کون کہتا ہے میں غوّاصِ معانی نہ ہوا

لِلّٰہِ الحمد تخیّل کبھی سطحی نہ ہوا
کون کہتا ہے میں غوّاصِ معانی نہ ہوا

وقت کی لوح پہ تحریر ہے قسمت تیری
اِس عبارت کا مگر تو کبھی قاری نہ ہوا

تیرے ہوتے کسی دہلیز کی حاجت کیا ہے
میں وہ بدبخت کہ تجھ پر کبھی راضی نہ ہوا

روز چھپتے رہے دیوان غزل کے لیکن
کسی نسخے کا خریدار کباڑی نہ ہوا

تو رہا ساتھ تو یہ شمس و قمر اپنے تھے
تجھ سے چھوٹا تو کوئی ناصر و حامی نہ ہوا

شغل میرا بھی تو ہے شعر و سخن یہ سچ ہے
داد و تحسین کا لیکن میں بھکاری نہ ہوا

آگئے حصہ بٹانے کو قبیلے والے
غم کی میراث میں لیکن کوئی ساجھی نہ ہوا

میں کسی مدرسۂ فکر کا پابند نہیں
کوئی اسلوب سخن وجہِ تشفی نہ ہوا

خاک ساری ہی صدا شیوہ رہا ہے اپنا
میں کبھی مرتکبِ حرفِ تعلّی نہ ہوا

دولتِ عمر گنوا کر بھی میں تابشؔ مہدی!
لائقِ مرحمتِ ظلِّ الٰہی نہ ہوا

تبصرے بند ہیں۔