سنگ میل بنو، سنگ راہ نہیں!

عظمت علی

امام جعفر صادق علیہ السلام باب علم و شہر حکمت سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے خاندان کا طرہ امتیازیہ تھاکہ انہوں نے کبھی بھی  غیر کےسامنےزانوئے ادب تہہ نہیں کیا۔ بلکہ مشہور زمانہ علماء بھی آپ کےدر سے علمی خیرات مانگنے کو قابل صد افتخار سمجھتے۔ آپ کی چوکھٹ سے شب وروز علم کی خیرات تقسیم ہوتی۔ جو ان کےدر سے متمسک ہوگیا وہ یا حبرالامۃ بنا یا امام اعظم !

ہر زمانہ میں آ پ کےآباء و اجداد کی عظمت ووجاہت کا سکہ چلتارہا ہے اور لوگوں کے دلوں پران کا علمی قبضہ رہا ہے . آپ  سلسلہ علم و عصمت کی ایک کڑی  تھے۔ لہذ ا، دیگر فرزندوں کے بجائے آپ کے والدین اور دادا کی خاص توجہ کا مر کز آپ ہی ذات گرامی  رہی ہے۔ چونکہ آپ غیر معمولی صلاحیتو ں کے حامل تھے۔

آپ کاعہد اتنابے کیف اورگھٹن کاتھا کہ جہاں مشعل حق وحقانیت چراغ سحری کی طرح ٹمٹمارہاتھا۔ باطل کی تاریکیاں پوری فضاء کو اپنے حصار میں لئے ہوئی تھیں۔ لوگ مفاد پرستی اورشخصیت پرستی کے دریا میں غرق تھے۔ عوام الناس منصب، اقتدار، تخت وتاج اور جاہ  حشمت کی طمع میں اپنے قریبی حضرات کو بھی راستہ کا پتھر سمجھ کر ہٹادیتے تھے۔ انسانیت ظلم و استبدادکی چکی میں پس رہی تھی۔ یہ اس چھینا چھپٹی کا زمانہ تھا جب بنی امیہ کی حکومت کا چراغ مدہم ہوجانے کو تھااور بنی عباس برسر اقتدار آنے کو تھے۔ امام دونوں اسلام دشمن حکومت کی نیرنگیاں مشاہدہ کررہے تھے۔

40ھ قائم جبروتی حکومت نے ہمیشہ آل اطہارپر تشدد و بربریت سے کا م لیا۔ اس کی انتھک کوشش یہ ہوتی کہ خاندان رسو ل کو ہرآن شکنجوں میں رکھاجائے۔ اسی باعث جاسوسوں نے لمحہ لمحہ کی حرکات وسکنات کو اپنی نظر میں رکھا کہ کہیں لوگ آپ کے فضل وکمال کی بناء پر آپ کے ہمراہ نہ ہوجائیں اور ہماری ظالمانہ حکومت کی ناؤڈوب جائے!

اس ظالم حکومت کے مظالم کاشمار کرنا محا ل  نہ سہی مگر مشکل ضرورہے۔ لیکن امام حسن کےجنازے پر تیروں کی بارش، کربلا میں فرزندان اسلام کاقتل، مدینۃ الرسول کی بے حرمتی، بیت اللہ کی تاراجی، آئین اسلام کی پامالی اور شرعی قوانین کی توہین۔ ۔ ۔ ایسے شنیع و جگر خراش واقعات تھے جو لمحہ بہ لمحہ امت مسلمہ کے فکر و ذہن کو جھنجھوڑ رہے تھے۔ آخرش!سوئی ہوئی فکریں بیدارہوئیں۔ ان دلخراش سانحے کا مسلمانوں کے دلوں پر گہرااثر پڑااوراتنا گہراثر پڑاکہ مردہ بھی بول اٹھے !

