رزق کے معاملے میں اللہ پر بھروسہ

عبدالعزیز

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ  عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ ارشاد فرماتے تھے کہ ’’اگر تم لوگ اللہ پر ایسا توکل کرو اورعتماد کرو جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے، تو تم کو وہ اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے اپنے آشیانوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے واپس آتے ہیں‘‘۔  (ترمذی کتاب الزہد 33، تحفہ الاحوذی، ج 7/8)

 مفہوم: توکل کے سلسلہ میں یہ حدیث بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور حصولِ رزق کا یہ سب سے بڑا وسیلہ و ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے: ’’اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا وہ اس کیلئے (رنج و محن سے) مخلصی (کی صورت) پیدا کر دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو خدا پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا‘‘۔ (الطّلاق:2,3)

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور پھر ان سے فرمایا ’’تمام کے تمام لوگ اس آیت کریمہ کو اپنا شعار بنالیں۔ اگر اپنے اندر پورے طور پر تقویٰ اور توکل پیدا کرلیں تویہ ان کے دینی و دنیوی سبھی قسم کے معاملات و ضروریات کیلئے کافی ہوجائے گا۔

  توکل کی اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی دل سے یہ یقین رکھے کہ دنیا یا آخرت کا کوئی فائدہ یا نقصان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہیں حاصل ہوسکتا، اس کے دل میں یہ عقیدہ اور بھروسہ گھر کر جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور نہ کچھ دے سکتا ہے اور نہ اللہ کی طرف سے ملنے والی کسی نعمت اور فائدہ کو روک سکتا ہے، اور کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ حضرت سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد کامل اور بھروسہ تو ایمان کی جڑ ہے، ایسے ہی وہب بن منبہ نے فرمایا : ’’مقصد اصلی تو اللہ کی ذات پر بھروسہ ہی ہے (کہ اس کے بغیر ایک ذرہ نہیں حرکت کرسکتا)‘‘۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بندے کے اللہ پر بھروسہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی وہ ذات ہے جس کا وہ سہارا لے اور اس پر اعتماد کرے۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو اس بات کی چاہت اور خوشی ہو کہ وہ لوگوں میں سب سے قوی ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھے‘‘۔ آنحضرتؐ سے مروی ہے کہ آپ اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ میں تیری ذات عالی سے اس بات کا طالب ہوں کہ تو مجھ کو اپنی ذات سے بھروسے کی نعمت عطا فرما‘‘۔ آپؐ یہ بھی دعا فرماتے تھے کہ ’’اے اللہ! تو مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جنھوں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور تو ان کا ہر طرح سے نگہبان ہوگیا‘‘۔ (جامع العلوم والحکم، ابن رجب حنبلی، ص228)

 یہ بتانا مناسب اور ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پر توکل اور بھروسہ، اسباب و ذرائع کو اپنانے کے منافی نہیں ہے کہ اپنے قویٰ اور اعضاء کے ذریعے حصولِ اسباب کی فکر و کوشش کرنا اطاعت خداوندی ہے اور دل سے یقین اور بھروسہ کرنا یہ اللہ پر ایمان ہے۔

اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے: ’’مومنو! (جہاد کیلئے) ہتھیار لے لیا کرو‘‘ (النساء:71)۔ دوسری آیت میں فرمایا: ’’اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لئے مستعد رہو‘‘۔ (الانفال:60)  دوسری جگہ فرمایا: ’’پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو اور خدا کا فضل تلاش کرو‘‘۔ (الجمعہ:10)

  دین اسلام میں اسباب و وسائل کا اپنانا بجائے خود بڑی اہمیت رکھتا ہے اور پر پورا زور دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ احد میں اسی بات کی تعلیم دی کہ جب مسلمانوں نے اسباب ظاہری کی طرف سے کوتاہی برتی اور اپنے قائد کے مشورے پر عمل کرنے میں غلطی کا شکار ہوئے تو مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ظاہری اسباب اپنانا ضروری ہے کہ یہ کامیابی کیلئے لازمی اور قطعی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:

  ’’(بھلا یہ) کیا (کیا بات ہے کہ) جب (اُحد کے دِن کفار کے ہاتھ سے) تم پر مصیبت واقع ہوئی: حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑچکی ہے تو تم چلا اٹھے کہ (ہائے) اُف (ہم پر) کہاں سے آپڑی، کہہ دو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیا‘‘)۔ (آل عمران:165)

  امت مسلمہ نے اسباب اختیار کرنے کی اہمیت کو صرف الفاظ و زبان یا ملامت کرنے کی وجہ سے نہیں سیکھا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تکلیفیں اٹھاکر اور اپنا خون بہاکر اور غلبہ و فتحیابی کے بعد شکست کی قیمت ادا کرکے سیکھا ہے، مال غنیمت جمع کرنے کے بعد نقصان اٹھا کر اس کا سبق یاد کیا ہے اور بہت سے شہیدوں کی لاشیں گر جانے کے بعد جن میں سید الشہداء عمِ رسولؐ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔ اسباب و وسائل اپنانے کا سبق پڑھا ہے۔ (السیرۃ النّبویۃ : ابوالحسن علی ندوی)

 حضرت سہل تستری فرماتے ہیں ، جس نے کسب معاش اور حوائج زندگی کے حصول کی فکر و کوشش پر ملامت اور طعن کیا اس نے اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جس نے خدا پر توکل اوربھروسہ پر ملامت اور طعن کیا اس نے ایمان پر طعن و ملامت کی۔ توکل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال اور کسب معاش اور ضروریات زندگی کے حصول کی فکر و کوشش یہ آپؐ کی سنت تھی۔ جو شخص آپ کے حال پر عمل کرے وہ سنت مبارکہ کو نہ چھوڑے (کہ اس کے خلاف عمل کرنے کا نام غلو اور بے اعتدالی ہے اور یہ بات ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو دین کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ بقول مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی رحمۃ اللہ علیہ  ؎

اب نہ افراط باقی نہ تفریط ہے

عشق کامل ہوا معتدل ہوگیا

 حدیث مذکور کہ ’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر کما حقہ توکل کرو تو تم کو اس طرح رزق ملے جس طرح پرندوں کو ملتا ہے‘‘ یہ بتاتی ہے کہ لوگوں کو روز ان کے خدا پر توکل اور بھروسہ، کمزور ہونے اور اسباب کو اپنانے اور اس پر یقین رکھنے کی وجہ سے بڑی محنت و مشقت سے حاصل ہوتی ہے اور اس کیلئے انتھک کوشش کرنی پڑتی ہے، تاہم ملتا اتنا ہی ہے جتنا مقدر میں ہے، لیکن اگر وہ دل سے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں تو معمولی اسباب اختیار کرنے پر بھی اس طرح ان کو رزق حاصل ہوجائے جس طرح صبح و شام آنے والے پرندوں کو حاصل ہوجاتا ہے۔ گو یہ صبح و شام کا آنا جانا بھی کوشش و اسباب میں شامل ہے، لیکن یہ کوشش آسان ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کی موت اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک کہ وہ اپنے حصے کا رزق پورانہ کرلے،لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کے حکموں کا پاس و لحاظ رکھو اور حصولِ رزق کا اچھا اور بہتر طریقہ اپناؤ ، حلال کو حاصل کرو اور حرام سے دور رہو‘‘۔

