سپریم کورٹ کا اسلامی فیصلہ!

صادق رضامصباحی

 میڈیکل کی طالبہ نربھیاکی اجتماعی عصمت دری اوراس کی دردناک موت کے مجرمین کی پھانسی کی سزاپرجوں ہی سپریم کورٹ نے اپنی مہرثبت کی توپورے ملک سے واہ واہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور اس فیصلے کوانصاف کے تقاضوں کے مطابق قراردیاجانے لگا۔میں سوچنے لگاکہ انسان فطرت سے چاہے کتنی بھی بغاوت کرلے مگراسے راحت فطرت کےدامن ہی ملتی ہے۔آج ملک میں ہندتووادی  اسلامی تعلیمات کے خلاف اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں اوربی جے پی حکومت پورے ملک کوہندتوکے رنگ میں رنگنے کے ہزارجتن کررہی ہےمگراسے آناوہیں ہے جہاں فطرت اسے لے جاناچاہتی ہے۔ زانیوں کی سزاموت ہی ہونی چاہیے، یہی قانون فطرت ہے۔یہ بات دنیاکی عدالتوں کوآج سمجھ میں آئی ہے مگر اسلام ساڑھے چودہ سوبرسوں سے یہی سمجھاتاآرہاہےلیکن چھوٹی اورسطحی عقلوں نے ہمیشہ اسے اپنے ذہنی فریم ورک میں فٹ کرنے کی کوشش کی مگرناکام رہیں ۔

سائنس کہتی ہےکہ دنیااب تک اپنی عقل کا صرف پانچ فیصدحصہ ہی استعمال کرسکی ہے ،ظاہرہے کہ پانچ فیصدعقل والاانسان اس حکم کو کیسے سمجھ سکتا ہے جس میں سوفیصدحکمت ودانش استعمال کی گئی ہو ۔ انسان بڑے گہرے مطالعے،مشاہدے اورتجربے سے جہاں پہنچتاہے اسلامی حکم ایک جست میں اسے وہاں پہنچادیتاہے ۔ قرآن کریم نے زانیوں کو ساڑھے چودہ سوسال قبل ہی مجمع عام کے سامنے سنگ سارکرنے اورکوڑے مارنے کاحکم دےدیاتھا ۔اس سیاق میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کودیکھیں تویہ پھانسی بھی تقریباً ویسی ہی ہے جواسلام صدیوں پہلے دے چکا ہے۔پھانسی کی سزا،اسلامی حکم سنگساری اورکوڑے لگانے کے برابرتونہیں البتہ اس سے کچھ ملتی جلتی ضرور ہے۔ دوررسالت میں بھی زانی اورزانیہ کومجمع عام کے سامنے سنگ سارکیاجاتاتھا تاکہ وہ دوسروں کے لیے درس عبرت بن جائے اورسپریم کورٹ کی پھانسی کی سزا بھی دوسروں کے لیے درس عبرت ہے ، یہ الگ بات ہے کہ حکومتیں کسی وجہ سے اس سزاکے عمل کومشتہرنہیں کرتیں تاہم پھانسی کی سزاکااعلان اور پھرپھانسی کاعمل ، یہ دونوں ہی سزاکی سنگینی،ہیبت اورانتباہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یہی ہیبت اور انتباہ عصمت دری کے مجرمین کے لیے اسلام کا مقصودبھی ہے تاکہ وہ مستقبل میں ایساکام کرنے کاتصوربھی نہ کرسکیں ۔آگے بڑھنے سے قبل ایک نظراس کیس پربھی ڈال لیں ۔

16؍دسمبر2012 کو رات کے قریب ساڑھے نوبجے جنوبی دہلی کے’ منیرکا‘علاقے میں 23سالہ میڈیکل کی طالبہ نربھیااپنے دوست کے ساتھ پالم وہارمیں واقع اپنے گھرجانے کے لیے بس کا انتظار کر رہی تھی کہ وہاں ایک سفیدبس آکررکی ،اس میں سے ایک شخص اترااوران دونوں سے بس میں چڑھنے کوکہا،یہ دونوں بس کے لیے ہی کھڑے تھے ،سوچاہوگاکہ وہ اپنی منزل مقصودتک پہنچ جائیں گے مگر وہاں کچھ اور ہی ان کامنتظرتھا،بس میں ڈرائیورسمیت کل چھ افرادتھے ۔ انہوں نے نربھیاکے ساتھ درندگی کی انتہاکردی ،بس چلتی رہی اوریہ حیوان اس کی اجتماعی عصمت دری کرتے رہے، نربھیاچیختی رہی مگربے سود ، اسے اوراس کے دوست کووہ لوگ بری طرح مارپیٹ کرمہی پال پورفلائی اوورکے قریب پھینک کر چلے گئے اورانہیں ایک پی سی آروین نے زخمی حالت میں صفدرجنگ اسپتا ل پہنچایا۔ نربھیا اسپتال میں موت و زندگی سے لڑتی رہی ،پورے ملک میں ہنگامہ ہوتارہا۔معاملے کی سنگینی کودیکھتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ اورکانگریس صدرسونیاگاندھی اسے لے کرسنگاپورکے اسپتال لے گئے جہاں 29 دسمبر کواس نے دم توڑدیا۔

