قصہ نوٹوں کا !

 اللہ !  تو روک ,  یہ دل آزایاں

فریدہ نثار احمد انصار

    لاجونتی کی ماں نے دروازے کی جھری سے جھانک کر دیکھا.. وہ ٹوٹے شیشے سے کبھی ایک طرف خود کو دیکھتی اور کبھی دوسرے حصے کے آگے آتی اور خود کو نہارتے ہوئے بالوں کی لٹ سے کھیل رہی تھی..
شام کے شنگرفی آنچل نے گاؤں کا احاطہ کیا ہوا تھا.. کسان تھکے ماندے ہل اور بیلوں سمیت اپنے گھر لوٹ رہے تھے.. پیڑوں پر بسیرا کرنے والے پنچھی بھی اپنے آشیانوں میں آکر دانہ دنکا جو لائے وہ بچوں کو کھلا رہے تھے.. گھروں کے چولہوں نے جل کر اپنے مکینوں کا اسقبال کیا.. دال چاول کی خوشبو سے فضا مہک اٹھی.. چوپال میں حقےکے کش اور گڑگڑاہٹ کی مسحور کن آواز نے مردوں کو راغب کرنا شروع کیا.. آج حقہ جلانے کے لئےآگ کس گھر سے آئ؟  یہ جاننے کے لئے سب بے چین تھے.. گاؤں کی ریت یہ پرانی تھی کہ روز ایک ایک گھر سے آگ منگائ جاتی تاکہ پتہ چلے کہ کس گھر میں آج چولھا نہیں جلا …آگ کا کوئ مذہب نہیں ہوتا نہ ہی وہ کسی امیر و غریب کے فرق کو پہچانتی ہے.. اس کے لئے سب برابر ہوتے ہیں.. ساری ذات برادری ایک سی..
یہ اتنے بڑے بھارت ورش جس کا حدود اربع ۳۲ لاکھ مربع کلومیٹر ہے اس کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے.. جہاں سبھی مل جل کر رہتے ہیں.. عید ہو یا دیوالی..رمضان ہو یا ہولی… سبھی دل وجان سے مناتے تھے.. فرزانہ کی شادی ہو تو اس کے جہیز کے پانچ برتن کیلاش چچا کے گھر سے جاتے اور رمیش کا لگن ہوتا تو مٹھائ شعبان چچا کے گھر بنتی.. گاؤں کے لوگ آسودہ حال نہ ہوتے ہوئے بھی بڑی بے فکری کی زندگی گزار رہے تھے.. چوپال میں بس حکومت نے ایک ٹی.. وی لگوا دیا تھا۔۔ لوگ وہیں بیٹھ کر پروگرام دیکھتے.. گاؤں کی گوریاں جب کبھی اس میں تھرکتے بدنوں کو دیکھتیں تو اپنے آنچل منھ میں دبائے مند مند مسکراتیں اور آگے بڑھ جاتیں..
ایک دن اس پرسکون ماحول میں ارتعاش کا ایک پتھر گرا.. کہ شام کے دھندلکے میں  گاؤں کا ایک چھورا شہر سے آیا اور یہ خبر لایا کہ پانچ سو اور ہزار کی نوٹوں نے بے وفائ کی ہے ..اب اسے گھروں کے ٹرنک سے حکومت کے ٹرنک میں جمع کرنا ہوگا.. گاؤں کے معصوم لوگوں کو تو یہ بات سمجھ نہ آئی..کہ انھوں نے تو اپنے بچپن سے جوانی اور بڑھاپے کی ڈگر پر بھی ان کا ساتھ چاہا تھا.. یہ اچانک سب کیا ہو گیا.. چھورے نے بتایا کہ دن بھر سے وہ شہر میں پریشان رہا.. کھانا بھی نہ کھا پایا کہ اس کےپاس پانچ پانچ سو کے ہی تین نوٹ تھے.. کوئ ان نوٹوں کو لے ہی نہیں رہا تھا.. بھوک پیاس سےنڈھال شاہراہ پر آکر بیٹھا تھا کہ کیا کرے.. وہ تو اچھا ہوا رمضانی بھائ کا ٹرک آگیا اور اسے یوں دیکھ کر وہ گاؤں لے آئے ورنہ پتہ نہیں کیا ہوتا.  چودھری نے مشورہ دیا کہ ٹی.. وی کھولو.. شاید کچھ ہم سمجھ سکیں.. ٹی. وی. کھولا گیا اور وہی سب خبریں.. کہ ملک میں ہا ہا کار مچی ہوئ ہے.. ہر جگہ لمبی لمبی قطاریں  لگی ہوئ ہیں.. اب کیا ہوگا… لوگوں کے پاس بہت زیادہ تو نہیں تھا پر اب کی فصل اچھی کٹی تھی تو معاوضہ قدرے زیادہ مل ہی گیا تھا.. سب نے یہی طئے کیا کہ جس کو جیسے جیسے چھٹی ملے شہر جا کر نوٹ بدلوا لائیں.. اب غریب اپنا چلتا کام کاج چھوڑیں اور شہروں میں جاکر رُلیں.. کہ ویسے ہی گاؤں کے لوگوں کے آو بھاؤ سے شہری بابو جان جاتے ہیں کہ گاؤں کے معصوم لوگ ہیں, آرام سے بے وقوف بن جاتے ہیں..نئے اگتے سورج کے انتظار میں کئ لوگوں کی آنکھوں میں سپنے آئے ہی نہیں.. اور رات بھیگ کر بیت بھی گئ.  .
