تفتیشی صحافت کی اہمیت

مہتاب عالم

 (1)تحقیقاتی صحافت یا انوسٹی گیٹیو جرنلزم:

تحقیقاتی صحافت ہر دور کی اہم ضرورت رہی ہے۔ جس کی بنیاد پر حکومتیں اصلاحاتی اقدام کرتی ہیں تاکہ مظلوم انسانیت کو انصاف مل سکے۔ گرچہ صحافت کاتعلق حکومت اور عوام کے درمیان ایک پل کا ہے اور عوامی مسائل کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومتی اقدامات کیلئے رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے نیز عوامی ذہن کی آبیاری اور حالات حاضرہ سے آگاہی کرانا بھی ہے جبکہ تحقیق یا تفتیش کا تعلق قدیم ہندستانی تاریخ کے مطابق عود یعنی موجودہ ایودھیا کے راجہ منو مہاراج (آدم ؑ) کے زمانے میں تقریباً آٹھ ہزار سال قبل شروع ہوتا ہے۔ جہاں گپت چرنوں (خفیہ جاسوسوں )کے ذریعہ عوامی رائے کی معلومات حاصل کر کے مطلع کرنا نیز مثبت فلاحی عملی اقدام اٹھانا تھا تاکہ رعایا خوش خرم زندگی گزار سکے اور عوام کو کسی شکایت کا موقعہ نہ ملے۔ یہی نہیں بلکہ راجہ کاکام ہی اپنی رعایا کے درمیان یکساں انصاف کو مقدم رکھنا  ہے۔ تاکہ زمین پر خلافت الٰہیہ کا حقیقی نظام نافذ العمل ہو سکے۔

(2)تحقیقی صحافت کی تعریف:

تحقیقی صحافت کا مطلب یہ ہے کہ کسی واقعہ پر توجہ مرکوز کر کے  گہری تحقیق و تفتیش کے ذریعہ حقیقی حالات اور پس منظر کو اُجاگر کرنا ہے۔ جہاں تک عوام و خواص کی رسائی نہیں ہو سکی ہے۔ یا ان کی نظر وہاں تک نہیں ہو پاتی ہے۔ اسی نئے انکشافات یا دریافت کو صحافتی زبان میں تحقیقاتی صحافت کہتے ہیں۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف میسوری میں جرنلزم کے پروفیسر اسٹیو وین برگ نے تحقیقاتی صحافت کی تعریف میں کہا ہے کہ وہ خبر نگاری جو اپنے سامعین و ناظرین اور قارئین کی مفاد کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی معلوماتی تحریر کے ذریعہ مشتہر کرنے کی پہل کرے، اسے تحقیقاتی صحافت کہاجاتا ہے۔

(3)تحقیقی صحافی یا انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ:

برطانوی میڈیا نظریہ ساز ہوگو ڈے برگ کا قول ہے کہ ایک تحقیقاتی جرنلسٹ وہ ہوتا ہے جس کا پیشہ حقائق کا پتہ چلانا اور ان خامیوں کی شناخت کرنا ہے جو دوسروں کی آنکھ سے اوجھل ہو۔ وہ تحقیقاتی صحافی کہلاتا ہے۔

  انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ کی خاصیت :

تفتیشی صحافی کی یہ خاصیت ہونی چاہئے کہ وہ کسب حلال کا خوگر بنے نیز فقر و قناعت کو ذہن نشیں رکھے تاکہ چھٹی حس اور دور اندیشی میں اضافہ ہو سکے۔ جیسا کہ امام غزالی نے اپنی آخری تصنیف منہاج العابدین میں لکھا ہے کہ اپنے شکم کو خالی رکھ تاکہ تجھے فہم کی تیزی نصیب ہو سکے۔ دوسری جانب خواجہ عبد الخالق عجزوانی نقشبندی کے مطابق ہوش در دم پر قائم رہنے سے دل و دماغ اور اندورونی کثافت سے نجات ملتی ہے اور فکر و تدبر میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے عقل سلیم عطا ہوتی ہے جو کہ کسی بھی تحقیقی کام کیلئے عین روح ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ تحقیقی صحافی کا کام بھی مخفی حقائق کی تہہ تک پہنچ کر اصلیت کو اُجاگرکرنا ہے۔ نیز اپنے فرائض کی ادائیگی میں رازداری سے اپنے ہدف میں منہمک رہے۔ چونکہ یہ کام نہایت ہی پر خطر اورصبر آزما نیز وقت طلب اور حوصلہ مندی کے ساتھ ساتھ دلیرانہ ا قدام ہے۔ اسلئے ایک تحقیقاتی صحافی کیلئے مستقل مزاج ہونا لازمی امرہے۔

(4)تفتیشی صحافت میں حق اطلاعات قانون کا استعمال :

