وارث کے لئے وصیت اور غیرمسلم کامسلم وارث

مولانا ولی اللہ مجید قاسمی

اسلام سے پہلے عربوں میں جوخرابیاں اوربرائیاں پیداہوگئی تھیں، ان میں ایک بڑی بیماری مالی امور سے متعلق تھی، جس نے تپ دق کی طرح پورے معاشرہ کو کھوکھلا کررکھاتھا، باطل طریقے سے دوسروں کے مال کو ہڑپ لینامعمول کا کام تھا، یہاں تک کہ قریبی رشتہ دارتک اس سے محفوظ نہیں تھے اور وراثت کی تقسیم کے وقت زورآورکے لئے کمزوروںکاحق مارلینااک عام بات تھی۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ

وتأكلون التراث أكلا لما(۱)

اورتم میراث کو سمیٹ کر کھاجاتے ہو۔

          ایسے ماحول اور سماج میں یہ حکم دیاگیاکہ قریبی رشتہ داروں کے حقوق کی حفاظت کے لئے زندگی کے آخری لمحے میں ان کے لئے وصیت کردیناچاہئے(۲)، لیکن جب وراثت کے سلسلہ میں اللہ کاحکم اور اس کی وصیت نازل ہوگئی تو پھر ان لوگوں کے لئے وصیت کی ضرورت باقی نہیں رہی جو میراث کے حق دار ہوتے ہیں، اسی حقیقت کو نبی ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایاہے کہ

ان اللہ قد أعطی کل ذی حق حقہ فلا وصیة لوارث(3)

اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے اس لئے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ

لا یجوز لوارث وصیة الا أن یشأ الورثة (4)

وارث کے لئے کسی طرح کی وصیت جائز نہیں ہے مگر یہ کہ دوسرے وارثین اسے پسند کریں۔

          اس لئے کہ وارثوں کے حقو ق کی حفاظت ہی کے لئے میراث کی آیت نازل ہوئی تھی، لہٰذاکوئی شخص وصیت کے ذریعہ ان کے حق کو چھین نہیں سکتاہے، ہاں اگر صاحب حق ، خوداپنے حق سے دست بردارہونے کے لئے آمادہ ہے تو اس کی اجازت ہے۔ لیکن اگر کسی وصیت کا مقصد میراث کے حکم کا نفاذ اور اس کی تائیدو تاکید ہے تو وہ یقینا درست بلکہ قابل ستائش ہے. اس لئے جن ملکوں میں اسلام کا قانون میراث نافذ نہیں ہے یا شریعت کے مطابق وراثت تقسیم کرنے میں ملکی قانون رکاوٹ ہے تو وارثوں کے حق کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے مورث کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وفات سے پہلے وصیت نامہ تیارکردے جس میں شرعی طریقے کے مطابق وارثوں کو حصہ دینے کی وصیت کی گئی ہو۔

          اس طرح کی وصیت لازم اور واجب ہے ،کیونکہ وارثوں کے حقوق کے تحفظ ہی کے لئے آیت وراثت کے نزول سے پہلے وصیت کو ضروری قرار دیاگیاتھا، اس لئے جس معاشرہ میں بھی وارثوں کو ان کے حق سے محروم رکھاجارہاہووہاں وصیت کے ذریعہ اس کے نفاذ کو یقینی بناناضروری ہوگا(5)،کیونکہ یہ ضابطہ اور اصول ہے کہ

ما کان وسیلة إلی الواجب فھو واجب (6)

واجب کا ذریعہ بھی واجب ہوتاہے۔

          علاوہ ازیں مورث کے قبضہ میں موجود مال و جائداد ایک طرح سے امانت ہے، خصوصاً زندگی کے آخری مرحلے میں اس سے صراحتاً وارثوں کاحق متعلق ہوجاتا ہے اوراسی لئے تہائی سے زیادہ کی وصیت کے لئے وارثوں کی رضامندی درکار ہوتی ہے اور امانت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

إن اللہ یأمرکم أن تؤدوا الأمانات إلی أھلھا (7)

اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ امانتیں، ان کے اہل کے حوالے کردو۔

          اوراس طرح کی وصیت مذکورہ حدیثوں کے خلاف نہیں ہوگی بلکہ اس کے مقصد کی تکمیل ہوگی کیونکہ ان روایتوں کامصداق صرف وہ وصیت ہے جس کے ذریعہ دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہورہی ہو، ایسی وصیت اس کے دائرے میں ہرگز نہیں آئے گی جس کا مقصد تمام وارثوں کو ان کا حق دلاناہوبلکہ جن جگہوں پراسلام کا قانون میراث جاری نہ ہو وہاں اس کے نفاذ کے لئے وصیت ایک بہترین، کم خرچ اور آسان راستہ ہے۔

