سوشل میڈیا: غور و فکر کے چند پہلو

محمد شاہد خان

ایک زمانہ تھا جب انسان لکھنے پڑھنے اور اپنی علمی وفکری يادداشتوں کو محفوظ رکھنے کیلئے پتوں، چمڑوں اور پتھروں کا سہارا لیا کرتا تھا، پیغام رسانی کا عمل بھی زبانی یا انہی وسائل، یا پھر بعض حیوانات کے ذریعہ انجام پاتا تھا- پھر نسل انسانی نے تھوڑی ترقی کی اور وہ حجری دور سے نکل صنعتی دور میں داخل ہوئی، کاغذ ایجاد ہوا اور انسانی علوم وفنون کا سارا ورثہ ان کاغذات کے سینے میں محفوظ ہونے لگا۔ انھیں کاغذات پر عاشقوں نے اپنی معشوقاوں کے خاکے کھینچے، فرماں رواؤں نے اپنے ماتحتوں کو حکم نامے جاری کئے، اساتذہ نے طلباء کو زندگی کے گُر سکھائے، والدین نے اپنے بچوں کی خبر گیری کی، دوستوں نے ایک دوسرے کی مزاج پرسی کی اور اہل علم ودانش نے اپنے ہنر کو محفوظ کیا۔ اسی کے ساتھ ظلم وجور کی کہانیاں بھی مؤرخین نے بڑی جانفشانی سے نقش اوراق کیں ، لیکن اسوقت مظلوم اور ناتواں آوازوں کو کوئی سہارا دینے والا نہیں تھا، اسوقت دنیا اتنی وسیع وعریض محسوس ہوتی تھی کہ اسکے اُور چُھور کا اندازہ لگانا مشکل معلوم ہوتا تھا۔ پھر پرنٹنگ پریس اور ٹیلی ویزن کا زمانہ آیا جس نے عام آدمی کی آواز کو مزید طاقت بخشی، علوم و فنون کو فروغ دیا، ترقیات کی حمایت کی اور انسانی معاشرہ کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب کرنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن اس دور میں بھی جب سسٹم یا سماج کی ناانصافیوں اور ظلم وبربریت  کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند کی جاتی تو اسپر سنسرشپ کا قہر نازل ہوجاتا، اخبار وجرائد اور ٹیلی ویزن کے مالکان کو اپنی مصلحتوں یا مجبوریوں کے سبب سنسرشپ کی قینچی چلانی پڑتی، چنانچہ وہ کاٹ چھانٹ کرتے اورپھر وہی اور اتنا ہی دکھاتے جو وہ چاہتے، اسلئے دنیا گول ہونے کے باوجود کافی لمبی چوڑی محسوس ہوتی تھی۔

بالآخر سوشل میڈیا کا زمانہ آیا، سوشل میڈیا کا مقصد اس کائنات میں بسنے والے تمام انسانوں کو ایک دوسر ے سے قریب لانا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے جڑ سکیں ، آپس میں خوشیاں بانٹ سکیں ، ایک دوسرے کے افکار و خیالات سے استفادہ کرسکیں ، ایک صحتمند ڈیبیٹ کا ماحول پیدا ہو تاکہ انسانی صلاحیتوں میں نکھار آئے، اچھے خیالات ideas  سامنے آئیں اور پھر ہم خیال افراد کی ایک لڑی بنے جو ایک دوسری کے مددگار بن سکیں ، کمزوروں کی آواز کو توانائی حاصل ہو، حکومتوں اور اداروں کو عوامی فلاح وبہبود کے تئیں زیادہ سے زیادہ جوابدہ بنایا جاسکے اور ایک ترقی پسند و تحمل مزاج معاشرہ کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے بلکہ انسانوں کی خود اختیاری کی سمت یہ بہت بڑا قدم ہے۔ اب اسپر سنسر شپ کی قینچی چلانا ممکن نہیں ہے،  سوشل میڈیا کی شروعات ہی کم از کم دو افراد کی دوستی سے ہوتی ہے، اس میں پسند like کا اختیا تو ملتا ہے لیکن ناپسندیدگی unlike کا اختیا ر نہیں ہے، البتہ وہ نامناسب یا نفرت انگیز ترسیلات کو بلاک ضرور کرتا ہے اور بسا اوقات اکاؤنٹ ہی معطل کردیتا ہے، تاکہ انسانی رشتے متاثر نہ ہوں اور دوستیاں نہ ٹوٹیں ۔ دراصل وہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ خوشیاں بانٹیں ،  معلومات شئر کریں ، نئے نئے افکار و خیالات پیش کریں ، ان پر صحتمند گفتگو  کریں ، تاکہ سوسائٹی کو اس کا فائدہ ہو اور دنیا ایک بہتر جائے قیام بن سکے اور انسان کو اس دنیا میں دیرپا خوشیاں نصیب ہوسکیں ۔