حادثے کے مجرم 29سالہ مکیش،22سالہ پون،23سالہ ونے شرما اور 31 سالہ اکشے کمارسنگھ کوگرفتارکیاگیا،ایک اور مجرم رام سنگھ نے تہاڑجیل میں ہی خودکشی کرلی اور یوں وہ اپنے کیفر کردارتک پہنچا۔اس جرم میں ایک نابالغ لڑکابھی شامل تھا جوتین سال چائلڈہوم میں قید کیے جانے کے بعدرہاہوگیا۔معاملہ کورٹ پہنچاتوفاسٹ ٹریک عدالت نے مجرموں کے لیے پھانسی کی سزا تجویز کی ، اس سزا کودہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیاگیااوردہلی ہائی کورٹ نے بھی 14 مارچ 2014 کوذیلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا ، مجرموں کے وکلانے سپریم کورٹ جانے کی ٹھانی کہ شایدکچھ نرمی مل جائے مگر سپریم کورٹ نے بھی ۵مئی کوپھانسی کی سزاپرمہرلگادی ۔ماہرین کہتے ہیں کہ مجرموں کوپھانسی کی سزاملنے میں ابھی وقت لگ سکتاہے ،اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ مجرموموں کے وکیل نے سپریم کورٹ ہی میں ریویو اور کیوریٹو پٹیشن دائرکرنے کوکہاہے ،اگرسپریم کورٹ نے انہیں راحت نہیں دی توپھروہ صدرجمہوریہ کے پاس رحم کی درخواست کرسکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ صدرجمہوریہ ہنداس پھانسی کوسزاکومعطل کردیں مگریہ تویقین سے کہا جا سکتاہے کہ ظلم وبربریت کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرنے والے مجرمین کی سزاپھانسی کے سواکچھ اورنہیں ہو سکتی۔

ملک میں ہرسال 30 ہزارسے زائدعصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں اوریہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹ پولیس اسٹیشنوں میں درج ہوتی ہے ورنہ اس کافیصدتو کئی گنازیادہ ہے۔نیشنل کرائم ریسرچ کے سروے کے مطابق عصمت دری کے واقعات میں اضافہ ہی ہورہاہے ۔ملک میں ہرگھنٹے میں عصمت دری کاایک واقعہ رونماہوتاہے اورقبائلی یالورکلاس کی بچیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔ ہندوستان میں عصمت دری چوتھابڑاکامن جرم ہے ۔آئین ہندکی دفعہ 374عصمت دری سے متعلق ہے۔ 1983سے قبل اس دفعہ کے تحت عصمت دری کے مجرمین کوزیادہ سے زیادہ ایک مہینے کی سزا دی جاتی تھی اور جب اس طرح کے کیسو ں میں اضافہ ہواتوپھرترمیم کرکے سخت سزاتجویزکی گئی اوراسے سات سال کیا گیا اورخاص کیسو ں میں دس سال کی سزارکھی گئی ۔نربھیاکے کیس میں بھی متعلقہ شق میں ترمیم کی گئی تھی اس میں زیادہ سے زیادہ سخت سزاکی تجویزمنظورہوئی اور سپریم کورٹ نے جدیدترمیم شدہ شق کی روشنی میں پھانسی کی سزاکی تصدیق کردی ۔