          اورچونکہ اس وصیت کے ذریعہ کسی وارث کی حق تلفی نہیں ہوتی ہے اس لئے ان کی طرف سے اجازت اور رضامندی کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ اجمالی طورپر شریعت کے مطابق حصہ تقسیم کرنے کی وصیت کی گئی ہے مثلاً وصیت میں مذکور ہوکہ بیٹے کو دو تہائی دے دیاجائے اور بیٹی کو ایک تہائی، لیکن اگرتفصیلی تقسیم ہے کہ بیٹے کے حوالے کھیت کردیاجائے جس کی مالیت دوتہائی کے بقدر ہے اور بیٹی کے حصے میں مکان دے دیاجائے جس کی مالیت ایک تہائی کے بقدر ہے تو اس صورت میں وارثوں کی خوشنودی ضروری ہوگی، چنانچہ علامہ زحیلی لکھتے ہیں:

کچھ لوگ وصیت کے ذریعہ، وارثوں کے درمیان ان کے حصے کے بقدر ترکہ کو تقسیم کردیتے ہیں تاکہ بٹوارے کے وقت ان کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو اورکرایہ پر لگائے یا باری مقرر کئے بغیرہرشخص اپنے حصے سے فائدہ اٹھائے، کیا اس طرح کی وصیت لازم ہوگی؟جمہورفقہاءکے نزدیک یہ وصیت وارثوں کے لئے لازم نہیں ہوگی، بلکہ انھیں حق ہے کہ اسے قبول کریں یاردکردیں۔(8)

          اس کے برخلاف بعض شافعی اور حنبلی علماء کی رائے ہے کہ مورث کی طرف سے یہ تقسیم صحیح ہے اور وارثوں پر اس کی پابندی لازم ہے، بشرطیکہ تقسیم عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ جن ملکوں میں اسلام کا نظام میراث نافذ نہیں ہے وہاں وصیت کے علاوہ ایک دوسراطریقہ ”ہبہ“کابھی اپنایاجاسکتاہے کہ زندگی ہی میں مال و جائداد کووارثوں کے درمیان تقسیم کرکے اسے ان کے قبضہ میں دے دیاجائے۔

          چونکہ یہ ہبہ ہے اس لئے لڑکا اور لڑکی کے درمیان برابری کا لحاظ رکھناضروری ہوگا اور میراث کے ضابطہ کے مطابق لڑکے کو دوہرا اور لڑکی کو اکہرا نہیں دیاجائے گا۔ جمہور اسی کے قائل ہیں۔ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ

سوّوا بین أولادکم فی العطیة (9)

تحفہ دینے میں اپنی اولاد کے درمیان برابری کالحاظ رکھو۔

          اورامام احمدبن حنبل اور امام محمد کے نزدیک اس میں میراث کے ضابطہ کا خیال رکھاجائے گا،کیونکہ یہ ایک طرح سے میراث کی تقسیم ہے ، اس لئے اس پر میراث کا حکم جاری ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم سے زیادہ عادلانہ اور منصفانہ تقسیم اور کیاہوسکتی ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:

لنا أن اللہ تعالیٰ قسم بینھم فجعل للذکر مثل حظ الأنثی وأولی ما اقتدی بقسمة اللہ (10)

ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکے اور لڑکی کے درمیان وراثت کی تقسیم کرتے ہوئے لڑکے کو لڑکی کے حصے کا دہرا عنایت کیا ہے ، لہٰذا ہبہ کرتے ہوئے بھی اللہ کی تقسیم کی پیرو ی زیادہ بہترہے۔

          مولانا محمد تقی عثمانی نے زندگی میں وراثت کی تقسیم کے مسئلے میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے جیساکہ وہ لکھتے ہیں:

زندگی میں ہبہ کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کے درمیان مساوات قائم رکھنے کے سلسلہ میں جمہور کی رائے زیادہ قوی اور دلیل کے اعتبار سے راجح ہے ، لیکن خیال ہوتاہے کہ یہ اس صورت میں ہے جبکہ عطیہ اور تحفہ دینامقصودہولیکن اگر مقصد اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان مال وجائداد کو تقسیم کرنا ہے تاکہ اس کی وفات کے بعد اس سلسلے میں اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو تو اگرچہ فقہی اصطلاح میں یہ ہبہ ہے، لیکن حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے موت سے پہلے ہی وراثت کی تقسیم ہے، لہٰذااس کے پیش نظراس میں وراثت کا طریقہ اپناناچاہئے۔ اس لئے اس صورت میں  اگرکوئی امام احمد اور امام محمد بن حسن کی رائے پر عمل کرتے ہوئے وراثت کے ضابطے کے مطابق لڑکے کو دوہرا اور لڑکی کو اکہرا دیتاہے تو بظاہراس کی گنجائش ہے، مجھے اس سلسلہ میں صراحتاً کسی فقیہ کا قول نہیں ملاہے، لیکن ایسالگتاہے کہ یہ ان کے اصول و ضابطے سے خارج نہیں ہے۔(11)

