قرآن کا پیغام والدین کے نام –عادلانہ تقسیم وراثت (آخری قسط)

مولانا عبدالبر اثری
’’ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ‘‘۔(سورۃ النساء:۱۱)
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے سلسلے میں تاکید اً حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا‘‘۔
اس آیت میں وراثت کے احکام بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن اسلوب عمومی نہیں ہے بلکہ تاکیدی ہے کیونکہ عربی زبان میں ’’ایصاء‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’تاکیداً کسی کام کو کرنے کا حکم دینا‘‘ گویا لامحالہ اس حکم کو پورا کیا جاناچاہئے۔ اس سلسلے میں کوئی کوتاہی اور تساہلی برداشت نہیں کی جائے گی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ان احکامات کو بیان کرنے کے بعد انہیں ’’فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ‘‘ ’’اللہ کی جانب سے فرض‘‘اور ’’حُدُوْدُ اللّٰہِ‘‘ ’’اللہ کے حدودقرار دیا گیاہے ‘‘۔جو ان کی پاسداری کرے اسے جنت کی خوشخبری دی گئی ہے اور جو انہیں پامال کرے انہیں رسوا کن عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔
عموماً جب انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو وہ اپنی جائداد کے سلسلے میں بھی فکر مند ہوتا اور اپنی اولاد کے مستقبل کے سلسلے میں بھی پریشان ہوتا ہے کہ پتہ نہیں اولاد اس کی چھوڑے ہوئے مال کا کیا کرے گی؟ حرص و ہوس کے چکر میں طاقت ور ہڑپنا نہ شروع کردیں اور کہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے آپس میں لڑنا مرنا نہ شروع کردیں۔ اسی لئے پہلے یہ ہدایت دی گئی تھی انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے وصیت کردی جائے تاکہ بعد میں یہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ حتی کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہتا ہو تو اسے دو راتیں بھی اس حال میں نہ گزارنا چاہئے کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو (مسلم) لیکن بشری کمزوریوں کی وجہ سے اس بات کا امکان تھا کہ وصیت میں بھی کمی بیشی ہو جائے اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے یا آپس میں اختلاف پیدا ہو جائے ۔ اس لئے اس آیت میں جتنے قریبی رشتہ دار ہیں ان کے حقوق متعین کردئیے گئے ہیں۔ سب سے قریب چونکہ اولاد ہوتی ہے اس لئے سب سے پہلے ان کا حق بیان کیا گیاہے۔ لڑکے کا لڑکی کے بمقابل دو گنا حصہ مقرر کیا گیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکے پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتاہے اور لڑکی اس سے آزاد ہوتی ہے۔
یہاں یہ حقیقت بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عرب کے رواج کے مطابق صرف لڑکا وارث بنتا تھا۔ (ہندؤوں کے یہاں بھی صرف لڑکاہی وارث ہوسکتاہے اسی طرح یہود بھی عورتوں کو وراثت میں حق نہیں دیتے تھے)لڑکیاں محروم رہتی تھیں لیکن اس حکم کے بعد گویا ان کا حق ہمیشہ کے لئے مسلّم ہو گیا۔ آج کل مختلف انداز سے لڑکیوں کو یا بہنوں کو محروم کرنے کاجو چلن ہے وہ سراسر غیر اسلامی ہے اور اس کی اصلاح ضروری ہے ۔ لڑکیوں اور بہنوں کو ترکہ میں ان کا حق لامحالہ بانٹ کرد یا جانا چاہئے ۔ ورنہ گناہ لازم آئے گا۔ اسی طرح کسی سے خوش ہوکر اسے پورا لکھ دینا اور دوسروں کو محروم کردینایہ بھی غلط ہے۔
کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ پتہ نہیں میرے بعد اولاد مال کو کس طرح استعمال کرے گی؟ کیوں نہ خود ہی سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ ثواب اکٹھا کرلوں ۔ ایسی صورت میں چونکہ اولاد کی حق تلفی ہوتی ہے اور آئندہ وہ تنگی کا شکار ہوسکتاہے۔اس لئے شریعت میں ایسے انتہا پسندانہ اقدام کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ بخاری اور مسلم کی ایک روایت سے صاف واضح ہے ’’ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں بیمار ہوا اور مرنے کے قریب ہوگیا۔ رسول اللہﷺ میری عیادت کو تشریف لائے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! میرے پاس مال بہت ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنا مال اللہ کی راہ میں دے دوں، آپﷺ نے فرمایا: نہیں۔ پھر میں نے کہا: دوتہائی دے دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں۔ پھر میں نے کہا: نصف دے دوں۔آپﷺ نے فرمایا: نہیں پھر میں نے پوچھا: تہائی دے دوں؟ فرمایا تہائی دے سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے ۔ پھر فرمایا گر تم اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں بے شک جو مال تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ حتیٰ کہ اس نوالہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے‘‘۔
کبھی انسان اس کے برخلاف بھی سوچتا ہے کہ مستقبل میں اولا د آرام و سکون کی زندگی گزارے اس کے لئے مجھے کچھ کرکے جانا چاہئے چنانچہ وہ بسا اوقات اس کے لئے مختلف حربے اختیار کرتا ہے حالانکہ اس طرح کا ہر عمل اس کے لئے موجب ہلاکت ہی ہوتا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے مال نہیں بچا اور ترکہ نہیں چھوڑرہا ہے تو اسے معاملات کو اللہ کے حوالے کرنا چاہئے ۔ جیسا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کیا جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے تو ان کے بہنوئی مسلمہ بن عبدالملک ان کے پاس آئے اور فرمایا ’’اے امیر المومنین آپ نے اس مال(حکومتی مال) سے اپنے بچوں کو محروم کردیاہے اور انہیں فقر و فاقہ کی حالت میں چھوڑ کر رخصت ہورہے ہیں حالانکہ ان بچوں کے پاس کچھ مال ضرور ہونا چاہئے ‘‘ امیر المؤمنین نے انہیں بٹھایا اپنے بچوں کو بھی جمع کیا (جن کی تعداد ان دنوں بارہ تھی) پھر اشکبار آنکھوں کے ساتھ فرمایا ’’میرے پیدا کرنے والے کی قسم ! میں نے اپنے جگر گوشوں کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ ان کے پاس کچھ بھی مال نہیں ہے۔ میرے بیٹو! میں نے تمہیں اللہ کی طرف سے خیر اور بھلائی ہی میں چھوڑا ہے۔ کوئی بھی مسلمان یا معاہد ایسا نہیں ہے جس کے پاس سے تمہارا گزر ہو اوراس کا تم پر کوئی واجبی حق ہو۔ میرے بیٹو! میرے لئے دو راہیں ہیں یا تو تم دنیاوی فقر وفاقہ اختیار کرلو یا دنیا کے ناز و نعم اختیار کرکے اپنے باپ کو جہنم کا ایندھن بنادو۔ تم لوگوں کا دنیا میں آخر دم تک فقرو محتاجی کی حالت میں زندگی گزارنا تمہارے باپ کے صرف ایک دن جہنم کی آگ میں داخل ہونے سے بہتر ہے ۔ میرے بیٹو اب تم جاسکتے ہو اللہ تمہارے نگرانی کرے گا۔ اور وہی تمہیں روزی دے گا اللہ نیکو کار وں کا سرپرست ہے ‘‘۔
مسلمہ بن عبدالملک (جنہوں نے سفارش کی تھی) کا بیان ہے کہ اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز ؒ کے بچوں میں سے کوئی بھی فقرو محتاجی کا شکار نہ ہوا بلکہ سبھوں کو اللہ تعالیٰ نے نعمت سے نوازا اور سبھوں نے خوش و خرم زندگی گزاری۔(البدایۃ و النھایۃ)

تبصرے بند ہیں۔