پھر کیاتھا ؟ لوگوں نے برملامخالفت شروع کردی۔ بنی عباس نے اس موقع کی نزاکت کابھر پورفائدہ اٹھایا۔ انہوں نے لوگوں کو حالیہ حکومت کے خلاف خوب بھڑکا یا۔ کہاوت مشہور ہےکہ چڑھتے سورج کی دنیا پوجا کرتی ہے۔ لہذا!عوام الناس نے شانہ بشانہ ہوکر حکومت وقت کی چولیاں ہلادیں اور بنی عباس "یالثارات الحسین "کا انقلابی نعرہ لگاکر بازی لے گئے۔

بالآخر! اموی حکومت کا چراغ گل ہوا، غاصب، صاحبان اقتدار اپنی اپنی قبروں کوہو چلے اور زمینی کیڑے مکوڑے کی خوراک بن گئے اور ان کے نام پر تا صبح قیامت لعنت کی پھٹکار پڑتی رہے گی۔ گویا امام نے اقتدار کی ڈوبتی ناؤکو ہچکولے لیتے اورصاحبان اقتدار کی آخری چیخ و پکار کوسنا ہے۔

بس یہ وہ دو دشمن حکومت کے باہمی اختلاف کا درمیانی وقفہ تھا جو امام صادق کے علوم نشر کرنے اورتبلیغ الٰہی کا بہترین زمانہ ثابت ہوا۔ آپ نے اس وقت کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ امام نے اپنے اعما ل و کردار سے ذہن انسانی کو ایک علمی انقلا ب کے لئےآمادہ کیا۔ لوگوں نے ابھی نور علم کی جھلک ہی دیکھی تھی کہ اس کے دلدادہ ہوگئے۔ اس لئے آپ نے ان کے خاطر مزید علمی راہیں ہموار کیں۔ آپ کی روش تعلیم کو دیکھ کر لوگوں  نے علمی میدان میں حصہ لینا شروع کیا۔ اب کئی اجتماعی پروگرام میں منطق و فلسفہ کی گھتیاں زیر بحث آنا شروع ہوگئیں۔ جب ان کے تاریک دلوں نے علم کی تابناک شمع  کا مشاہدہ کیا تو وہ دو قدم اور آگے بڑھے۔ اس طرح ہر قوم وقبیلہ کےافراد مسند علم سے نزدیک ہوتے گئے۔ لہذا، آپ نے بھی ان کے علمی رجحان کو خو ب سراہا۔ اسی سبب آ پ کی درسگاہ میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ بیک وقت چار ہزار طالب علم مصروف تعلیم رہتے۔

امام جعفر صادق نے جدید علوم کے ایسےانوکھے  شگوفے واکئے کہ آج تک سائنسدانوں کی عقلیں حیران ہیں کہ ہزار برس قبل ہزاروں شاگردوں کو مختلف جدید علوم وفنون کی تعلیم دینا کیاکسی  معجزے سے کم  ہے ؟!

آپ نے مردوں ضمیروں کو تقوای الٰہی کے نورسے اس طرح جلابخشی کہ انہیں ہر آن یہ محسوس ہونے لگا کہ "فان الشاہد ھو  الحاکم”(خدا ہمیں دیکھ رہا ہے۔ )

دین اسلام نے ہمیشہ لوگوں کویکجہتی کی طرف دعوت دی ہے۔ اس کا عملی ثبوت بھی آپ کی حیات طیبہ سے باالکل واضح نظر آرہاہےکہ آپ کے دسترخوان علم سے دیگر مذاہب اور مختلف ممالک کےحضرات بھی مستفید ہوتے۔ شب و روز یہی کوشش رہتی کہ معاشرہ میں رائج بے بنیاد اعمال و عقائد کی اصلاح کی جائے۔ اسی لئے یونان، روم، ہند اور ایران کےلادینی فلسفے جو کہ مسلمانوں کے دلوں پر راج کررہے تھے اس سےعلمی سطح پر مقابلہ کی آسان راہیں ہموار کیں۔

آپ کا سب سے نمایاں کام مذہب تشیع کی بقا کے لئے جاویداں ثقافت کی تشکیل تھی۔ جو آج تمام مذاہب کو پیچھے چھوڑکر بہت ہی تیزی سے اپنے منزل کمال کی طرف رواں دواں ہے۔ اور ہنوز کم تعداد ہونے کے باوجود کسی غیر کےسامنے گھٹنے نہیں ٹیکےبلکہ اس کی حقانیت کے سامنے عالم دوراں کی زبانیں گنگ پڑی ہیں۔

 المختصر !امام عالی مقام کی گرانقدر خدمات کا خلاصہ یہ ہےکہ سنگ میل بنو، سنگ راہ نہیں !

تبصرے بند ہیں۔