سوشل میڈیا کی دنیا بڑی خوبصورت ہے، اس نے دنیا کو ایک مٹھی میں سمیٹ کررکھ دیا ہے، اس نے مختلف انسانی رشتوں کو بہت پاس لا کھڑا کیا ہے، اب کوئی اپنا ہو یا غیر اسکے احوال و کوائف سے بےخبر نہیں رہا جاسکتا، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بچی، بوڑھا ہو یا جوان اس میں سب کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ اب کمرے کا سناٹا ہو یا صحرا  کی سائیں سائیں ، محفل کی تنہائی ہو یا اکیلے پن کی اداسی ،ان سارے اکتاہٹ بھرے لمحات میں سوشل میڈیا کی ایک خوبصورت دنیا ہمیشہ ہمارے ساتھ ایک چھوٹی سی الیکٹرانک ڈیوائس میں موجود رہتی ہے، جو بس انگلی کے ایک اشارے سے چشم زدن میں  ہمارے لئے اپنی خوبصورت کھڑکیاں کھول دیتی ہے اور ہر ذوق کی تسکین کا سامان بہم کرتی ہے۔

کہتے ہیں کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک مثبت اور دوسرا منفی، سوشل میڈیا بھی اس کلیہ سے مستثنی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک انقلاب ہے، آج دنیا  کی رائے عامہ بنانے میں اسکا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے، یہاں تک کہ حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے، مظلوموں کو انصاف دلانے اور حکومتی اداروں کو جوابدہ بنانے میں بہت موثر  ثابت ہورہی ہے، سوشل میڈیا کی خبریں اب مین اسٹریم میڈیا کی بھی زینت بنتی ہیں بلکہ بعض میڈیا ہاؤسز تو سوشل میڈیا کو اپنی معلومات کا ذریعہ بناتے ہیں اور اس کی بنیاد پر رپورٹیں تیار کرتے ہیں ، اب کوئی بڑا افسر ہو یا رہنما، وہ اس بات سے خوف زدہ رہتا ہے کہ کب اسکی بدعنوانی کا پردہ فاش ہوجائے اوراسکے منصب اور شہرت کی بینڈ بج جائے، سماجی وسیاسی مسائل سے لیکر تجارت و معیشت ٹک  ہر جگہ سوشل میڈیا کی جلوہ گری ہے، مختلف علمی وفکری، ادبی وتحقیقی، سیاسی وسماجی اور معاشی وتجارتی ادارے سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنے پروڈکٹس اور افکار ونظریات کی نشر و اشاعت کرتے ہیں اور اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اسلام پسند طبقہ یہاں بھی بہت پیچھے ہے، اس میڈیم کو اسلام کی نشر و اشاعت اور اسکے دفاع کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے ایک زمانہ میں یہ کہا جاتا تھا کہ ایک اخبار نکالنے یا ٹیلی ویزن چینل کھولنے کیلئے بہت بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے  لیکن آج انٹرنٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے اس سرمایہ کاری کو بہت کم کردیا دیا ہے اب یہاں کسی بڑی سرمایہ کاری کے بغیر بھی بہت بڑے بڑے کام کئے جا سکتے ہیں – The wire جیسے انٹرنٹ چینل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر افراد سازی کرلی جائے تو بہت معمولی سرمایہ سے بڑے بڑے سرمایہ سے قائم شدہ میڈیا ہاؤسز کو پیچھے چھوڑا جاسکتا ہے ،اس پہلو پر تمام مدارس وجامعات اور سماجی خدمت گزاروں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال کے منفی پہلو بھی ہیں ، یہاں جھوٹ کی کالا بازاری بھی  کی جاتی ہے، افواہوں کا بازار گرم کیا جاتا ہے، معصوموں کو بلیک میل کیا جاتا ہے، عدم برداشت کا مظاہرہ جابجا دیکھنے میں آتا رہتا ہے، اکثر  جب کسی کو کسی کے نظریہ سے اتفاق نہیں ہوتا تو اسے ٹرول troll کیا جاتا ہے،  انتہائی سخت اور سستے تبصرے کئے جاتے ہیں ، نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، گالیاں دی جاتی ہیں، غیر تو غیر اپنوں کی بھی دل آزاری کی جاتی ہے جو کہ  سوشل میڈیا کے مقاصد کے بالکل برعکس ہے، حالانکہ اگر شوشل میڈیا پر کسی کو  کسی کی پوسٹ پسند نہ آئے تو اسے بآسانی نظر انداز کرکے آگے بڑھا جاسکتا ہے یا اگر کسی نظریہ سے اتفاق نہ ہو تو وقار کے ساتھ اسکا علمی انداز میں جواب دیا جاسکتا ہے یا اپنے وال پر اسکی تردید کی جاسکتی ہے ہمیں خیال رہنا چاہئے کہ سوشل میڈیا دل آزاری کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ رشتوں کو بنانے، ایک دوسرے کے افکار ونظریات سے فائدہ اٹھانے، مثبت اقدار کو بڑھاوا دینے، معلومات کو نشر کرنے اور صحتمند گفتگو کیلئے ہے تاکہ دنیا امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