صحت اور اسلامی تعلیمات

عبد الرشید طلحہ نعمانی

اسلام،دین فطرت ہے؛ جوپوری انسانیت کی ہرشعبے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے، اسلام کی پاکیزہ تعلیمات جہاں عقائد وعبادات ،معاشرت ومعاملات اور اخلاق وآداب کے تمام پہلوؤں کوجامع ہیں،وہیں حفظان صحت اور تندرستی کے معاملے میں بھی اسلام کی معتدل ہدایات موجود ہیں؛جن پر عمل پیرا ہوکر ہم نہ صرف صحت مند زندگی گزار سکتےہیں؛ بل کہ بہت سی مہلک بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں ۔

غورکریں توصحت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ ہے ؛بل کہ قدرت نے جتنی وسیع منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی ہے اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لیے بھی نہیں کی ،خودہمارے جسم میں باری تعالی نے ایسے ایسے نظام رکھےہیں کہ؛جنہیں دیکھ کرانسانی عقل حیران وشش در رہ جاتی ہے۔

ایک ریسرچ کے مطابق ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے، یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں؛مگر ہماری قوت مدافعت ،ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتی رہتی ہے،مثلا ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارےدل کو کمزور کر دیتے ہیں؛ لیکن ہم جب تیز چلتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے، ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں،یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیم سے بچ جاتا ہے؛اسی طرح ہمارا جگرجسم کاوہ واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو تا ہے،ہماری انگلی کٹ جائے، بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ جداہوجائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا ؛جب کہ جگر ایساواحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے،سائنس دان حیران تھےکہ قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟

آج پتہ چلا کہ جگر عضو رئیس ہے،اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں چناں چہ اس کی اسی اہلیت کی وجہ سے آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں،ایسے ہی ہم روزانہ سوتے ہیں، ہماری نیند موت کا مقدمہ ہوتی ہے، انسان کی اونگھ،ہلکی نیند،گہری نیند،بے ہوشی اور موت ،پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں،ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہمارےاور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے،ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں؛ مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں۔
صحت دنیا کی ان چند بیش قیمت نعمتوں میں شمار ہوتی ہے کہ جب تک یہ قائم ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی؛ مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑدیتی ہے،ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی،ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک صحت کاتخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص کم از کم ارب پتی ہے۔

آج دنیا کے لاکھوں لوگ کمر درد کا شکار ہیں،قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کوپریشان کررکھاہے،دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے،آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے، شوگر،کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں،منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔

جب ہم ان مختلف پیچیدہ امراض اور مہلک بیماریوں کو دیکھتے ہیں تواحساس ہوتاہے کہ ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم اوربہت بڑااحسان ہے؛لیکن اس کے باوجود اکثرافراد اس نعمت عظمی کی قدر نہیں کرتے،جیساکہ نبی کریم ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی: ’’نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس: الصحۃ والفراغ‘‘۔دو نعمتوں کے حوالے سے عموما لوگ دھوکے میں مبتلا ہوتے ہیں: صحت اور فراغت (بخاری ومسلم)

ایک روایت میں ہے کہ صحابیؓ نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ پانچوں نمازوں کے بعد کیا دعا مانگوں؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگا کرو، دوبارہ سوال پر بھی یہی ارشاد فرمایا، اور تیسری دفعہ بھی فرمایا: اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔

عالمی یوم صحت کا پس منظر:

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ،عالمی ادارۂ صحت(ڈبلو ،ایچ، او) کے تعاون واشتراک سے ہر سال7/ اپریل کو دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن مناتےہیں اور یہ سلسلہ 1950ء سےجاری ہے۔عالمی یوم صحت درحقیقت صحت جیسےحساس موضوع اوراہم مسئلہ پر لوگوں کے درمیان بیداری لانے کا ایک سالانہ پروگرام ہے؛جس میں سال بھر لوگوں کی توجہ صحت پر مرکوز رکھنےکی ہدایت دی جاتی ہے اور صحت افزاءپروگراموں کو جاری رکھنے کے لئے ایک مخصوص موضوع کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔

عالمی سطح پر صحت کے سنگین مسائل کو عالمی یوم صحت کا موضوع بنایا جاتا ہے ؛ جس کے تحت اسکولوں، کالجوں عوامی مقامات اور دیگر متعلقہ طبی تنظیموں اور ڈبلیو ایچ او کے ذریعہ کئی طرح کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور لوگوں میںشعور و آگہی پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
ڈبلیو ایچ او، اقوام متحدہ کے تحت طب کے میدان میں کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم ہے جس نے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں جذام، پولیو، چیچک، دمہ سمیت کئی سنگین بیماریوں کو اپنے قیام کے دن سے مٹانے کی کوشش کی ہے اور ایک صحت مند دنیا کی تعمیر کے ہدف میں اہم رول ادا کیا ہے، اس کے پاس عالمی صحت کی رپورٹ کے تمام اعداد وشمار موجود ہیں۔