سبھی کے گھروں میں کوئ نہ کوئ مرد تھا پر لاجونتی کا باپو تو پچھلے سال ہی پرلوک سدھار گیا تھا.. اب ماں کے لئے اس کی بیٹی ہی متاع عظیم تھی.. کچھ دنوں بعد اس کا بھی بیاہ طے ہوچکا تھا. اس کے گھر سے کون نوٹ بدلوانے جائے کہ ماں کو تو صبح کھیتوں پر کام کرنے جانا ہے.. وقت بھی ایسا ہے کہ جہاں مالک کو ضرورت ہے وہیں مزدور بھی اسی مخمصے میں کہ ایک دن کی مزدوری کا ناغہ ہوا تو شادی کی کچھ کاروائی  کے لئے مشکل ہو جائے گی.. لاجونتی نے ماں سے کہا.. "ماں!  کل میں گاؤں کے لوگوں کے ساتھ چلی جاؤں گی.. تو فکر نہ کر.. تو اپنے کھیت جانا.. میں سنبھال لوں گی.. "پر ماں کے دل کے وسوسوں کو کون سمجھائے  کہ شہر جائے اکیلی بچی وہ بھی نوٹوں کے ساتھ اور اس پر بھی کہ اس کا بیاہ اب دس بارہ دنوں میں تو ہونا ہی ہے.  سسرال والے کیا کہیں گے.. لیکن کرے بھی تو کیا… کچھ سمجھ میں نہیں آتا.. ہر ایک اپنے نوٹوں کو بدلوانے کے چکر میں ہے.. اس کے نوٹ کون بدلوائے.. اور نہ بدلوائے تو بیاہ کیسے ہوگا؟؟ بے شک بیاہ تو منتر، اشلوک پڑھ کر اگنی کے پھیرے لے کر ہوتا ہے پر ان کے لئے تو پیسوں کی ضرورت ہے نا.. کیا کرے کیا نہ کرے.. اسی دویدھا میں اسے لاجونتی کے باپو کی خوب یاد آئ.. آنکھ سے زاروقطار آنسو بہنے لگے اور اسی طرح نیند کی دیوی نے تھپکی دے کر سلا دیا..
صبح نور سحر آئ اور کئ کہانیاں بھی ساتھ لائ۔۔گاؤں کےکچھ  لوگوں نے نوٹوں کی گڈیوں کو اپنے انگوچھے میں کس کے ایسا باندھا کہ جاتی ہوئ نوٹوں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔۔رمضانی چچا موڑ پر پہنچے تھے کہ پیچھے سے لاجونتی نے پکارا۔۔”میں بھی ساتھ چلوں گی۔۔” چچا کے ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی بہت کوشش کی کہ وہ نہ جائے۔۔پر پھر نوٹ کون بدلوائے اور بیاہ کیسے ہو کہ بس چند دن ہی بچے ہیں۔۔آخر ماں نے اسے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بڑی تاکید سے جانے کی اجازت دے دی۔۔چنچل تو وہ شروع سے تھی خوب ہنسی مذاق کرتے بس کا سفر طے کیا۔۔شہر پہنچ کر فلک بوس عمارتوں اور چکا چوند رونق میں کھو سی گئ۔۔سبھی بس اڈے سے بینک کی طرف آئے کہ ان میں سے کچھ تھوڑا  بہت پڑھے لکھے لوگ بھی تھے۔۔دور ہی سے سبھی نے بینک سے نکلتی، بل کھاتی قطار کو دیکھا۔۔آنکھوں ہی آنکھوں میں کئ سوال آئے پر قطار میں کھڑے رہنا ہی مناسب جانا۔۔ہر ایک کو فکر کہ کب نمبر آئے گا اور لائن ہے کہ بس رینگ رہی ہے۔ ۔۔ درمیان میں دو ایک لوگوں نے جو خود کو زیادہ ہوشیار سمجھتے تھے کسی بہانے لائن توڑ کر آگے جانے کی کوشش بھی کی۔۔کہا بھی کہ” یہ انڈیا ہے امریکہ نہیں کہ لائن میں برابر کھڑے رہا جائے” پر پولیس نے آکر دھمکایا اور وہ سر کھجاتے۔۔۔بڑبڑاتے پھر سے قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔ لگ رہا تھا کہ اسی طرح رہا تو کیا شام تک بھی نمبر آئے گا۔
