سنگھ پریوارکی سنگدلی اور بے رحمی کا مظاہرہ

’پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے‘

عبدالعزیز
دنیا جانتی ہے کہ دادری کے محمد اخلاق کے ساتھ ایک سال پہلے کیا ہوا تھا۔ گھر میں گائے کا گوشت ہونے کے شک وشبہ میں بہیمانہ طریقہ سے محمد اخلاق کو شرپسندوں کے ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔ اس وقت شرافت شرمندہ ہوگئی تھی۔ رذالت نے ایسا سر ابھارا تھا کہ ملک و بیرون ملک میں اس کی زبردست مذمت ہوئی تھی مگر افسوس اس وقت بھی سنگھ پریوار کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ جسے سن کر لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔ مرکزی حکومت کے کلچرل وزیر مہیش شرما نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’شک و شبہ میں ایسی بات ہوجاتی ہے، اس پر زیادہ آنسو بہانے یا غم و غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی بالکل چپی سادھے رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ ایک ایسا واقعہ تھا جو جان بوجھ کر ایک سازش کے ساتھ کیا گیا تا کہ ایک خاص فرقہ یا اقلیت خوف و ہراس میں مبتلا ہوجائے اور ہندو ووٹوں کی یکجائی اور انضمام (Polurization and Consolidation) ہوسکے۔ اس سے پہلے مظفر نگر کا فساد ہوچکا تھا جس میں ایک دو گاؤں نہیں بلکہ مسلمانوں کے تیس بتیس گاؤں نیست و نابود کر دیئے گئے تھے۔ ایک دو سال تک مصیبت زدگان کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ اتر پردیش میں فرقہ وارانہ ماحول پورے شباب پر تھا۔ ضمنی الیکشن ہوا اور سنگھ پریوار کی جیت ہوئی۔ اس طرح سنگھ پریوار کا جو مقصد تھا وہ پورا ہوا۔
اب سنگھ پریوار کو اس سے بڑے مقصد کیلئے کام کرنا ہے۔ اب اخلاق تو رہے نہیں، اب ووٹوں کیلئے اخلاق کے خاندان والوں کی جانیں مطلوب ہیں۔ اخلاق کے گھر کے فریج میں جو گوشت پولس نے طبی جانچ کیلئے بھیجا تھا اس کی طبی جانچ کی رپورٹ (Forensic Report)میں بتایا گیا ہے کہ یہ گائے کا گوشت نہیں تھا بکرے کا گوشت تھا۔ یہ ابتدائی جانچ کی رپورٹ تھی۔ آٹھ مہینے پہلے بھیجے گئے سیمپل پر اب ایک ہفتہ پہلے رپورٹ آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ فریج میں رکھا ہوا گوشت گائے کا تھا۔ رپورٹ آتے ہی بھارتیہ جتنا پارٹی کے لوگ جو اتر پردیش کی نمائندگی کرتے ہیں انھیں پھر اپنی پستی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ بی جے پی کے اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ممبران سنگدلانہ بیان دینے پر اتارو ہوگئے۔ ساردھنا سے ممبر اسمبلی سنگیت سوم نے بیان جاری کیا کہ محمد اخلاق کے خاندان والوں کو جلد سے جلد جیل بھیجا جائے اور جو انھیں معاوضہ حکومت کی جانب سے دیا گیا ہے اسے فوراً واپس لے لیا جائے۔ گورکھپور سے پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ نے سوم کے بیان کو دہراتے ہوئے مزید کہا کہ اخلاق کے قتل میں 18 افراد گرفتار ہوئے ہیں، انھیں بغیر کسی تاخیر کے رہا کر دیا جائے۔
سنجیب بلیان نے جو مظفر نگر سے لوک سبھا میں نمائندگی کرتے ہیں کہاکہ اخلاق کی فیملی کے لوگوں کو اس لئے اس جرم سے نہ بخشا جائے کہ وہ اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ موصوف مرکزی حکومت میں وزیر بھی ہیں، اس لئے انھوں نے کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کر اپنی تجویز پیش کی ہے۔ یہ بھی کہاکہ ایک گائے میں 150 کیلو گوشت سے کم نہیں ہوتا، اس لئے اسے صرف محمد اخلاق ہی نے نہیں کھایا ہوگا، لہٰذا پولس جانچ کرے کہ کس کس نے اسے کھاکرہضم کیا ہے۔ یہ بیان انگریزی روزنامہ ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کے صفحات میں شائع ہوا ہے۔
پہلی چیز تو ان بیانوں میں یہ دیکھئے کہ یہ سب قانون ساز مجلسوں کے ممبر ہیں اور غیر قانونی بیانات دے رہے ہیں۔ ایک کہہ رہا ہے عدالت سے کہ 18 افراد جو قتل کے مقدمے میں پکڑے گئے ہیں انھیں برباد کر دیا جائے۔ دوسرا کہہ رہا ہے کہ جرم کو اقلیت کے ناطے بخشا نہ جائے اورنہ مرکز کی وزارت میں شامل فرد کہہ رہا ہے کہ جرم کو اقلیت کے ناطے بخشا نہ جائے اور مرکز کی وزارت میں شامل فرد کہہ رہا ہے کہ گوشت کسی نے کھایا ہے یا کس نے نہیں کھایا ہے ا س کی پولس جانچ ہونی چاہئے۔ یہ حالت ہے قانون کی مجلسوں میں شامل ہوکر قانون بنانے والوں کی نہیں ،قانون اور آئین سے کوئی راہ و رسم نہیں ہے، صرف لاقونیت ان کیلئے قانون ہے، درندگی اور حیوانیت ان کی انسانیت بن گئی ہے۔