ہمارے ملک میں یو پی اے کی منموہن حکومت نے جہاں بہت سارے اختیارات عوام کو دیئے تووہیں معلومات اور اعداد و شمار تک رسائی حاصل کرنے کیلئے حق اطلاعات قانون یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی)کا تحفہ بھی دیا۔ جس کے ذریعہ صحافی یا عام آدمی سرکاری کام کے اعداد و شمارکی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ جس کی بنیاد پر تحقیقی مواد جمع کر کے تحقیقاتی صحافت کو فروغ دیا جا تا ہے۔ اس سلسلے میں پوری دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں یہ کام خوب ہو رہا ہے اور عوام و خواص سے پذیرائی حاصل کی جاتی ہے۔ اس تعلق سے مشہور کالم نگار بادشاہ خان نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ مغربی ممالک میں فعالیت کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے عوام کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ انہیں معلومات فراہم کئے جائیں۔ چونکہ وہاں اس قانون کو اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹرکا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ جسے اقوام متحدہ کے اعلامیہ برائے انسانی حقوق 1948میں مختلف ممالک کے دستخط سے پاس کیا گیا تھا۔ اہل مغرب کی تحقیقاتی صحافت کو اعداد شمار کی حق حاصل ہے۔ جہاں حکومتی معلومات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور سرکاری ادارے بھی ایسے رپورٹر کے ساتھ پورا تعاون کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں عوام کو معلومات فراہم کرانے کیلئے قانون کے ساتھ ساتھ نہ صرف جدید تکنیک سے لیس ذرائع موجود ہیں۔ بلکہ ذرائع ابلاغ، ویب سائٹ پر تمام اطلاعات کی تجدید کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے کام کاج کو تحریری شکل میں انٹر نیٹ کے ذریعہ عوام کے سامنے لاتی ہیں۔ جس کیلئے باضابطہ آڈیٹ کرایا جاتا ہے اور منتخب ہونے کے بعد بھی اعلیٰ سطحی انتظامی حکام بھی جواب دہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں کرپشن کم ہے کیونکہ شفافیت، احتساب و مواخذہ اور چیک بیلنس کا عمل موثر ہے۔ جس کی بناء پر جمہوری نظام کافی مستحکم ہے۔ جہاں وزیر اعظم یاصدر اپنے عوام کو جواب دہ ہیں۔ مگر ہند و پاک میں یہ عمل جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ جہاں اعداد و شمار اور اطلاعات اکٹھا کرنا بہت مشکل مرحلہ ہے کیونکہ سرکای اہلکار تعاون نہیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی چند صحافی اپنے

مشن میں مصروف ہیں اور اپنے پیشے کو مقدم بنائے رکھا ہے۔ اگر اطلاعات کے حصول کے حق کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقاتی صحافت کو فروغ دیا جائے تو کافی امید افزا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ کیونکہ ایسے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے جنہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں تاکہ تحقیقاتی مواد کو منطقی انجام تک نہ پہنچا سکے۔

  (5)انوسٹی گیٹیو جرنلزم میں ڈیٹا کی اہمیت:

تحقیقاتی صحافت میں ڈیٹا کی کافی اہمیت ہے جس کی بنیاد پر مواد تیار کیا جاتاہے کیونکہ انوسٹی گیٹیو رپورٹنگ اور اعداد و شمارکے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اعداد و شمار کا تجزیہ کرکے نتیجہ اخذ کرناایک اہم فن ہے۔ اس کا سمجھنا ہر رپورٹر کیلئے ضروری ہے۔ اگر اعداد و شمار غلط ہونگے تو معاملہ الٹا بھی پڑ سکتاہے کیونکہ ذرا سی چوک سے رپورٹر کے جان کے لالے پڑ سکتے ہیں اسلئے احتیاط لازمی ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ دنوں نیپال کے کاٹھمنڈو میں ہوئے دی سکنڈ انوسٹی گیٹیو جرنلزم کانفرنس کے حوالے سے طاہر علی نے لکھا کہ اس کانفرنس میں 45ممالک سے تقریباً 350سے زائد صحافی اور رپورٹر س نے شرکت کی۔ کانفرنس کو ’’Uncovering Asia‘‘کا عنوان دیا گیا تھا۔ جہاں پناما لیکس کی ٹیم نے بھی شرکت کی تھی اور اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا۔

  اس موقعہ پر بین الاقوامی شہرت یافتہ تحقیقاتی صحافی والٹر روبنسن جو کہ ’دی بوسٹن گلوب‘کے مدیراور گلوبل پلٹزر ایوارڈ یافتہ بھی ہیں۔ جنہوں نے کیتھولک چرچ اسکینڈل ٹیم کی نگرانی بھی کی تھی۔ انہوں نے تحقیقاتی صحافت کے سلسلے میں کہا کہ اس قسم کی رپورٹنگ میں اعداد و شمار کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق خبر نگاری سے زیادہ مشکل کام اعداد و شمار کو جمع کرنا ہے۔ اگر ڈیٹا کو اچھی طرح نہ جانچا جائے تو تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتا ہے اور رپورٹ بے معنی کے علاوہ بدنامی کا باعث بھی ہو گی۔ مزید کہا کہ ہم یعنی تحقیق کرنے والے صحافی الجھی گتھی کو سلجھا لیتے ہیں۔ انوسٹی گیٹیو رپورٹنگ ایک ٹیم ورک ہوتاہے۔ جس میں اچھے لیڈر کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ٹیم میں کم از کم چار ممبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ موضوع کے انتخاب کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ رپورٹ جو کسی سنگین جرم کومنظر عام پر لائے تاکہ معاشرہ و سماج میں گہرے اثرات مرتب ہو۔ مسئلہ قومی سطح کا حامل ہو۔ تشہیر کسی بڑی تبدیلی کا سبب ہو،کام شروع کرنے سے پہلے یہ ذہن نشیں کر لیں کہ کسی دوسرے رپورٹریا میڈیا نے اس موضوع یا مسئلے کو رپورٹنگ نہیں کی ہو۔ ان کے بموجب ٹیم لیڈر کو اس وقت تک کام شروع نہیں کرنا چاہئے جب تک یہ باور نہ ہو کہ موضوع جس پر چار پورٹرس کو ذمہ داری دی جارہی ہے۔ وہ بھی کم سے کم ایک سال کیلئے نتیجہ خیز ثابت ہو۔ اس کے بعد مسلسل میٹنگ لازمی ہے اوریومیہ حساب سے ہر رپورٹر اپنی پروگریس رپورٹ لکھے۔ جب اعداد و شمار جمع ہو جائے تو اگلا مرحلہ تجزیہ کا ہے اور پھر آخر میں نتیجہ پر پہنچنا ہے۔

