سوری، ہم ظالموں کی حمایت نہیں کر سکتے!

عالم نقوی

مسئلہ فلسطین کا بس ایک ہی علاج ہے:

اسرائل کی غاصب، ناجائز اور ظالم مملکت کا خاتمہ تاکہ نہ صرف  غزہ کا محاصرہ ختم ہو بلکہ  تمام فلسطینی بستیوں کے گرد اٹھی ہوئی دیواریں بھی مسمار ہو سکیں اور بجلی پانی دوا اور غذائی اشیا سمیت تمام بنیادی انسانی سہولتوں کی سپلائی بحال ہو سکے۔ ان لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھر اور زمینیں فوری طور پر  واپس ملیں   جنہیں پچھلے ستر برسوں میں  جبراً اور ظلماً بے دخل کیا گیا ہے۔

مقبوضہ فلسطین کی محمود عباس  حکومت بھی ناجائز ہے۔ کسی صہیون دوست اور اسرائل حامی  کو فلسطینیوں پر حکومت کرنے کا حق نہیں ۔ آج بھی اگر منصفانہ اور آزادانہ الکشن ہوں تو حماساور سرایا الجہاد  ہی کو اکثریت حاصل ہوگی۔

جہاں تک  عالمی صہیونی پریوار کے قدرتی حلیف بھارتی  سنگھ پریوار کے   وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ فلسطین کا تعلق ہے تو اُس کی حیثیت اُن ہی ڈراموں جیسی ہے جو وہ  پچھلے کئی برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں اور ہم جن کے عادی ہو چکے ہیں ۔

یہ منافقین فی ا لاَرض جس’ آزاد فلسطینی ریاست‘ کی حمایت  کر رہے ہیں اُس کا عملاً کوئی وجود نہیں ۔ نام نہاد ’دو ریاستی امن فارمولے ‘ کی حیثیت لفظی بازی گری، مابعد جدید منافقت اور چشمِ اِنسانیت میں دھول جھونکنے سے زیادہ  اور کچھ نہیں ۔ اس طرح کی کوئی چیز  اگر عالم ِاِمکان میں  ہوتی تو کیمپ ڈیوڈ(۱۹۷۹) اور اوسلو(۱۹۹۳) معاہدوں کے ذریعے اب تک وجود میں آچکی ہوتی۔

 غزہ کا تیرہ سالہ ہلاکت خیز اور انسانیت سوز محاصرہ، فلسطینی بستیوں کے چاروں طرف  اونچی اونچی آہنی  دیواروں کا وجود، لاکھوں فلسطینیوں کی پانی بجلی اور لازمی اشیا سے محرومی اور صہیونی جیلوں میں  محبوس ہزاروں فلسطینی بچوں عورتوں اور نوجوانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، اس  زمینی حقیقت کے  دیگر  ثبوت ہیں۔

تمام  مسلم ممالک  فلسطین کے امتحان میں ناکام ہو چکے ہیں ۔پتھروں سے گولیوں اور ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ننھے ننھے فلسطینی بچے بس اگلے پانچ  دس  یا زیادہ سے زیادہ پندرہ برس بعد ہی اپنی اور فلسطین کی قسمت کے مالک ہوں گے اس لیے کہ وہ، بقول احد تمیمی، کسی صلاح ا لدین ایوبی کے منتظر نہیں ، ان کا صلاح الدین  انہی کے درمیان سے، انشا اللہ بہت جلد  اٹھے گا اور اکیسویں صدفی کے شِعب ِاَبی طالِب کو جاہلی قارونی، فرعونی، نمرودی اور یزیدی ظالموں کی شیطانی قید  سے آزاد کرائے   گا۔ اور ظالموں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس برے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں ۔ لہٰذا ہم ظالموں کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ہر گز نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