۔سبھی اسی سوچ میں غلطاں تھے کہ یک بیک پیچھے سے مانو لوگوں کا ریلا آیا اور اس نے سارے باندھ توڑ دئیے۔۔لوگوں کے سیلاب میں سب تنکوں کی طرح ادھر ادھر بکھر گئے۔۔کسی کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ پلک جھپکتے کیا ہو گیا ۔۔بس لوگوں نے محسوس کیا تو یہ کہ غنڈوں نے ان پر حملہ بول دیا۔ پہلے تو خوب مارا۔۔اس کے بعد ان سے نوٹ چھین لئے۔۔ان کے گلے کی چین۔۔کسانوں کے ہاتھوں کے کڑے۔۔گھڑیاں حتی’ کہ ان گاؤں والوں نے اپنے ساتھ جو چٹنی روٹی لائ تھی وہ بھی لوٹ لی۔۔گاؤں والوں کو ان شہری حربوں کا کیسے پتہ چلتا۔ ۔بے چارے سیدھے سادھے مار کھاتے رہے دو ایک کڑیل جوانوں نے لڑنا چاہا تو تلوار اور بندوق کی نلی آڑے آگئ۔۔خون میں لت پت سبھی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہیں۔ پولیس بھی نو دو گیارہ۔۔کہ کئ ہاتھوں نے لاجونتی کو کس کر ایسا پکڑا کہ اس کی سانس ہی اٹک گئ۔۔پیڑ کے پیچھے اسے کھینچ کر ہر ایک نے اپنی من مانی شروع کر دی۔۔وہ چینختی رہی۔۔بھگوان کا واسطہ دیتی رہی۔۔پر یہ شہری بھگوانوں نے اس کی ایک نہ سنی۔۔بلکتی رہی کہ اس کا بیاہ ہونے والا ہے۔پر نہ سننے والے ان بھوکے ننگے ہاتھوں نے جی بھر کر اسے نوچا کھسوٹا۔۔کان کی بالیاں ۔۔گلے کی مالا گئ سو گئ پر غریب کی بچی  جس کی عصمت  ہی اس کا سب سے مہنگا زیور ہے وہی داؤ پر لگا دی گئ۔۔اب اس کے پاس کیا بچا۔۔کچھ بھی تو نہیں۔۔لٹی پٹی نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی کہ خون سے لتھڑے گوپال تایا اور ایوب ماما کی نظر اس پر پڑی۔۔اپنا حال جو تھا وہ تو تھا پر اس بچی کی اس حالت جو دیکھ کر وقت کے پانچویں حصے میں دونوں نے جان لیا کہ کیا سے کیا ہوگیا۔۔تایا نے جلدی سے پاس پڑا کپڑا اس پر ڈالا کہ اتنے میں رمضانی چچا کی آواز سنائ دی ” مولا! یہ کیا سے کیاہو گیا۔۔روپیہ پیسہ تو لوٹ آیے گا پر اس کا کیا ہوگا؟؟کس منھ سے ہم اس کی اماں کے آگے جائیں گے؟؟ پر جانا تو ہوگا ہی۔۔ کیا کریں کہ یک بیک لاجونتی اٹھی اور سامنے والی عمارت کی طرف دوڑ پڑی۔۔تایا اور ماما بھی دوڑے کہ کہاں جا رہی ہے۔۔” نہیں اب میں جی کر کیا کروں گی؟؟ماں تو میری ویسے ہی مر جائے گی۔۔مجھے نہیں جینا۔۔میں بلڈنگ سے کود کر جان دے دوں گی۔۔” یہ سننا تھا کہ دو تین بھلے مانس بھی ان کے ساتھ دوڑے اور اسے پکڑ کر گاؤں والوں کے حوالے کیا۔۔سب لے کر اسے پولیس اسٹیشن پہنچے پر کون تھا جو پرسان حال ہو۔۔۔ایک جم غفیر وہاں بھی موجود۔۔ شام ہونے پر تھی۔۔۔سبھی نے طئے کیا کہ کچھو فائدہ نہیں۔۔واپس چلنے میں ہی بھلائ ہے۔۔اب جو گیا سو گیا۔ وہ تو ملنے سے رہا۔۔دیر ہوئ اور اس لڑکی نے کچھ کر کرا لیا تو ہم اس کی ماں کو کیا جواب دیں گے۔۔یہی سوچ کر سب بس اڈے سے گاؤں لوٹ آئے۔۔
