نیکیوں کا پھل

نیکیاں ،دنیا و آخرت کی بھلائی کا زینہ ہیں ’’وافعلوا الخیرلعلکم تفلحون(سورۃ الحج: 77) اور بھلائی کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ نیکی ،غموں اور مصیبتوں کے ازالہ کا باعث ، جنت کا راستہ، گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ اور عذاب آخرت سے نجات کاوسیلہ، غضب الٰہی کو ٹھنڈا کرے کا آلہ اور حب الٰہی کو پانے کا زینہ ہے۔ نیکیوں کے انھیں عظیم ثمرات و فوائد کی بناپر قرآن و حدیث میں اہل ایمان کو افعال خیر کرتے رہنے کی باربار تاکید کی گئی ہے ۔ افعال خیر کے چند عظیم فوائد ملاحظہ ہوں۔
۱۔ نیکیاں برے وقت میں کام آتی ہیں
ایک بار کا واقعہ ہے کہ عرب میں ابن جدعان نام کا ایک آدمی اپنے چوپایوں کو چرنے کے لئے صحرا میں چھوڑآیا، یہ بہار کا موسم تھا، زمین کا ٹکڑا ٹکڑا اس وقت لالیوں اور ہریالیوں کی دلہن بناہوا تھا، اس کے چوپائے سیرہوہوکر چرتے اور تندرست و توانا ہوتے رہے۔ چند روز کے بعدوہ ان کو واپس لانے کے لئے گیا تو چوپایوں کو دیکھ کر باغ باغ ہوگیا۔ وہ خوب فربہ اور تنومند ہوچکے تھے۔ اونٹنی کو دیکھ کے تو اس کے استعجاب کی انتہا نہ رہی ، اس کے تھن پورے بھرے ہوئے تھے ، ایسا لگتا تھا کہ کوئی تھنوں کو صرف ہاتھ سے چھودے تو دودھ کے دھارے پھوٹ نکلیں گے۔
اس کا دل جذبۂ شکر سے لبریز ہوگیا، اس کو معاً یہ آیت یاد آگئی ’’لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ‘‘پسندیدہ چیزیں راہِ خدا میں لٹاکر ہی نیکی حاصل ہوتی ہے۔ اس نے فیصلہ کرلیاکہ اونٹنی کو راہِ خدا میں صدقہ کردے گا۔ پھر کیا تھا، مع بچے کے اونٹنی کو لے کر ایک غریب پڑوسی کے گھر جا پہنچا، دستک دی، وہ آیا تونکیل کی رسی اس کے ہاتھ میں تھمادی اور کہا: آپ ضرورت مند ہیں، یہ اونٹنی آپ کے زیادہ کام آئے گی۔
واپس آکر وہ اپنے کام میں لگ گیا، دن گذرتے رہے، بہار کا موسم رخصت ہوگیا، گرمی کے دن آئے تو پانی کی قلت ہرگروہ کے لئے آزمائش بن گئی، ابن جدعان اپنے بیٹوں کو ساتھ لے کر پانی کی تلاش میں نکلا، ایک صحرا کے بیچ میں کچھ گڑھے نظرآئے جن کی اوپری سطح پر زمین میں کئی شگاف تھے، یہ اس بات کی علامت تھی کہ اندر پانی ہے۔ ابن جدعان ان شگافوں میں داخل ہوا، اندر اسے کئی کشادہ شگاف نظرآئے، وہ پانی تک پہنچا تو دلدل میں اس کے پاؤں ایسے پیوست ہوئے کہ پھر باہر نکلنے کا یارا نہ رہا۔ بیٹے باہر انتظار کرتے کرتے تھک گئے، انھیں اس کی موت کا یقین ہوگیا، آخرگھرواپس آئے اور باپ کی چھوڑی ہوئی میراث باہم تقسیم کرلی۔ انھیں یاد آیا کہ ان کے والد نے غریب ہمسائے کو ایک اونٹنی دی تھی سب اس کے پاس گئے اور اس سے اونٹنی کا مطالبہ کیا۔ غریب نے کہا: تمہارے والد سے میں اس کی شکایت کروں گا، انھوں نے کہاکہ والد تو انتقال کرچکے ہیں۔ غریب نے کہا ایسا کیونکر ہوسکتاہے کہ ان کا انتقال ہوا اور مجھے اس کی کوئی خبر نہ ہو، لڑکوں نے بتایا کہ وہ پانی کی تلاش کے لئے ایک زمینی غار میں اترے اور لاپتہ ہوگئے۔ غریب نے کہا: مجھے وہ جگہ دکھاؤ اور پھر اپنی اونٹنی لے لو۔ انھوں نے صحرا میں جا کے وہ جگہ دکھائی، غریب نے اپنی رسی کا ایک سرا بیٹوں کے ہاتھ میں دیا اور دوسرا سرا پکڑکر غار میں اترا۔ ٹٹولتے ٹٹولتے آخر اس کا ہاتھ ایک انسانی جثہ پر پڑا، اس کو رسی سے باندھا اور آہستہ آہستہ اسے لے کر باہر آگیا، کچھ دیر کے بعد وہ ہوش میں آیا تو غریب نے اس سے پوچھا کہ آخراتنی مدت تک تم بغیر دانہ پانی کے زندہ کیسے رہے۔ اس نے بتایا کہ ہر روز صبح و شام دودھ کا ایک بھرا کٹورا اندھیرے میں آتا اور میرے منھ سے لگ جاتا، میں سیر ہوکر اس کو پی لیتا، تو پھر وہ غائب ہوجاتا، لیکن دوروز سے نہ جانے کیوں وہ دودھ کا بھرا کٹورا نہیں آیا۔ اب غریب نے بتایا کہ جو اونٹنی تم نے مجھے نیکی کی نیت سے دی تھی، دودن پہلے تمہارے بیٹوں نے مجھ سے وہ واپس لے لی۔
ایک شخص جو سات سالوں سے گھٹنے میں نکلے ایک زخم سے پریشان تھا، ہرطرح کے علاج و معالجہ سے مایوس ہوکر عبداللہ بن المبارکؓ کے پاس آیا اور اپنے اس زخم کا تذکرہ کیا ، انھوں نے فرمایا: ایسی جگہ جہاں لوگ پانی کی قلت سے دوچار ہوں وہاں ایک کنواں کھودوادو۔ مجھے امید ہے کہ وہاں چشمہ پھوٹ پڑے گا اور تمہارے زخم سے خون کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ تواس نے آپ کے مشورہ پر عمل کیا اور اس کا زخم مندمل ہوگیا۔(البیہقی عن العلی بن الحسن کما فی صحیح الترغیب والترھیب رقم: ۹۵۳)
۲۔ عذاب سے نجات کا ذریعہ
ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’میں نے ایک شخص کو جنت کی نعمتوں میں نہال ہوتے ہوئے دیکھا، اس درخت کو کاٹنے کے سبب جو راستہ میں لوگوں کے لئے تکلیف و اذیت کا باعث بن رہاتھا۔(صحیح مسلم)
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے راستہ سے کانٹوں کی ایک ڈالی ہٹادی، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی اور اس کی مغفرت فرمادی(صحیح بخاری)۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک شخص جارہاتھااسے پیاس لگی۔ ایک کنوئیں میں اترا، پانی پی کر نکلا تو دیکھاکہ ایک کتاپیاس کی شدت کی وجہ سے ہانپ رہا ہے اور گیلی مٹی کھارہاہے۔ کتے کی اس پیاس کو دیکھ کر وہ دوبارہ کنوئیں میں اترا ، اپنے موزے کو پانی سے بھرا اور اس کتے کو پلادیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر فرمائی اور اس کی مغفرت فرمادی۔(متفق علیہ)
۳۔ حب الٰہی کو پانے کا وسیلہ
ارشاد رسول ہے : ’’اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ترین شخص وہ ہے جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہو اور سب سے پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جس سے آپ کسی مسلم کے دل کو ہمکنار کردیں یا اس کی کسی مصیبت کو دور کردیں یا اس کے کسی قرض کو ادا کردیں یا اس کی بھوک کو مٹادیں۔ خدا کی قسم کسی مسلمان کی حاجت پوری کرنے کے لئے میرا اس کے ساتھ چلنا، مسجد میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بہترہے ۔ جوشخص اپنے مسلم بھائی کی حاجت برآوری کے لئے چلے گا اللہ تعالیٰ اس کے قدموں کو اس دن جمادیں گے جس دن قدم ڈگمگائیں گے۔(رواہ ابن ابی الدنیا والطبرانی وحسنہ الالبانی)
زندگی کے یہ چند لمحات جو حاصل ہیں، انھیں غنیمت جانئے اور انھیں افعال خیر کو سمیٹنے میں لگائیے۔ جس طرح سمندر میں موجود شخص تیرے بغیر ساحل سمندر پر نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح ہمیشگی کے ساحل کو بھی بلاعمل و جدوجہد کے نہیں پایاجاسکتا۔

تبصرے بند ہیں۔