دوسری چیز بھی انسانی نقطہ نظر سے دیکھئے کہ ایک گھر کا ایک خاندان کے کمانے والے ایک فرد کو دن دہاڑے بغیر کسی وجہ کے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر مار ڈالا جاتا ہے۔ اسے نہ اپنی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے اور نہ اسے چیخنے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ گھر والوں کی آنکھوں کے سامنے اس کا خون بہتا ہے۔ پورا خاندان سوگوار ہوجاتا ہے ۔ خوف و ہراس کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے۔ خاندان پر صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ ابھی اس کے غم و الم کے آنسو خشک بھی نہ ہونے پائے تھے کہ رونے والوں کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ انھیں سزا دی جائے کیونکہ ان کے گھر میں گائے کا گوشت پایا گیا ہے۔ یہ ہے گائے کا تحفظ اور انسانیت پر جور و ستم۔جو لوگ انسانیت کے دشمن اور قاتل ہیں انھیں اتر پردیش میں پوری چھوٹ دی گئی ہے۔ وہ کھلے بندوں گھوم رہے ہیں۔ کوئی کچھ پوچھنے والا نہیں ہے۔
سنگیت سوم مظفر نگر فساد کا خاص ملزم ہے۔ فساد اگست۔ستمبر 2013ء کو رونما ہوا تھا۔ اسے پولس نے گرفتار کیا تھا۔ اس نے ایک جعلی کلپ کے ذریعہ دکھایا تھا کہ مسلمانوں کا ایک ہجوم مظفر نگر میں ہندوؤں پر قاتلانہ اور جارحانہ حملہ کر رہا ہے جبکہ یہ فوٹیج پاکستان میں ہوئے تشدد اور فساد کا تھا۔ سوم اتر پردیش کے اند چند سیاستدانوں میں سے ایک ہے جس نے فرقہ وارانہ ماحول کو گرم کرنے میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا تاکہ ووٹوں کی یکجائی ہوسکے اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں تناؤ اور کشیدگی باقی رہے۔
سوم کی طرح سنجیب کمار بھی مظفر نگر فساد کا ملزم تھا اس پر یہ الزام تھا کہ ا س نے دفعہ 144 کے قانون کو توڑ کر لوگوں کو اکٹھا کیا اور مظفرنگر کے فساد کی آگ کو بھڑکایا جس کی وجہ سے بھیانک فساد پھوٹ پڑا۔ اسی طرح یوگی آدتیہ نے بھی کئی جگہوں پر فساد بھڑکانے اور آگ لگانے کی کوشش کی۔ ایسے فسادیوں اور تشدد پسندوں سے اسی قسم کے بیانات کی توقع ہوسکتی ہے ان سے کوئی اچھی امید رکھنا بے معنی ہے۔
یہ سب بیانات ایک خاص مقصد کے تحت دیئے جارہے ہیں۔ 2017ء میں یوپی اسمبلی کا الیکشن ہے اور 2019ء میں لوک سبھا کا انتخاب ہے۔ دونوں انتخابات کو جیتنے کیلئے اتر پردیش کے ماحول کو گرم رکھنا اور ہندو مسلمانوں کو لڑانا سنگھ پریوار کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتر پردیش کی موجودہ حکمراں جماعت کیلئے یہی فرقہ وارانہ ماحول موزوں اور مناسب ہے کیونکہ مسلمان بی جے پی سے خوفزدہ ہوکر سماج وادی کے مولانا ملائم سنگھ یادو کو ہی ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے۔ یہ ملی مار اور گٹھ جوڑ اس وقت ہندستان کی سیاست کا حصہ بن چکا ہے کہ تم ڈراؤ اس سے تم اپنا الو سیدھا کرو اور میں اپنا الو سیدھا کروں۔ آسام اور بنگال میں اسی قسم کی سیاست ہوئی جس سے دونوں کو فائدہ ہوا۔ بہار میں کوشش ضرور کی گئی، دادری کے مسئلہ کو اٹھایا گیا، مسلم نوازی کی بات کہی گئی مگر بہار کے لوگ جھانسے میں نہیں آئے اور فرقہ واریت کو کراری شکست ہوئی۔ بدقسمتی سے آسام میں کانگریس نے اپنی غلط حکمت عملی کی وجہ سے فرقہ پرستوں کیلئے راستہ ہموار کردیا۔
اب یہ کسی کیلئے سمجھنا دشوار نہیں ہے کہسنگھ پریوار کے لوگ اقتدار کے نشے میں وہ سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وہ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمہ داریوں سے بالکل غافل ہوگئے ہیں۔ انھیں صرف ووٹوں کی فکر ہے۔ اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ معیار آدمیت اور معیار انسانیت گر رہا ہے۔ ہوس رانی میں غرق ہوکر اس حقیقت سے بالکل غافل ہوگئے ہیں۔ اس روش کا انجام کیا ہوگا۔ دنیا دیکھ رہی ہے ایک طرف ہندستان کو اونچا اٹھانے کا نام نہاد نعرہ ہے اور دوسری طرف اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اس انتہا کو پہنچ گئے ہیں جہاں سے زیادہ نیچے کوئی دوسری مخلوق نہیں گرسکتی ؂
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