15سال قبل 26 نومبر2002 کولوک سبھامیں اُس وقت کے نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی نے زانیوں کوسزائے موت دیے جانے کی تجویزپیش کی تھی لیکن اس وقت ان کی تجویزکی بہت مخالفت ہوئی تھی لیکن آج جب سپریم کورٹ کے ذریعے اسی سزاکی تصدیق ہوچکی ہے تو کسی بھی طرف سے مخالفت کی کوئی بھی آوازنہیں اٹھ رہی ،کیوں ؟اب زمانہ بہت آگے بڑھ چکاہے ،پندرہ سال گزرچکے ہیں ،افکارمیں حیرت انگیزتبدیلی رونماہوچکی ہے اوراسلام کابدسے بدتردشمن بھی نادانستہ طور پر اسی کی طرف قدم اٹھارہاہے جہاں اسلام اسے لے جاناچاہتاہے ۔اس تناظرمیں دیکھیں کہ آج طلاق ثلاثہ ،یکساں سول کوڈاورخواتین کے پردے کے متعلق اسلامی ہدایات پرپورے ملک میں ہنگامہ بپا کرنے ، تنقیدیں کرنے اوراسے ظلم سے تعبیرکرنے والے ایک دن اسی مقام پرپہنچ جائیں گے جواسلام کا اصل مقصودہےاورپھراس وقت اسلامی تعلیمات پراعتراض جتانے والے نام نہادروشن خیال لوگ  خاموش بیٹھ جائیں گے جب ایک دن مسئلے کے حل کے لیے ہزارغوروفکرکے بعدعدالتیں بھی وہی فیصلے صادر کرناشروع کردیں گی جواسلام پہلے ہی صادرکرچکاہے۔

یکساں سول کوڈاورطلاق ثلثہ کامعاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکاہے ،حکومت ہندبھی طلاق ثلاثہ کےذریعے شریعت میں مداخلت کی خواہاں ہے اورممکن ہے کہ جلدہی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ آجائے ،اس فیصلے سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے اوربڑھ جائے گا اور پھرایک دن مجبورہوکرسپریم کورٹ وہی فیصلہ دے گی جواسلام دلواناچاہتاہے کیوں کہ انسانی عقل اپنے تمام ترتجربات ، مشاہدات اور مطالعات کے بعدجہاں پہنچتی ہے وہاں ہمارادین صدیوں پہلے پہنچ چکا ہوتا ہے ۔ دنیا میں جوبھی تخریب کاریاں اورجرائم ہورہے ہیں ان کااصل حل اسلامی تعلیمات میں ہی ہیں ، آج نہیں توکل ان کا سدباب اسلامی تعلیمات سے ہی ہو گا،دنیاکی عدالتیں اورسیکولراذہان چاہے اسے اپنی عقل اور دانش کاکرشمہ قراردیں یااسے عصرحاضرکی مجبوری سمجھیں مگرواقعہ یہ ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر اسلامی تعلیمات تک ہی پہنچ رہے ہیں ، چاہے وہ اسلام کانام نہ لیں یانہ لیں ۔

کہاں ہیں ہندتووادی اوراسلام مخالف عناصر؟ذراوہ بھی دیکھیں کہ اسلام دھیرے دھیرے ان کی شہ رگ تک پہنچ رہاہے ۔ پورے ملک کوہندتواکے رنگ میں رنگنے کے لیے ہرممکن کوشش کرنے والی بی جے پی حکومت،ملک بھرمیں چل رہی ہندتواکی لہر،2019 کامرکزی الیکشن جیتنے کی تیاری،جولائی میں صدرجمہوریہ ہندکی کرسی پرآرایس ایس کے اہل کارکوبٹھانے کی تگ ودو،جگہ جگہ گائے کے نام پر مسلمانوں کاقتل ، ذبیحے یاچھوٹی چھوٹی باتوں پرمسلمانوں کی زندگی اجیرن کرنے والاماحول بنانے والے  کیایہ سمجھ رہےہیں کہ وہ ملک سے اسلام کوباہرنکال دیں گے۔؟انہیں یادرکھناچاہیے کہ ظلم وبربریت ، ناانصافیوں اورامن وامان کے لیے ترس رہی دنیااب اپنی فطرت کی تلاش میں ہے اسی لیے دنیاوالے غیرمحسوس طور پر اسلام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ قانونِ قدرت ہے کہ انسان کو سکون فطری زندگی گزارنے سے ہی مل سکتاہے ۔خدانے انسان کاذہنی اورجسمانی شاکلہ اس طورپرتخلیق کیاہےکہ وہ زیادہ دنوں تک خلاف فطرت کام کرہی نہیں سکتا،تھک ہارکراسے فطرت کے سامنے سر جھکانا ہی ہے اورفطرت کااسلا م سے بڑاگہرارشتہ ہے ،ایسارشتہ کہ دونوں لازم وملزوم ہیں ۔ذہن سے ایک سوال جھانک رہاہے کہ کیاایسے حالات میں دشمن ،اسلام کی پناہ میں آجائے گا؟ ممکن ہے ایساہوجائے ، بس ہم اپنا رویہ بدل لیں اور خدا سے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