  (6)تفتیشی صحافیوں  کیلئے تحفظاتی اقدامات:

لندن سے خالد ایچ لودھی کی خصوصی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر تحقیقاتی صحافت کو فروغ دینے اور انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ کو تحفظ فراہم کرنے اور حکومتی سطح پر موجود کرپشن کے خاتمے کیلئے برطانوی اخبار ایوننگ اسٹینڈرڈ کے مالکان نے ایک فائونڈیشن کے قیام کا اعلان کیا۔ برطانوی میڈیا گروپ ایوننگ اسٹینڈرڈ اور انڈی پنڈنٹ کے علاوہ روس کے جمہوریت نواز اخبار نووایا گزٹ کے مالک روسی نژادبرطانوی ارب پتی شہری الیکزینڈر لیب دیب نے فائونڈیشن کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد دنیا میں آزاد صحافت اور اس کے اعتماد کو اخباری صنعت میں بحال کروانا، آزادی ٔ تحریر وتقریر اور تحقیقاتی صحافت کی اہمیت کو بین الاقوامی پیمانے پر اجاگر کرنا شامل ہے۔ تحقیقاتی صحافیوں کو ایوارڈ دینے کے علاوہ ان کی دلیرانہ محنتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے مالی تعاون دینے کا بھی منصوبہ ہے۔ تحقیقاتی صحافیوں کو جن خطرات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے متاثر ہونے والے تحقیقاتی صحافیوں کی دنیا کے تمام ممالک میں مانیٹرنگ کے ذریعہ تفصیلات جمع کی جائیں گی۔ ان کو معاشی اور قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔ ان کی تربیت کیلئے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے علاوہ یوروپ میں تحقیقاتی صحافیوں کو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران جن حکومتی اداروں سے مزاحمت اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی بناء پر صحافیوں کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ اس سلسلے میں فائونڈیشن عالمی سطح پر دیگر صحافتی تنظیم سے مل کر مشترکہ حکمت عملی طے کرے گی۔

برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ کے سابق مدیر سائمن کیلنر کو فائونڈیشن کا چیف ایکزیکیٹیومنتخب کیا گیا اور ایوننگ اسٹینڈرڈ کے مالک الیکزینڈر لیب دیب بورڈ آف ٹرسٹی ہونگے۔ اس کے علاوہ دیگر ممبران میں برطانوی ہائوس آف لارڈز کی ممبر بارونیس کینیڈی انسانی حقوق کے قانون داں اور برطانوی پارلیمنٹ کی میڈیا منتخب کمیٹی کے سابق چیئر مین لارڈ فائولر اور بی بی سی ورلڈ سروس کے سابق سربراہ سر جان توسا شامل ہیں۔

 (7)تحقیقی صحافت کا معاشرہ میں کردار:

تحقیقی صحافت کو گرچہ انگریزی صحافت نے عروج بخشا ہے اور مختلف قسم کے اسکینڈل،کرپشن،ظلم و زیادتی، کرائم، رشوت و سنسنی خیز واقعات وغیرہ کو طشت از بام کر کے صحافت کو وقار بخشا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کے اندر تفتیشی صحافت کے اعتماد میں اضافہ اور سرخروئی حاصل ہوئی۔ ایسے صحافی معاشرہ و سماج میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر ایسے واقعات کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ جس کی وجہ سے کرپشن،رشوت خوری،کرائم،سیکس اسکینڈل،سیاسی و سماجی برائیوں کے علاوہ خواتین و بچیوں کی عصمت دری،بچوں کیساتھ بد فعلی وغیرہ سنگین جرائم،پولس کی ظلم و زیادتی اور ناانصافیوں پر کچھ حد تک قد غن لگانے کو حکومتیں مجبور ہوئیں۔ بلکہ مقننہ و،انتظامیہ کو بھی اپناقبلہ درست کرنا پڑاکیونکہ جمہوریت میں عوام ہی مقدم ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں چند سال قبل عالمی سطح پر ویکی لیکس کے انکشافات نے پوری دنیا میں امریکہ کو بے نقاب کر کے تہلکہ مچا دیا تھا۔ جس میں آسٹریلوی صحافی جولین اسانج نے اپنی ویکی لیکس کے ویب سائٹ پر وہ خفیہ دستاویزات عام کر دیا تھا۔ جس میں عالمی پیمانے پر مشہور و معروف شخصیات کا مکروہ اور گھنائونا چہرے کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں گزشتہ سال 2017میں جس طرح پنامہ لیکس نے مالی بدعنوانی سے پردہ ٔ غفلت کو اٹھایا۔ جس کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ علاوہ ازیں ہندستان میں تہلکہ ڈاٹ کوم کے تابوت گھوٹالہ کو اجاگر کرنے کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز کو بھی اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جو کہ تحقیقی صحافت کی زندہ مثالیں ہیں۔

