گجرات اسمبلی الیکشن: ’پپو‘ پاس ہوپائے گا؟

نایاب حسن

 اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ موجودہ ہندوستانی سیاست میں گجرات کوغیرمعمولی اہمیت حاصل ہے، مودی اینڈ کمپنی کے ملکی منظر نامے پر نمایاں ہونے اور مرکزی اقتدار تک پہنچنے میں بھی گجرات کی حصے داری رہی ہے، مودی ملک کے جس صوبے اور شہر میں گئے وہاں انھوں نے گجرات کی ترقیات کا حوالہ دے کر عوا م سے ووٹ مانگا اور عام طورپر گجرات کی حقیقت کا پتالگانے کی زحمت کیے بغیر لوگوں نے ان کو توقع سے زیادہ حمایت سے نوازا، یہاں ایک بات اور قابلِ غور ہے کہ 2014ء میں ہونے والے عام انتخابات پر2012ء میں ہونے والے گجرات اسمبلی الیکشن کا بھی کسی نہ کسی حد تک اثر تھا؛چنانچہ بی جے پی کو گجرات میں حاصل ہونے والی کامیابی پورے ملک میں اس کی کامیابی کا حوالہ بن گئی اور مودی ناقابلِ یقین اکثریت کے ساتھ مرکزی اقتدار پر قابض ہوگئے۔

عجیب اتفاق ہے کہ اب جو گجرات میں الیکشن ہونے جارہا ہے، اس کے سال ڈیڑھ سال بعد ہی پھر عام انتخابات کاموسم آنے والا ہے؛چنانچہ یہ والا گجرات الیکشن بھی پہلے کی سی اہمیت کا حامل ہے؛بلکہ بی جے پی کے لیے تواس کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہے؛کیوں کہ پچھلی بار مرکز میں یوپی اے سرکار تھی اور بی جے پی کے لیے مد مقابل کو پست کرنے کے حربے وافر تعداد میں موجود تھے؛مگر اس با رتو گجرات میں بھی مودی ہیں اور سینٹر میں بھی مودی ہیں، سو معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو جواب دہی زیادہ بی جے پی کی بنتی ہے، لوگوں کو پوچھنے کا حق ہے کہ گجرات سمیت سینٹر میں حکومت کرنے کے باوجود انھوں نے عوام کے لیے کیا کیا؟کن وعدوں کی تکمیل کی اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے؟

سارے ہندوستان میں ترقی کے گجرات ماڈل کا گن گان کرتے رہے، اس لیے بھی یہ الیکشن مودی اینڈ کمپنی کے لیے اہم ترین ہوگا، مودی لہرساڑھے تین سال کے عرصے میں کم ہوئی ہے یا بڑھی ہے، اس کے پیمانے کے طورپر بھی گجرات الیکشن کو دیکھا جارہا ہے۔الیکشن سے قبل الیکشن کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر کی وجہ سے براہِ راست الیکشن کمیشن اور بالواسطہ بی جے پی پر اعتراضات بھی کیے گئے ہیں، کیوں کہ اس تاخیر کی مدت میں ہی مودی نے گجرات کے دودورے کیے، جن کے دوران انھوں نے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرکے عوام کو لبھانے کی کوشش کی، کانگریس نے اس تاخیر میں مرکز کا ہاتھ مانتے ہوئے الیکشن کمیشن کی خود مختاری پرسوالیہ نشان قائم کیا، جبکہ چیف الیکشن کمشنراے کے جوتی نے سیلاب متاثرین کے مابین ریلیف آپریشن کے متاثر ہونے کے خدشے کا حوالہ دے کر بچ نکلنے کی کوشش کی۔

 کانگریس کے حوالے سے اس الیکشن کو دونقطۂ نظر سے دیکھا جاسکتا ہے، ایک تو وہی جس کی مثالیں ہمیں گزشتہ تین سالوں کے دوران ہونے والے بیشتر صوبائی انتخابات میں دیکھنے کو ملیں کہ کانگریس نے محض رسم نبھانے کے لیے ان انتخابات میں حصہ لیا اور شریفوں کی طرح شکست کھاکرایک طرف کوکنارے لگ گئی، اس طرح دیکھیں تو کانگریس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، ویسے بھی گجرات میں بی جے پی دودہائی کے زائدعرصے سے برسرِ اقتدار ہے؛ لہذا اگر ایک بار اورآجائے تو کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہونا چاہیے اور کانگریس کی حالیہ تین ساڑھے تین سالہ شکست خوردگی کی روایت کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے کوئی افسوس کی بات بھی نہیں ہونی چاہیے۔لیکن گجرات الیکشن کے حوالے سے کانگریس کے تئیں ایک دوسرا نقطۂ نظر بھی ہے اور میرے خیال سے زمینی سطح پروہی کام بھی کررہاہے، وہ یہ کہ پارٹی گجرات کے انتخابات کو اپنی نشأتِ نو کے سامان کے طورپر دیکھ رہی ہے اور کوشش کررہی ہے کہ اسے گجرات میں کامیابی حاصل ہوجائے، تاکہ 2019ء کی رزم آرائی میں سہولت ہو، راہل گاندھی، جنھیں بی جے پی نے گزشتہ سالوں ’’پپو‘‘کے عرفی نام سے مشہور کردیا تھا اور اخباری و الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک میں انھیں اسی نام سے پکارااور یاد کیاجانے لگا تھا۔

