سنگھ پریوار کمزوروں اور غریبوں کے دشمن ہیں

کیا مظلوم دلت اور اقلیت دشمنوں کے خلاف متحد ہوسکتی ہے؟

عبدالعزیز
ہندو فرقہ پرست جسے کہتے ہیں اور جو دلتوں اور مسلمانوں کی یکساں دشمنی کرتے ہیں ان کی حکمت عملی ہے کہ مسلمانوں کو زیر کرنے اور ہر طرح سے ستانے کیلئے دلتوں کو استعمال کیا جائے۔ بدقسمتی سے بہت سالوں تک دلت سنگھ پریوار کے بہکاوے میں آتے رہے۔ سنگھ پریوار والے انھیں اکساکر مسلمانوں کی بستیوں، محلوں کی طرف پھیر دیتے تھے۔ اس کام کیلئے سنگھ پریوار والے نہ صرف انھیں روپے پیسے دیتے تھے بلکہ شراب پلاتے تھے اور شراب کے نشے میں دھت ہوکر یہ گمراہ دلت مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرتے تھے۔ گجرات میں یہ کھیل بڑے پیمانے پر ہوتا تھا۔ دوسری جگہوں میں یہ کام دلت لالچ میں آکر انجام دیتے تھے۔
مولانا سجاد نعمانی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ چند سال پہلے وہ گجرات گئے تھے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ احمد آباد کے فسادات میں دلتوں نے بھر پور حصہ لیا تو دلتوں کی اس بستی میں جاکر دلتوں کے سرغنوں سے ملاقات کی، جس بستی کے لوگوں نے بغل کے مسلم محلہ پر دھاوا بول دیا تھا۔ مسلمانوں کو قتل اور ان کی جائیدادوں کو لوٹا تھا اور جب مسلمان ڈر اور خوف سے بستی چھوڑ کر چلے گئے تو دلتوں نے ان کی جائیدادوں اور زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ مولانا سجاد نعمانی نے دلتوں کے دو سرغنوں سے بات چیت کرتے ہوئے پیار محبت سے دلتوں کی مسلم دشمنی کا راز معلوم کرنا چاہا۔ پہلے تو مولانا نے انھیں دعوت دی تھی اور شاندار استقبال کیا تھا اور اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھایا تھا۔ ان کے اس عمل سے دلت سرغنے بہت متاثر ہوئے تھے۔ پھر مولانا نے ان کی بستی میں جاکر ان سے ملاقات اور بات چیت کی۔ دلت سرغنوں نے بتایا کہ وہ لوگ مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں۔ لیکن بڑی ذات کے ہندوؤں نے انھیں روپئے پیسے ، شراب اور جائیداد کا لالچ دے کر ہمارا رخ مسلمانوں کی طرف پھیر دیا تھا۔ اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ایسا واقعہ ہوا۔ مگر مسلمان بستیوں سے کبھی بھی کوئی عالم، مولانا یا لیڈر ہماری بستیوں میں یہ پوچھنے نہیں آئے کہ آخر ہم لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف ایسا سخت قدم کیوں اٹھایا اور یہ سلسلہ ایک زمانے سے برسوں چلتا رہا۔ آپ پہلی بار ہمارے قریب آئے، اپنے یہاں بلائے، ہمارے ساتھ مل جل کر کھانا کھایا، اٹھے بیٹھے یہ ہم سب کو بہت پسند آیا اور پھر آپ ہماری بستی میں آئے اور ہمارے ساتھ کھانا کھانے میں کسی تامل سے کام نہیں لیا۔ اب ہم صاف صاف بتاتے ہیں کہ مسلمان اگر ہمیں بغلگیر کئے ہوتے اور ہماری مصیبتوں میں اور تکلیفوں میں کام آئے ہوتے، ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تو ہندوؤں کی بڑی ذات یا سنگھ پریوار ہمیں گمراہ کرنے اور مسلمانوں کا دشمن بنانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔
مولانا محمد علی جوہر اپنے زمانے میں ہریجنوں کی بستی میں جایا کرتے تھے اور کھانا ساتھ بیٹھ کر کھایا کرتے تھے۔ اس کا ہریجنوں پر بڑا اچھا اثر پڑتا تھا۔ راقم اتر پردیش کے ضلع فیض آباد کا رہنے والا ہے۔ کئی سال پہلے جب وہ اپنے گاؤں میں گیا تو اسے معلوم ہوا کہ ہریجنوں کی ایک بستی میں سے کچھ لوگوں نے ایک مسلمان کی زمین دخل کرلی ہے اور لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا۔ کئی مسلمان ہریجن ایکٹ کے تحت گرفتار کئے گئے۔ پہلے تو میں ہریجنوں کی بستی میں گیا، کچھ لوگ مجھے پہچانتے تھے انھوں نے ہماری آؤ بھگت کی اور اپنی چار پائی پر بٹھایا۔ ہم نے ہریجنوں کو تحفے تحائف دیئے اور ہریجنوں کے بچوں میں مٹھائی تقسیم کی۔ ایک بوڑھا ہریجن لاٹھی پکڑے ہوئے میرے پاس آیا اور کہا کہ بابو! میں بہت بیمار ہوں۔ مجھے کچھ پیسے کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنا علاج کراسکوں۔ میں نے اسے اپنے گھر بلایا اور وہ میرے گھر آیا۔ ناشتے کا وقت تھا میں نے ناشتے پر بٹھایا اور ایک ساتھ کھانے لگے۔ ہمارے گاؤں کے لوگوں نے جب دیکھا تو انھیں حیرت ہوئی اور اچھا بھی نہیں لگا، کیونکہ ایک زمانے سے یہ ریتی رواج رہا کہ ہریجن ہمارے گاؤں کے ہر گھر میں ہروائی (کھیتی باڑی) کرتے تھے اور ان کے ساتھ نوکروں اور ملازموں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ نہ کوئی ان کے ساتھ بیٹھتا تھا۔ وہ اگر بستی میں آتے تو کھڑے کھڑے کہتے سلام بابو۔ جواب میں مسلمان سلام کہتا تھا اور اس طرح دوریاں بنی رہیں۔ کبھی ایک نے دوسرے کو انسان نہیں سمجھا۔
کانشی رام اور مایا وتی کی جب تحریک چلی تو ہریجنوں اور دلتوں میں بیداری پیدا ہوئی۔ انھیں اپنے حقوق اور طاقت کا علم ہوا اور انھوں نے کانشی رام کو اپنا لیڈر دل و جان سے ماننا شروع کیا۔ جس کے نتیجے میں مایا وتی اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ ہوئیں اور اپنے دورِ حکومت میں انھوں نے ہریجن ایکٹ پاس کیا۔ اس کے ذریعے بڑی ذاتوں میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔ بعض مقامات پر اس قانون کا غلط استعمال ہوا جس سے مسلمانوں میں مایا وتی کے خلاف بدظنی پیدا ہوئی اورہندوؤں کی بڑی ذاتوں میں بھی دشمنی کا زور پیدا ہوا۔ اس سے مایا وتی کمزور ہوئیں اور ملائم سنگھ یادو کی حکومت آگئی۔ مسلمانوں نے اور ہندوؤں کی بڑی ذاتوں نے مایا وتی کو ہرانے میں حصہ لیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ملائم سنگھ کا ظلم و جبر اس قدر بڑھا ہے کہ ہندو مسلمان سبھی مایاوتی کے ظلم و جبر کو بھول گئے۔ مسلمان تو ملائم سنگھ سے بہت ہی بدظن ہیں کیونکہ ان کے بیٹے اکھلیش یادو کی حکومت میں چار سال کے اندر ڈھائی سو سے زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔ مظفر نگر میں مسلمانوں کی تیس بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ کئی سال ان بستیوں کے بچے کھچے لوگ پناہ گزیں رہے۔ آج تک وہ اپنی بستیوں میں نہیں جاسکے۔ کیمپوں میں ڈیڑھ دو سال رہے او رپھر ملائم سنگھ نے کوئی متبادل جگہ نہیں دی جس کی وجہ سے وہ منتشر ہوگئے۔ جاڑے اور برسات کے زمانے میں بے شمار بچے بیمار ہوکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اسی زمانے میں ملائم سنگھ کی سالگرہ منائی جاتی رہی اور بمبئی کے آرٹسٹوں کو بلاکر میلے کا سماں پیدا کیا گیا۔ کروڑوں اور اربوں روپئے پانی کی طرح بہائے گئے لیکن مظلوم مسلمانوں کو کسی قسم کی مدد یا تعاون نہیں کیا گیا۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ مرکز میں سنگھ پریوار کی حکومت ہے اور ملک کی بہت سی ریاستوں میں بھی اس کی حکومت ہے اور بعض جگہ مخلوط حکومت میں سنگھ پریوار شامل ہے۔ جہاں بھی ان کا اثر و رسوخ ہے مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ ہراساں اور پریشان کر رہے ہیں۔ جب سے مودی کی حکومت آئی ظلم و ستم میں اضافہ ہوگیا۔ پہلے مسلمان بڑے پیمانے پر شکار ہوئے۔ اب دلت سنگھ پریوار والوں کی زد میں ہیں۔ حیدر آباد یونیورسٹی سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ روہت ویمولا سمیت کئی اسکالر طالب علموں کو محض دلت سمجھ کر اس قدر زد و کوب کیا گیا اور ستایا گیا کہ روہت ویمولا خود کشی کرنے پر مجبور ہوا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسکالر طالب علموں نے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائی تو انھیں ہر طرح سے نیچا دکھانے اور سرنگوں کرنے کی کوشش کی گئی، یہاں تک کہ ان پر غدارِ وطن کا قانون لاگو کیا گیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ اب یہ سلسلہ گجرات میں شروع ہوا ہے، دلت نوجوانوں کو صرف اس لئے مارا پیٹا گیا کہ وہ مری ہوئی گائے کے چمڑے نکال رہے تھے۔ جب گجرات میں دلت نوجوانوں کو زدوکوب کیا جارہا تھا تو اس منظر کو کیمرے میں قید کرلیا گیا اور اب اسے ٹی وی کی اسکرین پر دکھایا جارہا ہے اور سوشل میڈیا نے بھی اسے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلادیا۔ گجرات کے دلتوں نے اب یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ مری گائے کو نہ اٹھائیں گے اور نہ چمڑی اور ہڈی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ دلتوں میں سے بہت سے لوگوں نے برہمنوں پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گائے کی پوجا کرتے ہیں اور اسے مقدس مانتے ہیں لیکن جب یہی گائے مرجاتی ہے تو اس کے قریب جانا یا چھونا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیا یہ کھلی منافقت نہیں ہے۔ دلتوں کی یہ آواز پورے ملک میں پھیل گئی اور ملک کے سارے دلتوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ مری گائے کو ہاتھ نہیں لگائیں گے چاہے ان کی جان چلی جائے۔
ابھی دلتوں کو گائے کے تعلق سے جو ستایا جارہا تھا وہ سلسلہ بند بھی نہ ہوپایا تھا کہ اتر پردیش کی بی جے پی کے نائب صدر دیا شنکر نے مایا وتی کو فاحشہ کہہ کر دلتوں کے اندر غصے کی لہر پھیلا دی جس کی وجہ سے پورے اتر پردیش میں دلت سنگھ پریوار کے خلاف جینے مرنے کیلئے تیار ہوگئے۔ بی جے پی کی قیادت میں دیا شنکر کو پارٹی سے برخاست کردیا مگر دلتوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ اب وہ دیا شنکر کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دیا شنکر گرفتاری سے بچنے کیلئے روپوش ہوگئے ہیں۔ ملائم سنگھ کی پولس ان کو گرفتار کرنے سے کترا رہی ہے کیونکہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی میں درپردہ سمجھوتہ ہے۔ یہ بات بھی نہ صرف دلتوں کو معلوم ہوگئی ہے بلکہ مسلمان بھی اس راز سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ ملائم سنگھ بہار کے الیکشن کے موقع پر مہا گٹھ بندھن (عظیم اتحاد) کو شکست دینے کا خواب دیکھ رہے تھے اور اعلان کیا تھا کہ لالو پرساد اور نتیش کمار بہار میں منہ کے بل گریں گے اور سنگھ پریوار والے سرخرو ہوں گے۔ اتر پردیش میں بھی محمد اخلاق اور ان کے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا اتر پردیش کی حکومت بی جے پی کے اشارے پر مجرموں کو آج تک سزا نہیں دلا سکی۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ خونخوار جانور جو سنگھ پریوار کے سیاسی دل میں شامل ہیں وہ محمد اخلاق مرحوم کے خاندان والوں کو بھی نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اخلاق کے خاندان والے بستی چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اب سنگھ پریوار والے ان کے خاندان کو پھنسانے کیلئے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کیا ہے کہ ان کے گھر کے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہوا تھا۔ اس لئے گھر کا ہر فرد مجرم ہے۔ پہلے یہ خبر آئی تھی فورنسک لیباریٹری نے اپنی جانچ میں بتایا تھا کہ گائے کا گوشت نہیں ہے بلکہ بکرے کا ہے۔ اب کئی مہینوں کے بعد سنگھ پریوار والوں نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ متھورا کی لیباریٹری نے اپنی جانچ میں بتایا ہے کہ اخلاق کے فریج میں گائے کا گوشت تھا۔ اتر پردیش کے قانون میں گائے کو ذبح کرنا غیر قانونی ہے لیکن گائے کے گوشت رکھنے کے خلاف وہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ اس کے باوجود سنگھ پریوار والے قانون کے نام پر کھلواڑ کر رہے ہیں اور ریاستی پولس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش کا بیان آیا ہے کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ جانچ کس نے کرائی اور کب کرائی اور کیوں کرائی۔ جس ریاست کے سربراہ کا یہ حال ہو وہاں کمزوروں اور مظلوموں پر کیا نہیں ہوسکتا۔
اب مسلمانوں اور دلتوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ دونوں سنگھ پریوار کے مظالم کے شکار ہیں۔ اگر یہ دونوں خلوص اور سچائی کے ساتھ ایک ہوجائیں اور ایک دوسرے کو اپنا بھائی بنالیں تو ملک کی صورت حال بدل سکتی ہے۔ لیکن مسلمان لیڈروں کو زمین پر قدم رکھنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ دلتوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔ بعض لوگوں کا تجربہ و مشاہدہ یہ ہے کہ دلت بعض وجوہ سے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ موقع پر دھوکہ دے دیتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ بھی ہو جب بھی مسلمانوں کو دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے کہ اگر مسلمان برائی کو بھلائی سے دفع کریں گے تو وہی دشمن ان کے جگری دوست بن سکتے ہیں۔ یہ بات اللہ کی طرف سے کہی جارہی ہے اور قرآن مجید میں یہ درج ہے۔ ماضی میں مسلمانوں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور صنم خانے سے انھیں کعبے کیلئے پاسباں مل گئے۔ میرے خیال سے حسن ظن سے کام لیتے ہوئے مسلمان دلتوں کو اور ملک کے کمزور طبقوں کو گلے لگائیں اور جو اسلام میں بھائی چارہ اور اخوت و محبت کا پیغام ہے ان تک پہنچائیں اور عملی مظاہرہ کریں تو دلتوں کے دل و دماغ میں بہت بڑی تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر مسلمان ہونے کیلئے بالکل تیار تھے لیکن مسلمانوں کے مسلکی جھگڑے اور علماء کی برہمنیت ڈاکٹر امبیڈکر کے آڑے آئی۔ بدقسمتی سے وہ مسلمان نہیں ہوسکے۔ آج بھی ڈاکٹر امبیڈکر جس ذات پات سے نفرت کرتے تھے وہی ذات پات مسلمانوں میں در آئی ہے اور جس طرح ہندو کاسٹ سسٹم چھوڑنے سے قاصر ہیں اسی طرح اللہ و رسول کی مساوات اور بھائی چارے کی تعلیمات کے باوجود ذات پات کے نظام میں مسلمان بھی گرفتار ہیں۔ نہ انھیں خطبۂ حجۃ الوداع بدل پارہا ہے اور نہ قرآنی تعلیمات کا ان پر کچھ اثر ہے۔ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے بجائے انھیں اپنے خاندان کی روایات زیادہ محبوب ہیں۔ ضرورت ہے ایک طرف مسلمان رجوع الی اللہ ہوں۔ اپنے گناہوں اور قصوروں سے توبہ کریں اور ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھیں۔ ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کریں اور جو لوگ مظلوم ہوں ان کا ساتھ دیں۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کی مظلومیت بھی ختم ہوسکتی ہے اور مسلمانوں کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ۔۔۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