سوامی بمقابلہ جیٹلی: یہ منظردیدنی ہوسکتاہے!

نایاب حسن
پہلے آربی آئی گورنر،پھر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال کو نشانے پر لینے اور ان کے خلاف پروپیگنڈے کرنے کے بعد بی جے پی کے’فائربرانڈ‘لیڈراور اب راجیہ سبھاکے ممبرسبرامنیم سوامی کی توپ کا رخ اب باقاعدہ وزارتِ خزانہ اوراس کے اعلیٰ افسران کی طرف مڑگیاہے، وزیر خزانہ ارون جیٹلی اِن دنوں چین میں ایشین انفراسٹریکچرانوسٹمنٹ بینک کے بورڈآف گورنرس کی میٹنگ میں شرکت کے لیے گئے ہوئے ہیں؛لیکن وہیں سے انھوں نے سوامی کے خلاف محاذسنبھال رکھاہے۔ابھی کچھ دنوں قبل سوامی نے ریزروبینک کے گورنررگھورام راجن کی ملک کی اقتصادیات کوبہتری کی راہ پرلگانے کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان کھڑے کرنے کے علاوہ ان کی قومیت و شہریت کوبھی مشکوک و مشتبہ قراردیاتھا ،اس کے بعد ان کے نشانے پر اروندکیجریوال تھے،اس کے بعد دوتین دن پہلے انھوں نے ٹوئٹ کے ذریعے سے چیف معاشی صلاح کاراروندسبرامنین پر حملہ بولاتھا،جس کاوزیر خزانہ ارون جیٹلی نے مضبوطی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے ان کے الزامات کوبے بنیاد قرار دیاتھا ،اس کے بعد اب پھر سوامی نے اسی وزارت کے ایک اورافسراور سکریٹری برائے معاشی امورشکتی کانت داس پرالزام لگایاہے اور اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ’ میرے خیال سے ان کے خلاف ایک پراپرٹی ڈیل کیس پینڈنگ میں ہے،جس میں ان پر الزام ہے کہ انھوں نے مہابالی پورم کے اہم مقامات پرزمین قبضہ کرنے میں پی چدمبرم کی مددکی تھی‘سوامی نے یہ بات اپنے بعض فالوورزکے ٹوئٹس کے بعد لکھی تھی،جن میں انھوں نے کہاتھا کہ آربی آئی کے ڈپٹی گورنرارجت پٹیل اورشکتی کانت داس کوبھی بلیک لسٹ کیاجاناچاہیے اورداس کوواپس اپنے آبائی علاقے تملناڈولوٹ جاناچاہیے۔ سوامی کے اس الزامی ٹوئٹ کے تھوڑی ہی دیر بعدوزیر خزانہ ارون جیٹلی نے لکھاکہ’یہ وزارتِ خزانہ کے ایک دیانت دارافسرکے خلاف نامناسب اور بے بنیادالزام ہے‘۔جیٹلی کے اس ٹوئٹ کے بعدمیڈیامیں بھی یہ خبربریکنگ نیوزکے طورپرچلائی جارہی ہے اور اب اس سلسلے کو جیٹلی بمقابلہ سوامی کے طورپر دیکھاجارہاہے۔
ویسے یہ حقیقت ہے کہ فی الوقت بی جے پی سرکارمیں دوسرے نمبرکے لیڈراور حکومت کی ایک اہم ترین وزارت کے مسندنشین مسٹرارون جیٹلی ذہنی،فکری اور نظریاتی اعتبار سے سبرامینم سوامی سے بہت مختلف ہیں اور ان دونوں میں بہت سارے معاملات میں اختلاف رہاہے یارہتاہے ،سوامی جس آتش بیانی اور زبان کی بے لگامی کے لیے مشہورہیں،اس کی جیٹلی جیسے سنجیدہ نیتاسے توقع نہیں کی جاسکتی،سوامی جس طرح اپنے منہ پھٹ ہونے کواپنی خوبی یا صلاحیت سمجھتے ہیں اورخاص طورپرمسلمانوں کوٹارگیٹ کرتے رہتے ہیں ایساجیٹلی بی جے پی کے ایک