سوشل میڈیا پہ آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

شیخ مقبول احمد سلفی

سوال (1):اہل بدعت کو جب بدعت پہ خبردار کرتے ہیں یا ان کے متعلق دوسروں کو ان کی خرافات سے بچنے کی دعوت دیتے ہیں تو لوگ اسے مسلمان کے تئیں غیبت قرار دیتے ہیں آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟

جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے منکر کو مٹانے کا حکم دیا ہے لہذا ہمارا کام منکر کو مٹانا ہو۔ منکر میں کفر، شرک، بدعت، خرافات اور فسق و فجور سبھی داخل ہیں۔ منکر مٹانا اور منکر انجام دینے والوں کا رد کرنا سنت رسول ہے اسے غیبت نہیں کہیں گے۔

سوال (2): میرا شوہر پردیش میں بنک سے الگ ہوکر حساب وکتاب(آڈٹ) کا کام کرتا ہے، اس کام میں لوگوں کے اکاؤنٹ کی تفاصیل بتلانی ہوتی ہے نیز ان لوگوں کے سودی قرضے ہوتے ہیں توان کی تفاصیل بھی آڈٹ کرنا پڑتا ہے کیا یہ کام سود کے دائرے میں آتا ہے؟

جواب : اگر آڈٹ کا کام جنرل ہے یعنی سبھی جائز جگہوں پہ اور ساری عام کمپنیوں کے لئے آڈٹ کرتے ہیں تو اس نوکری میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ برائی کے کاموں پر تعاون سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن اگر آڈٹ کا کام صرف سودی بنکوں کے کلائنٹوں کے لئے ہے جن کا اکاؤنٹ چیک کرنا ہوتا ہے تو یہ سود پہ تعاون ہے اور ایسی نوکری جائز نہیں ہے۔

سوال (3):سورہ کہف کی انیسویں آیت کا ایک لفظ ہے "ولیتلطف” جس کاترجمہ ہے نرمی سے بات کرنا۔ یہ تھوڑا بڑا کرکے قرآن میں لکھا ہوا ہوتا ہے کیونکہ یہ قرآن پاک کے درمیان میں آتا ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کہتے ہیں کہ یہ لفظ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس سلسلے میں ہم آپ سے صحیح رہنمائی چاہتے ہیں۔

جواب :یہ لفظ وسط قرآن ہےکہنا صحیح نہیں ہے۔ اکثرمفسرین نے سورہ کہف کی 74 آیت کے لفظ” نکرا "کا نون وسط کہا ہے۔ ہندوستان و پاکستان والوں کا قرآن میں ولیتلطف کو بڑاکرنا اپنی طرف سے زیادتی ہے۔ سعودی کے قرآن میں ایسا نہیں ہے جہاں قرآن اترا بلکہ تفسیر ابن کثیر اور طبری وغیرہ میں اس لفظ پر کوئی بحث موجود نہیں ہےاس لئے اس لفظ کی اپنی جانب سے کوئی خصوصیت ذکر کرنا صحیح نہیں ہے۔ ولیتلطف کا جو معنی ومفہوم نکلتا ہے بس اسے بیان کرنا چاہئے۔

سوال (4): مجھے مندرجہ ذیل حدیث کا مفہوم جاننا ہے۔ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: آدمی ( نماز پڑھ کر ) لوٹتا ہے تو اسے اپنی نماز کے ثواب کا صرف دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا اور آدھا ہی حصہ ملتا ہے” ابوداؤد: 796

جواب : اوپر والی حدیث ابوداؤد کی شرح عون المعبود میں لکھاہے کہ نماز کے ارکان ‘ شروط اور خشوع و خضوع وغیرہ میں خلل کی وجہ سے نماز کے اجر میں فرق پڑتا ہے۔

سوال (5):الباقیات الصالحات سے کیا مراد ہے اور اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟

جواب : وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا (مريم:76)

ترجمہ: اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے بہت ہی بہتر ہے۔

یہاں ” الباقیات الصالحات” (باقی رہنے والی نیکیاں) سے بعض علماء نے "سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر” کہا ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد تمام قسم کے اعمال صالحہ ہیں۔