  بعض اسلاف نے فرمایا: تم خدا پر بھروسہ رکھو، روزی تو دوڑ کر تمہارے پاس آئے گی۔ سالم بن ابوجود نے فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمایا کرتے تھے۔ ’’تم اللہ کیلئے کام کرو، اپنے پیٹ کی خاطر نہ کرو، ضرورت سے زیادہ جمع کرنے سے بہت دور رہو کہ اس کا زیادہ جمع کرنا عذاب ہے۔ ان اڑنے والے پرندوں کو دیکھو جو صبح و شام آتے جاتے ہیں لیکن کچھ لے کر نہیں آتے۔ بس چگ لیا پیٹ بھر گیا، شام کو اپنے آشیانوں کو واپس آگئے۔ اور کل پھر نکلیں گے۔ کچھ جمع نہیں کرتے، ان کی کھیتی باڑی نہیں ہے۔ اب اگر تم یہ کہو کہ ہمارے پیٹ پرندوں کے پیٹ سے بڑے ہیں تو جانوروں کو دیکھو، گائے، بیل اور گدھے، صبح چراگاہوں کو جاتے ہیں اور واپس ہوتے ہیں تو کل کیلئے کچھ لے کر نہیں آتے، ان کی کوئی کھیتی نہ باڑی مگر اللہ تعالیٰ ان کو روزی عطا کرتا ہے۔ (جامع العلوم والحکم: ص530-531)(ملخص)

 ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک حقیقت توکل کو بیان کرنے میں کتنا جامع اور مبنی برحقیقت ہے آپ کے ارشاد کہ ’’اگر تم کماحقہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ دل سے پورا یقین رکھو کہ جو کچھ ہوگا اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوگا۔ اس کے سوا کوئی کچھ نہیں دے سکتا ہے اور جب وہ دینا چاہے تو کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ اس یقین و اعتماد کے بعد اسباب اپنانے کا نمبر آتا ہے اس لئے کہ شریعت نے اس کا حکم دیا ہے، اس لئے نہیں کہ نتائج کا انحصار اسباب پر ہے۔

 اسباب کا اختیار کرنا عبادت ہے اور انجام کا سامنے آنا یہ اللہ کے فیصلے اور تقدیر پر منحصر ہے۔ اس حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد بندۂ مومن اسباب و وسائل کی غلامی اور اس سے دل اٹکانے اور اسی پر بھروسہ کرنے سے آزاد ہوجاتا ہے کہ جتنا کرنے کا ہم کو حکم تھا، اتنا ہم نے کیا آگے اللہ تعالیٰ کی مرضی۔ جب بندے کی یہ کیفیت ہوتی ہے، تب اس کو پرندوں کی طرح بے سان و گمان طریقے پر رزق حاصل ہوتا ہے۔ بندۂ مومن اس کو خوب جانتا ہے کہ توکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ زمین کو خالی چھوڑ دے۔ اس پر کھیتی باغبانی نہ کرے۔ اسی طرح دوسرے دیگر وسائل کو کو بھی نہ اپنائے بلکہ دین اسلام نے بندۂ مومن کو تو مردہ و بنجر زمینوں کو آباد اور کار آمد بنانے کا مکلف بنایا ہے۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دل کو ان چیزوں میں نہ لگائے۔ بقول حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ: دنیا ہاتھ میں رکھنا جائز، جیب میں رکھنا جائز لیکن دل میں رکھنا ناجائز ہے مقصود یہ ہے کہ زمین میں لگ کر اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہوجائے، بلکہ محنت زمین پر کرے اور نظر آسمان کی طرف رکھے؛ بلکہ ان کا رزق  آسمان سے مقدر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 ’’اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے تو آسمانوں اور زمین کے مالک کی قسم یہ (اسی طرح) قابل یقین ہے جس طرح تم بات کرتے ہو‘‘ ۔ (الذاریات:22-23)

حقیقی مسلمان وہی ہے جو توکل کی اس حقیقت کو سمجھتا ہے جو اس کے ایمان اور عقیدے کا جزو ہے۔اس لئے سبھی جائز اسباب کا ااپنانا ضروری ہے تاکہ یہ مقصد پورا ہو۔

تبصرے بند ہیں۔