نقل مکانی اب مذاق نہیں خطرہ کی گھنٹی ہے

حفیظ نعمانی
ہم یہ سمجھ رہے تھے اور ہر کسی کی زبان پر بھی تھا کہ کیرانہ کے مسئلہ کو جس طرح ایک ممبر پارلیمنٹ حکم سنگھ نے اٹھانا چاہا تھا وہ میڈیا کی بروقت مداخلت اور بی جے پی کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ’’ہم ایک ہیں ‘‘کے مظاہروں نے ناکام کردیا ۔ کل ہی دیوبند میں صرف 32ہندوؤں کی نقل مکانی کے خلاف جو ڈرامہ ہونے والا تھا اسے انتظامیہ نے اپنی فرض شناسی سے ختم کردیا ۔اور اب بی جے پی کوئی اور شوشہ چھوڑے تو با ت الگ ہے۔ نقل مکانی کا کارتوس تو سیل گیا۔ لیکن یہ کل تک کی بات تھی۔
آج ایک اخبار کے آخری صفحہ پر اور چھوٹی سی ایک کالمہ خبر پر نظر پڑی تو یقین جانئے کہ ہوش اڑ گئے۔ ملک میں اس وقت صرف دو شخصیتوں کی حکومت ہے۔ پر دہ کے پیچھے شری موہن بھاگوت کی اور پردے کے سامنے شری نریندر مودی کی۔ الہ آبا د میں جب بی جے پی کی مجلس عاملہ کا جلسہ ہورہا تھا تو حکم سنگھ نے کچھ حاصل کرنے کے لئے پارٹی کے صدر شری امت شاہ کو ایک پٹاخہ دیا۔ اور وہ اس میں کامیاب ہو گئے کہ امت شاہ نے اسے الہ آباد میں اتنی زور سے پھوڑا کہ اسکی آوازپوری دنیا میں سنی گئی ۔اور ہم جیسا بیمار اور خانہ نشین بھی روزے میں دعا کرنے لگاکہ مولا یہ ماہ مبارک ملک کے مسلمانوں کے لئے ماہ عذاب نہ بن جائے ۔اس لئے کہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کے صدر نے پوری طاقت سے کہا کہ ہم کیرانہ کو کشمیر نہ بننے دیں گے ۔درمیان میں ایک بات اور عرض کردوں کہ رمضان شریف میں دن بھر ٹی وی کھلنے کی نوبت ہی نہیں آتی صرف 8بجے ضروری خبروں کی تلاش میں کھو لا تو گراں گوش ہونے کی وجہ سے اور کچھ امت شاہ صاحب کی آواز کے بھاری ہونے کی وجہ سے کیرانہ کے بجائے کیرالا سمجھا اور اس کی وجہ بھی تھی کہ کیرالا میں کمیونسٹوں نے بی جے پی کے چند ورکروں سے چھیڑ چھاڑ کی تھی خیال ہو ا کہ وہی بات بڑھ گئی۔
مگر جب حکم سنگھ اور شاملی کا ذکر آیا تو سمجھ میں آیا کہ یہ کیرانہ ہے جو ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور مظفر نگر ضلع میں ہے ۔ہمیں یہ تبدیلی بھی یاد نہیں رہی تھی کہ شاملی جو مظفر نگر کی تحصیل ہوا کر تی تھی اب ضلع بن گیا ہے ۔اور کیرانہ اب شاملی کا قصبہ ہے ۔اور حیرانی اس وجہ سے تھی کہ شاملی تو ہمیشہ سرخیوں میں رہا ۔وہاں شیو سینا بھی نام کے لئے ہے او ر اکثر کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا لیکن کیرانہ کے تو کسی قسم کا تنازعہ کا کوئی واقعہ ہمیں یا د نہیں آیا ۔اور ایک بات مزید حیرت کی تھی کہ وزیر اعظم نے جب ریلی کو خطاب کیا تو انھوں نے کیرانہ کا ایک بار بھی نام نہیں لیا ۔حالانکہ وہ حکومت بننے سے پہلے جب جب کشمیر گئے تو وہ یہ کہنا نہیں بھولے کہ اپنے ہی ملک میں شرنارتھی بن کر رہنا صرف جموں کشمیر میں ہی دیکھا ۔اور یہ ناقابل برداشت ہے ان کے علاوہ بھی جب کسی نے کشمیری پنڈتوں کا قصہ چھیڑا تو مار کا ٹ آبروریزی ،مکانات کا جلانا ،لوٹنا جیسی نہ جانے کتنی کہانیاں سنادیں جو اس ملک میں آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔اور وزیر اعٖظم کے منہ سے کیرانہ ابتک نہیں نکلا لیکن آج کے بعد ہم نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہوگا ۔؟
آرایس ایس کے چیف شری موہن بھا گوت آجکل جودھپور میں ہیں ۔انھوں نے مراٹھا پیشوا چھتر پتی شیوا جی مہاراج کی بابت سنائے جانے والے پروگرام میں یہ بھی کہہ دیا کہ اپنے ہی ملک میں ہندوؤں کا جرائم پیشہ مسلمانوں کے خوف سے نقل مکانی کرنا تکلیف دہ پر یشان کن اور تشویش ناک ہے ۔اور ان لوگوں کے دلوں سے خوف وہراس اور مایو سی دور کرنا چاہئے ۔اور ان کے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ یہ زمین ہماری اور یہ ملک ہمارا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ نقل مکانی روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
