محمد بن واسع ؒ 

افتخارالحسن مظہری
حضرت انس بن مالکؓ کے شاگرد محمد بن واسع بزرگ تابعی ہیں۔ زاہد کامل حضرت سلمہ بن دینار کے یار غار تھے۔ شیخ التابعین حضرت حسن بصریؒ آپ کو جمال قرآن کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آپ کی یہ خصوصیت ہے کہ صرف نماز روزہ یا عبادات کے لئے ہی نفس کی تربیت نہ کی بلکہ جہاد اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے بھی اس کی تربیت کا اہتمام کیا۔ اس غرض سے وہ فاتح اسلام قتیبہ بن مسلم کے ہمراہ ہوگئے۔ حضرت قتیبہ ان کے تقوی و پرہیزگاری کے بڑے معتقد تھے۔ اس لئے جس غزوہ میں وہ ان کے ہمراہ ہوتے، انھیں فتح و نصرت کا یقین ہوتا۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ وہ قتیبہ بن مسلم کے لشکر میں تھے، قتیبہ خراسان میں گورنر تھے، ترکوں نے بغاوت کردی، انھوں نے ایک آدمی کو مسجد بھیجا کہ وہ دیکھ کے آئے کہ وہاں کون کون لوگ ہیں؟ اس نے آکے بتایا کہ مسجد میں صرف محمد بن واسع ؒ ہیں جو اپنی انگلی بلند کیے ہوئے ہیں۔ قتیبہ نے کہا؛ ان کی ایک انگلی تیس ہزار گھوڑ سواروں سے زیادہ مجھے پیاری ہے۔ (صفۃ الصفوۃ: 3؍267)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مجاہد کی حیثیت سے ان کی کیا قدر و قیمت تھی۔
کثرت عبادت
نفس امارہ کو زیر کرکے راہِ راست پر لانے کا سب سے اہم اور کارگر ذریعہ عبادت ہے۔ اس لئے محمد بن واسع کثرت سے عبادت کرتے تھے۔ اللہ سے خوف کی شدت اور کثرتِ گریہ و زاری کی وجہ سے ان کے چہرہ پر بیوہ جیسی لاچاری ظاہر ہوتی تھی۔ ان کے ایک عقیدتمند جعفر بن سلیمان کہتے ہیں کہ : جب اپنے دل میں مجھے کچھ قساوت محسوس ہوتی تو میں محمد بن واسع کا چہرہ دیکھتا ، ان کا چہرہ دیکھ کر دل کی قساوت دور ہوجاتی کیونکہ اس پر بیوہ جیسی لاچاری چھائی رہتی ہے۔
دنیا سے بے رغبتی 
تابعین کرام کی زندگی کا یہ پہلو بھی بڑا سبق آموز ہے کہ دنیا کی ان کی نگاہ میں کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ دنیا دل سے نکل کر ان کے ہاتھوں میں آ گئی ہے۔ وہ اس سے محبت کرنے اور بٹورنے کے بجائے لٹاتے تھے اور صرف اس سے اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی اللہ سے قربت کا وہ ذریعہ ہو۔ اس لئے دنیا کے جانے کا ان کو غم نہ تھا۔ بس یہ لگن تھی کہ اللہ کی رضا و قرب حاصل ہوجائے۔ وہ کہتے ہیں:
دنیا میں تین چیزیں ایسی ہیں جن کے نہ ہونے کا مجھے افسوس ہوگا۔ ایک دوست جو میری کجی کو درست کرتا رہے۔ دوسرے باجماعت نماز جو مرے سہو کی تلافی کرتی رہے اور ثواب کی زیادتی کا بھی ذریعہ ہو۔ تیسرے وہ نانِ شبینہ جس میں کسی کا احسان نہ ہو اور اللہ کے یہاں اس کی کوئی باز پرس یا وبال نہ ہو۔ (صفۃ الصفوۃ: 3؍270)
وہ پہلی چیز جس کے نہ ہونے سے ان کو دنیا میں غم لاحق ہوگا ایسا دوست ہے جو نفس کی تربیت میں ان کا معین و مددگار ہو۔
دنیا کو دل سے نکال دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کھانے پینے کی جائز و حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دیا جائے اور پھٹی پرانی گدڑیاں بدن پر لپیٹ لی جائیں، معاشرے اور سماج سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے، کمانا دھمانا چھوڑ دیا جائے۔ یہ باتیں زہد سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں اور نہ ہی روح اسلام سے یہ میل کھاتی ہیں۔ یہ تو رہبانیت یا برہمنیت ہے۔ اسلام اس کو حرام قرار دیتا ہے۔ زہد کا تعلق تمام تر دل سے ہے۔ اصلی زہد یہ ہے کہ دل میں دنیا کی محبت نہ ہو۔ محمد بن واسع فرماتے ہیں:
’’وہ آدمی قابل رشک ہے جس کے پاس دین ہو اور دنیا نہ ہو پھر بھی شاد ہو۔ ‘‘(سیر اعلام النبلاء: 6-121)
نفس کے لئے سب سے بڑا فتنہ دنیاوی جاہ و منصب ہوتا ہے۔ وہ نفس کو سر تاپا بدل کے رکھ دیتا ہے۔ اس لئے تابعین اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے تاکہ نفس کی تعمیر و تربیت کی جو محنت انھوں نے کی ہے وہ سب رائیگاں نہ ہوجائے۔ مالک بن منذر گورنر تھے۔ انھوں نے محمد بن واسع کوبلایا اور منصب قضا کی پیشکش کی۔ محمد بن واسع نے انکار کر دیا۔ گورنرنے دوبارہ پیشکش کی اور کہا کہ اگر یہ منصب قبول نہ کیا تو تین سو کوڑے ماروں گا۔ انھوں نے کہا؛ اختیار و اقتدار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ مار لیجئے، دنیا کی ذلت آخرت کی ذلت سے بہتر ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: 6-122)