وصیت کے لئے وارثوں کی رضامندی

          جس وصیت کا مقصدشریعت کے نظام میراث کی تنفیذ ہو اس کے لئے وارثوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے ، اس لئے کہ ورثاء اس حق کے وصیت کے بغیر ہی مستحق تھے، اس کے ذریعہ کسی کی حق تلفی نہیں ہورہی ہے بلکہ پہلے سے ثابت شدہ حق کی تائید و توثیق ہورہی ہے لیکن اگر اس کے ذریعہ کسی وارث کو اس کے حق سے زیادہ دیا جارہا ہو تو یہ دوسرے وارثوں کی اجازت اور مرضی پر موقوف ہوگی اور اگر وہ مورث کی زندگی میں اس کی اجازت دے دیں لیکن وفات کے بعد اس سے رجوع کرلیں تواس کا اعتبارہوگایا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔

          حضرت عطاءبن ابی رباح، حسن بصری، ابن سیرین، زہری، ربیعہ اور امام اوزاعی کے نزدیک انھیں اس سے رجوع کرنے کا حق نہیں ہے اور مورث کی وفات کے بعد وارثوں کی مرضی کے بغیربھی وصیت نافذ ہوجائے گی۔

          ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ دیگروارثوں کے حق کی وجہ سے وارث کے لئے وصیت ممنوع ہے اور وصیت کرنے والے کی زندگی میں جب وہ اپنے حق سے دست بردارہوگئے تو وصیت صحیح ہوگئی اس لئے وفات کے بعد رجوع کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

          امام مالک کہتے ہیں کہ اگر وصیت کرنے والے نے صحت کی حالت میں وصیت کی ہے اور متوقع وارثوں نے رضامندی کا اظہار کردیا تو انھیں اس کی وفات کے بعد رجوع کرنے کا حق ہے، اس لئے کہ صحت کی حالت میں انسان اپنے مال کا مکمل طور پر مالک ہوتاہے، لہٰذااس وقت دوسروں کی اجازت ایک ایسے مال سے متعلق ہے جس سے ان کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اگروہ مرض موت میں وصیت کرتا ہے اور وارثوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی تو اس کے مرنے کے بعد اس اجازت سے پھرجانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں انھوں نے ایک ایسے مال سے دست برداری اختیار کی ہے جس کا وہ ایک طرح سے مالک بن چکے ہیں۔

          حضرت عبداللہ بن مسعود،قاضی شریح، امام ابوحنیفہ، شافعی اور امام احمدبن حنبل کے نزدیک مورث کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو اس طرح کی وصیت سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے جسے وہ اس کی زندگی میں منظورکرچکے ہیں، اس لئے کہ ان کی منظوری ایک ایسے مال سے متعلق ہے جس کے وہ مالک نہیں تھے ، کیونکہ ترکہ میں ان کی ملکیت مورث کی وفات کے بعد ثابت ہوتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوسکتاہے کہ جس وارث نے اجازت دی ہے وہ مورث سے پہلے ہی انتقال کرجائے اور وہ وارث نہ بن سکے اور اس کی جگہ دوسرا کوئی وارث بن جائے، اس وقت یہ اجازت ایسے شخص کی طرف سے ہوگی جسے اس کا حق ہی نہیں تھا ، علاوہ ازیں حدیث میں کہا گیا ہے کہ دوسرے وارث اس کی اجازت دے دیں اورمورث کی زندگی میں یہ وارث نہیں ہیں،یہ نام تو ان کو اس کے انتقال کے بعدملتاہے، اس لئے مرنے کے بعد ہی ان کی اجازت معتبرہوگی(12)، دلیل کے اعتبار سے یہی رائے زیادہ قوی ہے۔

          وصیت میں اجازت سے متعلق یہ پوری بحث اس وقت ہے جبکہ کوئی نسبی وارث موجود ہولیکن اگر دور قریب کے کسی نسبی وارث کاوجود نہیں ہے اور اس کا امکان ہے کہ وصیت نہ کرنے کی صورت میں اس کے مال و جائداد کا ایک حصہ حکومت کے قبضہ میں چلاجائے گا تو ایسی صورت میں وصیت بغیرکسی تفصیل کے درست ہے جیسے کہ صرف میاں بیوی باحیات ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی وفات کے بعد زندہ رہ جانے والے کو اس کا متعلق حصہ دینے کے بعد ضابطے کے مطابق بقیہ مال پر حکومت قبضہ کر لے گی، چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب رد المحتار میں ہے کہ

حتی لو اوصی لزوجتہ أو ھی لہ ولم یکن ثمة وارث آخر تصحّ الوصیة (13)

یہاں تک کہ اگرشوہراپنی بیوی کے لئے یابیوی اپنے شوہر کے لئے وصیت کرے اور دوسرا کوئی وارث نہ ہو تو وصیت صحیح ہے۔