اورالباقیات الصالحات کی وجہ تسمیہ کے متعلق علماء بیان کرتے ہیں کہ اس کا اجر آدمی کے لئے باقی رہتا ہے اور کبھی وہ فانی نہیں ہوتااس لئے اسے الباقیات الصالحات کہا جاتا ہے۔

سوال (6): مشروم حلال ہے یا مکروہ ہے ؟

جواب : یہ زمین سے اگنے والی ایک قسم کی سبزی ہے۔ اس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، بعض میں انسانی جسم کے نقصان اور بعض جسمانی اعتبار سے مفید ہے۔ جس قسم کے مشروم میں نقصان دہ کوئی پہلو نہ ہو تو اسے بلا حرح غذا کے طور پر استعما ل کیا جاسکتا ہے۔

سوال (7): اس حدیث کا مطلب سمجھا دیں.

اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے رازداری سے مدد لو کیونکہ ہر اُس انسان سے (لوگوں کی طرف سے) حسد کیا جاتا ہے جس پر اللہ کی طرف سے نعمت کی گئی ہو(صحيح الجامع للألباني : 943، السلسلة الصحيحة الألباني : 1453)

جواب : اگر کسی مسلمان کو اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملے تو اسے بیان کرنا چاہئے اس سے نعمت کی قدر اور اللہ کا شکر ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ نے نبی ﷺ کو اس بات کا حکم بھی دیا ہے۔

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحی:11)

ترجمہ: اور اپنے رب کی نعمتوں کا تذکرہ کریں۔

ہاں اگر کسی خاص نعمت کے بیان کرنے سے بغض وحسد کا اندیشہ ہو تو نعمت کا ذکر خصوصیت کے ساتھ نہ کریں بلکہ عمومی انداز میں کریں تاکہ آپ کی اس خاص نعمت کا حاسد کو پتہ نہ چلے جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر کیا ہے۔

قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا(یوسف:5)

ترجمہ: یعقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے ! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں۔

اس آیت میں خواب کی نعمت وبشارت کو اپنے حاسد بھائی سے چھپانے کا ذکر ہے۔

اورفرمان نبوی ہے۔

استعينوا على إنجْاحِ الحوائِجِ بالكتمانِ ؛ فإنَّ كلَّ ذي نعمةٍ محسودٌ(صحيح الجامع:943)

ترجمہ: لوگوں سے چھپاکر اپنے مقاصد کی کامیابی پرمدد طلب کرو کیونکہ ہر نعمت والا حسد کیا جاتا ہے۔

سوال (8): ایک عورت نفل روزے کی نیت کی تھی دوپہر کے وقت بھول کر پیٹ بھر کھانا کھا لیا اس کا روزہ ٹوٹ گیا یا کوئی اور حکم ہے ؟

جواب:فرض روزہ ہو یا نفل بھول کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم کھائے یا زیادہ۔

سوال (9):”سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظيم”سوبار ہی پڑھنا ہے یا اس سے زیادہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ میری عادت یہ ہے کہ کام کاج کرتے ہوئے پڑھتی رہتی ہوں کبھی 150، تو کبھی دو ڈھائی سو بھی ہوجاتے ہیں کیا ایسا کرنا بدعت کے زمرے میں آئے گا؟

جواب:ذکرمیں سنت یہ ہے کہ جہاں تعداد وارد ہے وہاں تعداد کے حساب سے ذکر کرنا چاہئے اور جہاں تعداد وارد نہیں وہاں تعداد متعین کرکے ذکر کرنابدعت ہے۔ اگر کسی ذکر کے لئے مثلا 100 مرتبہ تعداد متعین ہے تو آپ بغیر تعیین کے 100 سے زائد بار بھی ذکر کرسکتے ہیں مگر 100 سے زائد بار متعین کرکے ذکر کرنا بدعت کہلائے گا۔ بطور مثال آپ نے 100 دفعہ والے ذکر کو150 فکس کرکے ذکر کرنا شروع کیا تو بدعت ہے مگر یونہی 150، 200 یا اس سے زیادہ ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال (10): اگر کوئی عورت فجر کے بعد دو رکعت اشراق پڑھنا چاہے اور سورج نکلنے تک ٹیک لگا کر ذکر کرتی یہاں تک کہ دو رکعت ادا کرلے تو کیا اسے پورے حج وعمرہ کا ثواب ملے گا اورکیا جگہ تبدیل کرنے سے پورے حج اور عمرہ کا ثواب نہیں ملتا ہے ؟

