سنگھ پریوار کی یہ گؤ پرستی ہے یا فرقہ پرستی؟

عبدالعزیز

 گائے دیگر جانوروں کی طرح ایک جانور  ہے مگر اس جانور کی ہمارے ملک میں ہندو بھائی پوجا اور پرستش کرتے ہیں اور اسے اپنی ماتا اور دیوی سمجھتے ہیں ۔ اس کے پیشاب اور گوبر تک کو پَوِتر (پاک) سمجھتے ہیں ۔ ان کو ایسا کرنے کا حق ہے لیکن گائے یا گوشت کے نام پر انسانوں کے قتل کو روا رکھنا سراسر حیوانیت ہے بلکہ دشمن انسانیت ہے۔گائے کے تحفظ کیلئے قانون بنا ہے۔ بہت سی ریاستوں میں بلکہ اکثر ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد ہے۔ یہی لوگ جو گائے کو اپنی ماتا سمجھتے ہیں ۔ گوا، کیرالہ اور شمال مشرقی ہند کی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ یا گائے کے گوشت پر کوئی پابندی عائد کرنے کی آواز تک نہیں اٹھاتے۔ ہندستان کے باہر تمام ملکوں میں گائے کو محض ایک جانور سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پرستش یا پوجا نہیں کی جاتی ہے اور نہ اس کے گوبر یا پیشاب کو تقدس کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اور نہ ہی ہمارے ہندو بھائی جہاں صدیوں سے زندگی گزار رہے ہیں گائے پرستی کی آواز بلند کرتے ہیں ۔

 2015ء میں اتر پردیش کے ایک علاقہ دادری کے محمد اخلاق کو گئو پرستوں نے اس شبہ میں گھر سے گھسیٹ گھسیٹ کر مار ڈالا کہ محمد اخلاق کے فریز میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے ایسا کیا وہ سنگھ پریوار کے لوگ تھے۔ ان کے اس قدم کو کئی مرکزی وزراء اور کئی ایم ایل اے، ایم پی نے درست اور صحیح ٹھہرایا اور جولوگ مجرمانہ حرکتوں کے مرتکب ہوئے تھے ان کی رہائی کی ہر ممکن کوشش کی۔ چند دنوں پہلے راجستھان کے الور میں پہلو خان جو دودھ کے کاروباری تھے گائے خرید کر لے جارہے تھے۔ ان کو پکڑ کر گائے پرستوں نے سر عام قتل کردیا۔ جبکہ پہلو نے گائے کو قانون طور پر خریدا تھا جس کا بل بھی ان کے پاس تھا۔ تین سال پہلے اسی طرح گائے کے دو تاجر جس میں ایک کم سن تھا جھار کھنڈ کے لاتیہار میں دونوں کو قتل کرکے لاشوں کو درخت کی شاخ میں باندھ کر لٹکا دیا تھا۔ اس طرح دو ڈھائی سال کے اندر کئی اور وارداتیں ہوئیں ۔ پنجاب سے ہریانہ کے راستہ میں ایک ٹرک ڈرائیور اور خلاصی کو گائے پرستوں نے جب پیچھا کیا تو دونوں جان بچانے کیلئے ندی میں کود گئے، جس میں ایک کی جان بچی وہ مسلمان تھا جبکہ دوسرا جو ٹرک ڈرائیور تھا وہ ہندو تھا جس کی لاش ندی کے پانی میں تیرتی ہوئی ملی۔ یہ ہے گائے کے محافظوں کے سیاہ کارنامے۔ یہ ننگ انسانیت ہی نہیں ، ننگ دین اور ننگ وطن ہیں ۔

وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خاص موقع پر گائے کے نام نہاد محافظین غنڈے اور بدمعاش نظر آئے جب ریاست گجرات میں دلت فرقہ کے چند نوجوانوں کو محض گائے کے چمڑے ادھیڑنے میں گائے پرستوں نے مار مار کر نیم مردہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے پورے ملک میں دلتوں نے زبردست احتجاج کیا تھا۔ اس وقت وزیر اعظم کی زبان بند ہے کیونکہ گائے پرستوں کے حملے کے شکار مسلمان ہیں ۔ وزیر اعظم مسلمانوں کو کتیا کا پلا سمجھتے ہیں تو آخر ان کو کیسے انسانیت کا حصہ سمجھیں ۔ اگر ایسا کچھ سمجھیں گے تو ان کی مقبولیت کا گراف گرسکتا ہے۔