 دیگر مثالوں میں:

(۱) 1872کا وہ مشہور کارنامہ ہے جسے نیویارک ٹریبیون کے سرکردہ صحافی امریکی جولیس چیمبر نے انجام دیاتھا۔ انہوں نے خود کو بلومنگ ڈیل پاگل خانہ میں ڈلوایااور اپنی ذاتی دلچسپی اور تحقیقات کے ذریعہ ایسے بارہ(12)مریضوں کو اس پاگل خانہ سے نجات دلائی جو پاگل نہیں تھے۔ جس کی بنیاد پر انتظامی ڈھانچے کو از سر نو تشکیل دیا گیا اور نئے فعال اصلاحات نافذ العمل بنائے گئے۔

  (۲)1885میں لندن کے ولیم تھامس اسٹیو نامی صحافی نے اپنے انکشافاتی کالم اور خبر نگاری کے ذریعہ وکٹوریہ میں ہورہے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا بھانڈا پھوڑا۔ جس سے ان متاثرہ بچوں کو اس لعنت سے نجات ملی۔ (۳)1906میں رپٹان سن کلیئر نے میٹ پیکنگ (گوشت)صنعت میں حفظان صحت کے طبی اصولوں کی پامالی کو منظر عام لا کر داد و تحسین وصول کی۔

 (۴)تقریباً پچاس سال قبل تحقیقاتی صحافت کو اس وقت مقبولیت ملی جب 1970میں سیمور ہرش نے ویت نام جنگ کی حقیقت کو برسرعام کیا۔ ان کے اس کارنامے پر 1970میں ہی پولٹزر (Pulitzer)ایوارڈ سے سرفراز کر کے ان کی ہمت افزائی کی گئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے 2004میں عراق کے ابو غریب جیل میں امریکی فوج کے ہاتھوں عراقی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور اذیت رسانی کے دلدوز مناظر کو اپنی تصویروں کی زبانی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں امریکہ کیخلاف کہرام مچ گیا تھا۔ علاوہ ازیں صحافیوں نے کیوبا میں امریکی جیل گوانتا موبے میں قیدیوں پر پرتشدد اذیت رسانی اور غیر انسانی فعل کا پردہ فاش کر کے امریکہ کوپوری طرح بے نقاب کر دیا۔

 (۵)1973میں واشنگٹن پوسٹ کے کرائم رپورٹرس کارل برنسٹین اور باب ووڈ وارڈ نے واٹر گیٹ اسکام کا انکشاف کیا۔ علاوہ ازیں وہائٹ ہائوس میں ہونے والی  قابل اعتراض سرگرمیوں کو تحقیقاتی صحافیوں نے منظر عام پر لا کر امریکی صدر رچرڈنکسن کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ انکے اس کارنامے پر انہیں بھی 1973میں  پولٹزر (Pulitzer)ایوارڈ سے نواز کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

   (۶)امریکی صدر جارج کینیڈی کے دور کی معروف بالی ووڈ ہیروئن مارلن مینورو کے مابین گہرے تعلقات کی بھی عکس بندی کی گئی تھی۔ جس کو حال ہی میں کئی ملین ڈالر میں نیلام کیا گیا۔ مزید یہ کہ مشہور اداکارہ مارلن مینورو کے ساتھ صدر کینیڈی کے بھائی روبرٹ کینیڈی اور فلمی ہیرو پیٹرلا فورڈ کے علاوہ کئی مشہہور و معروف سرکردہ شخصیات کے قریبی تعلقات تھے۔ ایف بی آئی کی دستاویزات کے مطابق مارلن مینورو کو مافیا نے اپنے حصول مقاصد کیلئے خوب استعمال کیاتھا۔ 1992میں بالی وووڈ کی بدنام ترین شخصیت پرائیوٹ ڈی ٹیکٹیو، فریڈ اوٹاش کی موت کے بعد اس کی بیٹی کولین نے بے نقاب کیا کہ مارلن مینورو اور کینیڈی برادران کے درمیان 5اگست1962کو جنسی تعلقات قائم ہوئے۔ جس کی شکایت خود مارلن مینورو نے کی کہ اسے گوشت کے لتھڑے کی طرح کینیڈی برادران نے ایک دوسرے کو پیش کیا۔ اوٹاش نے مینورو اور کینیڈی برادران کے درمیان گفتگو کو بھی ٹیپ کیا تھا اور اس کی فلم بنائی تھی۔

  (۷)یہی نہیں بلکہ سابق صدر امریکہ بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکے کے درمیان جنسی تعلقات ہو یا لندن کی شہزادی ڈائنا اور پولو کوچ جیمس بیوٹ کے مابین جنسی تعلقات یا پھر مصری تاجر ڈوڈی الفائز کے ساتھ معاشقہ جس کی وجہ سے پرنس چارلس نے ڈائنا سے علاحدگی اختیار کر لی تھی۔ جنہیں فرانس کے ٹینل میں سفر کے دوران منصوبہ بند سازش کے تحت اکسیڈنٹ کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

