مرے دشمن !ترا یہ وار بھی کاری ہوا ہے!

سوریہ نمسکار ،یوگا ، لو جہاد ،افزائش اولاد،دہشت گردی ،گھر واپسی اور اب بھارت ماتا کی جئے، یہ وہ کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار ہیں ،جنہیں آر ایس ایس ، بی جے پی اور سنگھی نظریات کے حامل نام نہاد دیش بھگت افراد اور تنظیموں نے مرکز میں بی جے پی حکومت آنے کے بعد بڑی شدت سے استعمال کئے ہیں ؛ان فرقہ پرستوں کے اغراض و مقاصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانان ہند ہمیشہ دفاع کے پوزیشن میں رہیں ، زیست حال اور فکر فردا کے تانے بانے میں الجھ جائیں ؛امن کانفرنس ،اتحاد کانفرنس اورقومی یکجہتی کانفرنس منعقد کرتے رہیں ؛مستزاد ایک کلمہ پڑھنے والوں کو باہم دست و گریباں کرنے کے لئے حکومت وقت کے زیر نگرانی صوفی انٹرنیشنل کانفرنس بھی منعقد ہوئی ،انجام چشم زدن نے دیکھی ، اس کانفرنس سے خود تصوف کا لبادہ اوڑھنے والے جہاں دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے ،وہیں ان فرشتہ نما بزرگ شیطانوں نے وہی ہفوات بکے جو ان کے آقاکا حکم تھا ،یعنی دہشت گرد صرف اور صرف وہابی اور دیوبندی ہوتے ہیں ۔(اللہ ان سب کو ہدایت دے )
چند ایام قبل موہن بھاگوت نے ایک شوشہ چھوڑا کہ ہر بھارتی کو بھارت ماتا کی جئے بولنا پڑے گا اور اس نے اس کو میزان حب وطن قرار دیا ،جناب اسد الدین اویسی صاحب کہاں خاموش رہنے وا لے تھے سو انہوں نے اپنے اسٹائل میں جواب دیا کہ اگر میری گردن میں چھری بھی رکھ دی جائے میں پھر بھی بھارت ماتا کی جئے نہیں بولوں گا ،پھر کیا تھا ہر طرف بحث و مباحثہ کا طویل سلسلہ چل پڑا ،مشہور فلمی نعمہ نگار جاوید اختر راجیہ سبھا کی اگلی نششت یقینی بنانے کے لئے بھارت ماتا کی جئے بھارت ماتا کی جئے چیخنے لگے۔ شیو سینا نے دھمکی دیتے ہوئے پہلے کہا :جو بھارت ماتا کی جئے نہیں بولے گا اسے ہم اپنے اسٹائل میں جواب دیں گے،یعنی مار پیٹ اورتشدد سے ،پھرچند دنوں کے بعد کہا :نہ بولنے والوں سے اس کی شہریت اور حق انتخاب بھی چھین لیا جائے ۔شیو سینا بولے اوروزیر اعلیٰ مہاراشٹر فڑنویس خاموش رہے نا ممکن؟ چنانچہ فڑنویس نے دو قدم آگے بڑھ کرکہہ دیا :اگر اس دیش میں رہنا ہے تو بھارت ماتا کی جئے بولنا ہی پڑے گا ورنہ آپ کو یہا ں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ،،بی جے پی بھی کہہ رہی ہے بھارت ماتاکی جئے صرف ایک نعرہ نہیں ہے،اس سے انکار قانون کی بے عزتی ہے ،آزادی کے وقت بہت سارے مجاہدین نے یہ نعرہ لگایا تھا ،ہم کہتے ہیں ،بےشک لگا ئے ہوں گے لیکن ساتھ میں ” نعرہ تکبیر اللہ اکبر،، اور” جو بولے سو نہال ،، کا بھی نعرہ لگا ہے ان دونوں نعروں کے منکرین کو آپ کیا کہیں گے ؟،ذرا فڑنویس جی بتائے کہ ملک کے کس آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کہ جو بھارت ماتا کی جئے نہیں بولے گا اسے ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں ہے ؟ کالا دھن را م دیو نے تو ہندوستانی آئین کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے کہہ دیا :بھارت ماتا کی جئے نہ بولنے والوں کے ایک نہیں لاکھوں سر کاٹ سکتے ہیں لیکن قانون کی وجہ سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ،،ظاہر ہے جو پیدائشی غنڈہ ہو قاتل ہو وہی یہ زبان استعمال کر سکتا ہے۔دارالعلوم دیوبند نے جب بھارت ماتا کی جئے کومشرکانہ نعرہ کا فتویٰ دیا تو سادھوی نرنجنا نے مطالبہ کر ڈالا کہ اس سنستھا ہی کو بند کر دیا جائے ،یہ فتویٰ شہیدوں کی بے عزتی ہے ۔گو کے اس مشرکانہ اور زہریلا نعرہ کا اثر فضا میں یوں پھیلتی گئی کہ دہلی میں مدرسہ کے تین طلباءکو بھارت ماتا کی جئے نہ بولنے پرمارا پیٹاگیا اور ایک طالب علم کا ہاتھ تک توڑ دیا گیا۔گجرات بی جے پی کے ایک سینئیر لیڈردلیپ سنگھائی نے اب کہا ہے کہ: میرے اسکول میں داخلہ لینے والے بچوں پر لازم ہوگا کہ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگائے ورنہ داخلہ نہیں ہوگا ۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا !
بھارت ماتا کی جئے ،،یہ کیمیائی ہتھیار جیسے ہی سنگھیوں نے چھوڑا ،اہل اسلام خود میں الجھتے نظر آئے ،لمبے لمبے کاسہ لیس دستار و قبا والے تو مودی جی کے سامنے ہے ورد کرنے لگے لیکن ان ہی کے مفتیان کرام نے آئینہ حق دکھا کرکفر کا فتوی دے ڈالا اور ان پر توبہ اور تجدید نکاح لازم قرار دیا ۔ایشیا کا عظیم علمی و ادبی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے بھی فتوی صادر کردیا کہ ”وندے ماترم کی طرح بھارت ماتا کی جئے کا مسئلہ ہے ، ہندوستان بلا شبہ ہمارا وطن ہے اور ہمارے آباءو اجداد یہاں پیدا ہوئے ،یہ ہمارا مادر وطن ہے ہم اس سے حد درجہ محبت کرتے ہیں ، لیکن اس کو معبود نہیں بنا سکتے ،،جماعت اسلامی ہند اور جماعت اہل حدیث جیسی بڑی تنظیموں نے بھی دار العلوم دیو بند کے فتوی ٰ کی تائید کردی لیکن اسی درمیان جمعیتہ علماءہند کے صدر اور دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا ارشد مدنی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہہ دیا : بھارت ماتا کی جئے کہنے میں کوئی برائی نہیں ہے کیوں کہ ماتا کے معنی ماں کے ہے اور ،ہم بھی مادر وطن کہتے ہیں ،قرآن میں فامہ ہاویہ ،کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے یہاں پر ام یعنی ماں کہ معنی رہنے کی جگہ اور ٹھکانہ کا لیا ہے ،،بس کیاتھا میڈیا کو بکنے کا ایک اور سنہرا موقع مل گیا اور دارالعلوم کے فتاوی کو ان کے قول کے متصادم قرار دیا حالانکہ کہنے کا مطلب اور مفہوم کہہ کر دفاع کی کوشش بھی کی گئی لیکن یہ میڈیا والے ہیں درس ترمذی کے طلباءنہیں ، یہ حاشیہ اور بین السطور کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں بلکہ خود لکھتے ہیں ،حالانکہ دارلعلوم کے فتاوی کے بعد مولانا جیسی عبقری شخصیت کو قطعاً بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی ۔
”بھارت ماتا کی جئے ،،کیا جئے ہند یا ہندوستان زندہ باد کی طرح فقط ایک نعرہ ہے یا اس سے دیگر ماتاﺅں کی طرح برادران وطن کی آستھا اور عقیدت جڑی ہوئی ہے ،آخر یہ لوگ اس نعرہ کو ہی لگوانے پر کیوں مصر ہیں ؟ اس سلسہ میں حضرت مفتی سیف اللہ خالدرحمانی صاحب کا مضمون ”ایک نیا مشرکانہ نعرہ ،،چشم کشا ہے ،انہوں نے دلائل پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا :اگر بھارت ماتا کی جئے کا معنی صریح اور متعین طور پر معبود قرار دینے کا نہ ہو تب بھی اس فقرہ سے وطن کی معبودیت کا اشارہ ضرور ہے کیونکہ ماتا کے معنی اگرچہ ماں کے ہے تاہم ہندواپنی دیویوں جیسے درگا ،کالی ،لکشمی وغیرہ کو ماتا ہی کہتے ہیں جو بلا شبہ ان کے معبود ہیں ،اسی طرح بھارت ماتا کو مختلف شکلوں میں پیش کیاگیا ہے ، آر ایس ایس جو تصویر پرش کر رہی ہے اس کے مطابق اس کے ایک ہاتھ میں تلوار یا ترشول ،دوسرے ہاتھ میں بھگوا جھنڈااور وہ شیرنی پر بیٹھی ہوئی ہے ،،حقیقت بھی یہی ہے، آپ گوگل پر دیکھ لیں یا کسی سلجھے ہوئے غیر مسلم سے استفسار کر لیں !واضح ہو جائے گا کہ اس میں وطن کی محبوبیت سے زیادہ معبودیت ہے اور اسی لئے سنگھ پریوار نے یہ وار کیا اور اس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ،اور ہم ان کے دام میں پھنس کر آپس میں ہی الجھ کر رہ گئے ۔اس لئے قائدین ملت اور زعماءامت کوہوشیار رہنے کی ضرورت ہے !کیونکہ ملکی ،معاشی اور ترقیاتی مسائل سے ذہن ہٹانے، اپنی ناکامی چھپانے اور مسلمانوں کو خصاصا دفاعی پوزیشن میں رکھنے کے لئے بھارت ماتاکی جئے جیسے ایشو کچھ دنوں کے بعد پھر چھیڑاجائے گا ، اللہ برادران وطن کو ہدایت دے اور ہمارے ایمان و عقائد کی حفاظت فرمائے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