          اورعلامہ شامی نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ حدیث میں کہا گیا کہ وارث کے لئے وصیت نہیں ہے مگریہ کہ دوسرے وارثین چاہیں، ظاہرہے کہ وارثوں کی مرضی کا مسئلہ اسی وقت آئے گاجبکہ دوسرے وارث موجود ہوں۔(14)

          بلکہ بعض لوگوں نے لکھاہے کہ چونکہ موجودہ زمانہ میں بیت المال کا نظام صحیح طریقے پرموجود نہیں ہے، اس لئے وصیت کے بغیربھی میاں بیوی میں سے ہرایک کو اس کا مقررہ حصہ دینے کے بعد بچاہواحصہ بھی انھیں کے حوالے کردیاجائے گا، متاخرین حنفیہ کا یہی فتویٰ ہے۔(15)

غیرمسلم کا مسلم وارث

          تمام علماءکا اس پر اجماع ہے کہ کافرخواہ ذمی ہو یا حربی کسی مسلم کا وارث نہیں ہوسکتا ہے(16)، لیکن مسلم کسی کافرکاوارث ہوسکتاہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ اکثرصحابہ کرام اور جمہورفقہاء ومحدثین کے نزدیک مسلم، کسی کافرکاوارث نہیں ہوسکتاہے، اس کے برخلاف حضرت معاذبن جبل اور حضرت معاویہ کے متعلق منقول ہے کہ انھوں نے مسلم کو کافرکاوارث قرار دیا ۔ محمد بن حنفیہ، علی بن حسین، سعیدبن مسیب اور عبداللہ بن معقل اسی کے قائل ہیں۔ بعد کے لوگوں میں علامہ ابن تیمیہ اور ان کے شاگردعلامہ ابن تیمیہ کی یہی رائے ہے(17)، ان کے دلائل یہ ہیں۔

1-      امام احمد اور ابوداود نے نقل کیاہے کہ ایک یہودی کے مرنے پر اس کے دو بھائی جن میں ایک مسلم اور دوسرایہودی تھا یحییٰ بن یعمر کے پاس وراثت کا مقدمہ لے کر آئے، انھوں نے مسلم کو بھی اس کے ساتھ وارث قراردیا اور فرمایاکہ مجھ سے ابوالاسود نے اور ان سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ حضرت معاذ نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ

الاسلام یزید ولا ینقص (18)

اسلام بڑھتاہے، گھٹتا نہیں ہے۔

          اورمسند احمد کی روایت میں ہے کہ یحییٰ بن یعمر، ابواسود سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت معاذرضي الله عنه یمن میں تھے کہ ان کے پاس ایک یہودی کے ترکہ کا معاملہ آیاجس نے ایک مسلم بھائی کو چھوڑاتھا، حضرت معاذ نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے کہ

ان الاسلام یزید و لا ینقص (19)

          مذکورہ روایت کی پہلی سند ایک راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، دوسری سند میں کوئی مجہول راوی نہیں ہے بلکہ ابواسودکسی واسطے کے بغیر براہ راست اسے حضرت معاذ سے نقل کرتے ہیں اور ان کے متعلق عام طورپر محدثین کی رائے یہ ہے کہ حضرت معاذ سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے ، اس طرح سے سند کی درمیانی کڑی غائب ہے اورحدیث منقطع ہے لیکن حافظ ابن حجرعسقلانی کہتے ہیں، ابواسود کاحضرت معاذ سے سماع ممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ محدث حاکم نے اسے صحیح قرار دیاہے، اور علامہ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔(20)

          اس حدیث سے استدلال کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام، کسی مسلم کے حق میں اضافہ کا ذریعہ ہوتاہے اور اس میں کسی کمی کا سبب نہیں بنتا ہے، چونکہ وہ حالت کفرمیں اپنے کسی کافررشتہ دار کی وراثت کا حقدار ہوسکتاہے ، اس لئے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وہ اس کا مستحق ہوگا اور اگرایسانہ ہو تو اسلام اس کے حق میں کمی کا سبب بن رہاہے جومذکورہ حدیث کے برخلاف ہے۔

2-      رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے:

الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ (21)

اسلام غالب ہوتاہے اور کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتاہے۔

          حدیث کی سندپرکچھ لوگوں نے کلام کیاہے لیکن حافظ ابن حجرعسقلانی اور علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیاہے۔(22)

          اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام تمام ادیان پر غالب اور ان سے بلند ہے، اور اس کی سربلندی کا تقاضاہے کہ مسلم کوکافرپرولایت حاصل ہو اور وراثت بھی ایک طرح سے ولایت ہے، اس لئے مسلم کافرکاوارث ہوگا اور کافرکسی مسلم کا وارث نہیں ہوگا کیونکہ اسے کسی مسلم پر کسی طرح کی ولایت حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے کہ

ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلاً(23)

اللہ تعالیٰ ایمان والوں پر کافروں کوہرگز غلبہ نہ دے گا۔

3-      سنت متواترہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ منافقوں کے ساتھ ظاہری احکام میں مسلمانوں جیسا برتاو کیاکرتے تھے اور مسلمان ان کے اور وہ مسلمانوں کے وارث ہوتے تھے ، عبداللہ بن ابی کے نفاق کے بارے میں خود قرآن نے گواہی دی اور اس کے جنازہ کی نماز اور اس کے لئے استغفار سے منع کیاگیا لیکن ان سب کے باوجود اس کے ترکہ میں سے اس کے مسلم وارثوں کوحصہ ملا اور کسی بھی منافق کے ترکہ کو حکومت کی تحویل میں نہیں لیاگیا بلکہ ان کے وارثوں کے حوالے کردیا گیا، جس سے معلوم ہوتاہے کہ وراثت کا مدار ظاہری نصرت و حمایت پر ہے، دلی ایمان اور باطنی ولایت پرنہیں ہے۔(24)

4-      امام شعبی سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت معاویہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ اسلام مجھے نفع پہنچائے گا یا نقصان؟ انھوں نے جواب دیاکہ اسلام نفع پہنچاتاہے۔ اس نے کہاکہ میرے عیسائی باپ کی وفات ہوگئی ہے اور میں نے اسلام قبول کرلیاتھا، میرے عیسائی بھائی کہتے ہیں کہ تمہارے لئے باپ کی وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ہے، حضرت معاویہ نے اس کے بھائیوں کو بلاکر حکم دیاکہ وراثت میں سے اسے بھی سب بھائیوں کے برابرحصہ دواوراس کے بعد انھوں نے قاضی شریح وغیرہ کو حکم دیاکہ وہ اسی کے مطابق فیصلہ کریں۔ چنانچہ وہ اس طرح کے فیصلے کے بعد کہاکرتے تھے: ھذا قضاء أمیر المومنین معاویة(25)، یہ معاویہ امیرالمومنین کا فیصلہ ہے۔

          حضرت عبداللہ بن معقل کہاکرتے تھے کہ صحابہ کرام کے فیصلوں کے بعد کوئی ایسا فیصلہ میری نظرسے نہیں گذرا جوحضرت معاویہ کے فیصلے سے بہتر ہو انھوں نے فیصلہ کیاکہ ہم اہل کتاب کے وارث ہوں گے لیکن وہ ہمارے وارث نہیں ہوںگے جیسے کہ ہمارے لئے ان کی عورتوں سے نکاح جائز ہے لیکن ہماری عورتوں سے ان کے لئے نکاح درست نہیں ہے۔(26)

5-      حضرت معاذبن جبل کے متعلق گذرچکا ہے کہ انھوں نے مسلمان کو یہودی کا وارث قرار دیا۔

6-      شریعت نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیاہے اور اہل کتاب کے لئے مسلمان عورتوں سے نکاح درست نہیں ہے ، اس پر قیاس کا تقاضاہے کہ مسلمان ان کے وارث ہوسکتے ہیں، لیکن وہ مسلمانوں کے وارث نہیں ہوں گے۔

7-      علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ مسلم کو کافرکا وارث قرار دینا شریعت کے مقاصد اور اصول کے مطابق ہے اس لئے کہ مسلمانوں کا ذمی کافروں پراحسان اور حق ہے کہ وہ ان کے مال اور جان کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی جانب سے دفاع اور ان کے قیدیوں کا فدیہ اداکرتے ہیں، لہٰذایہ کافروارثوں سے زیادہ وراثت کے حقدار ہیں۔

8-      علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ مسلمان کو کافر کا وارث قرار دینے میں مصلحت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی ترغیب ہوگی کہ انھیں اطمینان ہوگا کہ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں کی وراثت سے محروم نہیں ہوں گے، ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھاہے کہ وہ صرف اس وجہ سے اسلام میں داخل نہیں ہوتے ہیں کہ انھیں معلوم ہوتاہے کہ وہ اس صورت میں وراثت سے محروم ہوجائیں گے۔ اورجولوگ اسلام قبول کرچکے ہیں ان کی دلجوئی ہوگی اور اسلام پر ثابت قدمی کی سلسلہ میں ان کا تعاون ہوگا، اس مقصد کے لئے رسول اللہ ﷺ بسااوقات کافروں کو بھی ہدیہ اور تحفہ دیاکرتے تھے۔ اور اس مصلحت کی وجہ سے اس حدیث میں تخصیص پیداکردی جائے گی جس میں کہاگیا ہے کہ مسلم کسی کافرکا وارث نہیں ہوسکتاہے کہ اس سے مراد کافر حربی ہے، کیونکہ اس سے کم تر مصلحت کی بنیاد پر حدیثوں میں تخصیص کی متعدد مثالیں موجودہیں جیساکہ اسی طرح کی تخصیص حنفیہ اس حدیث میں کرتے ہیں جس میں کہاگیا ہے کہ مسلمان کو کسی کافر(حربی)کے بدلے قتل نہیں کیاجائے گایعنی اگر کافرذمی ہوتو اس کے قصاص میں مسلمان کو قتل کیاجاسکتاہے۔(27)