جواب:حج و عمرہ کا ثواب اس کو ملے گا جس نے فجر کی نماز جماعت سے ادا کی اور وہ وہیں بیٹھا ذکر کرتا رہا۔ شیخ ابن باز نے کہا کہ اس میں عورت بھی داخل ہے مگر شیخ ابن عثیمین نے کہا کہ اس میں عورت داخل نہیں ہے کیونکہ وہ جماعت سے نماز نہیں پڑھتی، ہاں اگر نماز پڑھ کر وہیں بیٹھی رہی اور ذکر کرتی رہی پھر دو رکعت نماز ادا کی تو خیر و بھلائی ہے۔

سوال (11): قرآن حفظ کرنے کے دوران ایک سورہ کو کئی دفعہ دہرانا ہوتا ہے تو ہر بار شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھیں گے یا نہیں؟

جواب: قرآن شروع کرتے وقت ایک بار بسم اللہ کہیں گے اور وہ بھی وہاں پرجہاں بسم اللہ آیا ہے یعنی سورت کے شروع میں مگر ہم نے درمیان سورت سے قرآن پڑھنا شروع کیا ہے تو صرف تعوذ یعنی اعوذ باللہ کہنا ہے۔

سوال(12): کیا إسرائيل یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا اگر ہاں تو اس طرح کہنا اسرائیل دہشت گرد ہے، اسرائیل خائن ہے، اسرائیل ناحق خون کررہا ہے، اسرائیل ظالم ہے وغیرہ کیسا ہے ؟

جواب: اسرائیل کو برا بھلا نہیں کہنا چاہئے بلکہ یہودی اور صہیونی کو گالی دینا چاہئے کیونکہ اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا نام تھا۔

سوال(13): یہودیوں کے ظلم اور مکاری کی وجہ سے ہم یہودی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ چیزیں جو دوسری کمپنی کا حلال نہیں لیکن یہودی کمپنی کا حلال ہے(مثلاً nescafe یہودی کمپنی osem کے ساتھ شئیر ہے لیکن اسکی coffee کا ingredients حلال ہے) تو کیا یہ بائیکاٹ درست ہے اور کیا ہم اسی طرح یہودی یا کسی غیر مسلم کے حلال پروڈکٹ خرید سکتے ہیں؟

جواب: اگر یہودی مصنوعات کا بدل موجود ہے جو مسلمانوں کی تیار کردہ ہے تو اسے استعمال کرنا بہتر ہے تاکہ مسلم تجارت کی مدد ہو لیکن بدل نہیں موجود ہے کافروں کی تیار کردہ ہے تو یہودی یا ہندو یا دوسرے کافر سارے اسلام کے دشمن ہیں، مجبوراان سب کا حلال سامان استعمال کرسکتے ہیں۔ ہاں اگر یہودی سے متعلق سارے مسلمان کسی خاص پس منظر میں مثلافلسطینی مسلمان پرظلم کے پس منظر میں اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے تو ہمیں ایک دوسرے مسلمان کا ساتھ دیتے ہوئے یہودی مصنوعات کابائیکاٹ کرنا چاہئےتاکہ تجارتی گھاٹے سے یہودی کو سبق ملے۔

سوال(14): اکثر غیر مسلموں کے تہوار پر بعض چیزیں آفراور ڈسکاؤنٹ پر ملتی ہیں، آن لائن یا آف لائن ہر جگہ یہی حال ہے تو کیا ہمیں غیر مسلموں کے تہوار پر ڈسکاؤنٹ میں ملنے والی چیزیں لینی چاہئے جبکہ ہم عام دنوں میں بھی وہ چیزیں خریدتے ہیں؟

جواب: تہوار کے موقع سےاس قسم کے آفر سے فائدہ اٹھانے پر کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال(15):جب گھر میں بڑے بزرگ بے نمازی یا بے دین ہوتو چھوٹا آدمی اسے کیسے سمجھائے ؟