خون سے سندھے چہرے گواہی دے رہے تھے کہ حادثہ کاری ہے۔۔لاجونتی کو درمیان میں رکھا تھا تاکہ لوگوں کی نظر سے بچا جاسکے پر ایسی باتوں کے تو خود ہی پر ہوتے ہیں نا۔ ادھر سے ادھر ہر شاخ پر اپنا آشیاں بنا لیتے ہیں۔۔لوگ سمجھ گئے اور ان کے پیچھے لوگ بھی چلنے لگے۔۔کچھ شور کی آواز آئ۔۔ویسے بھی ماں تو ماں ہوتی ہے اسے لاشعوری طور پر انجان وسوسوں کا احساس ہو ہی جاتا ہے۔۔جلدی سے گھر کے باہر آئ۔۔تایا۔۔ماما۔ چچا۔۔سبھی رونے لگے۔۔کہرام مچ گیا۔۔ماں کرے تو کیا کرے۔۔اپنے آنسو سمیٹے کہ بیٹی کی زندگی۔ ۔۔نہ روئ تو لاجونتی۔۔کچھ نہیں دھپ سے ماں کے آگے بس تھوڑی دیر کے لئے بیٹھی کہ اس کی پیاری سکھی فرزانہ پر نظر پڑی اور کچھ خود سے بڑ بڑاتے اٹھی اور کہا ” تو کہتی تھی نا فرو کہ مایوں کب بیٹھے گی۔ ابھی بھی اڑتی پتنگ سی پھر رہی ہے۔ دیکھ پتنگ کی ڈور کٹ گئ ۔۔لاجونتی اپنی لاج بچا نہ پائ ۔۔اب یہ تیری سکھی ہمیشہ کے لئے مایوں بیٹھ جائے گی۔۔”  دوڑ کر اس نے  آنگن میں بنے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔ دفعتا” یہ سب کچھ ہو گیا اور گھر کا کنواں اب  اس کا "مایوں خانہ ” بن گیا۔
لاجونتی کی ماں کو اپنی بیٹی کی بچپن کی وہ یاد آگئ کہ اکثر وہ لاڈ سے کہا کرتی تھی۔۔” اماں میں تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔۔پیا گھر بھی نہیں۔۔”

پتہ نہیں ۔۔خوف خدا نہیں ۔۔اللہ کا سامنا کرنے کا کوئ خوف نہیں۔۔اللہ کا تو انھیں خوف نہ ہو سو نہ ہو پر نیلی چھتری والا تو دیکھ دہا ہے۔۔ایک دو کو جانے دیں ۔۔کتنی دل آزاریاں۔۔۔اس کالے دھن کو باہر لانے کے لئے کتنی لڑکیوں کو اپنی عصمت کو داؤ پر لگانا پڑے گا۔۔کتنے بچوں کو بھوکا رہنا پڑے گا۔۔کتنے والدین کی آنکھوں سے خون کی بارش ہوگی۔۔کتنوں کے بیاہ نوٹ نہ ہونے پر ٹوٹ جائیں گے۔۔کتنے کسان خود کشی کریں گے ۔کتنے غنڈے اپنی من مانی کر کے نوٹ بدلوانے والے دلال بن جائیں گے۔۔کتنے بازار خاموش ہو کر دکاندار اور گاہک کا انتظار کر کے تھک کر نیم مردہ ہوجائیں گے۔۔وطن عزیز کی سیر کو آئے سیاح نوٹ نہ چلنے کے سبب بھوک کو گلے لگائیں گے اور اپنے وطن جا کر بھارت کے جے جے کار منائیں گے۔۔پر کالے دھن والے آج بھی جنگل میں منگل منائیں گے۔
بلا واسطہ بینکوں سےقبل از وقت نوٹ بدلوایں گے۔۔  ۔اپنے اجلے کپڑوں پر ایسے گرد وغبار کو جھٹک کر یہ آگے بڑھ جائیں گے کہ بقول کسی  کے  ” دنیا کے نقشے پر پھیلے 32لاکھ مربع کلو میٹر کے حدود اربع کو سمیٹے اس مہان دیش کی جنتا کی دل آزایاں ۔۔۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ ”

کاٹا ہے آستینوں کے سانپوں نے اس قدر
میں  سامنے  پڑی  ہوئ رسی سے ڈر گیا

تبصرے بند ہیں۔