جمہور کے دلائل

          جولوگ اس کے قائل ہیں کہ مسلمان کسی بھی طرح کے کافر کا وارث نہیں ہوگا ، ان کے دلائل یہ ہیں:

1-      حضرت اسامہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ

لا یرث الکافر المسلم ولا المسلم الکافر (28)

کافرمسلمان کا اور مسلمان، کافر کا وارث نہیں ہوگا۔

          یہ حدیث بالکل عام ہے اور حربی و ذمی ہر طرح کے کافرکو شامل ہے اور کسی واضح دلیل کے بغیر اسے خاص کرنا درست نہیں ہے اور اس سلسلہ میں خاص کرنے والی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، علاوہ ازیں حدیث میں دوجگہ کافر کا لفظ استعمال ہواہے، ایک جگہ اسے خاص کرکے حربی کافرمراد لینا اور دوسری جگہ عام رکھنا غیرمعقول ہے۔

2-      حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ

لا یرث المسلم النصرانی إلا أن یکون عبدہ أوأمتہ (29)

مسلم، نصرانی کا وارث نہیں ہوسکتاہے، مگر یہ کہ وہ نصرانی کسی مسلمان کا غلام یاباندی ہو۔

3-      انھیں سے منقول ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایاکہ نہ ہم اہل کتاب کے وارث ہوں گے اور نہ وہ ہمارے الا یہ کہ کسی مسلمان کا غلام یا باندی اہل کتاب میں سے ہو ، ان کی عورتیں ہمارے لئے حلال ہیں لیکن ہماری عورتیں ان کے لئے حلال نہیں۔(30)

          ان دونوں حدیثوں میں عمومی طور پر وراثت کی نفی کی گئی ہے اور صرف غلام اور باندی کا استثناکیاگیاہے کہ کوئی مسلمان حق ولاء (31) کی وجہ سے ان کا وارث ہوسکتا ہے،کیونکہ حدیث میں ہے کہ الولاءلمن اعتق (32) ولاء اس کے لئے ہے جوآزادکرے۔

4-      حضرت عمروبن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ

لا یتوارث أھل ملتین شتی (33)

دومختلف مذہب کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔

5-      حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ ایک مذہب والے دوسرے مذہب والے کے وارث نہیں ہوںگے۔(34)

          اس طرح کی روایت حضرت اسامہؓ سے بھی منقول ہے۔(35) ان تمام حدیثوں سے معلوم ہوتاہے کہ اختلاف دین وراثت کے لئے مانع ہے، اسلام اور کفر دو الگ الگ دین ہیں۔ لہٰذادونوں کے ماننے والوں کے درمیان وراثت جاری نہیں ہوگی۔

6-      حضرت عمرؓ فرماتے ہیں:

لا نرث اھل الملل ولا یرثوننا (36)

دیگرملتوں کے ماننے والوں کے نہ ہم وارث ہوں گے اور نہ وہ ہمارے۔

7-      محمدبن اشعث نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیاکہ ان کی نصرانی یایہودی پھوپھی کی وفات ہوگئی ہے ، اس کا وارث کون ہوگا؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس کے ہم مذہب رشتہ دار پھر انھوں نے حضرت عثمان سے یہی سوال کیا ، انھوں نے کہاکہ کیا تم عمر کی بات بھول گئے، اس کے مذہب کے لوگ اس کے وارث ہوں گے۔(37)

8-      امام زہری کہتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اور حضرت ابوبکروعمرؓ کے زمانے میں مسلمان ، کسی کافرکا وارث نہیں ہوتا، اور نہ ہی کافر کسی مسلمان۔ جب حضرت معاویہؓ کی حکومت آئی تو انھوں نے مسلم کوکافرکاوارث قرار دیا اور ان کے بعد کے حکمراں کا اسی پر عمل رہا، لیکن جب حضرت عمربن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ آیا توانھوں نے پہلی سنت کو دوبارہ جاری کردیا۔(38)

          اس سے معلوم ہوتاہے کہ خلفاء راشدین کے دور میں تمام صحابہ کرام کا اس پر اتفاق اور اجماع تھاکہ جس طرح سے کافر کسی مسلم کا وارث نہیں ہوسکتاہے، اسی طرح سے مسلمان بھی کسی کافرکاوارث نہیں ہوسکتاہے اور اس اجماع کے بعد کسی انفرادی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور مخالف اجماع ہونے کی وجہ سے وہ اعتماد کے لائق نہیں ہے۔