 اب اچانک بی جے پی کے لیے دردِسربنتے نظر آرہے ہیں اورشنیدہے کہ مودی کو راہل گاندھی کی ذات میں ایسی تاثیری صلاحیت نظر آنے لگی ہے، جو ان کی شہرت و مقبولیت کا گراف کم کرسکتی ہے؛اسی لیے وہ باربار خود بھی گجرات کے دورے کررہے ہیں اور یوگی جیسے ’’مہاپرش‘‘اوربی جے پی کے دیگر وزراے اعلیٰ کو گجرات کی’’زیارت‘‘کی ہدایت کی گئی ہے۔ انڈیاٹوڈے کی جانب سے ممبئی میں منعقد کیے گئے ایک پروگرام کے دوران مہاراشٹرمیں بی جے پی کی شریک حکمراں شیوسیناکے ایم پی وپارٹی ترجمان سنجے راوت اور ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے نے واضح طورپر کہاکہ گجرات میں کانگریس کی حالت بہتر ہے اور بی جے پی راہل گاندھی سے اب گھبرارہی ہے، البتہ سنجے راوت نے یہ بھی کہا ہے کہ عوامی سطح پر کانگریس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود بی جے پی کی فتح کے امکانات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ فی الحال بی جے پی کے پاس پیسہ اور پاور سب کچھ ہے، جسے استعمال کرنے میں وہ نہیں چوکے گی۔

 کانگریس کے فیور میں یہاں دوچیزیں اہم ہیں، ایک تو یہ کہ زمینی سطح پر گجراتی عوام، چھوٹے چھوٹے تاجر اور کاروباری مودی حکومت کی پالیسی سے نالاں ہیں، صوبائی سطح پر لگاتار پچیس سال سے حکومت کرتے کرتے بی جے پی کا جھول عوام کے سامنے واضح ہوگیا ہے؛یہی وجہ ہے کہ آنندی بین پٹیل مودی کی’’دیرپا‘‘جانشین ثابت نہیں ہوسکی اور ان کی جگہ وجے روپانی کووزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بٹھانا پڑا، حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بڑی تیزی سے وائرل ہوا، جس میں عوام کی ایک بھیڑ مودی اور بی جے پی کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے دیکھی گئی، گویا یہ ایک زمینی واقعہ ہے کہ گجرات میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور کانگریس کے لیے چانس بن سکتا ہے۔ایک اور چیز جو کانگریس کے حق میں ہے، وہ گجرات میں پٹیل برادری کی جانب سے ہاردک پٹیل، دلت لیڈرجگنیش میوانی اور پسماندہ طبقات کے نمایندہ الپیش ٹھاکر جیسے نوجوان سیاسی لیڈروں کی مودی اور بی جے پی کی علانیہ مخالفت ہے، کانگریس اگر ان کی اس مخالفت کو صحیح طریقے سے کیش کراسکتی ہے اور انھیں محض اس نیت سے نہیں کہ بی جے پی کا ووٹ کاٹناہے، بلکہ  باقاعدہ اورمعقول سیاسی حصے داری کی یقین دہانی کے ساتھ خودسے جوڑنے کی کوشش کرتی اوراس میں کامیاب ہوجاتی ہے، توبڑی حد تک یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے گجرات الیکشن میں بی جے پی کو مات ہوجائے گی۔

کانگریس حامیوں اور مودی حکومت کی غیر معقول پالیسیوں سے نالاں طبقات کے مابین راہل گاندھی کا نیا اوتار تیزی سے مقبول ہورہاہے اور گجرات میں ان کے سامنے جمع ہونے والی بڑی بھیڑ اور ان کی معقول گفتگو کی وجہ سے اب بہ تدریج میڈیا نے بھی راہل گاندھی کا مذاق اڑانے کی بجاے ان کی سیاسی معنویت کو ڈسکشن کا موضوع بنانا شروع کردیا ہے، مگر راہل گاندھی کے لیے گجرات کے پس منظر میں ضروری ہوگا کہ وہ کانگریس کی روایتی ووٹ بینک بنانے یا کاٹنے کی پالیسی سے اوپر اٹھ کر ہاردک پٹیل جیسے اپنی نسل کے لیڈروں کو سیاسی حصے داری کی یقین دہانی کے ساتھ کانگریس سے جوڑیں، گجرات کے اسمبلی الیکشن میں یہ فیکٹرغیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور اس کے ادراک کے ساتھ ہی کانگریس کسی بہتری کی امید کرسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