دعا

سیدہ شیما نظیر، حیدرآباد

ثنا کالج کی سب سے ٹاپر تھی جتنی خوبصورت وہ تھی پڑھائی میں اس سے کہیں زیادہ آگے تھی۔۔

یہی وجہ ہے کہ سب لڑکیاں اس کے اگے پیچھے گھومتی تھیں اور تو اور اگزام میں بھی ہر کوئی اس کے پاس بیٹھنے کو پسند کرتا، اس کے سارے کام تمام لڑکیاں نھاگے بھاگے کرتیں۔

اسے عادت پڑ گئی تھی ، جب کسی کی مدد کرتی لیکن بدلے میں ضرور کوئی چیز مانگتی اور لڑکیان اس کی ڈیمانڈ پوری بھی کرتیں۔

اسی طرح کالج کے دو سال کچھ پڑھائی اور ہنسی مذاق  میں گزرگئے۔

فائنل اکزامس اسٹارٹ ہوئے تو میمونہ کا رول نمبر اس کے ساتھ تھا۔

وہ میمونہ کو پسند بھی نہی کرتی تھی

کیونکہ وہ لڑکی بہت غریب گھرانہ سے تھی اور اس کی نہ ہیلپ لیتی تھی نہ اس کے بدلے اسے کچھ ملتا تھا۔

اکزامس شروع ہوگئے اکزامس سے ایک دن پہلے ہی میمونہ آئی اپنا ہال ٹکٹ لیا اور چلی گئی۔

اس کے بعد وہ روز اکزام لکھنے لگے،

لیکن چوتھے پیپر میں یعنی ریاضیات کے پرچے میں اسے مدد کی ضرورت پڑی۔ اس نے ثنا سے مدد مانگی

اتفاق سے ٹیچر بھی نہی تھے اس نے پوچھا

تو ثناء نے کہا کیوں پڑھ کر نہیں آئیں۔

اس نے روہانسی صورت بنائی اور کہا ایک مہینہ سے ممی ہسپتال میں ہیں میں چھوٹے بھائی بہن کو پڑوس والے آنٹی کے پاس چھوڑ کر آرہی ہوں یہاں سے جاکر مجھے ہسپتال جانا ہوتا ہے پڑھ نہی پاتی۔۔۔

اوہ ہہہہہہ

بڑی بے رخی سے سر کو جھٹکا۔

پھر سوال داغا:

اچھا! اگر میں بتادوں تو بدلے میں کیا دوگی؟

میمونہ نے ایک لمحہ توقف کے بعد کہا

مجھ غریب کے پاس اگر کچھ ہوتا تو ممی کو میونسپلٹی کے ہاسپٹل میں داخل نہ کرتےـ

میں تو صرف تمہیں دعا ہی دےسکتی ہوں۔

ثنا نے کہا

ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔

لکھ لو اور پھر اکزام ختم کرکے وہ نکلی اور گھر کی جانب چل دی۔

جب وہ بس میں سوار جارہی تھی دل کچھ عجیب سا ہورہا تھا۔

خیر سے راستہ کٹ گیا اور وہ اپنے ریگولر اسٹاپ پر بس سے نیچے اتر گئی اور پلٹ کر گلی کی جانب مڑی تھی کہ ایک زور دار دھماکے نے سارے محلے کو ہلا کر رکھ دیا۔

جب اسے ہوش آیا تو اپنے آپ کو ہاسپٹل میں پایا۔

حالات معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ

جیسے ہی وہ بس سے اتری دس قدم جاتے ہی اس بس میں بلاسٹ ہوگیا کوئی ایک ٹفن باکس چھوڑگیا تھا جس میں بم تھا۔

ماں اس کی بلائیں لیتی جارہی تھی اور کہتی جارہی تھی کہ پتہ نہی کس کی دعا آڑے آگئی آج جو میری بچی کی جان بچ گئی۔

میں تو سو فقیروں کو کھانا کھلاؤں گی……………………..وغیرہ …….وغیرہ……..اور بھی جانے کیاکیا

مگر اس کے کان میں صرف ایک آواز ہی گونج رہی تھی۔۔۔

” میں تو تمھیں صرف دعاہی دےسکتی ہوں”

اور اس کا مغموم چہرہ اسکی نظروں میں گھوم رہا تھا۔

ثنا نے ایک جھرجھری سی لی اور سچے دل سے توبہ کی۔۔۔ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔

اسے لگا کہ آج اگر وہ زندہ ہے تو صرف میمونہ کی دعا کی وجہ سے

ورنہ وہ بھی………….

اس خطرناک حادثہ کا شکار ہوگئی ہوتی……

پھر اس کے آنکھوں سے آنسو کی جھڑی بہہ نکلی جسے اس کی ماں کے آنچل نے جذب کرلیا۔

کیا واقعی دعا میں اتنی طاقت ہے وہ سوچنے لگی………

اور میمونہ کے حق میں دعا کرنے لگی……….!

تبصرے بند ہیں۔