دنیا پرست دنیا ہی کے لئے جیتے مرتے ہیں۔ اس لئے وہ اسے حماقت کہیں گے کہ دنیا کھنچ کر خود کسی کے پاس آئے اور وہ اسے لینے سے انکار کردے۔ بعض امراء نے خود ان لوگوں کو احمق کہا جنھوں نے مناصب نہ قبول کئے۔
محمد بن واسع ؒ کہتے ہیں: اس معاملہ میں بچپن ہی سے مجھ کو احمق کہا جاتا رہا ہے۔ ان کی ایمانی حمیت کو یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ کسی ایسے شخص کا کوئی ہدیہ قبول کرلیں جس کی آمدنی کے ذرائع مشکوک ہوں۔ اور صرف یہی نہیں کہ وہ خود ایسے ہدایا قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے دوستوں کو بھی منع کیا کرتے تھے۔ بصرہ کے گورنر نے شہر کے علماء کو اپنی نوازشات کا تحفہ بھیجا۔ تمام علماء نے وہ تحفے خوشی خوشی قبول کر لئے۔ محمد بن واسع کو معلوم ہوا کہ ان کے دوست مالک بن دینا ر نے بھی وہ تحفہ قبول کر لیا ہے تو اعتراض کیا اور کہا: آپ نے وہ انعامات کیسے قبول کر لئے؟ انھوں نے کہا: میرے دوسرے دوستوں سے پوچھئے۔ دوستوں نے کہا: اے محمد بن واسع ہم اس سے غلام خرید کر آزاد کر دیں گے۔ محمد بن واسع نے مالک بن دینار سے کہا: میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں۔ صحیح صحیح بتاؤ کہ یہ تحائف قبول کر لینے کے بعد تمہارے دل کا حال کیاویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا؟ مالک بن دینار نے کہا: میں گدھا تھا کہ وہ تحائف قبول کر لئے اس کے لینے کے بعد سے دل کا حال دگرگوں ہے۔ اللہ کی عبادت صحیح معنوں میں آپ ہی جیسے لوگ کر سکتے ہیں۔
عمل کا اخفاء 
تابعین کے دلوں میں یہ تمنا مچلتی رہتی تھی کہ ان کے اعمال اللہ قبول فرمالے۔ اسی لئے ان کی کوشش ہوتی کہ دنیا کی نگاہوں سے ان کے اعمال مخفی رہیں۔ وہ اپنے اعمال کو اس لئے بھی ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے کہ اس سے ریا و نمود اور خود پسندی کے راہ پانے کا اندیشہ تھا۔ عمل کا یہ اخفاء وہ اس حد تک کرتے تھے کہ ان کے کسی قریب ترین شخص کو بھی ان کی عبادات کا حال معلوم نہ ہوتا۔ وہ خود فرماتے ہیں:
ایک انسان بیس سال تک رو رو کے آنسو بہاتا رہا، لیکن اس کی بیوی کو بھی اس کی کوئی خبر نہ ہوئی۔ (سیر اعلام النبلاء: 6-122)
اخفاء اعمال کی ان کے نزدیک اتنی اہمیت تھی کہ زندگی کے آخری لمحے تک وہ اپنے دوستوں کو اس کی تاکید کرتے رہے۔ حماد بن زید فرماتے ہیں:
ہم مرض الموت میں ان کے پاس عیادت کے لئے بیٹھے تھے اسی دوران یحیٰ بکاء آئے۔ (زیادہ رونے کی وجہ سے بکاء ان کا لقب ہو گیا تھا) لوگوں نے کہا یحیٰ بکاء بھی آپ سے ملنا چالتے ہیں۔ محمد بن واسع نے کہا: وہ دن سب سے برا تھا جب تم کو بکاء کہا گیا۔(صفۃ الصفوۃ: 3-269)
انھوں نے یہ بات اس لئے کہی کہ جو بات اللہ اور بندے کے درمیان راز کی حیثیت رکھتی تھی ، اس کو عام کر دیا جو عند اللہ اس کے قبول نہ ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
جانکنی کے عالم میں نفس کی سرکوبی
نفس کی سرکوبی سے تابعین کبھی غافل نہیں ہوتے تھے۔ ہمیشہ اس کے درپے اصلاح رہنتے، ان کو اپنے نفس کا حال معلوم تھا۔ اس لئے کوئی چاہے کتنی ہی ان کی تعریف کرے وہ اس سے دھوکے میں نہ پڑتے، بلکہ اس پر اپنا دباؤ رکھنے کی ہر حال میں ہمیشہ تدبیریں کرتے رہتے حتی کہ نزع کے عالم میں بھی ان کو اس کی فکر دامن گیر رہتی۔ ان کے ایک دوست کا بیان ہے کہ آخری وقت میں جب ان کی حالت زیادہ دگرگوں ہوئی تو عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ میں بھی پہنچا، دیکھا کہ کچھ لوگ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ کھڑے ہیں۔ وہ میری جانب ملتفت ہوئے اور کہا بتاؤ کل مجھے گھسیٹ کے جہنم میں ڈالا جائے تو یہ لوگ میرے کس کام آئیں گے؟ پھر یہ آیت پڑھی ’’ یعرف المجرمون بسیماھم فیؤخذ بالنواصٰی و الأقدام ‘‘
(صفۃ الصفوۃ: 3؍271)

تبصرے بند ہیں۔