یہاں غور کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مغرب کی جانب سے ہرسال بڑے پیمانے پر یوم صحت منایا جاتا ہے ؛ مگر مضرِّ صحت نت نئی غذائوں کا فروغ، نشہ آور اشیاء کی کثرت،نائیٹ ڈیوٹی کی شکل میں مناسب نیند سے محرومی ،بدکاری وزنا کاری کے ذریعہ مختلف امراض کا شیوع بھی مغرب ہی کی دین ہے جو صحت کو متاثر کرنے اور انسانیت کو ہلاکت کے دہانے پر لاکھڑا کرنے میں مؤثرکردار ادا کر رہے ہیں۔

عالمی یوم صحت کیوں منایا جاتا ہے:

صحت، تمام ترقیوں کی شاہ کلید ہے،صحت کی نعمت سے محروم شخص اپنی ذاتی قوت و صلاحیت کے استعمال سے معاشرے کی صلاح و فلاح کے لیے خدمات انجام دینے کے قابل نہیں ہوتا،صحت کا فقد ان صرف جسم ہی نہیں بلکہ دل و دماغ خیالات و افکاراخلاق و افعال سب کو متاثر کرتا ہے،ایک عربی کہاوت ہے کہ‘‘جو شخص صحت رکھتا ہے وہ امید رکھتا ہے اور جو شخص امید رکھتا ہے وہ سب کچھ رکھتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ صحت، نعمت خداوندی اور دولت بے بہا ہے جس کے پاس صحت ہے وہ دنیا کا سب سے دولت مند انسان ہے اور جس کے پاس صحت نہیں ہےوہ سب سے بڑا مفلس ہے،صحت مند رہنے کے لیے دنیا بھر کے محققین نے کئی اصول وضع کیے ہیں ؛جن کی افادیت مسلم ہے اور ان اصولوں پرعمل پیرا ہوکر نہ صرف صحت مند رہا جاسکتا ہے؛ بلکہ اسباب کی اس دنیا میں لمبی زندگی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
شکا گو کی ایک یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ڈیوڈبیکر نے لمبی عمر پانے کے لیے ایک تحقیق سے نئی بات معلوم کی کہ ایسے افراد جن میں صحت کے معاملات کی سمجھ بوجھ زیادہ ہےان میں مرنے کی شرح کم ہے۔

صحت اوراسلامی تعلیمات:

جانناچاہئےکہ انسانی صحت کا دارومدار محض جسمانی تندرستی وتوانائی اورظاہری نشونما پر نہیں ہے؛ بلکہ اس کے علاوہ حفظانِ صحت کے اور بھی عوامل ہیں؛جنہیں اطباء نے مفصل بیان کیاہے ۔چناں چہ متوازن غذا، مناسب نیند، آلودگی سے پاک فضاء، طہارت ونظافت پر مشتمل ایک طویل خاکہ ہے ؛جس کو اپنا کر ہم ایک صحت منداور خوش گوارزندگی گذارسکتے ہیں۔

(1)خوراک کے سلسلے میں :
حفظانِ صحت میں خوراک، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، متوازن خوراک اور معتدل غذاسے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے، وہ مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اور محنت کی قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس بارے میں قرآن نے صرف تین جملوں میں طب قدیم اور طب جدید کو سمیٹ لیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
’’کھاؤ، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الاعراف:31)یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ؛کھانا پینا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے، البتہ اس میں اعتدال سے کام لینا صحت کے لیے ضروری ہے۔ نہ کھانے، یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیمار پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدہ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدہ کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے، حضور ﷺ کا ارشاد ہے:’’معدہ بدن کے لیے تالاب ہے اور رگیں اسی کی طرف جسم کے مختلف حصوں سے وارد ہیں ، جب معدہ صحیح حالت میں ہو تو رگیں بھی جسم کے تمام حصوں کو صحت (صحیح خون) مہیا کرتی ہیں اور جب معدہ بیمار پڑ جائے تو اس سے رگوں کے ذریعے تمام جسم بیمار پڑ جاتا ہے۔‘‘(طبرانی۔ المعجم الاوسط)

(2) صفائی اور نفاست پسندی کے بارے میں:
گھر اور ماحول کی صفائی اور مزاج کی نفاست پسندی کا بھی صحت میں بڑادخل ہے۔
اسلام نے انسانوں سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف ہونی چاہیے۔ارشادربانی ہے:ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین(البقرۃ:۲۲۲)” اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو توبہ کا رویہ اختیار کریں اور خوب پاکیزہ رہیں“۔
ایک حدیث میں طہارت و نظافت پر نبیِ کریمﷺ نے فرمایا:الطھور شطر الایمان (مسلم:۳۲۲)
”پاکی نصف ایمان ہے“مزید اس جانب توجہ دلاتےہوئے ارشاد فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ پاک و صاف ہے اور پاکی و صفائی سے محبت رکھتا ہے، کریم اور سخی ہے، کرم اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، اس لیے اپنے گھر بار، صحن (اور گلی کوچوں ) کو صاف ستھرا رکھو۔‘‘(البزاز فی مسندہ)