دبنگ لیڈرہونے کے باوجودعموماًنہیں کرتے،اگست 2013 میں سوامی نے جب بی جے پی میں شمولیت اختیارکی تھی، اس وقت بھی جیٹلی نے بی جے پی میں ان کی آمدکی مخالفت کی تھی؛لیکن بی جے پی کے دیگرلیڈروں کے علاوہ سوامی کے سرپرسنگھ کاہاتھ تھا؛اس لیے جیٹلی کی مخالفت کچھ اثردارثابت نہ ہوسکی،جیٹلی جس وجہ سے سوامی کی مخالفت کررہے تھے ،اسی بنیادپرسنگھ ان کی حمایت میں کھڑاتھا،سنگھ کوسبرامنیم سوامی کی شکل میں جہاں رام مندرکے فرقہ وارانہ ایجنڈے کوزندہ رکھنے والاایک پرجوش نمایندہ مل رہاتھا،وہیں سیاسی محاذپرملک کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کے پیچھے ہمیشہ لٹھ لے کر دوڑتارہنے والاایک مخلص رضاکاربھی مل رہاتھا ؛چنانچہ جیٹلی کی مخالفت ہلکی ثابت ہوئی اور سوامی بی جے پی میں شامل کرلیے گئے،اس کے بعد ابھی اپریل میں جب راجیہ سبھاکی ممبرشپ کے لیے سوامی کونامزدکیاجارہاتھا،اس وقت بھی ارون جیٹلی نے مخالفت کی تھی،ان کاکہناتھاکہ سوامی کے تیکھے بول حکومت کے لیے دردِ سرثابت ہوں گے اورپارٹی کو بار بارصفائی دینی ہوگی؛لیکن بہرحال اس بار بھی سنگھ اور خود بی جے پی اور سرکارکے اندرپائے جانے والے کٹرسنگھیوں اور جیٹلی کے مخالفین زیادہ بااثرثابت ہوئے اور نتیجتاً انتہاپسندانہ افکارکی نمایندگی کرنے والے سبرامنیم سوامی راجیہ سبھامیں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے،ویسے وہ ماضی میں کم و بیش پانچ بار لوک سبھاکے بھی ممبررہ چکے ہیں، پہلے اپنی جنتاپارٹی سے نمایندگی کرتے تھے اور وہی اس پارٹی کے صدربھی تھے۔
فی الوقت سوامی کا ٹوئٹروارجاری ہے اور اس کے جواب میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے پراعتمادجوابوں کاسلسلہ بھی جاری ہے،یہ منظرٹوئٹرسے نکل کرنیوزچینلوں اور اخباروں تک پر منعکس ہونے لگاہے اور سوامی و جیٹلی کے مابین شروع ہونے والے اس ٹوئٹروارپر باقاعدہ بحثیں چھڑچکی ہیں،سوامی سنگھ کے چہیتے ہیں؛اس لیے شایدانھیں منانے کے لیے یااپنی الزامی توپ کارخ کسی اورطرف موڑنے کی درخواست کرنے کے لیے سنگھ نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کوان کے پاس بھیجاتھا،خبرہے کہ بدھ کے روز راجناتھ سنگھ نے سوامی سے ملاقات کی؛لیکن جمعرات کوپھرسوامی کاوہی’ٹوئٹربازی‘کاسلسلہ جاری تھا۔اصل میں مجھے لگتاہے کہ سبرامنیم سوامی حد سے زیادہ منتقمانہ مزاج کے حامل انسان ہیں،اس کا اندازہ ان کی ان تقریروں اور خطابات کوسن کر ہوتاہے،جووہ وقتافوقتاً بابری مسجدیا ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے دیتے رہتے ہیں،ان کا کہنایہ ہے کہ ہندووں کوچاہیے کہ وہ بتدریج ہندوستان کومسلمانوں سے صاف کریں،اسی میں ان کا بھلاہے ،ورنہ مسلمان اکثریت میں آجائیں گے اور پھروہ انھیں یہاں سے نکال باہر کریں گے،وہ اپنی