 (۸)ترکی صحافی عوغر ممکو نے اعلیٰ عہدے پر فائز انتظامی حکام کے جرائم کو بے نقاب کیا۔ جن کے ساتھ کردش ورکرس پارٹی کے خفیہ ساز باز تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں 1993 میں قتل کر دیا گیا۔

   (۹)آئر لینڈ کے ویرونیکا گیوریم نے اپنے قتل ہونے سے پہلے آئرلینڈ کے انتظامی اعلیٰ حکام کے جرائم کو طشت از بام کیا تھا۔

(۱۰)2011میں تاپس راڈیا جو ایک اشتہاری گروپ کی منیجنگ ڈائرکٹر ہیں۔ انہوں نے سیکڑوں معروف سرکردہ شخصیات کی فون ٹیپنگ کے بعد منظر عام پر لا کر تہلکہ مچا دیا تھا۔ جس کی بنیاد پر مختلف شعبہ ٔ حیات سے منسلک مشہور افراد کے خفیہ راز عام ہوئے تھے۔

  امریکہ پر بھی الزام ہے کہ اس نے پوری دنیا میں اپنی جاسوسی کا جال پھیلا رکھا ہے۔ جہاں اس نے سربراہان مملکت کے علاوہ سرکردہ شخصیات اور عام شہریوں کی تفصیلات جمع کررکھی ہیں اور ان کے ٹیلی فون ٹیپ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے دوست ممالک بھی اس سے برگشتہ ہوگئے۔ جس میں فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں یہی نہیں  بلکہ فیس بک، فون پر گفت و شنید اور پیغام رسانی کو بھی ریکارڈ کرتا رہتاہے۔ جو کہ ویکی لیکس کی مرہون منت ہے کہ دنیا امریکہ کے مکروہ فعل سے واقف ہوئی۔

(8)ہندستان میں تحقیقاتی صحافت کا مثالی کارنامہ:

ہند ستان میں ابتدائے صحافت سے ہی تحقیقاتی صحافت میں انگریزی اخبارات کا نہ صرف اہم کردار رہا ہے بلکہ انہوں نے اپنی سبقت برقرار رکھی ہے۔ جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ انگریزی اخبارات کے منتظمین نہ صرف اپنے رپورٹرس کی حمایت کرتے ہیں۔ بلکہ آڑے وقت میں ان کے ساتھ مضبوط ستون بن کر انکا دفاع بھی کرتے ہیں۔ جب کوئی بیوروکریٹس کی بدعنوانی، سیاسی افراد کی بے لگام رشوت خوری، سیکس اسکینڈل، یا حکومت میں موجود اعلیٰ حکام کے گھپلوں کے خلاف کرائم رپورٹر س پوری تحقیق کے بعد شائع کرتے ہیں۔ اگر ان پر کسی قسم کا خطرہ منڈلاتا ہے تو انگریزی اخبارات کی پوری انتظامیہ شدت کے ساتھ انہیں نہ صرف سیکوریٹی فراہم کرتی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی تحقیقاتی صحافیوں نے مختلف کرپشن کو انکشاف کر کے مقبولیت حاصل کی۔ جن میں تہلکہ کے تیج پال سر فہرست ہیں۔ جب انہوں نے خاص طور پر ہندستان میں دفاعی شعبے میں ہورہے گھپلہ کا پردہ فاش کیا۔ جس میں فوجیوں کے تابوت گھوٹالہ سرخیوں میں رہے۔ علاوہ ازیں بی جے پی کے قومی صدر بنگالارو لکشمن کی رشوت خوری کو عام کرنا بھی شامل ہے۔ ان کے علاوہ سوپن داس گپتا، پرتیوش نندی،اور ارون شوری نے بھی تفتیشی صحافت وقار بخشا۔ دیگر معاملات میں فلم اسٹارس اور اہم شخصیات وسفید پوشوں کے جنسی اسکینڈل کو بھی بے نقاب کیا۔ کرکٹ میچ فکسنگ کا انکشاف بھی اسی تحقیقاتی صحافت کے سر رہا ہے۔

 (۱)انگریزی اخبارات کے صحافیوں نے انڈر ورلڈ کے کرتوت بھی منظر عام پر لائے۔ اس ضمن میں ممبئی کے مڈ ڈے کے کرائم رپورٹر جیوتی مائودیو کو 11جون 2011کو مافیا گرگوں نے گولی مار کر زندگی کا چراغ ہمیشہ کیلئے گل کر دیا۔ ابھی حالیہ 2017میں گوری لنکیش کو بھی بھگوا حامیوں نے گولی مار کر ان کے قلم کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔

 (۲)گزشتہ دور کے مقابلے موجودہ دور میں اسٹنگ آپریشن قدرے عام ہو گیا ہے۔ جہاں عینک،قلم، جوتا، کوٹ،پین،بٹن، پرس،کمرے کی دیوارمیں خفیہ کیمروں کی مدد سے آج کل انجام دیا جا رہا ہے۔ جس کی بدولت گجرات فسادات کے خاطیوں کو سزا ملی۔ سلکشن کائوچ کے نام پر جنسی استحصال کو بھی صحافیوں نے بے نقاب کیا۔