جواب: اپنے سے بڑوں کو سمجھنا واقعی ذرا مشکل ہے، ہمیں حکمت سے برابر سمجھاتے رہنا چاہئے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے، ہم نے حکمت کے ساتھ ان پر صحیح بات پیش کردی تو ہمارا فریضہ ادا ہوگیا اللہ تعالی ہم سے اس فریضہ کے بارے میں سوال نہیں کرے گا۔ ساتھ ساتھ ان کی ہدایت کے لئے دعا کرتے رہیں، آپ سے نہ سمجھ پائے تو دوسروں کے ذریعہ سمجھائیں یا دینی پروگرام میں لے جائیں۔ یعنی اپنی بساط بھر کوشش کریں۔

سوال (16) : ایک خاتون اپنے بریلوی شوہر سے خلع لینا چاہتی ہے جب عورت شوہر سے خلع لے گی تو کیا خاوند عورت کو خرچ دے گا اور اولاد کس کے پاس رہے گی؟

جواب : شرعی عذر کے بنیاد پرشوہر سے خلع لینا جائز ہے، خلع لینے کے بعد عورت ایک حیض جہاں چاہے عدت گزارے گی اور اس عورت کے لئے سابق شوہر کی طرف سے نہ رہائش ہے اور نہ ہی خرچ تاہم اگر وہ حاملہ ہوتو وضع حمل تک نان ونفقہ اور رہائش ہے۔

اسلام میں عورت کو ہی بچے کی پرورش کا زیادہ حق ملا ہے لیکن عورت عدت گزارکر کسی اور مرد سے دوسری شادی کرلے تو اس صورت میں بچے کی پرورش کا حقدار بچوں کاباپ ہوگا اور جب بچہ باشعور ہوجائے تو اسے اختیار ہے ماں باپ میں سے جسے اختیارکرے۔ بچہ ولادت کے بعد جہاں بھی رہے اس وقت سے بلوغت تک اس کا خرچ باپ کے ذمہ ہے۔

سوال (17): کیا درود پڑھتے وقت اپنی جانب سے کچھ الفاظ اضافہ کردینا بدعت تو نہیں مثلا اللھم صلی علی سیدنا محمد۔ اس میں سیدنا کا لفظ زیادہ ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب : درود پڑھنے میں انہیں الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے جن کی نبی ﷺ نےہمیں تعلیم دی ہے البتہ مختصرا نبی ﷺ پر درود پڑھتے ہوئے بغیر تعیین کے مناسب الفاظ استعمال کئے جائیں تواس میں کوئی حرج نہیں ہے مثلا یہاں سید کا لفظ مناسب ہے اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حرج اس میں ہے کہ کوئی شخص اپنی جانب سے درود کے الفاظ وضع کرلے اور اسے ہی مخصوص کرکے پڑھتا رہے۔

سوال (18): میری امت میں بنو تمیم کے لوگ اہل شرک پر مضبوط اور بھاری ہوں گے اور قیامت تک کعبہ کی چابھی اس کے پاس رہے گی۔ اس قسم کی حدیث کی صحت درکار ہے۔

جواب : اس میں دوباتیں ہیں دونوں صحیح نہیں ہیں۔ پہلی بات جو صحیح ہے وہ اس طرح ہے۔

هم أشدُّ أُمَّتي علَى الدَّجَّالِ(صحيح البخاري:2543)

ترجمہ: یہ لوگ(بنوتمیم والے) دجال کے مقابلے میں امت میں سے سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔

اور دوسری بات یہ بنوتمیم قیامت تک کعبہ کی کلیدبرداری کریں گے وہ بھی صحیح نہیں ہے، یہ بات قبیلہ بنوشیبہ کے متعلق نبی ﷺ نے فرمائی تھی جب 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔حافظ ابن حجر ؒنےتہذیب میں لکھا ہےکہ نبی ﷺ نے شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ اور عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کو بلایا اور انہیں کعبہ کی چابھی سونپتے ہوئے فرمایاکہ یہ اب ہمیشہ کے لئے تمہارے پاس رہے گی، تم سے ظالم کے علاوہ کوئی نہیں چھین سکتا۔ انتہی۔ اور اس وقت سے اب تک بنوشیبہ میں ہی کلید برداری کی خدمت موجود ہے۔ ہاں بنوتمیم کے بڑے فضائل ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ قریش سے پہلے کلید برداری کرتے رہے ہیں۔

