نازک کمل ان کا کیا بگاڑ لے گا؟

سناتن سنستھابظاہر ہندوتہذیب  اور روحانیت کی ترغیب کا دعویٰ کرتی ہے  لیکن اس   کی ذیلی شاخ ہندو جاگرن سمیتی تشدد میں یقین رکھتی ہے۔ اس کے ایک اجلاس میں  رام سینے چیف پرمود متالک نے کہا تھا کہ ‘ مالیگاؤں صرف جھلک ہے۔اگر ہر عورت سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی طرح بم اٹھا لےتواور بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ‘ لیکن افسوس کہ فی الحال حکومت کو سادھوی بے قصور نظر آتی ہے۔ مہاراشٹر میں  انسداد دہشت گردی عملہ  (اے ٹی ایس) گزشتہ ۹ سال سےسناتن  پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتا آرہاہے کیونکہ اس کےچار اراکین نوی ممبئی اور تھانے کے تھیئٹرزکے اندربم دھماکوں میں ملوث پائے گئے تھےاور ان کے پاس  سے بڑی مقدار میں دھماکہ خیز اشیاء، ڈیٹونیٹرز، ٹائمر ریڈیو سرکٹ اور ریوالور برآمدہوا تھا۔سابق  اے ٹی ایس سربراہ رگھوونشی نے گوا دھماکہ کے طریقہ کار اور بم کو تھانے اور نوی ممبئی کے دھماکے سے مماثل پایا تھا۔گوا دھماکے میں سناتن سنستھا کا مینجر مالگونڈے پاٹل بم لے جاتے ہوئےہلاک ہوگیاتھا۔ سانگلی اور میرج علاقے کے فرقہ وارانہ فسادات میں بھی وہ  ملوث تھا۔

سناتن سنستھا کے اس پول کھول کے بعد علماء کونسل کے جنرل سیکرٹری مولانا محمود دریابادی نے مہاراشٹر حکومت پر دوہری پالیسی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا   کہ اگراس ہندو تنظیم کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا تو اب تک اس پر سنگین الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہوتا۔ مولانا نے شبہ ظاہر کیا تھا  کہ ہندو تنظیموں نے ہی مہاراشٹر کے کئی علاقوں میں دھماکے کیے لیکن اس کی سزا بے گناہ مسلمانوں کو دی گئی۔ ۲۰۱۵ ؁  میں جب  ہندوجنجاگرتیاورسناتنسنستھانے ممبئیکےہوائی اڈے کیمسجدکومنہدم کرنےکامطالبہ کیا تھا تو سماجوادی پارٹی کےرکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نےاس پر پابندی کامطالبہ کیا تھا۔ ویسے ۲۰۱۶ ؁ میں مہاراشٹرکےسابق وزیراعلیٰ پرتھویراج چوہان نے بھی جو بذات خودسناتن پر پابندی لگوانے میں ناکام رہے تھے اسے’’’خطرناک‘‘ تنظیم قرار دیتے ہوئےاس پرپابندی لگانے کی مانگ دوہرائی تھی ۔

معروف صحافیگوریلنکیشکے  قتل کی تفتیش میں گزشتہ سال  سناتن پھر ایک بار خبروں میں آ گئی۔بنگلوروپولیس کےخصوصی تفتیشی دستے نے ’سناتنسنستھا‘ کے گوا بم دھماکےسے منسلک  پانچ ارکان پر گوری کے قتل کا الزام لگایاہے۔ انسبھیکےخلاف پہلے ہی سے اینآئیاےنےانٹرپولکے ذریعہریڈکارنرنوٹسجاریکروا رکھاہے۔انکا سرغنہ جےپرکاشعرفانا ہے اور اس کے ساتھی رویندراپاٹل،پروینلمکراورونےپوارمہاراشٹر کے مختلف شہروں میں رہتےہیں ۔ پونہ سے گرفتار سندھنوا گوندھلکر کے گھر کی تلاشی سے اے ٹی ایس نے دیسی پستول، دیسی کٹہ، میگزین نصف میگزین، نصف پستول، چاپڑا سٹیل چاقو الیکٹرانک سازوسامان اور موبائل سمیت بمسازی کی کتاب ودیگرقابل اعتراض موادضبط کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گھر نہیں اسلحہ سازی کا کارخانہ تھا۔ بقول عزلت ولی ؎