  (۳)گزشتہ چند برسوں میں ڈھونگی بابائوں کی جنسی اسکینڈل بھی اسی تحقیقی صحافت کی دین ہے۔ جس میں آسا رام،سوامی نتیہ نند،چندر سوامی،ستیہ سائیں بابا،پنجاب و ہریانہ کے بابارام رحیم، حصار کے باباگوپال،سے لیکر دہلی میں یونیورسٹی کے نام پرلڑکیوں کا سیکس اسکینڈل بھی اسی فہرست کی کڑی ہے۔ جسے سرکردہ تفتیشی صحافیوں نے انجام دیا۔

 (۴)یوں تو تحقیقاتی صحافت کی بدولت ہندستانی تاریخ میں بے شمار اسکام منظر عام پر آئے۔ جس میں کوئلہ اسکینڈل، چارہ گھوٹالہ،ٹوجی اسپیکٹرم، اسٹامپ پیپر گھپلہ،بوفورس کا کرپشن،ممبئی کا آدرش ہائوسنگ گھوٹالہ، ناردا،شاردا،ویاپم گھوٹالہ،انڈین اکسپریس کا سمنٹ گھوٹالہ یا انڈین واٹر گیٹ،قابل ذکر مثالیں ہیں۔

(۵)اس کے علاوہ مشہور صحافی سنتوش بھارتی کی تحقیقی رپورٹ کی بدولت ہی میرٹھ اور ہاشم پورہ فسادات کے مجرمین کو سزا ملی۔ وہیں ایمرجنسی کے زمانے میں تہاڑ جیل میں قید بھیڑ بکریوں کی ریوڑ کی طرح لوگوں کی قید و بند کی زندگی پر انڈین اکسپریس کے صحافی اشونی سرانی نے بے نقاب کیا۔ علاوہ ازیں 1981میں سیکس ریکٹ اور لڑکیوں کی خرید و فروخت کو عام کیا۔ مزید برآں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی پامالی کو بھی بے نقاب کیا۔ جس میں ایک قبائلی کملا نامی لڑکی کو کس طرح خرید و فروخت کیا گیا۔ ابھی حالیہ دنوں گجرات میں امیت شاہ کے بیٹے کی پچاس ہزار کی کمپنی میں کروڑوں کا اضافہ نوٹ بندی کے دوران ہوا۔ جسے ایک خاتون صحافی نے بے نقاب کیا۔ یہ تمام کارنامے تحقیقاتی صحافت کی ہی دین ہے۔ جس کی وجہ سے عوام و خواص مستفیض ہوتے ہیں۔

 (۶)خاتون صحافی رانا ایوب کا دلیرانہ انکشافات : تہلکہ ڈاٹ کوم میں کام کر چکی صحافیہ رانا ایوب نے اپنی کتاب ’’گجرات فائلس:پس پردہ حقائق کا انکشاف‘‘ میں گجرات فسادات،ہرین پانڈیا مرڈر کیس، سہراب الدین اورعشرت جہاں انکائونٹرکے ان خفیہ سازشی پہلوئو ں کا پردہ فاش کیا ہے جس کی وجہ سے آئی پی ایس ونجارا اور امیت شاہ کو جیل جانا پڑا تھا۔ جس میں انہوں نے ایک امریکی فلم ساز کا روپ دھار کراپنا نام ’’متھالی تیاگی‘‘رکھ لیا تھا اور آٹھ مہینے کی کڑی مشقت کے بعد رپورٹ تیار کی۔ جس میں انہوں نے گجرات سے متعلق ان تمام واقعات کا انکشاف کیا جس میں خاص طور پر مسلمان نشانے پر تھے۔ اس کتاب کو تہلکہ نے شائع کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے خود ہی گجرات فائلس:اناٹومی آف اے کوور اپ‘‘انگریزی میں شائع کی جوانٹر نیٹ پرایمیزون اور فلپ کارٹ پر دستیاب ہے۔ جس کا اردو ترجمہ محمد ضیاء اللہ ندوی نے کیاہے۔

 رائے عامہ ہموار کرنے یا بگاڑنے میں صحافت کا رول:

اگر صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتاہے تو وہیں معاشرہ کا مصلح،مخبر اور سماج کا نگراں کے علاوہ ذہن ساز بھی ہے۔ ہر زمانے میں رائے عامہ کو ہموار کرنے یا بگاڑنے میں صحافت کا اہم کردار رہا ہے۔ صحافت ایک معزز اور مقدس پیشہ ہے۔ مگر چند مفاد پرست اور حکومت کے چاپلوس لوگوں نے اس کے تقدس کو پامال بھی کیا ہے مگر ایسے دور میں روش کمارو دیگر سرکردہ صحافیان   عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے آج تک ڈٹے ہوئے ہیں۔

 (9)اردو میں تفتیشی صحافت اور صحافیوں کا فقدان:

اردو میں تحقیقاتی صحافت اور تحقیقاتی صحافیوں کا فقدان ہے۔ اس کے باوجود چند اردو صحافیوں نے اس میدان میں قدم رکھ کرتحقیقی صحافت کوبنجر ہونے سے بچا رکھا ہے۔ اس سلسلے میں حیدر آباد کے ہفتہ روزہ اخبار کے مدیر ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کے مطابق اردو اخبارات سے وابستہ صحافیوں میں تحقیقی صلاحتیں موجود ہیں۔ ان میں حیدر آباد کے جواں سال صحافی ابو ایمل نے سیاست اور منصف کیلئے کارہائے نمایا ں انجام دیئے ہیں۔ جن میں اوقافی جائدادوں پر ناجائز قبضے، بھگوا جماعتوں کے خفیہ منصوبے وغیرہ پر تحقیقی کالم لکھے۔ جنہیں اردو کا ویکی لیکس کا خطاب دیا گیا۔ ان کی سر بلندی کی وجہ جہاں ان کی بے باکی اور جرائتمندی ہے تو وہیں ان کی مستحکم معاشی حالت بھی ہے۔ کیونکہ یہ معاشی فکر کی قید سے آزاد ہیں اور اخباری تنخواہ پر منحصر نہیں ہیں۔ اسلئے پوری دل جمعی اور نڈر ہو کر تحقیقی صحافت سے منسلک ہیں۔ دیگر اردو صحافیوں میں کئی کرائم رپورٹرس نے مقبولیت حاصل کی مگر حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے چند کرائم رپورٹرس میں خرم نفیس(رہنمائے دکن) جبار صدیقی (سیاست نیوز)جلال(سیاست)فرخ شہریار (رہنمائے دکن)شفیق الرحمان(منصف) سبحان اور محمد رضوان قابل ذکر ہیں۔

 (۲) اس ضمن میں راشٹریہ سہارا کے سابق گروپ ایڈیٹر عزیز برنی نے اردو صحافت کو ایک نئی جہت بخشی۔ جنہوں نے بٹلہ ہائوس انکائونٹر پر تحقیقی رپورٹ شائع کی۔ تو وہیں بم بلاسٹ اور بے گناہ مسلم نوجوانوں کے جیل میں بند ہونے کی روداد لکھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ کے نائن الیون یا ہندستان میں ممبئی کے 26/11کا واقعہ ہو۔ انہوں نے  اپنے قلم کی روانی کو جلا بخشتے ہوئے تفتیشی صحافت کے رخ کو موڑ کر ایک نئی روایت قائم کی۔ علاوہ ازیں راشٹریہ سہارا کے دستاویزات میں مختلف صحافیوں کے تحقیقی مواد نظر آتے ہیں۔

 (۳)کلکتہ میں تفتیشی صحافت: کلکتہ کی سر زمین بھی تفتیشی صحافت کیلئے سنگلاخ ضرور ہے مگر بنجر نہیں ہے بلکہ اسے بانجھ کا کلنک لگنے سے محفوظ رکھا ہے جسے خاموشی سے گاہے بگاہے انجام دیتا آ رہا ہے۔ اس ضمن میں اخبار مشرق سے منسلک اور ہماری تنظیم بنگال اردو جرنلسٹ  ویلفیئر ایسو سی ایشن کے سکریٹری شکیل افروز کی مختلف سروے کردہ رپورٹ جو کتابی شکل میں موجود ہیں۔ جسے موجودہ دور میں تحقیقاتی صحافت نہیں تو اس کی کڑی ضرور قرار دی جا سکتی ہے جہاں سے تفتیشی صحافت کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ ان میں مغربی بنگال کے’مسلم قبرستانوں کا تاریخی پس منظر، اللہ کا گھر، کلکتہ کے نئے اور پرانے بازار، غالب کلکتہ میں، اور ’کلکتہ کا کمال ‘میں تاریخی ٰ عمارتوں کا ذکر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

 (۴)دوسری جانب اپنی بات کہنا خود اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے مترادف ہے۔ مگر حالات کی نزاکت کی بناء پر ذکر کرنا مناسب ہے۔ راقم (مہتاب عالم)کا2013جولائی کے ماہنامہ برحق کے شمارے میں ایک تحقیقی رپورٹ بعنوان ’’کمرہٹی کے جعلی مفتی کے جعلی سرٹیفکٹ کا پردہ فاش ‘‘ شائع ہوئی۔ جس کے بعد علاقے میں کہرام بپا ہو گیا اور رمضان کے مہینے میں عوام کو اسلام پر حملہ کے نام ورغلایا گیا جہاں بی ٹی روڈ کو کئی گھنٹوں تک کو جام رکھا گیا نیز چھ تاسات پولس افسران بھی زخمی ہوئے اور کئی پولس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ جس کی وجہ سے مجھے پندرہ دن جلا وطن کی زندگی گزارنی پڑی اورچھ دنوں کیلئے جیل کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔ اس سلسلے میں میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے خضر پور کا ماہنامہ اخبار’ رونق‘ کی جانب سے بے باک صحافی کا خطاب دیا گیا۔