 اتر پردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد گائے پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں کیونکہ حکومت کہنے کو غیر قانونی ذبیحہ خانے یا گوشت کی دکانوں کو تالے لگا رہی ہے مگر لائسنس کی آڑ میں قانونی اور غیر قانونی سارے ذبیحہ خانوں کو بند کر ہی ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ موریہ نے تو ایک بیان میں صاف صاف کہہ دیا کہ قانونی اور غیر قانونی تمام ذبیحہ خانے بند کر دیئے جائیں گے۔ اتر پردیش میں گائے ذبیحہ پر پابندی ہے۔ اب بھینس اور بیل کے ذبیحہ پر پابندی کی بات کی جارہی ہے بلکہ عمل بھی کیا جارہا ہے کیونکہ حکومت ایسے لوگوں کی ہوگئی ہے جو اپنے آپ کو قانون اور دستور سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔ جب ملک میں عدالت ہے، پولس ہے اور دستور ہے ان سب کے باوجود قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کو ئی ڈر اور خوف نہیں ہے تو آخر عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ ان سب کا وجود اور عدم وجود برابر ہوجاتا ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو پھر ملک کی سالمیت اور سلامتی آخر کیسے اور کیونکر باقی رہے گی۔ اس پر سنگھ پریوار کے خونخوار ممبران سوچنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور نہ ان کا حکمراں طبقہ غور و فکر سے کام لے رہا ہے۔ یوگی گائے پرستی اور فرقہ پرستی کی علامت ہیں ، ان کی یہی ادا مودی اور امیت کو بیحد پسند آگئی ہے، جس کی وجہ سے انھیں وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ اس طرح جو سب سے زیادہ فرقہ پرست اور گائے پرست ہوگا وہی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کی گدی پر بٹھایا جائے گا۔ ایسی صورت میں ملک کا کیا حال ہوگا؟

 سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی (CSDS) کی رپورٹ انتہائی تشویشناک ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فرقہ واریت کی آگ ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے پر آمادہ ہے اور اگر جلد اس پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ آگ جھونپڑیوں کوبھی جلائے گی اور قصر سلطانی کو بھی۔

 سوسائٹی اینڈ پولیٹکس بٹوین الیکشنس نامی ادارہ کے ایک تازہ سروے نے پورے ملک کے باشعور اور فکر مند لوگوں کو ہلاکر رکھا دیا ہے۔ سی ایس ڈی ایس کے تحت ہوئے اس سروے کے مطابق ہندستان میں دوستی اور دشمنی کا معیار مذہبی بنیادوں پر ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں ہندو بھائیوں کی سوچ کافی تنگ ذہنی کی شکار ہے۔ 33فیصد ہندو مسلمانوں سے تعلق اور دوستی کے خواہاں ہیں جبکہ 74فیصد ہندوؤں سے دوستی اور تعلق رکھنا چاہتے ہیں ۔ گجرات، ہریانہ، کرناٹک اور اڑیسہ میں حالات دوسری ریاستوں سے بھی زیادہ خراب ہیں ۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی جو بیحد الارمنگ (Alarming) ہے کہ صرف 13فیصد ہندو مسلمانوں کو محب وطن سمجھتے ہیں ۔ریسرچ میں یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ گائے کے ذبیحہ پر کیا سزا ملنی چاہئے؟ قومی ترانہ پر کھڑا نہ ہونے والے، بندے ماترم کے گانے سے احتراز کرنے والے یا گوشت کھانے والوں کے ساتھ حکومت کا کیا رویہ ہونا چاہئے۔ ان جیسے متعدد سوالوں پر لوگوں کا رد عمل نہایت جارحانہ ہے۔ 72فیصد لوگوں کا رد عمل سخت اور جارحانہ تھا۔

 سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرقہ پرستوں کی کوششوں اور چالوں کو فرقہ واریت پھیلانے میں زبردست کامیابی ملی ہے۔ جو لوگ اعتدال پسند ہیں اور ملک کی سا  لمیت اور سلامتی کو کسی حال میں خطرہ میں دیکھنا نہیں چاہتے ہیں ، ان کی سخت آزمائش شروع ہوگئی ہے۔ خاص طور سے مسلمانوں کی۔ ان کو اپنی آزمائش اور امتحان میں کھرے اترنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ پرستوں کو مات دینے کا واحد طریقہ ہے کہ ملک کے اندر امن و سلامتی، بھائی چارہ اور اخوت و محبت کی فضا پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ جو لوگ امن کے دشمن ہیں وہ بزدل اور کم ہمت ہوتے ہیں ۔ اگر حوصلہ مند اور عزائم رکھنے والے لوگ کم ہی ہوں جب بھی انسان دشمنوں کی بڑی تعداد پر بھاری پڑیں گے۔ دنیا میں حیوان پرستوں کی ہمیشہ شکست ہوئی ہے اور انسان دوستوں کی جیت ہوئی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