9-      وراثت کی بنیاد ولایت پر ہے اور مسلم و کافرکے درمیان ولایت کا رشتہ نہیں ہے،اور مسلمانوں کو منافقوں کا وارث قرار دینے کی وجہ ظاہری حمایت و نصرت نہیں بلکہ اسلا کا اظہار ہے اور اسی بنیاد پر ان کےساتھ مسلمانوں جیساسلوک کیاجاتاہے، یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کا وارث بھی ہوتاہے، حالانکہ کوئی ذمی کسی بھی حال میں بہ اتفاق، کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتاہے، اگرچہ وہ مسلم فوج میں شامل ہوکر مسلمانوں کی طرف سے دفاع کرے ، اگر وراثت کی وجہ حمایت و نصرت ہوتی تو اس صورت میں اسے مسلم کا وارث قرار دینا چاہئے، لیکن کوئی اس کا قائل نہیں ہے۔

10-    علامہ ظفراحمدعثمانی نے حضرت معاویہؓ اور حضرت معاذ کے طرز عمل کی یہ تاویل کی ہے ، جب کسی کافرکاکوئی ہم مذہب وارث نہیں ہو،تواس کا ترکہ حکومت کی تحویل میں چلاجاتاہے اورمسلم حکمراں کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اپنی صواب دید پر جہاں چاہے خرچ کرے، حضرت معاویہ اور حضرت معاذ بن جبل نے اسے اس کے قریبی مسلم رشتہ دار کے حوالے کرنا زیادہ مناسب سمجھا، کیونکہ اس طرح سے اسلا م میں داخل ہونے والوں کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی ہوگی، ان لوگوں کا یہ فیصلہ اسی مقصد سے تھا تقسیم وراثت کے قبیل سے نہیں تھا لیکن ایک زمانہ گذرنے کے بعد جب لوگ اسے وراثت کا معاملہ سمجھنے لگے تو حضرت عمربن عبدالعزیز نے اسے ختم کردیا(39)، لیکن یہ تاویل حقیقت کے برخلاف ہے، جیساکہ حضرت معاویہؓ کے واقعہ میں گذرچکا ہے کہ انھوں نے اس طرح کا فیصلہ اس وقت کیاتھاجب کہ اس کے غیرمسلم وارث موجود تھے۔

حقیقت حال

          مسلم کو کافرکا وارث قرار نہ دینے سے متعلق روایتیں صریح، صحیح اور خاص ہیں اور اس کے برخلاف روایتیں وراثت سے غیرمتعلق ، غیرواضح اور عام ہیں، لہٰذا وہ دلیل نہیں بن سکتی ہیں، اگرانھیں صحیح مان لیاجائے تو وراثت سے متعلق مخصوص روایتوں کے ذریعہ ان میں تخصیص پیداکردی جائے گی۔

          اور اس سلسلہ میں ذکرکردہ قیاس اور مصلحت بھی لائق اعتبار نہیں،کیونکہ وراثت اور نکاح میں بڑا فرق ہے، دوسرے یہ کہ حدیث کی موجودگی میں قیاس و مصلحت قابل رد ہے، آغازاسلام میں اس کی زیادہ ضرورت تھی کہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے اسلام قبول کرنے والوں کو کافروں کا وارث قرار دیاجائے، لیکن اس طرح کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ اس کے برعکس حکم دیاگیا کہ کافرکسی مسلم کااورمسلم کسی کافرکا وارث نہیں ہوسکتاہے، اس لئے اس سلسلہ میں جمہور کی رائے زیادہ صحیح ہے۔

          لیکن اس مسئلہ پر ایک دوسری حیثیت سے غورکرنے کی ضرورت ہے، اس لئے کہ یہ تمام اختلاف ذمی تک محدود ہے، غیرمسلم مملکت کے شہریوں میں بہ اتفاق، مسلم و کافر کے درمیان وراثت جاری نہیں ہوگی اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کوئی مسلم ملک ایسا نہیں ہے جہاں غیرمسلم ذمیوں کی حیثیت سے رہ رہے ہوں ، بلکہ خود مسلمان، ذمیوں کی طرح غیرمسلم اکثریتی ملکوںمی ںزندگی گذار رہے ہیں، جہاں کے قانون کے رو سے انھیں بھی غیرمسلم مورث کے مال و جائداد میں سے حصہ ملتاہے تو کیا ان کے لئے حکومت کی طرف سے ملے ہوئے مال کو لینا جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ غیراسلامی ملکوں کا مال اصلاً مباح ہے، البتہ اسے دھوکہ، خیانت اور چوری سے لینا جائز نہیں ہے ، کیونکہ یہ امان اور عہد کی خلاف ورزی ہے اور معاہدہ اور قانون کے مطابق مل رہاہے تو اس کا لینا درست ہے ، خواہ اس کے حصول کا طریقہ کچھ ہو اس لئے کہ ان ملکوں میں مالک ہونے کے سلسلہ میں طریقہ حصول موثرنہیں بلکہ قانونی طریقے پر مال مباح پر قبضہ کا پایا جاناہے۔