  ‘اس کے علاوہ کرائم رپورٹنگ کو تفتیشی صحافت کا رخ دیتے ہوئے اسے بھی بعنوان ’’بیٹے کا اغوا کے بعد قتل اور ماں کو دھمکی‘‘ اخبار مشرق میں شائع ہوا۔ دونوں کیس آج تک بارکپور عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ علاوہ ازیں اخبار مشرق کے گلدستہ میں ’ح’ رام زادوں کی اصل تصویر پانچ ہزار سالہ تاریخ کے آئینے میں ‘‘اوم ‘‘ اسلامی شخصیت، چودہ قسطوں پر مشتمل سات صدی قبل امریکہ مسلمانوں کی دریافت کے نام سے بھی شائع ہوا۔ اس کے علاوہ مختلف تحقیقی رپورٹس روزنامہ اخبار مشرق میں شائع ہو کر مقبول ہوئی۔ 2017 میں 13رجب المرجب کومولود کعبہ حضرت علی کی پیدائش پر 32حوالے سے تحقیقی موادسپرد قلم کیا گیا۔ جسے راشٹریہ سہارا نے صرف 9حوالوں سے شائع کیا۔ رواں سال جنوری کے پہلے ہفتہ میں روزنامہ ورق تازہ، ناندیڑ، مہاراشٹر میں احقر کا مضمون بعنوان ’’ہندو استھان کے بھکتوں کو ہند سنتان اور آریہ ورت (ثیثؑ) کا حقیقی آئینہ۔ صرف یہی نہیں بلکہ تصوف،مذہبی، ہندہندی،ہندو ازم، ہندو اور ہندو استھان پر بھی ناچیز نے تحقیقی صحافت کی چھاپ برقرار رکھنے کی کوششیں جاری رکھی ہے۔ جس میں خصوصی طور پر گزشتہ چھ برسوں سے مسلسل اعداد و شمار کے ساتھ ریاستی اردو ہائی اسکول اور ہائر سکنڈری اسکولوں کے نتائج اور تجزیاتی رپورٹ کے علاوہ موجودہ ڈھانچے کی رپورٹنگ بھی شامل ہے۔

(10)اردو اخبارات کے مالکان کی بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ اقدام:

اردو اخبارات میں بہت کم تحقیقاتی صحافت دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیونکہ اردو اخبارات کے مالکان اور انتظامیہ بر سر اقتدار حکمراں جماعت یا بیورو کریٹس، یا سفید پوشوں یا خاکی وردی کی ناراضگی مولنا نہیں چاہتے اور نہ ہی ان سے مقابلہ آرائی  بلکہ شتر مرغ کی طرح ریت میں اپنے سر کو چھپانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ ان سب وجوہات کے باوجود اگر کوئی صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کوئی کرپشن یا اسکینڈل کو بے نقاب کرتاہے تو اس سلسلے میں اردو اخبارات کے خلاف مقدمہ دائر ہوتا ہے تو بیشتر اخبارات نہ صرف معذرت کر لیتے ہیں بلکہ اپنے رپورٹروں کو ان کی جرائت مندی پر بجائے انعام دینے کے انکا شعبہ ہی بدل دیا جاتا ہے۔ یا پھر ایسے صحافی کو اخبار سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس کی زندہ مثال ہماری تنظیم بنگال اردو جرنلسٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن کے اسسٹنٹ سکریٹری افروز عالم اور عزیز برنی ہیں۔ اردو صحافت میں تحقیقی صحافت سے زیادہ کرائم رپورٹنگ پر توجہ دی جاتی ہے۔ جو عموماً پولس اور انتظامیہ کے ذریعہ دی گئی اعداد و شمار پر مشتمل ہوتاہے۔ جرائم کی خبر نگاری جوکھم بھرا اور مستقل مزاجی کا کام ہے۔ عام طور پر اردو اخبارات کے مالکان کوئی رسک نہیں لینا چاہتے ہیں۔ یا خطروں سے کھیلنے کے بجائے گریز کرنے میں اپنی کلا کاری سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان پر عدالت میں مقدمہ دائر ہونے میں دیر نہیں لگتی جو عدالت کی چکر لگانے سے گھبراتے ہیں۔ جسے فضول وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔

وسائل و امکانات:

آج اردو اخبارات یا صحافیوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔ ان کے پاس تحقیقاتی صحافت کیلئے کافی مواد ہیں۔ میدان بھی کھلا ہے۔ کمی اگر ہے تو صرف اور صرف اردو اخبارات کی مالکان کی اپنے رپورٹروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ علاوہ ازیں جاب سیکوریٹی کی بھی سخت ضرورت ہے۔ اردو اخبارات کرائم رپورٹنگ کو تھوڑی سے دل جمعی اور مستقل مزاجی اور فراست سے اسے تحقیقاتی صحافت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس لئے کہ آئے دن مختلف قسم کے اسکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔ اردو کے صحافیوں میں بھی صلاحیت کی کمی نہیں ہے بس تھوڑی سے حوصلہ افزائی اور انہیں تراش خراش کر نکھارنا ہے نیز انہیں معاشی فکر سے آزادی دلانے سے اس قسم کا اہم کام لیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے مجیٹیا کمیشن کے مطابق ایک ڈیسک پر کام کرنے والے صحافیوں کی تنخواہ کم از کم 32تا34ہزار ہونی چاہئے تاکہ وہ آزادانہ طورپر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ اس کیلئے شرط

ہے کہ اردو اخبارات کے مالکان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایسے صحافیوں کی ہمت افزائی کریں تو یقیناً اردو کے صحافی حضرات بھی انگریزی صحافت کے شانہ بشانہ اپنے اخبار کے ساتھ ساتھ اپنی مقبولیت و صلاحیت کا لوہا منوا سکتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