چمن میں باندھنے کو آشیانۂ بلبل 

 گلوں نے جمع کئے خار دیکھیے کیا ہو

نالاسوپارہ سے گرفتار شدہ گئورکشک ویبھوراؤت کے گھر سے ۲۰ بم اور بم سازی کا بہت ساراسازو سامان نیز  کئی  دیسی پستول  ملے۔ وہ ہرسال عیدالاضحیٰ کے موقع پر سرگرم ہوجاتاتھا۔اس کی خلاف پولیس تھانےمیں قانون شکنی اورگئورکشا کے نام پر گاڑیوں کو غیرقانونی طریقے سے روکنے کئی مقدمات درج ہیں۔  پولس اس پرتڑیپارکینوٹ سبھی جاری کرچکی ہےاس کے باوجود ہندو تنظیمیں بڑی ڈھٹائی سے اے ٹی ایس پر بہت ان تراشیکررہی ہیں کہ یہ گرفتاری غلط ہے۔ ۱۷ اگست کونالاسوپارہ  میں  راؤت کے گھر سے اس کے حامیوں پولس کے تحفظ میں  ایک زبردست جلوس نکالا۔ اس میں شامل ویبھوکی تصویر والی ٹی شرٹ پہنے شرکاء ویبھو راؤت زندہ باد، ویبھو راؤت امررہے، وندے ماترم جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ ایسے میں ان کو کسی نے ملک  کا غدار نہیں کہا اور ہندو سماج سے کسی نے صفائی نہیں طلب کی کیونکہ  وہ اکثریتی طبقہ ہے۔

 کانگریس کے رہنما وکھے پاٹل نے پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا  کہ اس تنظیم  نے ۵۰۰ نوجوانوں کو( اسلحہ چلانے کی ) کی تربیت دے رکھی ہے جو آزاد گھوم رہے ہیں لیکن سناتن سنستھا کی روایت یہ ہے کہ جیسے ہی اس کا کوئی آدمی پولس کے ہتھے چڑھتا ہے وہ فوراً اپنا دامن جھٹک لیتی ہے۔ اس بار بھی سناتن نے راؤت کواپناممبرماننےسےانکارکردیا۔ سناتن سنستھا کے وکیل سنجیوپونیلکرنے ذرائع ابلاغ میں اپنے مؤکل کی صفائی میں کہا  کہ  وہ انکی تنظیم کا فعال رکن نہیں بلکہ ایک ممبر کا دوست ہے۔ وہ ہندو تواکا کارکن ہے، لیکن ہماری تنظیم میں شامل نہیں ہے۔ مبینہ دہشت گرد ویبھو کی وکالت کرتے میں پونیلکر نے کہا ’’مجھےاے ٹی ایس کے دعووں پرشک ہے کہ اسکے پاس دھماکہ خیزاشیاء تھیں ‘‘۔ ‘ پونیلکرنےسنستھا کے ذریعہ راؤت کو قانونی مدد دستیاب کرانے کا اعلان تو  کیا ہے لیکن وہ اس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ ؎