جو لوگ آر ایس ایس کو جانتے ہیں ۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ انکے کن الفاظ کا کیا مطلب ہے ؟ وہ یہ سمجھ گئے ہونگے کہ بی جے پی کی حکومتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں جرائم پیشہ بڑھ گئے ہیں ۔اور ان کے خوف سے ہندو جو زمین اور ملک کے مالک ہیں ۔وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔جبکہ نہ یہ زمین مسلمانوں کی ہے اور نہ یہ ملک انکا ہے ۔ آر ایس ایس چیف کا نقل مکانی پر بولنا اور ملک اور زمین کی ملکیت کی تفصیل بتانااور ایسے معاملہ پر اتنی سخت بات کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو یہ حکم دیدیا گیا ہے کہ وہ کچھ بھی کریں کہیں بھی ہا ر کا منہ نہ دیکھیں ۔اور اگر ہم یہ سمجھیں کہ آئندہ سال ہونے والی ریاستوں کے الیکشن کے بارے میں اپنا احساس ظاہر کرنا ہے کہ اب شکست برداشت نہیں ہوگی اور ہر صوبہ میں جیتنا ہے چاہے جو کچھ کرنا پڑے ۔اور واضح کرنا ہو تو یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان ووٹوں کی وجہ سے ہار جیت ہوتی ہے اور اب یہ نہ ہونا چاہئے ۔
ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں فخر ہے اور مالک کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں سا ل بھر جنہیں کلام پاک کی تلاوت کا موقع نہیں ملتا رمضان شریف میں وہ بھی چاہتے ہیں کہ ثواب حاصل کریں ۔اللہ قادر مطلق نے فرمایا ہے کہ ’’آپ(محمدؐ)کہہ دیجئے کہ اللہ بادشاہی کامالک تو ہے ۔تو جس کو چاہے بادشاہی دے او ر جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ۔بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔(پارہ3آیت26)
اس لئے اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ زمین اور یہ ملک ہندؤں کا ہے تو ہمارا توایمان ہی خطرہ میں پڑ جائے گا۔
ابھی ادھا رمضان باقی ہے ۔یہ دوسرا عشرہ چل رہا ہے 27جو ن سے آخری عشرہ شروع ہوگا جسکی قرآن پاک اور حدیث شریف میں بہت فضیلت ہے ۔اور یہ بات بھی ماشاء اللہ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ رمضان شریف میں دعاؤں کے قبول ہونے کے کون کون سے اوقات ایسے ہیں جن میں وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ دعائین قبول ہونگی ۔خاص طور پر روزہ افطار سے پہلے ۔کیا یہ اچھا ہوگا کہ ہر مسلمان روزہ افطار کے لئے کھجور یا پانی یا کوئی بھی پاک چیز ہاتھ میں لیکر اپنی دوسری دعاؤں کے ساتھ اس دعا کا بھی اضافہ کرلے کہ۔اے مالک اے قادر مطلق ہندوستان میں بسنے والے ہم مسلمانوں کی حفاظت فرما ۔اور صرف اس جرم میں کہ ہم تیرے بندے ہیں ہمارے اوپر ظلم کے جو منصوبے بنائے جارہے ہیں ان سے ہماری حفاظت فرما ۔یا اپنے طور پر اپنے الفاظ میں دعا کریں وہ چاہے دو جملے ہوں مقصد صرف یہ ہے کہ جب ہمارا ایمان ہے کہ یہ زمین اور یہ پوری دنیا پاک پرور دگار کی ہے ۔اسکے بعد یہ کہنے کا کسے حق ہے کہ یہ ملک اور یہ زمین ہندوؤں کی ہے ۔؟
یہ مسلمانوں کی خوش نصیبی ہے کہ یہ معرکہ کا زمانہ رمضان شریف کا ہے وہ رمضان جس کے روزوں کے بارے مین مالک دو جہاں نے فرمایا ہے کہ کیونکہ روزہ صرف میرے لئے ہے اسلئے اس کا انعام میں خود دونگا ۔اور ایک حدیث میں ہے کہ اسکا انعام میں خود ہوں جس روزہ کو رب کریم نے یہ مقام دیا ہے وہ روزہ دار اپنے مالک سے جو مانگیں گے وہ ملے گا ۔ہمیں اپنی دعاؤں میں یہ بھی شامل کرلینا چاہئے کہ معاف کرنے والا مولا ہماری خطاؤں کی وجہ سے ہی دشمن آنکھیں دکھا رہے ہیں ۔ان خطاؤں اور گناہوں کو بھی معاف فرما۔ہماری یہ معروضات اگر علماکرام کے ہاتھ میں پہنچیں تو بعد ادب درخواست ہے کہ رمضان شریف میں مساجد یا افطار یا ختم قرآن کے موقع پر عام مسلمانوں تک پہنچادیں اور خود بھی ہر نماز کی امامت کے خاتمہ پر مناسب دعا کریں اور اجتماعی دعا کرائیں ۔اور ان کے علاوہ جووہ مناسب سمجھیں۔ کیوں کہ انھوں نے ہم سے زیادہ اہمیت سمجھ لی ہوگی۔
اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت یہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