سوشل میڈیا کے ایک عام یوزر اور جرنلسٹ میں فرق ہونا چاہئے

اشرف بستوی

نیوز ویب سائٹ thequint.com کی شریک بانی خاتون جرنلسٹ ریتو کپور نے ایشیا ٹائمز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹر ویو میں کہا ؛ امید ابھی باقی ہے،ہر گز مایوس نہ ہوں ، ایسے میڈیا ادارے وجود میں آچکے ہیں جہاں پیچے سے کوئی آرڈر نہیں آتا

جرنلزم  سے وابستہ وہ لوگ جو ویب جرنلزم  میں اپنا کریر بنانے کے لیے کوشاں ہیں یہ انٹرویو ان کے لیے بڑی رہنمائی فراہم کر نے والا ہے

نئی دہلی : (ایشیا ٹائمز) اخبارات اور نیوز چینلوں کے خبروں کی پیش کش کے  روایتی طریق کار سے ہٹ کر ویب  جرنلسٹ اپنے ریڈرس کے لیے چیزیں پیش کریں ۔  آج کے سٹیزن کو اپنی آواز بلند کرنے کے اتنے ذرائع مل گئے ہیں کہ  اب انہیں اس بات کا انتظار نہیں رہ گیا ہے کہ کوئی ان کی بات کو پہونچا ئے ۔  انڈیا کا ویب جرنلزم  دنیا کے ویب جرنلزم کے کندھے سے کندھا ملاکر چل رہاہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جرنلزم کے سارے راستے مسدود ہو گئے ہیں اب بھی کافی اسپیس ہے ۔ ایسے  میڈیا ادارے ہیں   جہاں پیچے سے کوئی آرڈر نہیں آرہا ہے ۔

یہ  کہنا ہے  ہندوستان کی  اہم نیوز ویب سائٹ thequint.com کی شریک  بانی   خاتون جرنلسٹ ریتو کپور کا ، ریتو معروف  جرنلسٹ راگھو بہل کی اہلیہ ہیں ۔ نیوز پورٹل asiatimes.co.in کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں  محترمہ کپور نے کہا کہ  ہندوستان کی عوام اب اپنے ‘من کی بات کہنے’ کے لیے ہچکچاتے نہیں ہیں ۔  ہمیں  نیوز روم بیٹھ کر اس کا صحیح اندازہ ہو ہی نہیں سکتا ۔

یہ جاننے  کے لیے  کہ کوئنٹ   کا ٹارگیٹ کون لوگ ہیں اپنے ریڈرس کی  پسند جاننے اور اس کو سمجھنے کا  کوئنٹ کیا طریق کار اختیار کرتا ہے، کے سوال پر ریتو کہتی ہیں  کہ  کوئنٹ کا ریڈر 18 سے 35 سال عمر کا ہے ۔

ہماری اولین کوشش یہ سمجھنے کی ہوتی ہے کہ ہمارا ریڈر چیزوں کو کس طرح سے دیکھتا ہے ۔ کس بڑے لیڈر نے کیا کہا یہ ہمارے لیے  بہت اہم نہیں ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ طنز و مزاح کے ذریعے ذرادلچسپ انداز میں اپنی بات پہونچائی جائے تو وہ خبر انٹرنیٹ پر زیادۃ آگے تک جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ کوئنٹ میں  دو تین بڑے ایڈیٹر ہی اسٹوری کا تعین نہیں کرتے بلکہ ہمارے سبھی سینئر اور جونئر جرنلسٹ ،کیمرہ مین، ویڈیو ایڈیٹر ، زیر تربیت  نئے لوگ سبھی کو روزانہ صبح ہمیں اپنا اپنا آئیڈیا بھیجنا  ہوتا ہے ، چاہے وہ 20 سال کا انٹر ن ہو یا کوئی سینئر ، ہر صبح  میٹنگ میں ان سبھی ایشوز پر ہم چرچا کرتے ہیں ، بحیثیت سینئر ہمارا کام جونئرس کی باتیں کان کھول کر سننا اور اس پر غور کرنا ہوتا ہے ۔

کوئنٹ کی کامیابی کا پورا کریڈیٹ کوئنٹ کی پوری ٹیم کو دیتے ہوئے   کہتی ہیں کہ ہمیں اس بات کا اطمینان ہے کہ  ہم ایک اچھی ٹیم سلیکٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں ، جب ہم کسی کا سلیکشن کر رہے ہوں تو ہمیں یہ توجہ دینا چاہیے کہ جس کا ہم سلیکشن کر رہے ہیں اس کے پاس اپنا پوائنٹ آف ویو ہے کہ نہیں دوسرے یہ کہ اس کی لکھنے کی صلاحیت کیا ہے  ۔

 تیسرے یہ کہ ہمہ وقت آپ سب کچھ کرنے کو تیارہوں ۔ آپ کو سب کچھ کرنا پڑ سکتا ہے آپ نے کبھی کیمرہ نہیں پکڑا لیکن آپ کو کل سے شوٹ پر جا نا پڑ سکتا ہے ،آپ سے گرافکس کا کام لیا جا سکتا ہے ،آپ کو سوشل میڈیا کی باریکیوں کو بھی سمجھنا ہے  ۔