عدل کی مٹی میں اگتے نہیں دہشت کے ببول

  اپنی مٹی کو صفا رکھ کہ تو جو ہے سو ہے

ایک سوال یہ ہے کہ آخر اتنے سارے شواہد کے باوجود سناتن سنستھا پر پابندی کیوں نہیں لگتی ؟  اس کے کئی اسباب ہیں  اول تو یہ کہ کانگریس جب اس طرح کے اقدام پر غور کرتی ہے تو بی جے پی والے اسے مسلمانوں کی خوشنودی میں ووٹ بنک کی سیاست قرار دے کر ہندووں میں بدنام کرنے لگتے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ  بی جے پی کو ان سے ہمدردی ہے۔ پانیجب  سر سے اونچا ہوجاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ  اب یہ سیاسی نقصان کرنے لگے ہیں تووہ  کڑا رخ اپناتی ہے لیکن پھر بھکتوں کا خیال کر کے ڈر جاتی ہےاور ٹال مٹول شروع ہوجاتا ہے۔ ہندوانتہا پسند تنظیمیں سیاسی جماعتوں کی اس کمزوری سے واقف ہیں اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جمہوری نظام  میں کوئی  سیاسی جماعتاکثریت کو ناراض کرنے کاخطرہ مول  نہیں سکتی۔ وطن عزیز میں اگر کسی منصف بادشاہ کی حکومت ہوتی تو راؤت جیسے دہشت گرد کی حمایت میں جلوس نکالنے کی جرأت کوئی  نہیں کرپاتا اورسناتن پر کب کی پابندی لگ چکی ہوتی۔

سنگھ پریوار کو پریشانی یہ ہے کہ سناتن سنستھا پر پابندی سے ہندوسماج پر دہشت گردی تک کے الزامات عدالتی مہر کے ساتھ  لگ جاتے ہیں۔ اسی لیے مرکز اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت کے بعد مالیگاوں بم دھماکوں میں ملوث ہندو دہشت گردوں کی رہائی کے لیے راستہ ہموار کرنے کا کام شروع ہوگیا۔ اس معاملے میں گزشتہ سال  (۲۰۱۷ ؁)دسمبر کے اندر قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے کمال ڈھٹائی  کا مظاہرہ کرتے ہوئے خصوصی عدالت میں داخل کردہ اپنی  فرد جرم کے اندر سادھوی پرگیہ،  شیام ساہو، پروین ٹکل کی اور شیونرائن کالسنگارے کو کلین چٹ دیتے ہوے عدم  ثبوت کی بناء پر انہیں رہا کرنے کی سفارش کردی۔  این آئی اے کا دعویٰ تھا کہ پرگیہ ٹھاکر کی موٹر سائیکل دھماکے میں استعمال ضرور ہوئی ہے کہ لیکن وہ اسے بہت پہلے فروخت کرچکی تھی۔ سادھوی دھماکوں کو سازش میں شامل نہیں تھی اور نہ اس کو اس کا علم تھا۔

اس معاملے میں سرکاربھول گئی کہ این آئی اے مقابلے عدالت نسبتاً خودمختار ہے۔  اس لیے سنگھ  کو اس وقت حیرت کا جھٹکا لگا جب خصوصی عدالت نے اس کمزوردلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ویسے جج صاحب نے اپنے فرض منصبی  ذمہ داری اور بیرونی دباو کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے ان ملزمین کے اوپر سے یو اے پی اے اور مکوکا ہٹا دیا۔ عدالت نے موٹر سائیکل والی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا پرگیہ  ٹھاکر کواپنی موٹر سائیکل کے ملوث ہونے کا علم تھا۔ جسٹس ٹیکالے نے بجاطور پر یاد دلایا  چونکہ پرگیہ نے کم لوگوں کی موت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اس لیے این آئی اے کے اس بیان کو کیسے مان لیا جائے کہ سادھوی کا اس جرم سے کوئی تعلق خاطرہی نہیں تھا۔ عدالت نے ۱۳ میں ۷ ملزمین ٹھاکر، پروہت، دُویدی،اپادھیائے، کلکرنی، چترویدی اور رہیکر  کے خلاف الزمات طےکرنے کا عندیہ دیا۔ ان لوگوں کے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفع ۱۶ اور ۱۸ کے تحت مقدمہ چلے گا جس میں سزائےموت، عمر قید یا دونوں کی گنجائش ہے۔