          اس اصول اور ضابطے کی روشنی میں غیرمسلم ملکوں کے مسلمان شہریوں کے لئے وہاں کے قانون کے اعتبار سے جوکچھ حاصل ہو اس کا لینا ان کے درست ہے، جس میں غیرمسلم مورث کا چھوڑا ہوامال و جائداد بھی شامل ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

حوالہ جات و حواشی

(۱)سورة الفجر/19      (۲) دیکھئے سورة البقرہ/180

(3)رواہ ابوداؤد والترمذی وصححہ عن عمروبن خارجہ وعن ابی امامہ مرفوعا ، نیل الاوطار 1251/2، ط دارالمعرفة بیروت

(4) رواہ الدارقطنی نیل الاوطار 1251/2، قال الذھبی اسنادہ جید وقال ابن حجررجالہ لا بأس بھم ، اعلاءالسنن 301/18

(5)قیل الخطاب لذوی الاولاد علی معنی یوصیکم فی توریثھم اذا متم ، روح المعانی  216/4

(6) الموسوعة الفقھیة 205/9(7) سورة النساء/58

(8)الفقہ الاسلامی وأدلتہ 77535/10، ط دارالفکر المعاصر، بیروت

(9)السنن الکبریٰ للبیہقی 177/6، صحیح بخاری وغیرہ میں ایک قصے کے پس منظر میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: فاتقوا اللہ واعدلوا بین أولادکم دیکھئے بخاری کتاب الھبة 206/3،وصحیح مسلم

(10)المغنی 259/8، ط دارعالم الکتب الریاض

(11)تکملہ فتح الملھم 48/2

(12)دیکھئے الجامع لاحکام القرآن 176/2، اعلاءالسنن 302/18

(13)ردالمحتار347/10، ط مکتبہ زکریا، دیوبند

(14)حوالہ مذکور 346/10(15)حوالہ مذکور 556/10، کتاب الفرائض

(16)بدایة المجتہد357/2

(17)دیکھئے المغنی 154/9، احکام اہل الذمہ لابن القیم462/2

 (18)سنن ابوداود کتاب الفرائج/518، قال الالبانی ضعیف، ط مکتبہ المعارف، الریاض مسنداحمد190/15

(19)مسنداحمد190/15 ، سنن البیہقی 337/9،

(20)دیکھئے فتح الباری 51/12، المستدرک619/2

(21)صحیح بخاری /266 سندالدارقطنی252/3 کتاب (بغیرسند) الجنائز باب اذا أسلم الصبی، ط دارالسلام۔

(22)دیکھئے فتح الباری 220/3، ارواءالغلیل 106/5، المکتب الاسلامی ، دمشق (23)سورة النساء/56

(24)دیکھئے احکام اہل الذمہ 463/2، ط دارالعلم للملایین، بیروت

(25)سنن سعیدبن منصور67/1،  ط دارالکتب العلمیة، بیروت

(26)سنن سعید67/1، مصنف ابن ابی شیبہ287/6

(27)دیکھئے احکام اہل الذمہ264/2

(28) صحیح بخاری/1421، صحیح مسلم/627،ط دارالکتب العلمیة، بیروت لبنان (29)سنن الدارقطنی74/4،حدیث صحیح ہے، دیکھئے التعلیق المغنی علی الدارقطنی131/5 ، موسسة الرسالة بیروت

(30)لانرث أھل الکتاب ولایرثونا الا أن یرث الرجل عبدہ أوأمتہ وتحل لنا نساءھم ولا تحل لھم نساءنا ، سنن الدارقطنی132/5، سنن الدارمی/422، دارابن حزم، بیروت لبنان

(31)غلام یا باندی کی وفات کے بعد اگراس کا کوئی نسبی رشتہ دار نہ ہو تو اسے آزادکرنے والا اس کے ترکہ کا مالک ہوتاہے، اسی آزادکرنے کے حق کو ولاءکہاجاتاہے۔

(32)بخاری/1419، مسلم/580

(33) ابوداود/518، قال الالبانی حسن صحیح، ترمذی/476، ابن ماجہ/464

(34)لاترث ملة من ملة، سنن الدارقطنی121/5

(35)لاتتوارث الملتان المختلفتان ، مصنف ابن ابی شیبة286/6

(36)سنن سعید بن منصور 66/1(37) الموطا23/2، سنن سعید66/1

(38)مصنف ابن ابی شیبة287/6

(39)دیکھئے اعلاءالسنن337/18

تبصرے بند ہیں۔