سوال (19) سردی کے موسم میں ایک نمازی کے لئے شریعت کی طرف سے کیا آسانی ہے ؟

جواب : سردی کا موسم مومن کے لئے موسم بہار ہے، اس میں عبادت کے پہلو سے خیر ہی خیر ہے۔ شعب الایمان اور مسند احمد وغیرہ میں ایک روایت ہے۔

الشِّتاءُ ربيعُ المؤمنِ، قصُرَ نهارُهُ فصامَ، وطالَ ليلُهُ فقامَ۔

ترجمہ:سردی مومن کے لئے موسم بہار ہے اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ روزہ رکھ لیتا ہے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں تو قیام کرلیتا ہے۔

شیخ البانی نے اس کی سند میں ضعف بتلایا ہے تاہم اسلاف سے موسم سرما میں خوش ہونے اور اس سے بکثرت فائدہ اٹھانے کا ذکر ملتا ہے۔ایک صحیح روایت اس طرح ہے۔

الغَنيمةُ الباردةُ، الصَّومُ في الشِّتاءِ(صحيح الترمذي:797)

ترجمہ: بڑی غنیمت ٹھنڈی ہے کہ اس میں روزہ رکھا جائے۔

عبادت کے اعتبار سے اس موسم میں بڑی غنیمتیں ہیں البتہ ٹھنڈک میں لوگوں کے لئے ضرر بھی ہے اس لئے زمانے میں ٹھنڈی کے ضرر سے بچنے کی جو بھی سہولت ہے اختیار کرسکتے ہیں۔ مثلا گرم پانی سے وضو یا غسل کرنا، مسجدوں میں ہیٹر وغیرہ کا انتظام کرنا، وضو کرکےلگائےہوئے موزے پر مسح کرنا، گرم لباس پہن کر عبادت کرنا، قالین پر نماز پڑھنا۔اسی طرح ایک وضو سے دوسرے وقتوں کی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ وضو یا غسل طہارت کرنے والے مسلمان ہی صرف ٹھنڈی میں بیمار نہیں پڑتے بلکہ نرم وگرم بستروں میں عیش کرنے والے بھی بیمار پڑتے ہیں۔ بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہے، مومن کے لئے بیماری میں اجر اور کافر کے لئے سراپا تکلیف ہے۔ اس لئے ایک مومن کو اللہ کے احکام کی تعمیل میں ہی آسانی ہے۔

سوال(20): کیا سردی میں ٹوپی پر مسح کرسکتے ہیں جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے عمامہ پر مسح کیا ہے ؟

جواب : سردی ہو یا گرمی نبی ﷺ نے عمامہ پر مسح کیا ہے تو عمامہ پر ہی مسح کرنا جائز ہوگا، اس لئے کوئی سردی کے موسم میں ٹوپی پر مسح نہیں کرسکتا۔

سوال(21): حلال جانور کا پاخانہ وضو کی حالت میں لگ جائے تو کیا وضو ٹوٹ جائے گا ؟

جواب : حلال جانور کاپیشاب وپاخانہ دونوں پاک ہیں، کپڑے میں لگ جانے سے کپڑا ناپاک نہیں ہوتااور وضو ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ نجاست کے چھونے یا لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا جہاں نجاست لگے وہ جگہ ناپاک ہوگی۔تاہم کپڑے پر ماکول اللحم جانور کا پیشاب یا پاخانہ لگ جائے تو اسے صاف کرلینا چاہئے۔

سوال (22): تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے باپ کے نام کے ساتھ پکارے جاؤگے اس لئے اچھے نام رکھا کرو، ابوداؤد کے حوالے سے کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟

جواب : ابوداؤد میں کتاب الادب کے تحت 4948 کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔

"إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسماءكم”

اس حدیث کی سند میں ضعف ہے جیساکہ شیخ البانی اور دیگر محدثین نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تاہم نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قیامت میں باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔

سوال(23): کیا وہ شخص لقمہ دے سکتا ہے جوجماعت میں ابھی شامل نہیں ہوا ہو؟

جواب : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ شخص جو ابھی نماز میں شامل نہیں ہوا ہے اس نے امام سےقرات میں کوئی بھولتے دیکھا تو لقمہ دیدے۔

سوال (24): فقیر اور مسکین کی صحیح تعریف بتلائیں۔

جواب : فقیر وہ ہے جواپنی ضروریات پورا کرنے کے قابل نہ ہو اوراس وجہ سے لوگوں سے مانگتا ہو اور مسکین وہ ہے جو محتاج ہو مگر اپنی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے نہ بیان کرتا ہو۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

ليس المسكينُ الذي يطوفُ على الناسِ، تَرُدُّهُ اللُّقمةُ واللقمتانِ، والتمرةُ والتمرتانِ، ولكنَّ المسكينَ : الذي لا يجدُ غِنًى يُغْنِيهِ، ولا يُفْطَنُ بهِ فيُتَصَدَّقْ عليهِ، ولا يقومُ فيسألَ الناسَ .( صحيح البخاري:1479)

ترجمہ: مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے پاس پھرتا ہے تاکہ اسے ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور مل جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بےپرواہ ہو جائے۔ اس حال میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دیدے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لیے اٹھتا ہے۔

سوال(25): اپنے کسی عزیز کی سخت ضعیفی کی حالت پہ اس قسم کے جملے کہنا کیسا ہے ؟ اللہ ان کے حق میں بہتر کرے، یا اللہ ان کے حق میں آسانی کرے۔

جواب : اس میں کوئی حرج نہیں، یہ دونوں دعائیہ جملے ہیں۔

سوال(26): اپنے وطن سے محبت کرنے کا اسلامی نظریہ کیا ہے ؟

جواب : وطن سے محبت کرنافطری امر ہے، اسلام نے اس سے کسی کو منع نہیں کیا ہے بلکہ وطن کی محبت کا اظہار نبی ﷺ سے اور ہمارے اسلاف سے ملتا ہے۔ ہاں یہ دھیان رہے کہ وطن کی محبت کو دین وایمان نہ سمجھے اور نہ ہی حب الوطنی میں غلو کرے یعنی وطن کی محبت کو دین کے کسی حکم پر ترجیح دے یا اس کی تعریف میں جھوٹی بات کہے یا حد سے تجاوز کرے۔ محبت اعتدال میں رہے تاکہ غلو اور تجاوز سے بچارہے۔

سوال(27): کیا حائضہ عورت میت کو غسل دے سکتی ہے ؟

جواب : حائضہ، نفساء اور جنبی عورتوں کا میت کو غسل دینے اور کفن دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سلسلے میں ممانعت پہ کوئی نص وارد نہیں ہے۔

سوال(28): پنچ وقتہ نمازوں کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟

جواب : ترمذی کی مندرجہ ذیل روایت میں نمازوں کے اسماء اور ان کی وجہ بیان کی گئی ہے۔طوالت کی وجہ سے صرف ترجمہ پیش کرتا ہوں۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دوبارامامت کی،پہلی بارانہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیااور)سایہ جوتے کے تسمہ کے برابرہوگیا، پھرعصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا،پھر مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اورصائم نے افطار کرلیا، پھر عشاء اس وقت پڑھی جب شفق غائب ہوگئی، پھرصلاۃِ فجر اس وقت پڑھی جب فجرروشن ہوگئی اورصائم پرکھاناپینا حرام ہوگیا، دوسری بارظہرکل کی عصرکے وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے مثل ہوگیا، پھر عصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے دومثل ہوگیا، پھر مغرب اس کے اوّل وقت ہی میں پڑھی (جیسے پہلی بارمیں پڑھی تھی) پھر عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزرگئی، پھرفجراس وقت پڑھی جب اجالا ہوگیا، پھرجبرئیل نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا:اے محمد! یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقاتِ صلاۃ تھے، آپ کی صلاتوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں۔( صحيح الترمذي:149)

تبصرے بند ہیں۔