امیت شاہ جی اپنے ذاتی  مقدمات کی بابت جس قدر سنجیدہ ہیں ہندوتوا کو ویسی اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے دیگر معاملات میں عدالت کڑا رخ اختیار کرلیتی ہے۔ اس حقیقت  کا ایک  ثبوت یہ ہے کہ جس بے دردی سے جسٹس لویا کے معاملے کو سپریم کورٹ نے خارج  کیا یوگی ادیتیہ ناتھ کی بابت عدالت نے وہ مستعدی نہیں دکھائی۔ یوگی جی کے خلاف  گورکھپور کے مجسٹریٹ کورٹ نے مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی  تھی۔ یہ معاملہ جب سیشن کورٹ میں پہنچا تو فیصلہ بدل کر یوگی جی کے حق میں آگیا اور الہ باد ہائی کورٹ نے بھی سیشن کورٹ کے فیصلے کی تائید کی  لیکن سپریم کورٹ میں پھر صورتحال تبدیل ہوگئی۔ سپریم کورٹ میں حکومتِ اترپردیش کے خلاف پرویز پرواز کی درخواست پر صوبائی سرکار کو نوٹس روانہ کردیا۔

یوگی جی نے ۲۰۰۷ ؁ کے اندر اپنی ایک اشتعال انگیز تقریر میں کہا تھا کہ اگر ایک ہندو کا خوون بہے گا تو اس کے خلاف ایف آئی آر کرنے کےبجائے دس مسلمانوں کو قتل کردیا جائے گا۔پولس تھانے میں ایف آئی درج نہ ہونے کی   یہی وجہ پرویز کے وکیل نے بتائی ۔ عدالت عظمیٰ میں سینیر وکیل  اندرا جئے سنگھ نے  پیروی کرتے ہوئے کہا کہ جس پرنسپل سکریٹری نے اجازت دینے سے انکار کیا وہ وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرتا ہے اور یوگی جی خود وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ یوگی جی نے اپنی تقریر کے مواد کو انڈیا ٹی وی کے انٹرویو میں دوہرا کراپنے  خلاف ازخود ثبوت پیش کردیا ہے۔ اس معاملے میں عدالت عظمیٰ اگر اپنے موقف پر قائم رہتی ہے اور یوگی جی کو عدالت کٹہرے میں کھینچ لیا جاتا ہے  تو اس میں حکومت اور ہندو احیا پرستوں  کی  بڑی ہزیمت ہوگی ۔

ایک سنگھی دانشور کے مطابق ایمرجنسی کے بعد ۲۰۱۴ ؁ کے انتخاب میں سنگھ کے  بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ منموہن سنگھ سرکار نے سادھوی پرگیہ  اور کیپٹن پروہت  پر ہاتھ ڈال کر ہندوتوا وادیوں پر دہشت گردی کا الزام  لگادیا تھا۔ ایسے میں سنگھ کے لیے ہندو دہشت گردی کے کلنک کو دھونا لازم  ہوگیا تھا۔ سنگھ پریوار کی کوشش تو یہ ہے کہ کسی طرح اقتدار کو گنوانے  سے قبل اپنے لوگوں کو عدالت کے شکنجے سے چھڑا کر ہندوتوا کو امن پسند مذہب  ثابت  کردیا جائے۔ بفرض محال حکومت کسی دباو میں سناتن سنستھا پر پابندی لگا دیتی ہے تو سنگھ پریوار کا  ہندوتوا کو نیک نام ثابت کرنے کا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ یہ پابندی  اگرموجودہ  سرکار لگائے  تو یہ کہہ کر بھی اپنا دفاع کرنا ممکن نہیں ہوگا  کہ سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے ہندوتوا کو بدنام کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سناتن اور یوگی موجودہ حکومت کے گلے کاہار بننے کی کوشش میں طوق بن گئے  ہیں ؎

وہ سناتن کی محبت کا طوق جوں قمری     

ہوا ہے میرے گلے ہار دیکھیے کیا ہو

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