(3)ورزش کے تعلق سے:
خوراک اُس وقت مفید ثابت ہوتی ہے جب وہ اچھی طرح ہضم ہو جائے،اورغذا ہضم کرنے کے لیے محنت اور ورزش کی ضرورت ہے، اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کا مشغلہ پڑھنا پڑھانا، یا اور کوئی ایسا پیشہ ہو جس میں اسے ورزش کا موقع نہیں ملتا اور وہ اسلامی فرائض و واجبات بہ طریق احسن ادا کرتا ہے، تب تو اس کو ورزش کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی، صبح سویرے اٹھنے، وضو، غسل کرنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، حج اور جہاد کے لیے جانے اور دیگر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے سے اس کی یہ ضرورت خود بہ خود پوری ہوسکتی ہے۔
تاہم اسلام میں بعض مفید ورزشوں کا جواز بھی موجود ہے، جو دورِ جدید کے بے ہودہ مشاغل اور انگریزی طرز کے کھیل کود سے بہ درجہا بہتر ہے۔ یہ مشاغل کھیل کود اور ورزش کے ساتھ ساتھ ایک مفید فن اور ہنر بھی ہیں ، مثال کے طور پر:شاہ سواری ،شرط لگائے بغیر گھڑ دوڑ کا مقابلہ،تیر اندازی،نشانہ بازی،شکار کھیلناوغیرہ ،ان ریاضتوں کی بہ دولت انسان کے تمام اعضا، خصوصاً آنکھ، کان، زبان، پٹھوں ، گوشت پوست اور ہڈیوں وغیرہ کی ورزش ہوتی ہے۔

(4) نیند اور آرام کی اہمیت پر:
نیند بھی حفظانِ صحت کے لیے ضروری ہے، ایک صحت مند انسان کے لیے دن رات میں آٹھ گھنٹےکی نیند ضروری ہوتی ہے، محنت اور دن بھر کام کاج کرنے سے جسمانی قوتیں تھک جاتی ہیں اور آرام کی طالب ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو دن، رات میں تقسیم کر کے اس فطری ضرورت کو پورا کیا ہے، ارشاد خداوندی ہے:’’خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (کہ اس میں کام کرو)۔‘‘(المومن:61)
حضور ﷺ کا بتایا ہوا نیند کا طریقہ بالکل فطری ہے اور حفظانِ صحت کے لیے اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہوسکتاکہ جلد سویاجائے ،باوضو سویاجائے،صبح جلد اٹھنے کی فکر کی جائے ،دوپہرمیں قیلولہ کیاجائےوغیرہ۔

یوم صحت منانے والوں کے نام:

عالمی یوم صحت پر ہم یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر انسان اپنے آپ کو صحت مند اورتوانا رکھنا چاہتا ہے تو اُس کو جناب رسالت ماٰب ﷺکے بتائے ہوئے طریقوں کو اپناناہوگا: صبح جلدی اٹھنا، مسواک کرنا، جب بھوک لگے تب کھانا،پیٹ بھرنے سے قبل کھانا چھوڑدینا (یعنی کہ بھوک رکھ کر کھانا)، سادہ غذا کا ستعمال کرنا،صبح فجر کی نماز کے بعد واک کرنا،دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کرنا، رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کرنا، کھانا کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھونا،پانی کو تین سانسوں میں پینا، پانی بیٹھ کر پینا، دستر خوان بچھا کر کھانا کھانا،پلیٹ وغیرہ اچھی طرح صاف کرنا ،کھانے کے بعد ہاتھوں کی انگلیوں کو چاٹنا،نشہ آور اور مضر صحت چیزوں سے اجتناب کرنا وغیرہ۔

غرض صحت مند رہنے کے بے شمار اصول ہیں ؛مگرآج جدید سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ صحت مند رہنے کے جو اصول اور طریقے جناب رسول اللہﷺ نے بتائے ہیں وہ طریقے قیامت تک آنے والے انسان کیلئےمشعل راہ ہیں۔

دنیا میں ہزاروں بیماریاں ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ نے اگر بیماری کو پیدا کیا ہے تو اُ س کی دوابھی پیدا کی ہے ، جدید سائنسی ریسرچ کا کہنا ہےکہ انسانی جسم کے 365جوڑ ہیں جب ایک مسلمان اپنے اﷲ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اچھے طریقہ سے نماز ادا کرتاہے تو انسان کے تمام جوڑ حرکت کرتے ہیں جس سےغیرارادی طورپر تمام جسم کی ورزش ہوتی ہےاور انسان متعددامراض سے محفوظ ہوجاتاہے۔

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا

تبصرے بند ہیں۔