انڈیا کا ویب جرنلزم  دنیا کے ویب جرنلزم کے  سامنے کس مقام پرہے   اس سوال کے جواب میں  کہتی ہیں  انڈیا کا ویب جرنلزم  دنیا کے  ویب جرنلزم سے کندھے سے کندھا ملاکر چل رہاہے  البتہ  ہندوستان  میں ابھی موبائل فون پر خبروں کو پڑھنے والے قاری بہت تھوڑے ہیں لیکن  بہت تیزی سے قارئین کی یہ تعداد بڑھنے والی ہے ۔

ہمارا قاری 18 تا 35 سال کی عمر کا ہے  دنیا کے دوسرے حصوں کے مقابلے ہمارے قاری کئی اعتبار سے مختلف  ہیں یہاں کا معاشرہ بہت مختلف زبان ،کلچر اور جغرافیائی  گونا گونیت یہاں کی پہچان ہے ۔ انڈیا کا ویب جرنلزم ابھی نوجوانی کی دہلیز پر ہے ۔

ہمارے جرنلسٹوں کو یہ بات سمجھنے کی ہے سوشل میڈیا کے ایک عام یوزر اور جرنلسٹ میں فرق ہونا چاہئے ۔ سوشل میڈیا پر آنے والی ہر خبر اس وقت تک  خبر نہیں ہے جب تک آپ خود اس کے فیکٹ جانچ نہ لیں ،

یہ بھی خیال رہے کہ  آج کے ریڈر کو صرف فیکٹ نہیں چاہیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  وہ اس پر opinion بھی چاہتا ہے اس لیے خبر لکھتے وقت آپ کا اپنا ایڈیٹوریل کمینٹ بھی ہو ۔  دوسرے یہ کہ آپ کی کامیابی  بہت حد تک اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کی ٹیم کیسی ہے اس کو جغرافیائی ، طبقاتی ، علاقائی اعتبار سے ریپرزینٹیشنل ہونا بہت ضروری ہے  جو ویو پوائنٹ

چھوٹے مقامات سے آنے والے ایک رپورٹر کا ہوگا وہ دہلی یا میٹرو سٹی میں پلے، بڑھے،پڑھے  رپورٹر کا نہیں ہوگا ۔

ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسلم جرنلسٹوں کو  بڑی تعداد میں آگے آنا چاہیے ایسا نہیں ہے کہ جرنلزم کے سارے راستے مسدود ہو گئے ہیں اب بھی کافی اسپیس ہے ۔ ایسے  میڈیا ادارے ہیں   جہاں پیچے سے کوئی آرڈر نہیں آرہا ہے  ۔

نئے جرنلسٹوں کو   پروفیشنل  بننے کا مشورہ دیتے  ہوئے  ریتو کہتی ہیں کہ یہ زمانہ ملٹی میڈیا کا ہے ضروری نہیں کہ پروفیشنل کیمرہ آپ کے پاس ہو آپ اپنے موبائل فون کو کس طرح کیمرے میں تبدیل کر لے رہے ہیں ،اپنی اسٹوری میں کس طرح گرافکس کا استعمال  کر سکتے ہیں۔  آپ کی زبان آسان فہم اور معیاری ہو ۔ لیکن ویب جرنلزم نے ہمیں اتنا اچھا سکھایا ہے ۔

مزید  کہتی ہیں اگر آپ آج چھتیس گڑھ کے Bastar پر کچھ لکھیں تو ہو سکتا ہے کہ جو شخص اس خطے میں رہ چکا ہے آپ کی کوئی غلطی نکال دے ، یہ بہت اچھی بات ہے ۔ایک جرنلسٹ میں  فیکٹ کا پتہ لگا سکنے کی صلاحیت  ہو،  جو روہتک میں جا کر گو رکشک سے بات کر سکتا ہو اپنا سوال کر سکتا ہو ، جرنلزم کے لیے کوئی کورس ضروری نہیں ہے ۔

نوعمرخاتون جرنلسٹوں کے حوالے سے کیے گئے  سوال پر انہوں نے کہا کہ  خواتین جرنلسٹ اب اپنے ‘من کی بات’ کرتی ہیں انہیں کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ منظر نامہ اب کافی بدل گیا ہے لیکن خواتین کی سکیوریٹی کو لاحق خطرہ آج بھی  برقرارہے  ۔

ایک جرنلسٹ ہونے کے ناطے میں یہ اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں کہ جو خواتین کسی پروفیشن میں ہوتی ہیں وہ واقعی بہت خاص صلاحیتوں والی ہوتی ہیں کیونکہ بیک وقت دونوں محاذ کو سنبھالنا آسان نہیں  ہوتا۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ مدد گار و معاون مجھے ہندوستان کا مشترکہ خاندانی نظام لگا،اس کی اپنی الگ خوبی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ سبھی مائیں اپنے بیٹوں کو بچپن سے ہی ایسی تربیت دیں تو یہ تبدیلی آسان ہو گی  ۔

تبصرے بند ہیں۔