تقریروں میں کیرالہ کے بعض مسلم اکثریتی علاقوں اور مختلف عرب مسلم ممالک کاحوالہ دے کر یہ کہتے ہیں کہ مسلمان جہاں بھی اکثریت میں ہوتے ہیں،وہاں کسی اورمذہب کے ماننے والوں کوٹکنے نہیں دیتے، یہ ان کی پالیسی ہے،اسی طرح ہندووں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے لیے وہ یہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں کسی ہندوکواپنے بھگوان کی پوجاتودرکنار،اسے اپنی جیب میں اس کی تصویر بھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے،اسی قسم کی باتیں کرکے وہ ہندوستان کے ہندووں کویہاں کے مسلمانوں سے بھڑاناچاہتے اور بزعمِ خویش دوسرے ملکوں میں دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ جوکچھ ہوتاہے،اس کا بدلہ یہاں کے مسلمانوں سے لیناچاہتے ہیں؛حالاں کہ مسلمانوں کے تعلق سے وہ جوکچھ کہتے ہیں ،اس میں کس حد تک صداقت ہے اور کیامسلمانوں نے اپنی ساڑھے چودہ سوسالہ تاریخ میں اسی پالیسی پر عمل کیاہے؟یہ ایک مستقل تحقیق کاموضوع ہے؛بہرحال سوامی اپنی ایسی بے بنیاد،فرقہ وارانہ زہرپھیلانے والی باتوں کے ذریعے سے مسلمانوں سے ایک قسم کامذہبی انتقام لیناچاہتے ہیں؛ لیکن ارون جیٹلی ان کے سیاسی اور فکری حریف ہیں،انھیں پتہ ہے کہ جب وہ بی جے پی میں آرہے تھے،تب بھی انھوں نے مخالفت کی تھی اورجب راجیہ سبھا کی ممبری کے لیے نامزدکیے جارہے تھے،تب بھی وہی مخالفت کاجھنڈالیے کھڑے تھے، سواب ،جبکہ وہ بی جے پی میں ایک مسلّم لیڈرمان لیے گئے ہیں،سنگھ ان کے ’کارناموں‘سے خوش ہے اورانہی کی بدولت وہ ایوانِ بالامیں داخل ہوچکے ہیں؛ ان کا دماغ ساتویں آسمان پر ہے اورمخالف پارٹیوں کے علاوہ خوداپنی حکومت اورپارٹی میں پائے جانے والے بعض مخالفین کے خلاف بھی محاذآرائی کے لیے پرتول رہے ہیں۔
سوامی کے حملوں اورالزامات کا جواب اکیلے جیٹلی ہی دے رہے ہیں،پارٹی یا حکومت میں سے کوئی بھی فردسامنے آکرسوامی کی زبان کولگام دینے کی جرأت نہیں کرپارہا،اس کی وجہ کیاہوسکتی ہے؟ شایدیہ کہ سوامی کوسنگھ نے مکمل چھوٹ دے رکھی ہے یایہ کہ بی جے پی کے اندرجیٹلی کے مخالفین کاخیمہ مضبوط ہورہاہے،وزیر اعظم مودی بھی خاموش ہی ہیں؛ لیکن آخر وہ کب تک خاموش رہیں گے،دوسرے معاملوں میں ان کی خاموشی سے ان کی پارٹی پراثرنہیں پڑتاہوگا؛ لیکن سبرامنیم سوامی کے معاملے میں بھی اگروہ خاموش رہے،توعین ممکن ہے کہ پارٹی لیڈروں کے ذاتی اختلافات و تنازعات کی وجہ سے سرکارکے اصل چہرے سے پردہ سرک جائے اورحقائق عالم آشکارہوجائیں۔ ویسے یہ تقریباً طے ہے کہ آنے والے دنوں میں بی جے پی کے جن لیڈران کی حدسے زیادہ ’روشنیِ طبع‘ کی بدولت پارٹی کی لٹیاغرق ہونے والی ہے،ان میں ایک نمایاں نام سبرامنیم سوامی کابھی ہوگا!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